اردو
Tuesday 30th of April 2024
0
نفر 0

آنحضرت(صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کی زندگی کے بعض گوشے

جس دور میں دعوت اسلام کے اظہار پر مال ومقام کی پیشکش اور دہمکیاں اپنی آخری حد کو پھنچ گئیں، قریش نے ابو طالب (ع) کے پاس آکر کہا: تمہارے بھتیجے نے ہمارے خداؤں کو برا کہا ، ہمارے جوانوں کو تباہ اور جماعت کو منتشر کردیا۔

اگر اسے مال چاھیے تو ہم اتنا مال ودولت جمع کریں گے کہ تمام قریش میں بے نیاز ترین شخص بن جائے اور جس عورت سے چاہے اس سے شادی کردیں گے، یہاں تک کہ سلطنت وبادشاھی کا وعدہ بھی دیا گیا، لیکن آنحضرت کا جواب یہ تہا : اگرمیرے داھنے ہاتھ پر سورج اوربائیں ہاتھ پر چاند لا کر رکھ دیں پھر بھی میںاس دعوت سے باز نہیں آؤں 

یہ دیکھ کر کہ اس لالچ دلانے کا بھی اثر نہ هوا تو انہوں نے دہمکیوں اور اذیتوں کا سہارا لیا ، جن کا ایک نمونہ یہ ہے کہ جب آپ (ص) مسجد الحرام میں نماز شروع کرتے بائیں جانب سے دوشخص سیٹی اور دائیں طرف سے دو شخص تالیاں بجاتے، تاکہ نماز میں خلل ڈالیں۔  راستہ چلتے وقت آپ (ص) کے سرِمبارک پر خاک پھینکا کرتے اور سجدے کی حالت میں آپ (ص)پر بھیڑ کی اوجھڑی پھینکتے۔ 

حضرت ابوطالب(ع) کی رحلت کے بعد آپ نے قبیلہٴِ ثقیف کے بزرگوں سے تبلیغ ِ دین کے سلسلے میں مدد لینے کے لئے طائف کی جانب سفر کیا، لیکن انہوں نے دیوانوں اور غلاموں کواس بات پر اکسایا کہ آنحضرت(ص) کا پیچہا کر کے آپ کو آزار پھنچائیں۔ آنحضرت (ص)نے ایک باغ میںپناہ لی اور انگور کی بیل کے سائے میں بیٹھ گئے۔ آنحضرت (ص)کی حالت اتنی رقت بار تھی کہ مشرک دشمن کو بھی آپ (ص)کی حالت پر رحم آگیا اور عداس نامی نصرانی غلام سے کہا: انگور توڑ کر اس کے پاس لے جاؤ۔جب غلام نے انگوروں کا طبق آپ (ص) کے پاس لا کررکہا، آپ (ص)نے ہاتھ آگے بڑہاتے هوئے کہا: بسم اللہ ۔

غلام نے کہا: اس شھر کے لوگ تویہ کلمات نہیں بولتے ۔

فرمایا:کس شھر سے هو؟اور تمہارا دین کیاہے؟اس نے کہا: نصرانی هوں اور میرا تعلق نینوا سے ہے ۔

فرمایا :یونس بن متی کے شھرسے ؟

عداس نے کہا: یونس کو کہاں سے جانتے هو؟

فرمایا: وہ میرا بہائی اور پیغمبر تہا، میں بھی پیغمبر هوں۔ یہ سنتے ھی عداس نے آنحضرت (ص) کے ہاتھ پاؤں کا بوسہ لیا۔ 

آنحضرت (ص) کے پیروکاروں کو سخت ترین تشدد کے ذریعے تکالیف میں مبتلا کیا جاتا اور ان میں سے بعض کوجلتی دھوپ میں ڈال کر ان کے سینوں پر بہاری بھر کم پتھر رکہے جاتے لیکن اس کے باوجود ان کی زبان پر یہ کلمات جاری هوتے:”احد، احد۔“

عمار یاسر کی ضعیف العمر اور ناتواں ماں سمیہ کو نہایت شدید اذیتوں میں رکہا گیا تاکہ دین خدا کو چھوڑ دے، آخر کا ر جب وہ بوڑھی خاتون نہ مانی تو اسے دردناک طریقے سے قتل کردیا گیا۔ 

اس قوم سے اتنی زیادہ تکالیف کا سامنا کرنے کے بعد جب آپ (ص) سے ان کے خلاف بد دعا کرنے کو کہا گیا تو فرمایا:((إنما بعثت رحمة للعالمین ))  اور ان مظالم کے مقابلے میں اس قوم پر عنایت ومھربانی کا یہ عالم تہا کہ یہ دعا فرماتے : ”اے پروردگار!میری قوم کو ھدایت فرما کہ یہ نادان ہیں۔ “ 

عذاب مانگنے کے بجائے رحمت کی دعا کیا کرتے۔ رحمت بھی وہ کہ جس سے بڑی رحمت کا تصور نہیں کیا جاسکتا، یعنی نعمت ِ ھدایت۔”قومی“ (میری قوم)کا لفظ استعمال کر کے اس قوم کو خود سے منسوب کردیا کہ اس نسبت سے ان کو عذاب خدا سے بچاؤ کا تحفہ عطا کردیں، خدا کی بارگاہ میں ان کی شکایت کرنے کے بجائے شفاعت کرتے اور ان کی جانب سے یہ عذر پیش کرتے کہ یہ نادان ہیں۔

زندگی گزارنے کا انداز یہ تہا کہ جوکی روٹی خوراک تھی،اس کو بھی کبھی سیرہو کر تناول نہ کیا۔ 

غزوہٴ خندق میں آپ (ص) کی بیٹی صدیقہٴ کبریٰ علیہا السلام، آپ (ص) کے لئے روٹی کا ایک ٹکڑا لائی جو تین دن کے فاقے کے بعد پھلی غذا تھی، جسے آپ (ص) نے تناول فرمایا۔ 

اور زندگی کا یہ اندازتنگدستی کی وجہ سے نہ تہا ، اس لئے کہ اسی زمانے میں آپ (ص) کی بخشش و عطا سو اونٹوں تک بھی پھنچتی تھی۔ 

دنیا سے جاتے وقت نہ آپ (ص) نے درہم و دینار چھوڑے، نہ غلام و کنیز اور نہ ھی کوئی بھیڑ اوراونٹ، بلکہ آپ کی زرہ بھی مدینہ کے ایک یہودی کے پاس تھی، جسے آپ (ص) نے گھر والوں کی غذا کے انتظام کے لئے خریدے گئے بیس صاع جو کے بدلے گروی رکھوایا تہا۔ 

دو نکات کی طرف توجہ ضروری ہے :

۱۔اس میں کوئی شک نہیں کہ آنحضرت (ص) کے مقام ومنزلت اور بے نظیر امانت داری کے هوتے هوئے کوئی بھی آپ سے گروی رکھنے کا تقاضا نہیں کرتا تہا، لیکن یہ سمجہانا مقصود تہا کہ قرض کی تحریری دستاویز نہ هونے کی صورت میں، اسلام کی عظیم ترین شخصیت تک، ایک یہودی کے حق میں بھی قانونِ رھن کا خیال رکہے، جو صاحبِ مال کے لئے وثیقہ ہے ۔

۲۔لذیذ ترین غذائیں فراہم هونے کے باوجود پوری زندگی جو کی روٹی سے اس لئے سیر نہ هوئے کہ کہیں آنحضرت کی غذا رعایا کے نادار ترین فرد کی غذاسے بہتر نہ هو۔

آپ (ص) کے ایثار کا نمونہ یہ ہے کہ وہ بیٹی جس کے فضائل سنی اور شیعہ کتب میں بکثرت ذکر کئے گئے ہیں، قرآن مجید میں مباھلہ اور تطھیرجیسی آیات اور حدیث کساءو عنوان ِ((سیدة نساء اٴھل الجنة))جیسے بلند مرتبہ مضمون پر مشتمل احادیث جو اس انسان کامل میں ممکنہ کمال ِانسانی کے مکمل تحقق کی دلیل ہیں، ایسی بیٹی جس کے توسط سے رسول خدا (ص) کی نسل تاقیات باقی رہے گی، وہ جس کی آغوش میں مطلعِ نجومِ ھدایت اور ائمہ اطہار پروان چڑھتے رہے اور پیغمبر اسلام(ص)کے نزدیک جس کے احترام کا عالم یہ تہا کہ جب بھی آنحضرت (ص)کی خدمت میں تشریف لاتیں آنحضرت(ص) اپنی جگہ پر بٹہاتے اور ہاتھوں کا بوسہ لیا کرتے تہے۔وہ بیٹی جووالد گرامی کی اقتداء میں محراب عبادت میں اتنا قیام کرتیں کہ دونوں پاؤں پر ورم آجاتااور اتنا زیادہ محو عبادت هونے کے باوجود امیر المومنین(ع)کے گھر اس طرح خانہ داری کرتیں کہ ایک دن جب پیغمبر اسلام(ص)تشریف لائے تو آپ بچے کو دودھ پلانے کے ساتھ ساتھ چکی بھی چلا رھی تہیں، آنحضرت (ص) نے آنسوؤں سے تر آنکھوں کے ساتھ یہ رقت بار منظر دیکہا اور فرمایا:((تعجلی(تجرئی)مرارة الدنیا بحلاوة الآخرة))تو آنحضرت کے جواب میں کہا:((یا رسول اللّٰہ(ص))! الحمد للّٰہ علی نعمائہ والشکر للّٰہ علی آلائہ))۔ ایسی بیٹی اپنے چکی چلانے کی وجہ سے گٹے پڑے هوئے ہاتھو ں کولے کر والد گرامی کے پاس کنیز مانگنے کے لئے تو آئی لیکن اپنی حاجت بیان کئے بغیرلوٹ گئی اور وہ باپ جو اگر چاہتا تو بیٹی کے گھر میں رزو جواھر کا انبار لگا سکتا تہا، خدمت گزاری کے لئے غلام اور کنیزیں دے سکتا تہا، اس نے خدمت گزارکے بجائے چونتیس مرتبہ تکبیر، تینتیس مرتبہ تحمید اور تینتیس مرتبہ تسبیح تعلیم فرمائی۔یہ ہے کردار ِحضرت ختمی مرتبت(ص) ،کہ اتنے سخت حالات میں زندگی بسر کرنے والی ایسی بیٹی کے مقابلے میں ناداروں کے ساتھ کس طرح ایثار فرماتے ہیں اور وہ ہے والد گرامی کی صبر کی تلقین کے جواب میں مادی ومعنوی نعمتوں کا شکر بجا لانے والی صدیقہ کبریٰ، جو رضا بقضائے الٰھی میںفنا اور الطاف الھیہ میں استغراق کا ایسا نمونہ پیش کرتی ہے کہ کڑواہٹ کو مٹہاس اور مصیبت وپریشانی کو اس کی نعمت قرار دیتے هوئے ا س پر صبر کے بجائے حمد وشکر کو اپنی ذمہ داری سمجھتی ہے ۔

آپ (ص)کے اخلاق وکردار کا نمونہ یہ ہے کہ خاک پر بیٹھتے غلاموں کے ساتھ کہانا کہاتے اور بچوں کوسلام کرتے تہے ۔

ایک صحرانشین عورت آپ (ص) کے پاس سے گزری تو دیکہا آ پ (ص) خاک پر بیٹہے کہانا کہا رہے ہیں۔ ا س عورت نے کہا:اے محمد (ص)!تمہاری غذا غلاموں جیسی ہے اور بیٹھنے کا انداز بھی غلامو ں جیسا ہے۔ آپ (ص) نے فرمایا :مجھ سے بڑھ کر غلام کون هوگا۔

اپنے لباس کو اپنے ہاتھوں سے پیوند لگاتے،بھیڑ کا دودھ نکالتے اور غلام وآزاد دونوں کی دعوت قبول کرتے تہے ۔

اگر مدینہ کے آخری کونے میں بھی کوئی مریض هوتا اس کی عیادت کو جاتے ۔

فقراء کے ساتھ ہم نشینی فرماتے اور مساکین کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھ جاتے ۔

آپ (ص) غلاموں کی طرح کہاتے اور غلاموں کی مانند بیٹھتے تہے۔

جو کوئی آپ (ص) سے ہاتھ ملاتا ،جب تک وہ خود نہ چھوڑتا آپ اپنا ہاتھ نہیں کھینچتے تہے ۔

جب کسی مجلس میں تشریف لاتے تو آنے والے جہاںتک بیٹھ چکے هوتے ان کے بعد بیٹھ جاتے اور کسی کی طرف ٹکٹکی باندھ کر نہیںدیکھتے ۔

پوری زندگی میں سوائے خدا کی خاطر کسی پر غضب نہ کیا ۔

ایک عورت آنحضرت (ص) کے ساتھ گفتگو کر رھی تھی ،بات کرتے وقت اس کے بدن پر کپکپی طاری هوگئی تو آپ نے فرمایا :آرام واطمینان سے بات کرو، میں کوئی بادشاہ نہیں ہوں، میں اس عورت کا بیٹا هوں جو سوکہا گوشت کہایا کرتا تھی۔

انس ابن مالک نے کہا: میں نو سال آنحضرت (ص) کی خدمت میں تہا آپ (ص) نے کبھی نہ کہا :”ایسا کام کیوں کیا؟“ اور کبھی عیب جوئی نہ فرمائی۔

ایک دن مسجد میں تشریف فرما تہے، انصار کے بچوں میں سے ایک بچی نے آکر آپ (ص) کے لباس کا ایک کونا پکڑا ۔آپ (ص) اس کی حاجت روائی کے لئے اٹہے، لیکن نہ تو اس بچی نے کچھ کہا اور نہ آپ (ص) نے پوچہا کہ تمہیںکیا چاھیے ؟یہاں تک کہ یہ عمل چار مرتبہ تکرار هوا۔چوتھی مرتبہ اس نے حضرت (ص)کے لباس سے دہاگہ توڑ لیا اور چلی گئی۔اس بچی سے پوچہا گیا: یہ تم نے کیا کام کیا؟

اس بچی نے کہا: ہمارے یہاں ایک شخص مریض ہے۔مجہے بھیجا گیا کہ میں اس کی شفا کے لئے آنحضرت (ص) کے لباس سے دہاگہ توڑ کر آؤں ۔جب بھی میں دہاگہ لینا چاہتی تھی میں دیکھتی تھی کہ آنحضرت (ص) مجہے دیکھ رہے ہیں اور اجازت لینے میں مجہے شرم آتی تھی، یہاں تک کہ چوتھی بار دہاگہ نکالنے میں کامیاب هوگئی۔

احترامِ انسان کے سلسلے میں، یہ واقعہ آنحضرت (ص)کی خاص توجہ کی نشاندھی کرتا ہے،کیونکہ اپنی فراست سے بچی کی حاجت اور سوال سے کراہت کو سمجھ کر اس کی حاجت روائی کے لئے چار مرتبہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے هوئے، لیکن یہ نہ پوچہاکہ اسے کیا چاہئے، تاکہ اس کےلئے ذھنی پریشانی وذلتِ سوال کا باعث نہ هو۔

اس باریکی اوردقت نظری سے بچی کی حرمت وعزت کا پاس رکھنے والے کی نظر مبارک میں بڑوں کے مقام ومنزلت کی کیا حد هوگی ۔

جن دنوں یہودی،کافر ذمی کے عنوان سے اسلام کے زیر سایہ زندگی بسر کررہے تہے اور آنحضرت (ص) کا اقتدار اپنے عروج پر تہا۔ ایک یہودی کے چند دینار آپ (ص) پر قرض تہے ۔جب اس یہودی نے واپسی کا مطالبہ کیا،آپ(ص)نے فرمایا: ”اس وقت میرے پاس تمہیں دینے کو کچھ نہیں ہے۔“

یہودی نے کہا:” میں اپنے دینار لئے بغیر آپ (ص) کو بالکل نہیں چھوڑوں گا ۔“

فرمایا:”اچہا میں تمہارے پاس بیٹہا هوں۔ “ ظھر ،عصر ،مغرب ، عشاء اور صبح کی نماز وہیں ادا کی، صحابہ نے اس یہودی کو دہمکی دی، تو آپ (ص) نے فرمایا:”اس کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کر رہے هو ؟“

اصحاب نے کہا :”یا رسول اللہ (ص)! اس یہودی کی یہ جراٴت کہ آ پ (ص) کو محبوس کرے؟“

فرمایا:”پروردگا ر عالم نے مجہے اس لئے مبعوث نہیں کیا کہ ظلم کروں“ ۔جیسے ھی دن چڑہا اس یہودی نے کہا:”اشھد ان لا الہ اللہ واشھد ان محمداًعبدہ ورسولہ، میں اپنے مال کا ایک حصہ خدا کی راہ میں دیتا هوں ،خدا کی قسم! میں نے آپ (ص)کے ساتھ ایسا سلوک صرف اس لئے کیا تاکہ تورات میں آپ سے متعلق درج شدہ صفات کو عملی طور پر آپ (ص)میں دیکھ سکوں۔“

عقبہ بن علقمہ کہتا ہے:میں علی (ع) کی خدمت میں حاضر هوا، آپ(ع) کے سامنے سوکھی روٹی رکھی تھی، پوچہا:اے امیرالمومنین (ع) ! کیا آ پ (ع) کی غذا یھی ہے ؟

فرمایا:رسول خدا (ص) کی روٹی اس سے زیادہ خشک اور لباس میرے لباس سے زیادہ کھردرا تہا۔اگر میں آنحضرت (ص) کی طرح زندگی بسر نہ کروں تو مجہے ڈر ہے کہیں ایسا نہ هو کہ آپ (ص) سے ملحق نہ هوسکوں۔“

جب امام زین العابدین علی ابن الحسین (ع)سے پوچہا گیا کہ آ پ (ع) کی عبادت کو امیرالمومنین(ع)کی عبادت سے کیا نسبت ہے ؟آ پ (ع) نے فرمایا: ”میری عبادت کو میرے جد کی عبادت سے وھی نسبت حاصل ہے جو میرے جد کی عبادت کو رسول خدا (ص) کی عبادت سے نسبت تھی۔“

زندگی کے آخری لمحات میں بھی اپنے قاتل سے درگزر کرتے هوئے صفاتِ الٰھی کواپنانے کا ایسا نمونہ پیش کیا جو خدا کی رحمت رحمانیہ کے ظہور کا عملی نمونہ ہے ۔اور فقط اسی کو یہ کھنے کا حق ہے کہ((إنما بعثت لاٴتمم مکارم الاٴخلاق))

ایسی شخصیت کے اخلاقی فضائل کی شرح کہاں ممکن ہے جس کے بارے میں خداوند عظیم نے یہ فرمایا هوکہ 

آپ (ص) کی زندگی سے اخلاق وکردار کا مطالعہ وتحقیق، ھر باانصاف شخص کے لئے آپ (ص) کی نبوت پر ایمان کے لئے کافی ہے 

اور یہ آسمانی کتب کی ان بشارتوں کا ظہور ہے جن کی سابقہ انبیاء علیہم السلام نے خبر دی تھی۔ اگر چہ تحریف کے ذریعے انہیں مٹانے کی مکمل کوشش کی گئی لیکن باقی ماندہ اثرات میں غور وفکر ،اھلِ نظر کو حقائق تک پھنچانے کے لئے مشعل ِراہ ہے ۔ہم ان میں سے دو نمونوں پر اکتفا کرتے ہیں :

۱۔تورات ،سفر تثنیہ ، تینتیسویں باب میں ذکر هوا ہے :”اور یہ ہے وہ برکت جو موسی جیسے مرد خدا نے اپنی وفات سے پھلے بنی اسرائیل کو عطا کی اور کہا: یھوہ سیناسے آیا اور سعیرسے ان پر طلوع کیا اور جبل فاران سے چمکااور لاکھوں مقدسین کے ساتھ آیا اور اس کے دائیں ہاتھ سے ان کے لئے آتشیں شریعت ظاھر هوئی ۔

”سینا“وہ جگہ ہے جہاں حضرت موسیٰ بن عمران پر وحی نازل هوئی ۔”سعیر “عیسیٰٰ بن مریم کے مبعوث هونے کی جگہ اور ”فاران“کا پہاڑ جہاں یھوہ چمکا،تورات کی گواھی کے مطابق ”مکہ“کا پہاڑ ہے۔

کیونکہ سفر تکوین کے اکیسویں باب میں حضرت ہاجرہ اور اسماعیل سے مربوط آیات میں مذکور ہے کہ :”خدا اس بچے کے ساتھ تہا اور وہ پروان چڑھ کر،صحرا کا ساکن هوا اور تیر اندازی میں بڑا هوا اور فاران کے صحرا میں سکونت اختیار کی، اس کی ماںنے اس کے لئے مصر سے بیوی کا انتخاب کیا۔“

”فاران “مکہ معظمہ ہے، جہاں حضرت اسماعیل اور ان کی اولاد رہائش پذیر تہے اور کوہ حرا سے آتشیں شریعت اور فرمان کے ساتھ آنے والا پیغمبر آنحضرت (ص) کے علاوہ اور کون هو سکتا ہے؟

اور کتاب حبقّوق(حیقوق)نبی کے تیسرے باب میں نقل هوا ہے کہ :”خدا تیمان سے آیا اور قدوس فاران سلاہ کے پہاڑ سے ، اس کے جلال نے آسمانوں کو ڈہانپ لیا اور زمین اس کی تسبیح سے لبریز هوگئی ، اس کا پر تو نور کی مثل تہا اور اس کے ہاتھوں سے شعاع پھیلی۔ “

مکہ معظمہ کے پہاڑ سے آنحضرت (ص)کے ظہور کی بدولت ھی یہ هوا کہ ساری زمین ((سبحان اللّٰہ والحمد للّٰہ ولا الہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر))کی صداوٴں سے گونج اٹھی اور ((سبحان ربی العظیم وبحمدہ))و ((سبحان ربی الاٴعلی وبحمدہ )) ساری دنیا کے مسلمانوں کے رکوع وسجود میں منتشر هوئے۔

۲۔انجیل یوحنا کے چودہویں باب میں مذکور ہے کہ :”اور میں اپنے والد سے چاہوں گا اور وہ تمہیں ایک اور تسلی دینے والا عطا کرے گا جو ہمیشہ کے لئے تمہارے ساتھ رہے۔“

اور پندرہویں باب میں مذکور ہے کہ :”اور جب وہ تسلی دینے والا آئے ، جسے والد کی جانب سے تمہارے لئے بھیجوں گا یعنی حقیقی روح جو والد سے صادر هوگی ، وہ میری گواھی دے گی ۔“

اصلی نسخے کے مطابق ، عیسیٰ جس کے متعلق خدا سے سوال کریں گے، کو ”پار قلیطا“کے نام سے یاد کیا گیا ہے جو ”پر یکلیطوس “ہے اور اس کاترجمہ ”تعریف کیا گیا“ ،”احمد“اور”محمد“کے موافق ہے،لیکن ”انجیل “لکھنے والوں نے اسے ”پاراکلیطوس“میں تبدیل کر کے ”تسلی دینے والا“کے معنی میں بیان کیا ہے ۔

اوریہ حقیقت انجیل برنابا کے ذریعے واضح وآشکار هوگئی کہ اس میں ”فصل ۱۱۲“ میں نقل هوا ہے کہ: ”-((۱۳)) اور اے برنابا !جان لوکہ اس لئے میرے اوپر اپنی نگھداری واجب ہے اور نزدیک ہے کہ (عنقریب )میر اایک شاگرد مجہے تیس کپڑوں کے عوض نقد بیچ دے گا ((۱۴))اور لہٰذا مجہے یقین ہے کہ مجہے بیچنے والا میرے نام پر ماراجائے گا((۱۵)) کیونکہ خدا مجہے زمین سے اٹہا لے گا اور اس خائن کی صورت اس طرح بدل دے گا کہ ھر شخص گمان کرے گا کہ میں هوں ((۱۶))اور اس کے ساتھ جو وہ بدترین موت مرے گا میں بچ جاوٴں گا اور دنیا میں دراز مدت تک رہوں گا ((۱۷))لیکن جب محمد پیغمبر خدا ((محمد رسول اللّٰہ))آئے گا مجھ سے یہ عیب اٹہا لیا جائے گا “۔

اور محمد رسول اللہ (ص) کی بشارت انجیل کی فصول میں ذکر هوئی ہیں ۔

اور اس انجیل کی بعض فصول میں((محمد رسول اللّٰہ))کے عنوان سے بشارتیں مذکور ہیں ،جیسا کہ انتالیسویں فصل میں ہے: ”اور جب آدم اپنے قدموں پرکھڑا هوا تو اس نے فضا میں کلمات لکہے هوئے دیکہے جو سورج کی طرح چمک رہے تہے کہ جن کی صریح نص یہ تھی ((لا الہ الااللّٰہ ))اور ((محمد رسول اللّٰہ))((۱۵))پس اس وقت آدم نے لب کھولے اور کہا : اے پروردگار !میرے خدا میں تیرا شکر ادا کرتا هوں کیونکہ مجہے زندگی عطا کر کے تو نے اپنا تفضل فرمایا ((۱۶))لیکن تیری بارگاہ میں فریاد کرتا هوں کہ تو مجہے ان کلمات ((محمد رسول اللّٰہ)) کے معنی بتا دے ((۱۷))پس خدا نے جواب دیا :مرحبا!اے میرے عبد آدم((۱۸))بے شک میں تمہیں بتاتا هوں کہ تم پھلے شخص هو جسے میں نے خلق کیا ہے۔“

اور اکتالیسویں فصل میں ہے: ”((۳۳))جب آدم نے توجہ کی تو دروازے کے اوپر((لا الہ الا اللّٰہ ،محمد رسول اللّٰہ)) لکہا هوا دیکہا۔ “

 

 

اور چھیانویں فصل میں ہے: ”((۱۱))اس وقت خد اجہان پر رحم فرمائے گا اور اپنے پیغمبر کوبھیجے گا، جس کے لئے ساری دنیا خلق کی ہے ۔((۱۲))جو قوت کے ساتھ جنوب کی جانب سے آئے گا اور بتوں اور بت پرستوں کو ھلاک کردے گا ۔((۱۳))اور شیطان کے انسان پرتسلط کو جڑ سے اکہاڑ پھنیکے گا((۱۴)) اور خدا کی رحمت سے خود پر ایمان لانے والوں کی خلاصی کے لئے آئے گا ((۱۵))اور جو اس کے سخن پر ایمان لائے گا بابرکت هوگا۔“

اور ستانویں فصل میں ہے:”((۱))اور اس کے باوجود کے میں اس کے جوتوں کے تسمے کھولنے کے قابل نہیں هوں، خدا کی رحمت سے اس کی زیارت سے شرفیاب هوا هوں۔ “

تورات اور انجیل کی بشارتوں کو ثابت کرنے کے لئے یھی بات کافی ہے کہ رسول خدا(ص) نے یہودیوں، نصاریٰ او ر ان کے احبار ،قسیسین اور سلاطین کو اسلام کی دعوت دی۔ یہود کے اس اعتقاد کہ اور نصاریٰ کے اعتقادکو غلط قرار دیتے هوئے ان کے مقابلے میں قیام کیااور مکمل صراحت کے ساتھ اعلان کیا کہ میں وھی هوں جس کی بشارت تورات وانجیل میں دی گئی ہے 

اگر آپ(ص)کا دعوی سچا نہ هوتا تو کیا ان دشمنوں کے سامنے جو اپنی معنوی اور مادی سلطنت کو خطرے میں دیکھ رہے تہے اور ھر کمزور پھلو کی تلاش وجستجو میں تہے ، پیغمبر اکرم(ص) کا اس قاطعیت سے اعلان کرنا ممکن تہا؟!

احبار،قسیسین،علماء یہود ونصاریٰ اور سلاطین، جنہوں نے آپ(ص)کے مقابلے میں ھر حربے کا سہارا لیا، یہاں تک کہ جنگ اور مباھلہ سے عاجز هو کر جزیہ دینا قبول کر لیا،پیغمبر اسلام (ص)کے اس دعوے کے مقابلے میں کس طرح لا چار هوکر رہ گئے اور ان کے لئے ممکن نہ رہا کہ آنحضرت(ص) کے اس دعوے کا انکار کر کے ،آپ کی تمام باتوں کو سرے سے غلط ثابت کردیں !آنحضرت(ص) کا صریح دعوی او رعلماء وامراء یہود و نصاریٰ کا حیرت انگیز سکوت، آپ(ص)کے عصرِ ظہور میں ان بشارتوں کے ثبوت پر برہانِ قاطع ہے

اگرچہ اس کے بعد حب جاہ ومقام اورمال ومتاع کی وجہ سے انہیںتحریف کے علاوہ کوئی دوسری راہ نہ سوجھی کہ جس کا نمونہ فخرالاسلام نے اپنی کتاب ”انیس الاعلام“ میں اپنے ذاتی حالات کا تذکرہ کرتے وقت پیش کیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ :میں ارومیہ کے گرجا گھر میں متولد هوا اور تحصیل علم کے آخری ایام میں کیتھولک فرقے کے ایک بڑے عالم سے استفادہ کرنے کا موقع میسر هوا۔ اس کے درس میں تقریبا چار سو سے پانچ سو افراد شرکت کرتے تہے۔ ایک دن استاد کی غیر موجودگی میں شاگردوں کے درمیان بحث چھڑ گئی۔ جب استاد کی خدمت میں حاضر هوا تو انہوں نے پوچہا بحث کیا تھی؟ میں نے کہا:”فارقلیط“کے معنی کے بارے میں۔ استاد نے اس بحث میں شاگردوں کے نظریات معلوم کرنے کے بعد کہا:” حقیقت کچھ اور ہے “، پھر اس مخزن کی جسے میں اس کا خزانہ تصور کرتا تہا، چابی مجہے دی اور کہا :”اس صندوق میں سے دو کتابیں جن میں سے ایک سریانی اور دوسری یونانی زبان میں جو حضرت خاتم الانبیاء کے ظہور سے پھلے کہال پر لکھی هوئی ہے ،لے کر آؤ۔“

پھر مجہے دکہایا کہ اس لفظ کے معنی ”احمد“اور ”محمد“ لکہے هوئے تہے اور مجھ سے کہا:”حضرت محمد (ص)کے ظہور سے پھلے عیسائی علماء میں اس کے معنی میں کوئی اختلاف نہ تہا اور آنحضرت (ص) کے ظہور کے بعد تحریف کی“۔ میں نے نصاریٰ ٰ کے دین سے متعلق اس کا نظریہ دریافت کیا۔اس نے کہا: ”منسوخ هوچکاہے ۔اور نجات کا طریقہ محمد (ص) کی پیروی میں منحصر ہے۔“ میں نے اس سے پوچہا: ”اس بات کا تم اظہار کیوں نہیں کرتے ؟“

اس نے عذر یہ بیان کیا تہا کہ اگر اظہار کروں مجہے مار ڈالیں گے اور …اس کے بعد ہم دونوں روئے اور میں نے استاد سے یہ استفادہ کرنے کے بعد اسلامی ممالک کی طرف ھجرت کی ۔

ان دو کتابوں کا مطالعہ اس عالی مقام راھب کے روحی انقلاب کا سبب بنا اور اسلام لانے کے بعد عیسائیت کے بطلان اور حقانیت ِاسلام کے بارے میں کتاب انیس الاعلام لکھی جو عھد قدیم وجدید میں اس کے تتبع اور تحقیق کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔


source : http://www.taqrib.info
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت علی (ع) کی وصیت دوست کے انتخاب کے بارے میں
مصائب امام حسن مجتبی علیہ السلام
نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے دادا
قرآن میں انبیاء کرام کے معنوی جلوے
امام جعفرصادق (ع): ہمارے شیعہ نماز کے اوقات کے ...
حضرت امام علی علیہ السلام کی شان میں چالیس احادیث
امام مہدی(عج) کے فرمان اور دعوی ملاقات میں تضاد
فاطمہ (س) کی معرفت لیلۃ القدر کی معرفت ہے
محافظ کربلا ا مام سجاد عليہ السلام
حسین آؤ کہ آج دنیا کو پھر ضرورت ہے کربلا کی

 
user comment