بسم الله الرحمٰن الرحیم
پیغمبر اسلام ، خاتم النبیین ،اشرف المرسلین حضرت محمد مصطفےٰ صلی الله علیہ وآلہ وسلم اور حضرت امام صادق علیہ السلام کی تاریخ ولادت با سعادت کے موقع پر ہم دنیا کے تمام مسلمانوں اور خصوصاً محبان اہل بیت علیہم السلام کو مبارکباد پیش کرتے ہیں ۔ ہمیں امید ہے کہ پیغمبر اسلام اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے اسلامی سماج ،ابدی سعادت حاصل کرے گا۔ ہم اس دن کے منتظر ہیں جب فرزند پیغمبر اور آپ کے آخری وصی برحق حضرت مہدی موعود علیہ السلام ظہور فرما کر اس دنیا میں پھیلے اندھیروں کو دور کرکے روشنی پھیلائیں گے ، ظلم اور ظالموں کا خاتمہ کرکے اس دنیا کو عدل و انصاف سے پر فرمائیں گے۔ اس وقت ہم پوری دنیا میں کلمہٴ حق کا بول بالا دیکھیں گے ، انشا ء الله۔
ہم اس چھوٹے سے مقالہ میں پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے ولادت سے بعثت تک کے مختصر حالات تحریر کررہے ہیں اور اس مقالہ کے آخر میں آپ کی ایک سو احادیث بھی لکھ رہے ہیں جو ہماری زندگی میں مشعل راہ ثابت ہوں گی۔
میلاد نور:
یوں تو انسانی تاریخ میں بہت سے اہم دن آئے اور گذر گئے ، لیکن پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا دن وہ عظیم دن ہے جسے انسان چاہتے ہوئے بھی نہیں بھلا سکتا۔ اس دن الله کے آخری نبی اس دنیا میں تشریف لائے ۔ اس دن اس دنیامیں اس عظیم انسان نے قدم رکھا جس کی زیارت کے تمام انبیاء مشتاق تھے۔ اس دن دنیا میں وہ تشر یف لائے جن کے بارے میں انبیاء ما سبق نے اپنے اوصیاء کو وصیت فرمائی تھی کہ اگر وہ آپ کے سامنے آگئے تو انھیں ہمارا سلام کہنا۔ مسلمانوں کی فضیلت اس سے بڑھ کر او ر کیا ہوسکتی ہے کہ انہیں وہ عظیم سعادت نصیب ہوئی جس کی تمنا لئے ہوئے بہت سے انبیاء اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ چونکہ الله نے ہمیں یہ عظیم سعادت عطا فرمائی ہے لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم آپ کی امت کا جز بنے رہیں اور آپ کی تعلیمات کی قدر کرتے ہوئے ان پر عمل کریں ۔
پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی تاریخ ولادت:
پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی تاریخ ولادت میں مسلمانوں کے درمیان اختلاف ہے ۔ شیعہ آپ کی ولادت ۱۷/ ربیع الاول کو مانتے ہیں اور سنی آپ کی ولادت کے سلسلہ میں بارہ ربیع الاول کے قائل ہیں ۔ اسی طرح آپ کی ولادت کے دن میں بھی مسلمانوں میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ آپ کی ولادت جمعہ کے روز ہوئی اور اہل سنت کہتے ہیں کہ جس دن آپ کی ولادت ہوئی وہ پیر کا دنتھا۔
پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے والدین:
آپ کے والد ماجد حضرت عبد الله ابن عبد المطلب ہیں۔ حضرت عبد الله وہ انسان ہیں جو خاندانی شرافت کے اعتبار سے دنیا بھر میں ممتاز ہیں ۔ حضرت عبد الله کے والد حضرت عبد المطلب ہیں ، جن کی عظمت و ہیبت کا یہ عالم تھا کہ جب ابرہہ خانہٴ کعبہ کو مسمار کرنے کی غرض سے مکہ آیا اور آپ اس کے پاس گئے تو وہ آپ کو دیکھ کر نہ چاہتے ہوئے بھی آپ کی تعظیم کے لئے کھڑا ہوگیا۔
حضرت عبد الله اس خاندان سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے زمانہ کے حسین و جمیل ،رشید، مودب اور عقلمند انسان تھے۔ یوں تو مکہ کی بہت سی خواتین آپ سے شادی کی متمنی تھیں مگر چونکہ نور نبوت کو ایک خاص آغوش کی ضرورت تھی اس لئے آپ نے سب کو نظر انداز کرتے ہوئے جناب آمنہ بنت وہب سے شادی کی۔
تاریخ میں ملتا ہے کہ ابھی اس شادی کو چالیس دن بھی نہ ہوئے تھے کہ جناب عبد الله نے تجارت کی غرض سے شام کا سفر اختیارکیا، جب آپ اس سفر سے واپس لوٹ رہے تھے تو آپ اپنے ننھیا ل والوںسے ملاقات کے لئے مدنیہ گئے اور وہیں پر آپ کا انتقال ہوگیا یعنی پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم جب اس دنیا میں تشریف لائے تو آپ کے سر سے باپ کا سایہ اٹھ چکا تھا۔ چونکہ جناب آمنہ جناب عبد الله کے ساتھ زیادہ دن نہ رہ سکیں تھیں اس لئے وہ آپ کی یادگار اور اپنے بیٹے سے بے حد پیار کرتی تھیں۔ جب پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم پانچ سال کے ہوئے تو جناب آمنہ ، جناب عبد المطلب سے اجازت لے کر ام ایمن کے ساتھ ، اپنے عزیزوں سے ملنے کے لئے مدنیہ گئیں۔ اس سفر میں پیغمبر اسلام بھی آپ کے ہمراہ تھے اور یہ پیغمبر اسلام کا پہلا سفر تھا۔ جب یہ قافلہ مکہ کی طرف واپس پلٹ رہا تھا تو راستہ میں ابواء نامی جگہ پر جناب آمنہ بیمار ہوئیں اور آپ کا وہیں پر انتقال ہوگیا۔ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اپنی والدہ کو وہیں دفن کیا اور ام ایمن کے ساتھ مکہ آگئے۔
پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم اور اہل بیت علیہم السلام کے چاہنے والے آج بھی ابواء میں جناب آمنہ کی قبر پر زیارت کے لئے جاتے ہیں ۔جب پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم اس حادثہ کے ۵۰/سال بعد اس مقام سے گذرے تو اصحاب نے دیکھا کہ آپ سواری سے نیچے اتر کر ، کسی سے کچھ کہے بغیر ایک طرف آگے بڑھنے لگے ، کچھ اصحاب یہ جاننے کے لئے کہ آپ کہاں تشریف لے جا رہے ہیں آپ کے پیچھے چلنے لگے۔ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم ایک جگہ پر جاکر رکے اور بیٹھ کر قرآن پڑھنے لگے ۔ آپ قرآن پڑھتے جاتے تھے اور اس جگہ کو غور سے دیکھتے جاتے تھے۔ کچھ دیر کے بعد آپ کی آنکھوں سے آنسوں جاری ہوگئے، اصحاب نے سوال کیا یا رسول الله! آپ کیوں گریہ فرمارہے ہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایاکہ یہ میری ماں کی قبر ہے آج سے پچاس سال قبل میں نے انھیں یہاں پر دفن کیا تھا۔
ماں کا سایہ سر اٹھ جانے کے بعد پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی دیکھ ریکھ کی پوری ذمہ داری جناب عبد االمطلب نے سنبھالی۔ وہ آپ کو بہت پیار کرتے تھے اور اپنے بیٹوں سے کہتے تھے کہ یہ بچہ دوسرے بچوں سے مختلف ہے ابھی تم اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ہولیکن آنے والے وقت میں یہ بچہ الله کا نمائندہ بنے گا۔ ہاں جناب عبد المطلب اس بچہ کے معصوم چہرے پر نور نبوت دیکھ رہے تھے۔ وہ سمجھ چکے تھے کہ جلد ہی اس کے پاس وحی کے ذریعہ الله کا وہ دین آنے والا ہے جو دنیا کے تمام ادیان پر چھا جائے گا۔ ہاں جناب عبد المطلب کی نگاہیں وہ سب کچھ دیکھ رہیں تھیں جسے دیکھنے سے باقی لوگ قاصر تھے۔ جب جناب عبد المطلب کا آخری وقت قریب آیا ، تو آپ کے بڑے بیٹے جناب ابوطالب نے آپ کے چہرے پر پریشانی کے کچھ آثار دیکھے، وہ آگے بڑھے اور اپنے والد سے اس پریشانی کا سبب جاننا چاہا تو جناب عبد المطلب نے فرمایا کہ مجھے موت سے کوئی خوف نہیں ہے میں صرف اس بچہ کی طرف سے فکرمند ہوں کہ اسے کس کے سپرد کروں۔ کیا اس بچے کی سرپرستی کو تم قبول کرتے ہو؟ کیا تم یہ وعدہ کرتے ہو کہ میری طرف سے اس کی کفالت کرتے رہو گے؟ جناب ابوطالب نے جواب دیا کہ بابا مجھے منظور ہے۔ جناب ابوطالب نے اپنے بابا سے کئے ہوئے وعدہ کو اپنی زندگی کے آخری سانس تک نبھایا اور پوری زندگی پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی مدد و حفاظت کرتے رہے ۔ جناب ابوطالب پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو اپنے بیٹوں سے زیادہ چاہتے تھے اور آپ کی زوجہ فاطمہ بنت اسد یعنی مادر حضرت علی علیہ السلام، پیغمبراسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو ماں کی طرح پیار کرتی تھیں۔
پیغمبر اسلام (ص) کے سفر
۱) پیغمبر اسلام (ص)نے عرب سے باہر سفر کئے اور آپ دونوں ہی بار شام تشریف لے گئے ۔آپ (ص) نے یہ دونوں سفر بعثت سے پہلے کیئے ۔
پہلی بار آپ (ص)بارہ سال کے سن میں اپنے چچا ابو طالب (ص) کے ساتھ گئے اور دوسری بار پچیش سال کے سن میں جناب خدیجہ کے تجارتی نمائندہ کی شکل میں تشریف لے گئے ۔بعثت کے بعد پیغمبر اسلام (ص) نے عرب کے اندر بہت سے سفر کئے لیکن عرب سے باہر کے آپ کے صرف یہی دو سفر تاریخ میں درج ہیں ۔
بعثت سے پہلے پیغمبر اکرم (ص) کا کردار
کسی بھی انسان کی سماجی زندگی میں جو چیز سب سے زیادہ موٴثر ہوتی ہے وہ اس کے ماضی کا کردار ہے ۔پیغمبر اسلام(ص) کی ایک خاصیت یہ تھی کہ وہ دنیا کے کسی بھی مدرسہ میں پڑھنے نہیں گئے ۔آپ (ص) کا کسی مدرسہ میں تعلیم حاصل نہ کرنا اس بات کا سبب بنا کہ جب آپ (ص) نے لوگوں کے سامنے قرآنی آیتوں کی تلاوت کی تو وہ تعجب میں پڑگئے اور آپ کے گرویدہ ہو گئے ۔اگر آپ (ص) کسی دنیاوی مدرسہ میں پڑھے ہوتے تو لوگ یہی سمجھتے کہ یہ آپ کی مدرسہ کی تعلیم کا کمال ہے ۔
آپ کی دوسری صفت یہ ہے کہ آپ (ص) نے اس ماحول میں جس میں کچھ لوگوں کو چھوڑ کر سبھی بتوں کے سامنے سجدہ کرتے تھے کبھی کسی بت کے سامنے سر نہیں جھکایا ۔لھذا جب آپ (ص) نے بتوں اور بت پرستوں کی مخالفت کی تو کوئی آپ(ص) کو یہ نہ کہہ سکا کہ آپ(ص) ہمیں کیوں منع کر رہے ہیں ؟ آپ بھی تو کل تک ان کے سامنے سر جھکاتے تھے ۔
آپ(ص) کی خاصیت یہ تھی کہ آپ(ص) نے مکہ جیسے شہر میںجوانی کی پاک و پاکیزہ زندگی بسر کی اور کسی برائی میں ملوث نہیں ہوئے جب کہ ان دنوں مکہ شہر برائیوں کا مرکز تھا ۔
بعثت سے پہلے آپ(ص) مکہ میں صادق ، امین اور عاقل مانے جاتے تھے ۔آپ(ص) لوگوں کے درمیان محمد امین (ص) کے نام سے مشہور تھے ۔ صداقت و امانت میں لوگ آپ (ص) پر بہت زیادہ اعتمادکرتے تھے اور بہت سے کاموں میں فقط آپ(ص) ہی کی عقل پر اعتماد کیا جاتا تھا ۔ عقل ، امانت و صداقت آپ کے ایسے صفات تھے جنہوں نے آپ(ص) کو عالم میں ممتاذ بنا دیا تھا ۔ یہاں تک کہ جب لوگ آپ(ص) کو اذیتیں دینے لگے اور آپ کی باتوں کا انکار کرنے لگے تو آپ(ص) نے ان سے فرماےا کہ : کیا تم نے مجھے کبھی جھوٹ بولتے سنا ہے ؟ سب نے یک زبان کہا نہیں ، ہم آپ(ص) کو سچا اور امانت دار مانتے ہیں ۔
پیغمبر اسلام(ص) کی شادی
پیغمبر اسلام (ص) جب پچیس سال کے ہوئے تو انہوں نے جناب خدیجہ کی پیشکش پر ان سے شادی کی ۔ جناب خدیجہ ایک ثروت مند خاتون تھیں اور آپ کی ذات میں ظاہری و باطنی تمام کمالات پائے جاتے تھے ۔پیغمبر اسلام (ص)کی بعثت کے بعد آپ نے اپنی پوری دولت اسلام کی ترویج میں قربان کردی ۔انہوں نے پوری زندگی پیغمبر اسلام (ص)کا ساتھ دیا وہ اولین مسلمانوں میں تھیں وہ اس وقت پیغمبر اسلام (ص) کے ساتھ نماز پڑھتی تھی جب امام و ماموم کی تعداد کل تین افراد پر مشتمل تھی یعنی پیغمبر اسلام (ص) حضرت علی (ص) اور حضرت خدیجہ ۔
اس شادی کے نتیجہ میں حضرت زہرا (ص)اس دنیا میں تشریف لائیں جو آگے چل کر حضرت علی (ص) کی شریک حیات اور گیارہ معصوم اماموں کی ماں قرار پائیں ۔ہمارا درود و سلام ہو پیغمبر اسلام (ص) اور آپ کی آل پاک پر ۔
ہم اس مقالہ کے آخر میں پیغمبر اسلام (ص) کی ایک سو حدیثیں لکھ رہے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر ہم اپنی دینی و دنیوی زندگی کو کامیاب بنا سکتے ہیں ۔
۱) آدمی جیسے جیسے بوڑھا ہوتا جاتا ہے اس کی حرص اور تمنائیں جوان ہوتی جاتی ہیں ۔
۲) اگر میری امت کے عالم و حاکم فاسد ہوں گے تو امت فاسد ہو جائے گی ۔ اور اگر وہ نیک ہوں گے تو امت نیک ہوگی ۔
۳) تم سب ، آپس میں ایک دوسرے کی دیکھ ریکھ کے ذمہ دار ہو ۔
۴) مال کے ذریعہ سب کو راضی نہیں کیا جا سکتا مگر اچھے اخلاق کے ذریعہ سب کو خوش رکھا جا سکتا ہے ۔
۵) ناداری ایک بلا ہے ، جسم کی بیماری اس سے بڑی بلا ہے اور دل کی بیماری ( کفر و شرک ) سب سے بڑی بلا ہے ۔
۶) مومن ہمشیہ حکمت کی تلا ش میں رہتا ہے ۔
۷) علم کو بڑھنے سے نہیں روکا جا سکتا۔
۸) انسان کا دل اس ,,پر “ کی مانند ہے جو بیابان میں کسی درخت کی شاخ پر لٹکا ہوا ہوا کے جھونکون سے اوپر نیچے ہوتا رہتا ہے ۔
۹) مسلمان ، وہ ہے ، جس کے ہاتھ و زبان سے مسلمان محفوظ رہےں۔
۱۰) کسی کی نیک کام کے لئے راہنمائی کرنا بھی نیک کام کرنے کے مثل ہے ۔
۱۱) …
۱۲) ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے ۔
۱۳) عورتوں کے ساتھ برا برتاوٴ کرنے میں اللہ سے ڈرو اور جو نیکی ان کے شایان شان ہو اس کو انجام دینے سے پرہیز نہ کرو ۔
۱۴ ) تمام انسانوں کا رب ایک ہے اور سب کا باپ بھی ایک ہے ، سب آدم کی اولاد ہیں اور آدم(ص) مٹی سے پیدا ہوئے ہیں لھذا تم میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزیز وہ ہے جو تقوی میں زیادہ ہے ۔
۱۵ ) ضد ، سے بچو کیوں کہ اس کی بنیاد جہالت پر ہے ، اور اس کی وجہ سے شرمندہ ہونا پڑتا ہے ۔
۱۶ ) سب سے برا انسان وہ ہے جو دوسروں کی غلطیوں کو معاف نہ کرتا ہو اور نہ ہی دوسروں کی لغزشوں کو نظر انداز کرتا ہو،ا اور اس سے بھی برا وہ ہے جس سے دوسرے انسان امان میں نہ ہوں اور نہ اس سے نیکی کی توقع رکھتے ہوں ۔
۱۷ ) غصہ نہ کرو اور اگر غصہ آجائے تو اللہ کی قدرت کے بارے میں غور کرو۔
۱۸ ) جب تمہاری تعریف کی جائے تو کہو اے اللہ تو مجھے اس سے اچھا بنادے جو یہ گمان کرتے ہیں ، اور جو یہ نہیں جانتے اسے معاف کردے اور جو یہ کہتے ہیں مجھے اس کا مسئول قرار نہ دے ۔
۱۹ ) جاپلوس لوگوں کے منھ پر مٹی مل دو ( یعنی ان کو منھ نہ لگاوٴ )
۲۰ ) اگر اللہ کسی بندہ کے ساتھ نیکی کرنا چاہتاہے ، تو اس کے نفس کو اس کا رہبر و واعظ قرار دیتا ہے ۔
۲۱ ) مومن صبح شام اپنی غلطیوں کا گمان کرتا ہے ۔
۲۲) آپ کا سب سے بڑا دشمن نفس امارہ ہے جو آپ ہی ذات میں چھپا ہوا ہے ۔
۲۳) سب سے بہادر انسان وہ ہے جو نفس کی ہوی و ہوس پر غالب رہتے ہیں ۔
۲۴) اپنے نفس کی ہوی و ہوس سے جنگ کرو تاکہ اپنے وجود کے مالک رہو۔
۲۵ ) خوش قسمت ہیں وہ افراد جو اپنی برائیوں پر توجہ دینے کی وجہ سے دوسروں برائیاں تلاش نہیں کرتے ۔
۲۶ ) سچ ، سے دل کو سکون ملتا ہے اور جھوٹ سے پریشانیاں بڑھتی ہیں ۔
۲۷ ) مومن دوسروں سے محبت کرتا ہے اور دوسرے اس سے محبت کرتے ہیں ۔
۲۸) مومن آپس میں ایک دوسرے سے اسی طرح وابستہ رہتے ہیں جسیے کسی عمارت کے تمام اجزاء ایک دوسرے سے وابستہ رہتے ہیں ۔
۲۹) مومنین کی آپسی دوسی و محبت کی مثال جسم جیسی ہے جب جسم کے کسی حصہ میں درد ہوتاہے تو باقی حصہ بھی بے آرامی محسوس کرتے ہیں ۔
۳۰) تمام انسان آپس میں کنگھے دانتوں کی طرح برابر ہیں ۔
۳۱ ) علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے ۔
۳۲) فقیری ذلت سے ، دولت عقلمندی سے اور عبادت فکر سے بڑھ کر نہیں ہے ۔
۳۳) گہوارہ سے گور تک علم حاصل کرو۔
۳۴) علم حاصل کرو چاہے وہ چین ہی میں کیوں نہ ہو۔
۳۵ ) مومن کی شرافت رات کی عبادت میں اور اسکی عزت دوسروں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانے میں پوشیدہ ہے ۔
۳۶) صاحبان علم ، علم کے پیاسے ہوتے ہیں ۔
۳۷) لالچ انسان کو اندھا اور بہرہ بنا دےتا ہے ۔
۳۸) ․․․․․․․․․
۳۹) پرہیزگاری ، انسان کے جسم و روح کو سکون پہنچاتی ہے ۔
۴۰) اگر کوئی انسان چالیس دن تک صرف اللہ کے لئے زندگی بسرکرے تو اس کی زبان سے حکمت کے چشمہ جاری ہوں گے ۔
۴۱) مسجد کے گوشہ میں تنہا بیٹھنے سے زیادہ اللہ کو یہ پسند ہے کہ انسان اپنے خاندان کے ساتھ رہے ۔
۴۲) آپ کا سب سے اچھا دوست وہ ہے جو آپ کو آپ کے عیبوں کی طرف متوجہ کرے ۔
۴۳) علم کو کتابت کے ذریعہ محفوظ کرو ۔
۴۴) جب تک دل صحیح نہ ہوگا ایمان صحیح نہیں ہو سکتا اور جب تک زبان صحیح نہیں ہو گی دل صحیح نہیں ہوسکتا۔
۴۵) جب تک کسی کی عقل کو نہ آزما لو اس وقت تک ․․․․․․
۴۶) تنہا عقل کے ذریعہ ہی نیکی تک پہونچا جا سکتا ہے لھذ ا جس کے پا س عقل نہیں ہے اس کے پاس دین بھی نہیں ہے ۔
۴۷) نادان انسان ، دین کو ، اسے تباہ کرنے والوں سے بھی زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں ۔
۴۸ ) میری امت کے ہر عقل مند انسان پر چار چیزیں واجب ہیں ، علم حاصل کرنا ، اس کے مطابق عمل کرنا ، اس کی حفاظت کرنا ، اور اسے پھیلانا ۔
۴۹) مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جا سکتا ۔
۵۰) میں اپنی امت کی فقیری سے نہیں بلکہ بے تدبیری سے ڈرتا ہوں ۔
۵۱) اللہ زیبا و زیبائی کو پسندکرتا ہے ۔
۵۲) اللہ ہر صاحب فن مومن سے محبت کرتا ہے ۔
۵۳) مومن ، چاپلوس نہیںہوتا۔
۵۴) طاقتور وہ نہیں ، جس کے بازو مضبوط ہوں ، بلکہ طاقتور وہ ہے جو اپنے غصہ پر غالب آجائے ۔
۵۵) ․․․․․․․․․․․
۵۶) سب سے اچھا گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم عزت کے ساتھ زندگی بسر کرتاہو۔
۵۷) کتنا اچھا ہو اگر حلال دولت کسی نیک انسان کے ہاتھ میں ہو۔
۵۸) موت کے بعد عمل کا دروازہ بند ہوجاتا ہے مگر تین چیزیں ایسی ہیں جن کے ذریعہ ثواب ملتا رہتا ہے ، صدقہ ٴ جاریہ ، مسلسل فائدہ پہونچانے والاعلم اور نیک اولاد جو والدین کے لئے دعائے خیر کرے ۔
۵۹) اللہ کی عبادت کرنے والے تین گروہ میں تقسیم ہیں
پہلا گروہ : ان لوگوں کا ہے جو اللہ کی عبادت ڈر سے کرتے ہیں اور یہ غلاموں والی عبادت ہے ۔
دوسرا گروہ : ان افراد پر مشتمل ہے جو اللہ کی عبادت انعام کی لالچ میں کرتے ہیں اور یہ تاجروں والی عبادت ہے ۔
تیسرا گروہ : ان لوگوں کا ہے جو اللہ کی عبادت اس کی محبت میں کرتے ہیں اور یہ آزاد اانسانوں کی عبادت ہے
۶۰) ایمان کی تین علامتیں ہیں ، تنگ دست ہوتے ہوئے بھی دوسروں کو سہارا دینا ، دوسروں کو فائدہ پہونچانے کے لئے اپنے حق کو چھوڑ دینا اور صاحبان علم سے علم حاصل کرنا ۔
۶۱) اپنے دوستوں سے دوستی کا اظہار کرو تاکہ آپسی محبت مضبوط ہوجائے ۔
۶۲ ) دین کے لئے تین گروہ خطرناک ہےں ، بے عمل عالم ،باعمل جاہلاور ظالم امام۔
۶۳) انسانوں کو ان کے دوستوں کے ذریعہ پہچانوں ، کیوں کہ ہر انسان اپنے ہم مزاج افرا د کو دوست بناتا ہے ۔
۶۴) مخفی گناہوں سے صرف گناہ گار کو نقصان پہنچتا ہے لیکن ظاہری گناہوں سے پورے سماج کو ۔
۶۵) اموردنیا میں کامیابی کے لئے کوشش کرو لیکن آخرت کے لئے اس طرح کوشش کرو جیسے ہمیں اس دنیا سے کل ہی اٹھ جانا ہے۔
۶۶) رزق کو زمین کی تہہ میں تلاش کرو ۔
۶۷ ) اپنی زبان سے اپنی تعریف کرنے سے انسان کی قدر کم ہوجاتی ہے اور انکساری سے انسان کی عزت بڑھتی ہے ۔
۶۸ ) اے اللہ ! میری زیادہ روزی مجھے بڑھاپے میں عطا کرنا ۔
۶۹) باپ پر بیٹے کے جو حقوق ہیں ان میں سے یہ بھی ہےں کہ اس کا اچھا نام رکھے اسے تعلیم دلائے اور بالغ ہونے پر اس کی شادی کرے ۔
۷۰) جس کے پاس قدرت ہوتی ہے وہ اسے اپنے فائدہ کے لئے استعمال کرتا ہے ۔
۷۱ ) اعمال کے ترازو میں سب سے وزنی چیز خوش اخلاقی ہوگی ۔
۷۲ ) عقل مند انسان جن تین چیزوں کی طرف توجہ دیتے ہیں وہ یہ ہیں ، زندگی کا سکھ ، توشہٴ آخرت اور حلال عیش۔
۷۳ ) خوش قسمت ہیں وہ افراد جو اضافی دولت کو دوسروں میں تقسیم کر دیتے ہیں اور اضافی باتوں کو اپنے پاس محفوظ کر لیتے ہیں ۔
۷۴) موت ہم کو ہر غلط چیز سے بے نیاز کر دیتی ہے ۔
۷۵) انسان حکومت و مقام کے لئے کتنی حرص کرتا ہے اور عاقبت میں کتنے رنج و پریشانیاں برداشت کرتاہے ۔
۷۶) سب سے بدتر انسان بے عمل عالم ہے ۔
۷۷) جہاں پر حاکم بدکارہوں گے اور جاہلوں کو عزت دی جائے گی وہاں پر بلائیں نازل ہوں گی ۔
۷۸) لعنت ہو ان لوگوں پر جو اپنے کام دوسروں پر تھوپتے ہیں ۔
۷۹) انسان کی خوبصورتی اس کی گفتگو میں ہے ۔
۸۰ ) عبادت کی سات قسمیں ہیں اور ان میں سب سے بڑی عبادت رزق حلال حاصل کرنا ہے ۔
۸۱) سماج میں عادل حکومت کا پایا جانا اور قیمتوں کا کم ہونا اس بات کی نشانی ہے کہ اللہ اس سماج سے خوش ہے ۔
۸۲) ہر قوم اسی حکومت کے قابل ہے جو ان کے درمیان پائی جاتی ہے ۔
۸۳ ) غلط بات کہنے سے کینہ کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
۸۴ ) بت پرستی کی بات مجھے جس چیز سے منع کیا گیا وہ لوگوں کے ساتھ -․․․․․․․․․
۸۵ ) جو کام بغیر غور و فکر کے کیا جاتا ہے اس میں نقصان کا احتمال زیادہ پایا جاتا ہے ۔
۸۶) ․․․․․․․․․․․․
۸۷) دوسروں سے کسی چیز کا سوال نہ کرو چاہے وہ مسواک کی لکڑی ہی کیوں نہ ہو۔
۸۸) اللہ کو یہ پسند نہیں کہ کوئی اپنے دوستوں کے درمیان کوئی خاص فرق قائم کرے ۔
۸۹) اگر کسی چیز کو فال بد سمجھو تو اپنے کام کو پورا کرو، اگر کسی بری چیز کا خیال آئے تو اسے بھول جاوٴ اور اگر حسد پیدا ہو تو اس سے بچو ۔
۹۰)ایک دوسرے سے محبت سے ہاتھ ملاوٴ تاکہ کینہ دور ہو ۔
۹۱) جو صبح اٹھ کر مسلمانوں کے امور کی اصلاح کے بارے میں غور و فکر نہ کرے وہ مسلمان نہیں ہے ۔
۹۲) خوش اخلاقی دل سے کینہ کو دور کرتی ہے ۔
۹۳) سچائی بیان کرنے میں لوگوں سے نہیں ڈرنا چاہیئے ۔
۹۴ ) عقل مند انسان وہ ہے جو دوسروں کے ساتھ مل جل کررہے ۔
۹۵) ایک سطح پر زندگی بسر کرو تاکہ تمہار ادل بھی ایک سطح پر رہے ، ایک دوسرے سے ملو جلو تاکہ آپس میں محبت رہے ۔
۹۶ ) موت کے وقت ، لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا مال چھوڑا ؟ اور فرشتہ پوچھتے ہیں کہ نیک کام کیا کیاکیئے ؟
۹۷) وہ حلال کام جس سے اللہ کو نفرت ہے ، طلا ق ہے ۔
۹۸) سب سے بڑا نیک کام لوگوں کے درمیان صلح و صفائی کراناہے ۔
۹۹) اے اللہ ! تو مجھے علم کے ذریعہ بزرگی عطا کر ، بردباری کے ذریعہ زینت عطا کر ، پرہیز گاری کے ذریعہ محترم بنااور تندرستی کے ذریعہ خوبصورتی عطا کر ۔
source : http://www.abna.ir