اردو
Wednesday 17th of July 2024
0
نفر 0

شہادت امام حسن عسکري عليہ السلام

دورِ قديم سے آج تک، ہميشہ ايسے بزرگوں کي زندگي اور ان کا کردار توجہ کا مرکز رہا ہے جن کا انساني پہلو برجستہ رہا ہو۔ ان ميں انبيائے الہي اور مکتب علوي کے رہنما، وہ منفرد افراد ہيں جو پروردگار کي جانب سے تمام انسانوں کے لئے بہترين نمونہ عمل قرار ديئے گئے ہيں۔

شيعوں کے گيارہويں امام‘ حضرت حسن عسکريٴ، ٢٣٢ ہجري ميں شہر مدينہ ميں متولد ہوئے۔ چونکہ آپٴ بھي اپنے بابا امام علي النقيٴ کي طرح سامرا کے عسکر نامي محلے ميں مقيم تھے اس لئے عسکري کے نام سے مشہور ہوئے۔ آپٴ کي کنيت ابومحمد اور معروف لقب نقي اور زکي ہے۔ آپٴ نے چھ سال امامت کي ذمہ داري ادا کي اور ٢٨ سال کي عمر ميں معتمد عباسي کے ہاتھوں شہيد ہوئے۔

امام حسن عسکري عليہ السلام کي حکمت عملي:

امام حسن عسکريٴ نے ہر قسم کے دباو اور عباسي حکومت کي جانب سے سخت نگراني کے باوجود دينِ اسلام کي حفاظت اور اسلام مخالف افکار کا مقابلہ کرنے کے لئے متعدد سياسي، اجتماعي اور علمي اقدامات انجام ديئے اور اسلام کي نابودي کے لئے عباسي حکومت کے اقدامات کو بے اثر کرديا۔ آپٴ کي حکمتِ عملي کے اہم نکات درجِ ذيل ہيں:

دين اسلام کي حفاظت کے لئے علمي جدوجہد، مخالفوں کے شکوک و شبہات کا جواب، درست اسلامي افکار و نظريات کا پرچار، خفيہ سياسي اقدامات، شيعوں کي اور بالخصوص نزديکي ساتھيوں کي مالي امداد، مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لئے شيعہ بزرگوں کي تقويت اور ان کے سياسي نظريات کي پختگي، شيعوں کے فکري استحکام اور منکرينِ امامت کو قائل کرنے کے لئے غيبي اطلاعات سے وسيع استفادہ اور اپنے بيٹے، بارہويں امامٴ کي غيبت کے لئے شيعوں کو ذہني طور پر تيار کرنا۔

علمي جدوجہد:

اگرچہ امام حسن عسکريٴ کے دور ميں حالات کي ناسازگاري اور عباسي حکومت کي جانب سے کڑي پابنديوں کي وجہ سے آپٴ معاشرے ميں اپنے وسيع علم کو فروغ نہيں دے سکے، ليکن ان سب پابنديوں کے باوجود ايسے شاگردوں کي تربيت کي جن ميں سے ہر ايک اپنے طور پر معارف اسلام کي اشاعت اور فروغ ميں اہم کردار ادا کرتا رہا۔ شيخ طوسي نے آپٴ کے شاگردوں کي تعداد سو سے زائد نقل کي ہے۔ جن ميں احمد بن اسحق قمي، عثمان بن سعيد اور علي بن جعفر جيسے لوگ شامل ہيں۔ کبھي مسلمانوں اور شيعوں کے لئے ايسي مشکلات اور مسائل پيش آجاتے تھے کہ انہيں صرف امام حسن عسکريٴ ہي حل کر سکتے تھے۔ ايسے موقع پر امامٴ اپنے علمِ امامت اور حيرت انگيز تدبير کے ذريعے سخت ترين مشکل کو حل کر ديا کرتے تھے۔

شيعوں کا باہمي رابطہ (نيٹ ورک):

امام عسکريٴ کے زمانے ميں مختلف مقامات اور متعدد شہروں ميں شيعہ پھيل چکے تھے اور کئي علاقوں ميں متمرکز تھے۔ کوفہ، بغداد، نيشاپور، قم، مدائن، خراسان، يمن اور سامرائ شيعوں کے بنيادي مراکز شمار ہوتے تھے۔ شيعہ مراکز کا يہ پھيلاو اور مختلف علاقوںميں اس کا منتشر ہونا اس بات کا متقاضي تھا کہ ان کے درميان رابطے کا ايسا مربوط نظام قائم کرديا جائے جو ايک طرف سے شيعوں کو امامٴ کے ساتھ اور دوسري طرف سے شيعوں کو آپس ميں مربوط کر سکے تاکہ ان کي ديني و سياسي رہنمائي ہو اور ان کو منظم کيا جاسکے۔ يہ ضرورت امام محمد تقيٴ کے دور سے ہي محسوس ہو رہي تھي اور وکالت کا مربوط نظام ايجاد کر کے اور مختلف علاقوں ميں نمائندوں کو منصوب کر کے اس کام کا آغاز ہو چکا تھا۔ امام حسن عسکريٴ نے بھي اسي کو جاري رکھا۔ چنانچہ تاريخي حوالوں سے يہ بات ثابت ہے کہ آپٴ نے شيعوں کے برجستہ افراد کے درميان سے اپنے نمائندوں کا انتخاب کيا اور مختلف علاقوں ميں ان کو نصب کيا تھا۔

قاصد اور خطوط:

وکالت کا ارتباطي نظام قائم کرنے کے علاوہ امام حسن عسکريٴ قاصد بھيج کر بھي اپنے شيعوں اور ماننے والوں سے رابطہ رکھا کرتے تھے اور اس طرح سے ان کي مشکلات کو برطرف کيا کرتے تھے۔ ابو الاديان (جو کہ آپٴ کا ايک قريبي صحابي تھا) کے کام انہي اقدامات کا ايک نمونہ ہیں۔ وہ امامٴ کے خطوط اور پيغامات کو آپٴ کے پيروکاروں تک پہنچاتے اور ان کے خطوط، سوالات، مشکلات، خمس اور دوسرے اموال شيعوں سے لے کر سامرا ميں امامٴ کو پہنچايا کرتے تھے۔

قاصد کے علاوہ مکاتبات کے ذريعے بھي امامٴ اپنے شيعوں سے رابطہ رکھتے اور ان کو اپني تحريري ہدايت سے بہرہ مند فرماتے تھے۔ امامٴ نے جو خط ابنِ بابويہ (شيخ صدوق کے والد) کو لکھا ہے، وہ اس کي ايک مثال ہے۔ اس کے علاوہ امامٴ نے قم اور آوہ کے شيعوں کو بھي خط لکھے تھے جن کا مضمون شيعہ کتب ميں محفوظ ہے۔

خفيہ سياسي اقدامات:

امام حسن عسکريٴ تمام تر پابنديوں اور حکومت کي جانب سے کڑي نگراني کے باوجود بعض خفيہ سياسي سرگرميوں کي رہنمائي کر رہے تھے جو درباري جاسوسوں سے اس لئے پوشيدہ رہتي تھي کہ آپٴ نے انتہائي ظريف انداز اختيار کيا ہوا تھا۔ مثال کے طور پر، آپٴ کے انتہائي نزديک ترين صحابي، عثمان بن سعيد روغن فروشي کي دکان کي آڑ ميں فعاليت ميں مصروف تھے۔ امام حسن عسکريٴ کے پيروکار جو اموال يا اشيائ آپٴ تک پہنچانا چاہتے تھے وہ عثمان کو دے ديا کرتے اور وہ يہ چيزيں گھي کے ڈبوں اور تيل کي مشکوں ميں چھپا کر امامٴ کي خدمت ميں پہنچا ديا کرتے تھے۔ امامٴ کے انہي شجاعانہ اقدامات اور بے وقفہ فعاليت کي وجہ سے آپٴ کي چھ سالہ امامت کي نصف مدت عباسيوں کے وحشتناک قيدخانوں ميں سخت ترين اذيتوں ميں گذري۔

شيعوں کي مالي امداد:

آپٴ کا ايک اور اہم اقدام شيعوں کي اور خصوصاً نزديکي اصحاب کي مالي امداد تھا۔ امامٴ کے بعض اصحاب مالي تنگي کا شکوہ کرتے تھے اور آپٴ ان کي پريشاني کو دور کر ديا کرتے تھے۔ آپٴ کے اس عمل کي وجہ سے وہ لوگ مالي پريشانيوں سے گھبرا کر حکومتي اداروں ميں جذب ہونے سے بچ جاتے تھے۔

اس سلسلے ميں ابوہاشم جعفري کہتے ہيں: ميں مالي حوالے سے مشکلات ميں گرفتار تھا۔ ميں نے سوچا کہ ايک خط کے ذريعے اپنا احوال امام حسن عسکريٴ کو لکھوں، ليکن مجھے شرم آئي اور ميں نے اپنا ارادہ بدل ليا۔ جب ميں گھر پہنچا تو ديکھا کہ امامٴ نے ميرے لئے ايک سو دينار بھيجے ہوئے ہيں اور ايک خط بھي لکھا ہے کہ جب کبھي تمہيں ضرورت ہو، تو تکلف نہ کرنا۔ ہم سے مانگ لينا، انشائ اللہ اپنا مقصد پالو گے۔

شيعہ بزرگوں کي تقويت اور

ان کے سياسي نظريات کو پختہ کرنا:

امام حسن عسکريٴ کي ايک اہم ترين سياسي فعاليت يہ تھي کہ آپٴ تشيع کے عظيم اہداف کے حصول کي راہ ميں آنے والي تکليفوں اور سياسي اقدامات کي سختيوں کا مقابلہ کرنے کے لئے شيعہ بزرگوں کي سياسي تربيت کرتے اور ان کے نظريات کو پختہ کرتے تھے۔ چونکہ بزرگ شيعہ شخصيات پر حکومت کا سخت دباو ہوتا تھا، اس لئے امامٴ ہر ايک کو اس کي فکر کے لحاظ سے ہمت دلاتے، ان کي رہنمائي کرتے اور ان کا حوصلہ بلند کيا کرتے تھے تاکہ مشکلات کے مقابلے ميں ان کي برداشت، صبر اور شعور ميں اضافہ ہو اور وہ اپني اجتماعي و سياسي ذمہ داريوں اور ديني فرائض کو اچھي طرح انجام دے سکيں۔ اس حوالے سے جو خط امامٴ نے علي بن حسين بن بابويہ قمي کو لکھا ہے، اس ميں فرماتے ہيں: ہمارے شيعہ ہميشہ رنج و غم ميں رہيں گے، يہاں تک کہ ميرا بيٹا ظہور کرے گا؛ وہي کہ جس کے بارے ميں اللہ کے رسول۰ نے بشارت دي ہے کہ زمين کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جيسا کہ وہ ظلم و جور سے بھري ہوگي۔

علمِ غيب کا وسيع استعمال:

ائمہ طاہرين عليہم السلام پروردگارِ عالم سے رابطے کي وجہ سے علمِ غيب سے واقف تھے اور ايسے حالات ميں کہ جب اسلام کي حقانيت يا امت مسلمہ کے عظيم مفادات خطرے ميں پڑ جائيں، اس علم سے استفادہ کرتے تھے۔ البتہ امام حسن عسکريٴ کي زندگي کا مطالعہ کيا جائے تو محسوس ہوگا کہ آپٴ نے دوسرے ائمہٴ کي نسبت زيادہ اس علم کا اظہار کيا ہے۔ اس کي وجہ، اس دور کے ناموافق حالات اور دہشتناک فضا تھي؛ کيونکہ جب سے آپٴ کے والد‘ امام علي النقيٴ کو زبردستي سامرائ منتقل کيا گيا تھا، سخت نگراني ميں تھے۔ عباسي حکومت کي سختيوں کي وجہ سے پيدا ہونے والے حالات ميں اگلے امامٴ کا تعارف کروانے کے لئے مناسب حالات نہيں تھے، جس کے نتيجے ميں بعض شيعوں کے اندر شکوک و شبہات پيدا ہوگئے تھے۔ امام حسن عسکريٴ ان شکوک و شبہات کو دور کرنے کے لئے، نيز خطرات سے اپنے اصحاب کي حفاظت کے لئے يا گمراہوں کي ہدايت کے لئے مجبوراً حجاب ہٹا ديا کرتے اور عالمِ غيب کي خبريں ديا کرتے تھے۔

اسلامي افکار کي حفاظت:

ائمہ طاہرين کو امت اسلامي سے دور کرنے کا ايک مقصد يہ بھي تھا کہ بعض لوگ چاہتے تھے کہ اسلامي خلافت کي طاقت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے معاشرے کو اس طرف لے جائيں جو ان کي مرضي کا راستہ ہو اور نوجوانوں کے ديني اعتقادات کو کمزور کرديں اور ان کو ايسے باطل نظريات کے دامن ميں دھکيل ديں جن کي تياري پہلے سے کر لي گئي تھي اور انہيں رواج ديا جاچکا تھا تاکہ کوئي آزادي کے ساتھ اس ثقافتي حملے کا مقابلہ نہ کرسکے۔ امام حسن عسکريٴ کا دور ايک دشوار دور تھا کہ جس ميں طرح طرح کے افکار ہر طرف سے اسلامي معاشرے کے لئے خطرہ بنے ہوئے تھے۔ ليکن آپٴ نے اپنے آبائ و اجداد کي طرح ايک لمحہ بھي اس سے غفلت نہيں برتي اور مختلف گروہوں، جن ميں التقاطي مکاتب فکر، درآمداتي اور ضدِ اسلامي نظريات؛ جس ميں صوفيت، غلو، واقفيت، شرک اور دوسرے انحرافي افکار رکھنے والے شامل ہيں، کے مقابلے ميں سخت موقف اختيار کيا اور اپنے مخصوص انداز سے ان کے کام کو بے اثر کرديا۔

امام حسن عسکريٴ اور احيائے اسلام:

عباسي حکومت کا دور اور خصوصاً امام حسن عسکريٴ کا زمانہ، بدترين ادوار ميں سے ايک دور تھا۔ کيونکہ حکمرانوں کي عياشي اور ظلم و ستم نيز ان کي غفلت و بے خبري اور دوسري طرف سے دوسرے اسلامي علاقوں ميں غربت کے پھيلاو کي وجہ سے بہت سي اعليٰ اقدار ختم ہو چکي تھيں۔ بنابريں، اگر امام حسن عسکريٴ کي دن رات کي کوششيں نہ ہوتيں تو عباسيوں کي سياست کي وجہ سے اسلام کا نام بھي ذہنوں سے مٹ جاتا۔ اگرچہ امامٴ براہِ راست عباسي حکمرانوں کي نگراني ميں تھے، ليکن آپٴ نے ہر اسلامي سرزمين پر اپنے نمائندے مقرر کئے ہوئے تھے اور مسلمانوں کے حالات سے آگاہ رہتے تھے۔ بعض شہروں کي مسجديں اور ديني عمارتيں آپٴ ہي کے حکم سے بنائي گئيں؛ جس ميں قم ميں موجود مسجد امام حسن عسکريٴ بھي شامل ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپٴ اپنے نمائندوں کے ذريعے سے اور علمِ امامت سے تمام محروميوں سے آگاہ تھے اور لوگوں کي مشکلات کو دور کرتے رہتے تھے۔

امام حسن عسکريٴ کے دور کي پابنديوں کي علت:

گيارہويں امامٴ کے دور کي پابنديوں کا سرچشمہ دو باتيں تھيں:

ان سختيوں کي ايک وجہ معاشرے ميں امامٴ کي سرشناس اور معزز شخصيت تھي اور دوسرا سبب يہ تھا کہ اس دور ميں عراق ميں شيعہ ايک طاقت بن چکے تھے جو کسي عباسي حکمران کے اقتدار کو جائز نہيں سمجھتے تھے۔ ان کا يہ عقيدہ تھا کہ اللہ کي جانب سے امامت، حضرت عليٴ کے فرزندوں ميں باقي ہے اور اس خاندان کي واحد ممتاز شخصيت امام حسن عسکري عليہ السلام ہيں۔ اسي لئے امامٴ دوسروں سے زيادہ حکومت کي نظروں ميں تھے۔ عباسي حکمران اور ان کے ہواخواہ جانتے تھے کہ مہدي موعودٴ جو کہ تمام ظالم حکومتوں کا خاتمہ کر ديں گے، وہ نسلِ امام حسن عسکريٴ سے ہي ہيں۔ اسي لئے وہ ہميشہ اس ٹوہ ميں رہتے تھے کہ آپٴ کے بيٹے کو قتل کرديں۔

حوالہ جات

باخورشيد سامرا، اعلام الوريٰ، بحار الانوار، نور الابصار، اثبات الوصيہ، منتہي الآمال، ارشادِ شيخ مفيد، مناقب آل ابي طالب، الانوار البہيہ، رجال کشي، فہرست شيخ طوسي، ريحانۃ الادب، معادن الحکمۃ في مکاتيب الائمہ، سفينہ البحار، رجال طوسي، سيرہ پيشوايان


source : http://www.alhassanain.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حسینیت اور یزیدیت کی شناخت
امام ہادی علیہ السلام اور اعتقادی انحرافات کے ...
حضرت ولی عصرؑ کی ولادت باسعادت
امام محمد باقر عليہ السلام کا عہد
قاتلین حسین (ع) کی حقیقت
کیا یہ حدیث صحیح ہے کہ پیغمبر خدا (ص) نے دایہ نہ ...
عصمت حضرت فاطمہ زہرا سلام الله عليہا
امام جعفرصادق (ع): ہمارے شیعہ نماز کے اوقات کے ...
حضرت امام علی علیہ السلام کی شان میں چالیس احادیث
دربار یزید میں امام سجاد(ع) کا تاریخی خطبہ

 
user comment