اردو ادب کی تاریخ میں دکنی مرثیہ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اردو زبان جو صرف رابطہ کی زبان تھی دکھنی غزل اور دکھنی مرثیہ کے حوالے سے عوامی زبان ہو کر دکھنی تہذیب و تمدن کی ترجمان بنی‘یہ اعزاز کسی مقامی بولی یا فارسی زبان کو نہیں مل سکتا تھا کہ دکن کی گنگا مبنی تہذیب و تمدن کی ترجمان بن سکے۔ ہندو مسلمان‘ امیر و غریب سبھی دکھنی مراثی کو‘ غزل کی طرح‘ بطور تہذیبی ورثہ قبول کرتے تھے غواصی کہتا ہے کہ عزاداری کی تقاریب میں سب ہندو مسلمان برابر شریک ہوتے تھے۔ رسومات عزاداری ہندؤں خصوصاً مرہٹوں نے اپنا لی تھیں۔
دکھنی سلاطین اکثر و پیشتر مسلک‘ اثنا عشری رکھتے تھے۔ اہل ایران کے لیے سفر دکن آسان تھا ۔ دابل اور گواکی بندرگاہوں پر سیاح‘ اہل مصرفہ‘ صاحباں علم و دانش اترتے تھے۔ ایرانی اہل علم و دانش اپنی ذہانت خداداد تدابیر‘ مصالح سلطنت میں درک و ادراک کے باعث اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو جاتے تھے جس کی وجہ سے رفتہ رفتہ دربار سلاطین بہمنی میں شیعہ عمائدین کی بڑی تعداد جمع ہوتی گئی۔
فضل اللہ انجو‘ وزیر‘ صدر جہاں‘ وزارت امور مذہبی کا سربراہ سعد الدین تفتا زانی مشہور شیعی عالم کا شاگرد تھا وزیر السلطنت محمود گاوان خواجہ جہاں ایرانی نژاد تھا۔
یوسف عادل شاہ بیچاپور کا خود مختار سلطان ہوا یہ محمور گاوان سے تربیت یافتہ تھا۔ بیچاپور کی جامع مسجد میں نقیب خان نے نماز جمعہ کے لئے لوگوں کوبلایا اورشیعہ مسلمانوں کے طریقہ کے مطابق اذان کہلوائی۔
شیعت سرکاری مذہب ہوا‘ ایران‘ عراق سے شیعہ مجتہدین کو طلب فرمایا گیا۔ اور درس و تدریس رعایا کا انتظام کیا گیا و جے نگر کے مہاراجہ نے تخت فیروز محمد شاہ بہمنی کو بھیجا اس کی سرکاری تقریب جشن نوروز کے موقع پر ہوئی نوروز ایرانیوں کے لئے مبارک دن ہے اسی دن علی ابن ابی طالب علیہ السلام پر خلافت نصب ہوئی۔
دکن میں مجلس عزاء کا علاؤ الدین بہمنی کے عہد میں اہتمام کیا جاتا تھا ۔ یکے بعد دیگرے سلاطین بہمنی کے دور میں شیعہ رسومات میں مجالس عزا کو ایک طرف مستحکم روایت کا مقام حاصل ہوگیا دوسری طرف ارباب بست وکشاد کے مقتدر طبقہ کا اہل بیت اطہار سے وابستگی کے باعث دکھنی مرثیہ کے لئے فضا سازگار ہوئی۔