اردو
Wednesday 27th of November 2024
0
نفر 0

قانون گزاری کے لئے انبیاء کی ضرورت

ہم جانتے ہیں کہ انسان کی زندگی کی سب سے بڑی خصوصیت جواس کی ترقی کا سبب بنی ہے اور اس کی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں مشہود ہے،اس کی وہی پر تلاش اجتماعی زندگی ہے۔
یقینا اگر تمام انسان ایک دوسرے سے الگ تھلگ زندگی بسر کرتے تو تہذیب وتمدن اور فکری لحاظ سے آج وہ سب ”عصر حجر“کے انسان جیسے ہوتے!
جی ہاں!یہ انسان کی اجتماعی تلاش وکوشش ہی ہے،جس نے تہذیب و تمدن کا چراغ جلایا ہے ،یہی اجتماعی تلاش وکوشش ہے جو انسان کی تمام علمی ایجادات اور انکشافات کا سبب بنی ہے۔
مثال کے طور پر اگر ہم چاند تک پہنچنے کے سفر کے مسئلہ پر غورکریں،تو معلوم ہو گا کہ یہ کام صرف ایک یا چند دانشوروں اور سائنسدانوں کی کوششوں کا نتیجہ نہیں ہے ،بلکہ ہزاروں برسوں کے دوران لا کھوں علماء اور دانشوروں کے اجتماعی مطالعات ،انکشافات اور تجربیات کا نتیجہ ہے کہ انسان اس عظمت تک پہنچا ہے ۔
اگر ہمارے زمانہ میں ایک ماہر سرجن ایک مردہ انسان کے قابل استفادہ دل کو نکال کر دوسرے قریب المرگ انسان کے سینہ میں پیوند لگاتا ہے اور اسے قطعی موت سے نجات دلاتا ہے،تو یہ پوری تاریخ کے ہزاروں طبیبوں اور جراحوں کے تجربوں کا نتیجہ ہے جو استادوں کے ذریعہ شاگردوں کو منتقل ہوتا رہا ہے۔
لیکن اس اجتماعی زندگی میں ان تمام فوائد کے باوجود کچھ مشکلات بھی ہیں ،اور ہ مشکلات انسانوں کے ایک دوسرے کے حقوق اور منافع کا آپس میں متصادم ہونا ہے جو کبھی حق تلفی اور جنگ کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔
یہاں پر قوانین ،نظام اور قواعد وضوابط کی ضرورت واضح ہو جاتی ہے ۔قوانین ہماری تین بڑی مشکلات کو حل کرسکتے ہیں :
۱۔قانون معاشرے کی نسبت ہر فرد کے اختیارات اور ذمہ داریوں کو اور ہر فرد کی نسبت معاشرے کی ذمہ داریوں اور فرائض کو واضح کرتا ہے،اور قابلیتوں کو بالید گی اور کوششوں کو مربوط کر نے کا سبب بنتا ہے۔
۲۔قانون لوگوں کے فریضوں اور ذمہ داریوں کی انجام دہی پر ضروری نگرانی کی راہ ہموار کرتا ہے۔
۳۔قانون لوگوں کو ایک دوسرے کے حقوق کو پامال کر نے سے روکتا ہے اور معاشرے کو ہرج و مرج اور مختلف افراداور گرہوں کے در میان تصادم سے بچاتاہے۔ ضرورت پڑنے پر زیادتی کر نے والوں کے لئے مناسب سزائیں معیّن کرتا ہے ۔
بہترین قانون ساز کون ہے؟ 
اب ہمیں دیکھنا چاہئے کہ انسان کی ضرورت کے مطابق قانون سازی میں مذکورہ تین اصولوں کے ساتھ بہترین قوانین مرتب و منظم کر نے والا کون ہو سکتا ہے؟ تاکہ معاشرے کے افراد اور خود معاشرہ کے اختیارات ،فرائض اور حقوق واضح اور معین ہو جائیںاور لوگوں کے اعمال پر مکمل نگرانی کے علاوہ ظلم و زیادتی کر نے والوں کو بھی روکا جاسکے۔
اس سلسلہ میں ہم یہاں پر ایک واضح مثال پیش کرتے ہیں :
انسانی معاشرہ کو ایک بڑی ٹرین اور حکمراں طبقہ کو اسے چلا نے اور حرکت میں لانے والے انجن سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔
قانون اس ریلوے لائن کی پٹری کے مانند ہے جواس ریل گاڑی کو منزل مقصود تک پہنچنے کے راستہ کو معین کرتی ہے۔
پہاڑوں اور درّوں کے مختلف پیچ وخم سے گزر نے والی ایک اچھی ریلوے لائن کے لئے درج ذیل خصوصیات کا ہو نا ضروری ہے:
۱۔جس زمین سے ٹرین کو گزر نا ہے ،اس میں اس کے زیادہ سے زیادہ دباؤ کو برداشت کر نے کی طاقت ہونی چاہئے۔
۲۔ریل کی دوپٹریوں کے درمیان کا فاصلہ مکمل طور پر ٹرین کے پہیوں کے موافق اور ھماھنگ ہو ناچاہئے اور اسی طرح ٹنلوں کی دیواریں اور ان کی بلندی ٹرین کی بلندی کے مطابق ہو نی چاہئے۔
۳۔نشیب و فراز اتنے گہرے اور اونچے نہ ہوں کہ ٹرین کے بریکوں اور اس کے جاذبہ کی قوت کو برداشت نہ کرسکیں۔
۴۔اسی طرح ٹرین کے گزر نے کے راستہ پر پہاڑوں سے پتھروں کے گرنے،سیلاب اور برف کے تودوںکے گرنے کو مکمل طور پر مد نظر رکھنا چاہئے تاکہ ٹرین صحیح وسالم ان رستوں سے گزر کر منزل مقصود تک پہنچ سکے۔اسی طرح اور دوسرے خصوصیات بھی اس زمین میں پائے جانے چاہئیں۔
اس مثال کو بیان کر نے کے بعد ہم پھر انسانی معاشرہ کی بحث کی طرف لوٹتے ہیں۔
انسانوں کے لئے بہتریں قانون بنانے والے قانون ساز کو مندرجہ ذیل خصوصیات کا حامل ہو نا چاہئے:
۱۔نوع انسان کو مکمل طور پر پہچانتا ہو اور ان کے تمام غرائز ،خواہشات،جذبات،ضروریات اور مشکلات سے آگاہ ہو۔
۲۔انسانوں میں پائی جانے والی تمام صلاحیتوں اورتوانائیوں کو مد نظر رکھے اور ان کو اجاگر کر نے کے لئے قوانین سے استفادہ کرے۔
۳۔معاشرے کو ممکنہ طور پر پیش آنے والے ہر قسم کے حوادث اور ان کے رد عمل کے بارے میں قبل از وقت پیش گوئی کرسکے۔
۴۔معاشرہ سے اس کے کسی بھی قسم کے منافع مربوط نہ ہوں تاکہ قوا نین وضع کرتے وقت اس کی فکر خود اپنے شخصی یا اپنے رشتہ داروں یا اپنی جماعت کے منافع کی طرف متوجہ نہ رہے۔
۵۔ضروری ہے کہ یہ قانون بنانے والا مستقبل میں انسان کو حاصل ہو نے والی ہر قسم کی ترقی یا تنزل سے مکمل طور پر آگاہ ہو۔
۶۔یہ قانون ساز ہر قسم کی خطا،غلطی اور فراموشی سے محفوظ ہو ناچاہئے۔
۷۔یہ قانون ساز ایسی طاقت کا مالک ہو ناچاہئے کہ معاشرے کے کسی فرد کی طاقت کے مقابلہ میں مرعوب نہ ہو جائے اور کسی سے نہ ڈرے اور اس کے ساتھ ہی نہایت مہر بان اور ہمدرد ہو نا چاہئے۔
یہ شرائط کس میں جمع ہیں؟ 
کیا انسان بہترین قانون ساز ہو سکتا ہے ؟
کیا آج تک کسی نے مکمل طورپر انسان کو پہچانا ہے؟جبکہ عصر حاضر کے ایک بڑے دانشور نے انسان کے بارے میں ایک مفصل کتاب لکھی ہے اور اس کا نام”انسان، موجود ناشناختہ “(انسان ایک نا شناختہ مخلوق)رکھا ہے ۔
کیا انسان کی ذہنیت ،میلانات ،غرائز اور جذبات کو مکمل طور پر پہچان لیا گیا ہے؟
کیا انسان کی جسمانی اور روحانی ضروریات کو خداوند متعال کے علاوہ کوئی اورشخص جانتا ہے؟
کیا عام انسانوں میں کوئی ایسا شخص پایا جاسکتا ہے جو معاشرے میں خاص ذاتی منافع نہ رکھتا ہو؟
کیا آپ عام انسانوں کے در میان کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں جو سہو وخطا سے محفوظ ہو اور معاشرے کے تمام افراد کو در پیش مسائل سے آگاہ ہو؟
لہذا خداوند متعال کی ذات اور خدا سے وحی حاصل کر نے والی ہستی (معصوم) کے علاوہ کوئی بھی شخص مکمل اور بہترین قانون سازنہیں ہو سکتا ہے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں: جس خدا وند متعال نے انسان کو کمال کے مراحل طے کر نے کے لئے پیدا کیا ہے ،اسے چاہئے کہ اس کی ہدایت کے لئے ایسے افراد کو مامور فر مائے جو تمام الہٰی قوانین کو انسان کے اختیار میں دے دیں۔
یقیناجب لوگ جان لیں گے کہ فلاں قانون ،خدا کا قانون ہے تو وہ اسے زیادہ اعتماد اور اطمینان سے قبول کر کے اس پر عمل کریں گے اور دوسرے الفاظ میں یہ آگاہی ان قوانین کے بہترین نفاذ کی ضمانت فراہم کرے گی۔

توحید و نبوت کے در میان رابطہ

ہم یہاں پر اس مطلب پر تو جہ کر نا ضروری سمجھتے ہیں کہ نظام خلقت بذات خود انبیائے الہٰی اور ان کی رسالت کے وجود پر ایک زندہ گوا ہے ۔
اس مطلب کی وضاحت یہ ہے :اگر ہم کائنات کے حیرت انگیز نظام پر ایک تحقیقی نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ خدا وند متعال نے اپنی مخلوقات کی کسی بھی ضرورت کو اپنے لطف و کرم سے محروم نہیں رکھا ہے ۔مثلاًاگر اس نے ہمیں دیکھنے کے لئے آنکھیں عطا کی ہیں تو ان کی حفاظت اورروشنی کو مناسب طور پر تنظیم کر نے کے لئے پلکیں اور بھنویں بھی عطا کی ہیں ۔
آنکھوں کے گوشوں میں آنسوؤں کے غدود خلق کئے ہیں تا کہ آنکھوں کو مرطوب رکھیں ،کیونکہ آنکھوں کا خشک ہو نا ان کی نابودی کا سبب بن سکتا ہے۔
آنکھ کے گوشوں میں باریک سوراخ بنائے ہیں تا کہ آنکھوں کا اضافی پانی ان سوراخوں کے ذریعہ ناک میں داخل ہو جائے ۔اگر یہ باریک سوراخ نہ ہو تے تو آنسوؤں کے قطرے مسلسل ہمارے چہرے پر بہتے رہتے!
آنکھ کی پُتلی کو اس قدر حساس بنایا ہے کہ وہ خود بخود تیز یا کم روشنی کے مقابلہ میں تنگ یا گشادہ ہو جاتی ہے ،تا کہ ضرورت کے مطابق آنکھ میں روشنی داخل ہو جائے اور آنکھ کو کسی قسم کا صدمہ نہ پہنچے ۔
آنکھ کے حلقہ کے اطراف میں ایسے مختلف پٹھے بنائے ہیں تا کہ سر اور بدن کو ہلائے بغیر آنکھ کو آسانی کے ساتھ ہر طرف گھما کر مختلف مناظر کو دیکھا جا سکے ۔
وہ خدا جو انسان کی مختلف ضروریات کا اس قدر خیال رکھتا ہے ،کیا یہ ممکن ہے کہ وہ اسے ایک معصوم اور قابل اعتماد رہنما اور رہبر سے محروم رکھے جو وحی الہٰی کے ذریعہ راہنمائی کرتا ہو؟!
مشہور و معروف فلاسفر بو علی سینا اپنے کتاب ”شفا“میں یوں لکھتا ہے:
”انسان کے لئے اپنی بقا کے تحفظ اور کمال حاصل کر نے کی ضرورت کے پیش نظر انبیاء کا مبعوث ہو نا یقینا پلکوں اور بھنوؤں کے بال اُگنے اور پاؤں کے تلوؤں میں خمیدگی جیسی چیزوں سے زیادہ ضروری ہے۔ممکن نہیں ہے کہ خداوند متعال اپنی ازلی عنایت کے تقاضے کی بناپر مذکورہ ضروری چیزوں کو پیدا کرے لیکن ان سے زیادہ ضروری چیز کو پیدا نہ کرے؟“


source : http://makarem.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

افغانستان میں قرآن کریم کی بے حرمتی، مغرب میں ...
ہندو مذہب میں خدا کا تصور و اجتماعی طبقہ بندی
مسجد اقصیٰ اسرائیلی نرغے میں
سب سے پہلے اسلام
سيد حسن نصراللہ کا انٹرويو
بازار اسلامی حکومت کے سایہ میں
دور حاضر کی دینی تحریکیں
نیک گفتار
اسلامی بیداری 1
ہندو مذہب میں خدا کا تصور و اجتماعی طبقہ بندی

 
user comment