یہ علی علیہ السلام کا خاندانی پس منظر تھا اب آئیے دیکھیں کہ علی علیہ السلام کا ذاتی کردار کیا تھا ۔اور انہوں نے رسول اسلام(ص) کی کیا خدمات کی اور خود اسلام کی کس قدر انہوں نے خدمت کی ؟
جہاں تک علی او راسلام کے باہمی ارتباط کاتعلق ہے تو ہم اس مقام پر مصر کے اسکالر "عقاد"کے ساتھ ہم نوا ہوکر کہیں گے :
"انّ علیا کا المسلم الخالص علی سجیّتہ المثلی و انّ الدین الجدید لم یعرف قظّ اصدق اسلاما منہ ولا اعمق نفاذا فیہ ۔(2)
علی (علیہ السلام) اپنی آئیڈیل فطرت کی وجہ سے مسلم خالص تھے اور نئے دین نے علی (ع) سے بڑھ کر کسی کے سچے اورگہرے اسلام کا مشاہدہ نہیں کیا تھا ۔
ڈاکٹر طہ حسین اپنی کتاب الفتنتہ الکبری ،عثمان بن عفان 101پر لکھتے ہیں :- جب رسول خدا(ص) نے اعلان نبوت فرمایا تو علی (ع) اس وقت بچے تھے ۔انہوں نے فورا اسلام قبول کیا اور اسلام کےبعد وہ رسول خدا (ص) اور حضرت خدیجۃ الکبری کی آغوش میں پرورش پاتے رہے ۔انہوں نے پوری زندگی میں کبھی بھی بتوں کے سامنے سر نہیں جھکایا تھا ۔
سابقین اولین اور علی علیہ السلام میں سب سے واضح فرق یہ ہے کہ انہوں نے منزل وحی میں پرورش پائی اور یہ شرف ان کے علاوہ کسی اور کو نصیب نہیں ہوا ۔
اسی تربیت وکفالت کا اثر تھا کہ علی ایک عدیم المثال شخصیت بن کر ابھرے ۔بہر نوع علی علیہ السلام کی ذات کا مطالعہ علم النفس یا علم الاجتماع جس بھی حوالے سے کیاجائے علی ہر لحاظ سے لاجواب ،بینظیر اور لا شریک ہو کر سامنے آتے ہیں ۔
علی علیہ السلام کی ذات کو سمجھنے کے لئے درج ذیل مثالوں کو مدنظر رکھیں ۔علی علیہ السلام کی جانثاری اور فداکاری کیلئے شب ہجرت کے واقعات کا تصور کریں ۔
1:- شب ہجرت
ابن ہشام لکھتے ہیں :- جب قریش نے دیکھا کہ اسلام روزبروز ترقی کر رہا ہے اور اسلام کے پیرو اب مکہ کے علاوہ دیگر شہروں بالخصوص یثرب میں بھی ہیں اور حضور کے کافی پیروکار ہجرت کرکے یثرب روانہ ہوچکے ہیں ۔اس کے ساتھ انہیں یہ یقین ہوگیا کہ رسول خدا (ص) بھی مکہ چھوڑ کر کسی وقت یثرب چلے جائیں گے ۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کیلئے انہوں نے اپنے بزرگوں کو دارالندوہ میں دعوت دی ۔
کفار مکہ کے سربراہوں میں عتبہ ،شیبہ اور ابو سفیان بھی تھے ۔دوران بحث یہ مشورہ دیا گیا کہ حضور اکرم (ص)کو قید کیا جائے یا انہیں یہاں سے نکال دیا جائے ۔لیکن ان کے دونوں باتوں کو کثرت رائے سے مسترد کردیا گیا ۔
چنانچہ رائے یہ قرار پائی کہ مکہ کے ہر قبیلہ کا ایک ایک فرد لیا جائے اور ایک مخصوص شب میں حضور (ص) کو قتل کردیا جائے ۔قتل میں زیادہ قبائل کی موجود گی کا یہ فائدہ ہوگا کہ عبد مناف کی اولاد بدلہ نہیں لے سکے گی ۔اور یوں ان کا خوف رائگاں ہوجائیگا ۔جب حضور نے متفرق قبائل کے افراد کو اپنے دروازے پہ دیکھا تو علی ابن ابی طالب کو حکم دیا کہ وہ ان کے بستر پر انہی کی چادر تان کر سوجائیں (3)۔
ابو طالب کے فرزند کے لئے قتل گاہ قریش گل تھی ۔جب رسولخدا(ص) نے فرمایا کہ میری جان کو خطرہ ہے تم میرے بستر پر سوجاؤ تو اس وقت علی (ع) نے بڑے جذباتی انداز میں پوچھا : یا رسول اللہ کیا میرے سونے سے آپ کی جان بچ جائیگی ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! پھر حضور اکرم (ص) نے علی(ع) کو حکم دیا کہ وہ اہل مکہ کی تمام امانتیں ان تک پہنچائیں ۔
حضرت علی (ع) رسول خدا (ص) کی ہجرت کے بعد تین دن تک مکہ میں رہے اور کفار ومشرکین کی امانتیں واپس کیں ۔جب اس فریضہ سے فارغ ہوگئے تو پیادہ پا چلتے ہوئے مدینہ آئے اور پیدل چلنے کی وجہ سے انکے پاؤں متورم ہوچکے تھے (4)۔
2:-موخات
ہجرت کے بعد رسول خدا (ص) نے مہاجرین وانصار کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا ۔
جب علی علیہ السلام نے موخات کا یہ منظر دیکھا تو آبدیدہ ہوگئے ۔رسول خدا (ص) نے ان سے رونے کاسبب دریافت کیا تو انہوں نے عرض کیا آپ نے اپنے اصحاب کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا ۔لیکن مجھے کسی کا بھائی نہیں بنایا ۔ تو رسول خدا(ص) نے فرمایا "انت اخی فی الدنیا و الآخرۃ " تو دنیا اور آخرت میں میر ا بھائی ہے (5)۔
3:- جنگ احد اور علی (علیہ السلام)
جنگ احد میں جب اسلامی لشکر کو پسپائی ہوئی اور صحابہ کرام پہاڑوں پر چڑھ رہے تھے تو اس وقت حضرت علی (ع) پوری جانفشانی سے لڑتے رہے اور کوہ
استقامت بن کر دشمنوں سے نبرد آزمائی کرتے رہے ۔ الغرض ابو طالب کا بیٹا پورے میدان پر چھا گیا اسی مقام پر ہاتف غیبی نے ندا دی تھی "لا سیف الّا ذولفقار ولا فتی الاّ علی " اگر تلوار ہے تو ذولفقار ہے اور اگر جواں مرد ہے تو حیدر کرار ہے ۔
الغرض اسلام اور رسول اسلام کی حفاظت کے بعد جب واپس گھر آئے تو اپنی زوجہ حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کو اپنی تلوار پکڑاتے ہوئے یہ شعر کہے :-
افاطم ھاک السیف غیر ذمیم ۔۔۔۔۔فلست برعدیر ولا بملیم
لعمری لقد قاتلت فی حب احمد۔۔۔۔۔وطاعۃ رب بالعباد رحیم
فاطمہ ! یہ تلوار لو ،یہ تلوار تعریف کے قابل ہے ۔میدان جنگ میں میں ڈرنے اور کانپنے والا نہیں ہوں ۔
مجھے اپنی زندگی کی قسم میں نے محمد مصطفی کی محبت اور مہربان اللہ کی اطاعت میں جہاد کیا ہے (6)۔
4:- علی(ع) اور تبلیغ براءت
محمد بن حسین روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ احمد بن مفضل نے بیان کیا وہ کہتے ہیں یہ روایت اسباط نے سدی سے کی ہے سعدی کہتے ہیں :-
جب سورہ براءۃ کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں تو رسول خدا نے حضرت ابو بکر کو امیر حج بنایا اور وہ آیات بھی ان کے حوالے فرمائیں اور ارشاد فرمایا کہ تم حج کے اجتماع میں یہ آیات پڑھ کرسناؤ ۔
ابو بکر آیات لے کر روانہ ہوئے ،جب وہ مقام ذی الحلیفہ کے درختوں کے قریب پہنچے تو پیچھے سے علی (ع) ناقہ رسول پر سوار ہو کر آئے اور آیات ابو بکر سے لے لیں ۔حضرت ابو بکر رسول خدا(ص) کی خدمت میں واپس آئے اور عرض کیا
یارسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں کیا میرے متعلق کوئی آیت نازل ہوئی ؟ آپ نے فرمایا نہیں ۔میری طرف سے پیغام کو یا میں خود پہنچاسکتا ہوں یا علی (ع) پہنچاسکتے ہیں ۔(7)
5:- علی (ع) تبلیغ اسلام کے لیے یمن جاتے ہیں
رسول خدا نے یمن میں تبلیغ اسلام کے لئے خالد بن ولید کوروانہ فرمایا لیکن اس کی دعوت پر کوئی بھی شخص مشرف بہ اسلام نہ ہوا ۔تو اس کے بعد حضور اکرم(ص) نے حضرت علی (ع) کو اسلام کو مبلغ بنا کر یمن روانہ کیا اور انہیں حکم دیا کہ وہ خالد اور اس کے ساتھیوں کو واپس بھیج دیں ۔
حضرت علی نے جاتے ہی خالد کو اس کے دوستوں سمیت واپس روانہ کردیا اور اہل یمن کے سامنے رسول خدا(ص) کا خط پڑھ کرسنایا ۔جس کے نتیجہ میں قبیلہ ہمدان ایک ہی دن میں مسلمان ہوگیا (8)۔
6:- ہارون محمدی
حضرت علی (ص) غزوہ تبوک کے علاوہ باقی تمام جنگوں میں شریک ہوئے اور غزوہ تبوک کے موقع پر بھی جناب رسولخدا(ص) نے انہیں مدینہ میں اپنا جانشین بنا کر ٹھہرایا ۔
امام مسلم بن حجاج نے اس واقعہ کو یوں نقل کیا ہے :
حدثنا یحیی التمیمی وابو جعفر محمد بن الصباح وعبد اللہ القواریری وسریح بن یونس عن سعید بن المسیب عن عامر بن سعد بن ابی وقاص عن ابیہ قال قال رسول اللہ (ص) لعلی (ع) انت منی بمنزلۃ ھارون من موسی غیر انہ لانبی بعدی ۔
وحدثنا ابوبکر بن شبیہ عن سعد بن ابی وقاص قال ۔خلف رسول اللہ (ص) علیا ،فی غزوہ تبوک فقال یارسول اللہ (ص)تخلفنی فی النساء والصبیان ؟ قال اما ترضی ان تکون منی بمنزلۃ ھارون من موسی غیر انہ لانبی بعدی ۔
سعد بن ابی وقاص بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے علی (ع) سے فرمایا تم کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسی سے تھی ۔ فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے ۔
سعد بن ابی وقاص بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا نے غزوہ تبوک کے موقع پر علی (ع) کو مدینہ میں ٹھہرنے کا حکم دیا تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں ٹھہرکر جارہے ہیں ؟
رسول خدا(ص) نے فرمایا : کیا تم اس اس بات پر راضی نہیں کہ تم کہ مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسی سے تھی مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے ۔
7:- فاتح خیبر
جب صحابہ کرام خیبر فتح کرنے میں ناکام ہوئے اور لشکر یہود کے سامنے کئی دفعہ پشت دکھائی رسولخدا(ص) نے اعلان فرمایا :- لاعطین ھذہ الرّایۃ رجلا یحب اللہ ورسولہ ویحبہ اللہ ورسولہ یفتح اللہ علی یدیہ ۔"
"کل میں اسے علم دونگا جو مرد ہوگا ۔اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوگا اور اللہ اور رسول بھی اس سے محبت کرتے ہوں گے ۔اللہ اس کے ہاتھ سے خیبر فتح کرائے گا "۔
حضرت عمر کہتے ہیں کہ میں نے پوری زندگی میں بس اس دن امارت کی تمنا کی تھی اور ساری رات نوافل میں گزاری کہ شاید صبح علم اسلامی مجھے مل جائے ۔
جب صبح ہوئی تو رسول خدا(ص) نے علی (ع) کو بلایا اور انہیں علم عطا فرمایا (9)۔
ان سب حقائق کے علاوہ منصب خلافت بلافصل کے لئے علی (ع)کی اہلیت کے لیے درج ذیل امور بھی مد نظر رکھنے چاہییں:-
الف :- حضرت علی (ع) دین اسلام کے جوہر کو خوب سمجھنے والے تھے ۔وہ ایمان کے جملہ اطراف وآفاق کا احاطہ رکھتے تھے ۔علی اکثر رسول خدا (ص) کے ساتھ خلوت میں بیٹھ کر گفتگو کیا کرتے تھے اور لوگوں کو اس گفتگو کوئی علم نہیں ہوتا تھا ۔
آپ قرآن مجید کے معانی ومفاہیم کے لئے رسول خدا(ص) سے زیادہ سے زیادہ استفسار کرتے تھے ۔
اور اگر علی سوال میں ابتدا نہ کرتے تو رسول خدا خود ہی ابتدا کردیتے ،جب کہ علی کے علاوہ باقی لوگ چند قسموں میں تقسیم تھے ۔
1:- کچھ ایسے تھے کہ حضور اکرم سے سوال کرتے ہوئے گھبراتے تھے اور ان کی تمنا ہوتی تھی کہ کوئی اعرابی یا مسافر آکر حضور سے کچھ پوچھے اور وہ سن لیں ۔
2:- کچھ ایسے تھے کہ حضور اکرم سے سوال کرتے ہوئے گھبراتے تھے اور ان کی تمنا ہوتی تھی کہ کوئی اعرابی یا مسافر آکر حضور سے کچھ پوچھے اور وہ سن لیں ۔
3:- کچھ لوگ عبادت یا دنیاوی کاروبار کی وجہ سے فہم وادراک کی نعمت سنے خالی تھے ۔
4:- کچھ اسلام سے عداوت وبغض کو چھپائے تھے اور وہ دینی مسائل کے یاد رکھنے کو وقت کا ضیاع تصور کرتے تھے ۔(10)۔
ب:- رسول خدا (ص) آپ کو جانشین بنانے کے لئے اور خود اعتمادی پیدا کرنے کی غرض سے آپ کو اہم مقامات پر روانہ کیا کرتے تھے ۔ جہاں سے آپ ہمیشہ مظفر منصور ہوکر لوٹا کرتے تھے ۔
رسول خدا (ص) نے جب بھی کوئی مہم روانہ فرمائی تو اگر اس مہم میں علی (ع) شامل ہوتے تھے تو علی اس مہم کے امیر اور انچارج ہوا کرتے تھے ۔
رسول خدا (ص) کی پوری زندگی میں علی (ع) کسی کی ماتحتی میں کبھی روانہ نہیں ہوئے اور اس کے برعکس حضرت ابو بکر وحضرت عمر کو متعدد مرتبہ لوگوں کی ماتحتی میں روانہ کیا گیا ۔
تاریخ کی ستم ظریفی دیکھیے کہ حضرت ابو بکر نے اپنے دور خلافت میں حضرت عمر کی ذہنی وعملی تربیت کی تھی ۔چنانچہ جس شخص کی انہوں نے خود تربیت کی تھی ۔اس کی خلافت کے لئے نامزدگی کا انہوں نے اعلان کردیا اور لوگوں نے بھی ان کی خلافت کو تسلیم کرلیا ۔ لیکن جس شخصیت کی تربیت معلم اعظم جناب رسول خدا نے کی انہیں لوگوں نے خلافت سے محروم کردیا ۔
ج:- جیش اسامہ :-
جناب رسول خدا(ص) اپنی وفات سے پہلے علی (ع9 کی خلافت کے لئے میدان صاف کرنا چاہتے تھے اور جن لوگوں کے متعلق آپ کو مخالفت کا گمان تھا انہیں مدینہ سے باہر روانہ کرنا چاہتے تھے ۔ اس کے لئے جیش اسامہ کا حال ابن سعد کی زبانی سنیئے ۔:-
ماہ صفر کے اختتام میں چار راتیں باقی تھیں سوموار کادن 11ھ کو جناب رسول خدا(ص) نے رومیوں پر حملہ کرنے کا حکم صادر فرمایا ۔
جب صبح ہوئی تو آپ نے اسامہ بن زید کو بلا کرفرمایا ۔تم لشکر لے کر وہاں چلے جاؤ جہاں تمہارے والد کو شہید کیا گیا تھا ۔اس علاقہ کو اپنے گھوڑوں س پامال کر دو ۔اہل ابنی پر صبح کے وقت یلغار کرنا اور اس بات کا خصوصی خیال رکھنا کہ وہ تمھارے آنے سے بے خبر رہنے چاہئیں اور اگر خدا تمہیں کا میابی عطا فرمائے تو وہاں زیادہ دیر نہ رکنا ۔اپنے ساتھ راہ دکھانے والے افراد اور جاسوسوں کو لے کر روانہ ہوجاؤ ۔
جب بدھ کا دن ہوا تو حضور اکرم (ص) سخت بیمار ہوگئے اور پھر جمعرات کے دن آپ نے اپنے ہاتھوں سے پر چم تیار کیا اور فرمایا :
اسامہ! اللہ کا نام لے کر چلے جاؤ اور خدا کے لئے جہاد کرو اور منکرین توحید سے جنگ کرو ۔
آپ نے وہ پر چم بریدہ بن حصیب اسلمی کے حوالہ فرمایا ۔اسامہ کا لشکر "جرف" کے مقام پر فروکش ہوا ۔اس لشکر میں مہاجرین وانصار کے سرکردہ افراد بھی شریک تھے ۔ جن میں ابو بکر ،عمر اور ابو عبیدہ بن جراح سرفہرست تھے لوگوں نے اسامہ کی سربراہی پر اعتراض کیا اور کہنے لگے کہ مہاجرین وسابقین پر بچہ کو سربراہ بنادیا گیا ۔
جب رسول خدا(ص) کو لوگوں کے اعتراضات کا پتہ چلا تو آپ سخت ناراض ہوئے ۔آپ سرپر پٹی باندھ کر گھر سے باہر آئے اور منبر بیٹھے اور فرمایا :
لوگو! میں یہ کیسی گفتگو سن رہا ہوں کہ تم لوگوں نے اسامہ کے امیر لشکر ہونے پر اعتراض کئے ہیں اور سن لو اعتراض کی یہ عادت تمہیں آج سے نہیں ہے ۔اس سے پہلے بھی تم نے اسامہ کے والد زید کی امارت پر اعتراض کیاتھا ۔
خدا کی قسم ! وہ امارت کے لائق تھا اور اس کے بعد اس کا بیٹا بھی امارت کے قابل ہے ۔اسامہ اوراس کے والد کا تعلق میرے محبوب ترین افراد سے ہے دونوں باپ بیٹے اچھے ہیں ۔تم لوگوں کو بھی ان سے اچھائی کرنے کی تلقین کرتا ہوں یہ تمہارے بہترین لوگوں میں سے ہے ۔
خدا کی قسم! وہ امارت کے لائق تھا اور اس کےبعد اس کا بیٹا بھی امارت کے قابل ہے ۔اسامہ اور اس کے والد کا تعلق میرے محبوب ترین افراد سے ہے دونوں باپ بیٹے اچھے ہیں ۔تم لوگوں کو بھی ان سے اچھائی کرنے کی تلقین کرتا ہوں یہ تمہارے بہترین لوگوں میں سے ہے ۔
اس کے بعد آپ نے خطبہ دیا اور اپنے بیت الشرف تشریف لے گئے آپ نے یہ خطبہ دس ربیع الاول بروز ہفتہ دیا تھا ۔اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طبیعت زیادہ ناساز ہوگئی آپ بار بار فرماتے رہے ۔اسامہ کے لشکر کو روانہ کرو ۔
جب اتوار کا دن ہواتو رسول خدا(ص) کی تکلیف بڑھ گئی ۔اسامہ آپ سے الوداع کرنے کے لئے آئے تو اس وقت آپ کی طبیعت انتہائی ناساز ہوچکی تھی ۔ اسامہ سے زیادہ گفتگو نہ کرسکے ،اپنے ہاتھوں کو آسمان کی جانب بلند فرمایا اور اسامہ کے سرپر ہاتھ رکھا ۔
اسامہ کہتے ہیں کہ میں سمجھ گیا کہ آپ میرے لئے دعا فرمارہے ہیں ۔بعد ازاں اسامہ اپنے لشکر کے پاس آئے اور حکم دیا کہ خدا کا نام لے کرچل پڑوابھی یہ لشکر روانہ نہیں ہوا تھا کہ حضور اکرم کی وفات ہوگئی (11)۔
ابن سعد کے بیان کردہ واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ :
1:-حضور اکرم(ص) نے اپنی وفات سے چند ایام قبل شام وروم کی طرف ایک لشکر تیار فرمایا ۔
2:- اسامہ بن زید جو کہ صغیر السن تھے ،انہیں اس لشکر کا امیر مقرر کیا گیا ۔
3:-اسامہ کے لشکر میں سابقین اولین اور بالخصوص حضرات شیخین اور ابو عبیدہ بن جراح بھی شامل تھے ۔
4:- جب لشکر نے تاخیری حربے شروع کئے تو رسول خدا ناسازی طبع کے باوجود سرپر پٹی باندھ کر مسجد میں تشریف لائے۔
5:- امارت اسامہ پر اعتراض کرنے والوں پر کڑی تنقید فرمائی اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی فرمایا کہ یہ ان کی پرانی عادت ہے ۔یہی معترضین اسامہ کے والد زید کی امارت پر بھی اعتراض کیا کرتے تھے ۔ مگر زید امارت کے حق دار تھے ۔ اسی طرح اعتراض کے باوجود بھی اسامہ امارت کے حقدار ہیں ۔
6:-رسول خدا(ص) کی جانب سے باربار لشکر اسامہ کو روانہ کرنے کے حکم کے باوجود اہل لشکر نے تعمیل حکم نہ کی اور "جرف" میں ٹھہرے رہے ۔
7:- اپنی زندگی کے آخری ایام میں رسول خدا بار بار اسامہ کے لشکر کو بھیجنے کے خواہش مند کیوں تھے ؟
8:- حضرات شیخین اور بزرگ مہاجرین کو کمسن اسامہ کی ماتحتی میں بھیجنے کا آخر کیا مقصد تھا ؟
9:- تاکیدی احکام سننے کے باوجود بھی لوگوں نے جانے میں تاخیر کی ؟
کہیں حقیقت یہ تو نہیں ہے کہ رسول خدا (ص) اپنی وفات سے پہلے ہر ممکنہ مزاحمت کو ختم کرنا چاہتے تھے اور مدینہ کی سرزمین کو علی (ع) کی خلافت کے لئے سازگار بنانا چاہتے تھے ؟
اور کیا جیش اسامہ کو روانہ کرنے اور کاغذ اور قلم دوات طلب کرنے میں کوئی باہمی ارتباط تو نہیں تھا ؟
اے کاش ! اگر شیخین تاخیری حربوں سے اسامہ متاثر نہ ہوتے اور لشکر کو لے کر روانہ ہوجاتے تو آج اسلامی تاریخ کسی اور طرح سے لکھی جاتی اور آج مسلمان قوم یوں زبوں حالی کا شکار نہ ہوتی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1):-تاریخ ابن خلدون جلد دوم ص 179-180
(2):-عبقریۃ الامام ۔ازاستاد عقاد ص 13
(3):- سیرت ابن ہشام جلد دوم ص 95
(4):- تاریخ ابن خلدون جلد دوم ص 187 و ابن اثیر الکامل فی التاریخ جلد دوم ص 75
(5):-سیرت ابن ہشام جلد دوم ص 95-111
(6):- تاریخ طبری جلد سوم ص 154 ومروج الذہب مسعودی جلد دوم ص 284۔
(7):- تاریخ طبری جلد سوم ص 154
(8):- ابن اثیر الکامل فی التاریخ جلد دوم ص 35
(9):- صحیح مسلم جلد دوم ص 324
(10):- ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ جلد سوم ص 17
(11):-طبقات ابن سعد جلد چہارم ص 3-4
source : http://www.alhassanain.com