روایات میں حضرت علی علیہ السلام کو جنت میں جانے والوں کا قائد بیان کیا گیا ہے جیسے پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم) کا ارشاد گرامی ہے قائد الامۃ الی الجنۃ ، یا دوسری تعبیر ہے کہ معراج کے موقع پر پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله وسلم) کو ایک قصر دکھایا گیا اوروحی کی گئی کہ یہ قصر حضرت علی علیہ السلام کاہے کیونکہ ان میں یہ تین صفات پائی جاتی ہیں (انہ سید للمسلمین وامام المتقین و قائد الغرالمحجلین)
اور اس مختصر تحریر میں مراد قیادت کا عمومی معنی حکمرانی اوررہبری ہے اورحکمران بھی، یقینایہ حکمران اوررہبر ایک قسم کا قائد ہے جو پوری قوم کی کشتی کو سعادت اورخوشبختی کے ساحل پر بھی لاسکتا ہے اور قوم کی بدبختی کا سبب بھی بن سکتا ہے اس لیے ہم زیادہ تر رہبر اورحاکم جیسے الفاظ سے استفادہ کریں گے ۔یعنی ایک کلی معنی کرتے ہوئے رہبر اورقائد وہی حاکم اورپیشوا ہیں اوریہ مترادف الفاظ ہیں .
اظہاریہ :
قرآن کے بعد اسلامی کتب میں سب سے زیادہ اہمیت کی حامل کتاب نہج البلاغہ ہے کہ جس کے مطالب زمانے میں رونما ہونے والے حالات کے ساتھ باہمی سازگاری کی وجہ سے آج بھی اتنی تروتازگی اورجذابیت کے حامل ہیں کہ جوتقریبا چودہ سو سال پہلے تھے ۔ ان مطالب کی جاودانی اور جذابیت پرنہ ہی تاریخ میں رونما ہونے والے حالات کے مدوجذر اپنا اثرچھوڑسکے اورنہ ہی دشمنی اورعداوت کے شعلوں کی تمازت نے اثر ڈالا ۔بلکہ اس کے برعکس ان مطالب میں حقانیت پر مبنی اورموجود اخلاقی ،انسانی اورالہی اصولوں کی مہکتی خوشبو نے نہ تنھا اپنے گلستان میں بسنے والوں کو معطر کیا بلکہ کوسوں دوربسنے والوں نے بھی بنی آدم کے لیے بنائے جانے والے قانون کی بنیاد اوراساس اسی کتاب کےایک خط کو قراردیا،کہ جو اس کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔
مختلف موضوعا ت پر موجود مطالب کے بحرعمیق میں ایک موضوع جس پر مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام نے مختلف زاویوں سے اس کے خدوخال کو واضح کرکے، انسان کو مطالب کے عظیم سمندر کے سامنے لاکھڑا کیا ہے ، وہ ہے معاشرے کی قیادت اوررہبری۔ امام علی علیہ السلام نے اس موضوع سے متعلق مختلف تعبیروں جیسے امامت ،امارت ،حکومت ،ولایت ،قیادت ،خلافت اوران جیسے دوسرے مشتقات کے ذریعے وسیع پیمانے پر بحث کی ہے اوراس موضوع کی اہمیت کو بیان کیا ہے اورایسے سنہری اصول بیان کیے ہیں کہ اگر کوئی معاشرہ ان پر عمل پیراہوجائے تویقینا وہ معاشرہ کسی جنت سے کم نہیں ہوگا ۔
اس مختصر تحریر میں اسی موضوع پر حضرت علی علیہ السلام کے کلام کی روشنی میں مختلف زاویوں سے بحث کی گئی ہے اور حضرت علی علیہ السلام کے کلام پر مشتمل جامع اورکامل کتاب یعنی نہج البلاغہ کو تحقیق کا مرکز دیتے ہوئے اوراس سے استفادہ کرتے ہوئے لکھا گیا ہے ۔
باب اول
(۱):قیادت ورہبری کا معنی
قیادت عربی زبان کا لفظ ہے جو قود سے لیا گیا ہے یعنی کسی کے آگے چلنا ،رہبری اور راہنمائی کرنا وغیرہ، جیسے کہا جاتاہے، قیادۃ الجیش یعنی لشکر کی کمانڈاوررہبری کرنا یا قائد الجیش یعنی آرمی کمانڈروغیرہ جو ایک آرمی کا کمانڈر،راہنما اوررہبرہوتا ہے ۔
روایات میں حضرت علی علیہ السلام کو جنت میں جانے والوں کا قائد بیان کیا گیا ہے جیسے پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم) کا ارشاد گرامی ہے قائد الامۃ الی الجنۃ ، یا دوسری تعبیر ہے کہ معراج کے موقع پر پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله وسلم) کو ایک قصر دکھایا گیا اوروحی کی گئی کہ یہ قصر حضرت علی علیہ السلام کاہے کیونکہ ان میں یہ تین صفات پائی جاتی ہیں (انہ سید للمسلمین وامام المتقین و قائد الغرالمحجلین )[1]
اوراس مختصر تحریر میں مراد قیادت کا عمومی معنی حکمرانی اوررہبری ہے اورحکمران بھی، یقینایہ حکمران اوررہبر ایک قسم کا قائد ہے جو پوری قوم کی کشتی کو سعادت اورخوشبختی کے ساحل پر بھی لاسکتا ہے اور قوم کی بدبختی کا سبب بھی بن سکتا ہے اس لیے ہم زیادہ تر رہبر اورحاکم جیسے الفاظ سے استفادہ کریں گے ۔یعنی ایک کلی معنی کرتے ہوئے رہبر اورقائد وہی حاکم اورپیشوا ہیں اوریہ مترادف الفاظ ہیں ۔
(۲):قیادت ورہبری کی اہمیت امام علی علیہ السلام کی نگاہ میں
قیادت ورہبری کی ضرورت اتنی واضح اورآشکارہے کہ جس کا کوئی عقل مند انسان انکار نہیں کرسکتا ۔قرآن مجید میں ارشاد خداوندی ہے کہ انما انت منذر ولکلّ قوم ھاد۔[2]تم صرف ڈرانے والاہو اورہرقوم کے لیے ایک ہادی اوررہبرہے .
اسی طرح قرآن ناطق نے بھی نہج البلاغہ میں اس کی ضرورت اوراہمیت کو تقریبا ۶۹مقامات پر واشگاف الفاظ میں بیان کیا ہے ،حضرت علی علیہ السلام انسانی معاشرے میں صالح رہبر ی اورقیادت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتےہیں: انہ لابدللناس من امیر بر او فاجر یعمل فی امرتہ المومن ویستمتع فیھا الکافر ویبلغ اللہ فیھا الاجل ویجمع بہ الفی ء ویقاتل بہ العدو وتامن بہ السبل ویؤخذبہ للضعیف من القوی حتی یستریح بر ویستراح من فاجر ۔[3]
حالانکہ کھلی ہوئی بات ہے کہ نظام انسانیت کے لیے ایک حاکم کا ہونا بہرحال ضروری ہے چاہے نیک کردارہویا فاسق کہ حکومت کے زیرسایہ ہی مومن کو کام کرنے کا موقع مل سکتا ہے اورکافر بھی مزے اڑا سکتا ہے اور اللہ ہر چیز کو اس کی آخری حد تک پہنچا دیتا ہے اورمال غنیمت وخراج وغیرہ جمع کیا جاتا ہے اوردشمنوں سے جنگ کی جاتی ہے اورراستوں کومحفوظ کیا جاتاہے ،طاقتور سے کمزور کا حق لیاجاتاہے تاکہ نیک کردار انسان کو راحت ملے اوربدکردار انسان سے آسایش میں ہوں ۔[4]
اگرچہ امیرالمومنین کا یہ بیان ظاہرا خوارج کے اس پوچ عقیدہ کی نفی کے لیے بیان کیا گیا جو ان کے ذہن میں تھا کہ لاحکم الا للہ ۔لیکن حقیت یہ ہے کہ علی علیہ السلام نے اس مختصر عبارت میں رہبری اورقیادت کی اہمیت کوواضح کرنے کے لیے ایک سنہری اصول دیا ہے کہ انسان ایک معاشرتی اوراجتماعی موجود ہے جورہبری اورقیادت کے بغیر نہیں جی سکتا ہاں حکمرانوں اوررہبروں میں فرق ہے کبھی رہبر اورحاکم صالح افراد ہوتے ہیں اورکبھی فاسق اورفاجر ۔حضرت علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں :
اماالامرۃ البرۃ فیعمل فیھا التقی واماالامرۃ الفاجرۃ فیتمتع فیھا الشقی[5] صالح اورنیک قیادت کے سائے میں نیک لوگ اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے پوری کرتے ہیں اورفاجر اورفاسق قیادت میں شقی اوربدبخت لوگ استفادہ کرتےہیں ۔
مذکورہ بالامطالب کا مطلب یہ ہے کہ انسانی معاشرہ میں رہبری اورقیادت ایک ضروری امر ہے اگر ایک صالح اورظلم وستم سے پاکیزہ قیادت میسر نہ ہوتو یقینا ایک فاسد حکومت قائم ہوجائے گی جس طرح کہ خود خوارج نے امام علی علیہ السلام کی قیادت اوررہبری کو ٹھکرایا اورذوالثدیہ کی حکمرانی کے چنگل میں پھنس کر برحق امام کے خلاف شورش کردی اوربعد میں بھی کسی رہبر اورحکمران کے بغیر نہ رہ سکے جو قیادت اوررہبری کی اہمیت کی روشن مثال ہے ۔
قیادت ورہبری کی اہمیت واضح کرنے کے لیے مولائے متقیان کے یہ بیانات کافی ہیں البتہ اس نکتہ کی طرف توجہ کرنا بھی فایدہ سے خالی نہیں ہے کہ عصرحاضر میں بعض مغربی مفکرین جیسے مارکس وبر،نے حکومت اورسیاسی نظام کے ایک پہلو کی طرف توجہ کرنے کی وجہ سے واضح غلطی کا شکارہواہےاور حکومت اورسیاسی نظام کو سرمایہ داروں کا آلہ اورطبقاتی کشمکش کا سبب جانا ہے[6] درحالانکہ خود یہی لوگ صاحب قدرت اورحکومت رہے ہیں ۔اور دوسری بات یہ کہ اگر مارکس کی بات عمومی ہے تو ان کی حکومتیں بھی اس میں شامل ہیں اورتیسری بات یہ کہ خداپرست اورالہی لوگ جیسے حضرت علی علیہ السلام جنہوں نےواشگاف الفاظ میں تمام مسائل کی طرف اشارہ کیا ہے ،جہاں حکومت کی ضرورت اوراہمیت کو بیان کیا ہے وہاں اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ حکومت اورحکمرانی صالح اورظلم وستم سے پاک بھی ہوسکتی ہے اورفاسد بھی ،ایک صالح حکمران اوررہبر کی صفات کیاہے اوراس کے برعکس ایک فاسد اورفاجر حکمران کی خصوصیات کیا ہیں درحالانکہ دوسروں کی باتیں ان مطالب سے عار ی ہیں ۔
(۳):قیادت اوررہبری کا فلسفہ
اگر انسان خطبہ شقشقیہ کو غور سے پڑھے تو معلوم ہوتا ہے کہ قیادت اوررہبری کا فلسفہ کیا ہے ۔ کیوں ایک معاشرہ بغیر رہبر کے نہیں رہ سکتا اگرچہ چند ایک حکمرانوں کے علاوہ باقی تمام نے اس فلسفہ کو بھلا کر اس کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ قیادت ورہبری کا فلسفہ وہی ہے جو امام علی علیہ السلام نے مدینہ کے لوگوں کے ہجوم کے بعد فرمایا کہ جو تیسرے خلیفہ کے قتل کے بعد جمع ہوا تھا :أماوالّذی فلق الحبۃ ،وبرا النسمۃ ،لولاحضورالحاضر،وقیام الحجۃ بوجود الناصر،ومااخذ اللہ علی العلماء الایقاروا علی کظۃ ظالم ،لاسغب مظلوم ،لالقیت حبلھا علی غاربھا؛آگاہ ہوجاو وہ خدا گواہ ہے جس نے دانہ کو شگافتہ کیاہے اورذی روح کو پیدا کیا ہے کہ اگر حاضرین کی موجودگی اورانصارکے وجود سے حجت تمام نہ ہوگئی ہوتی اوراللہ کا اہل علم سے یہ عہدنہ ہوتا کہ خبردار ظالم کی شکم پری اورمظلوم کی بھوک پر چین سے نہ بیٹھنا تو میں آج بھی اس خلافت کی رسی کو اسی کی گردن پر ڈال کر ہنکادیتا۔[7]
جی ہاں اگر مارکس جیسے لوگ اس قیادت اوررہبری کے فلسفہ کو جان لیں تو کبھی بھی اس کو سرمایاداروں کا آلہ کار نہ کہتے ،کیونکہ امام علی علیہ السلام کی نگاہ میں حکومت کو قبول کرنا یعنی ایک سنگین ذمہ داری کو اپنے عہدہ لینا ہے اگروہ ذمہ داری انسان قبول نہ کرے یا نہ کرسکتا ہوتو خود حکومت کی وقعت امام کی نظر میں امام کا اسی خطبے کا اگلاجملہ ہے کہ فرمایا:ولالفیتم دنیاکم ھذہ ازھدعندی من عفطۃ عنز!؛اورتم دیکھ لیتے کہ تمھاری دنیا میری نظر میں بکری کی چھینک سے بھی زیادہ بے قیمت ہے ۔[8]
(۴):حکمرانوں کی اقسام
جیسا کہ اوپر اشارہ کیاجاچکا ہے کہ انسان ایک معاشرتی موجود ہے کہ جو کسی حکومت اوررہبری کے بغیر نہیں رہ سکتا اوراسی پیاس کو بجھانے کی خاطر کبھی اسے اچھے اورنیک رہبر نصیب ہوتے ہیں کہ جو انسانوں کو اخلاقی کمالات کے ساتھ ساتھ دنیوی عروج بھی نصیب کرتے ہیں اوربعض ایسے بھی ہوسکتے ہیں کہ جو انسان کی زندگی میں تاریکیوں کے اضافہ کے سوا کچھ نہیں کرپاتے ۔اوریہ دونوں برابرنہیں ہیں ،خود امام علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں : فانه لا سواء امام الهدی و امام الردی[9] کہ ہدایت اورسیدھا راستہ دکھانے والارہبر اورامام ،اورگمراہ کرنے والا امام ہرگزبرابر نہیں ہوسکتے ۔بعض رہبر اورقائد سخت مشکلات کو بھی برداشت کرکے لوگوں کی دنیا اورآخر ت سنوارتے ہیں ۔حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم) کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ولیھم وال فاقام واستقام حتی ضرب الدین بجرانہ [10]
لوگوں کے امور کاذمہ دار ایساحاکم بنا جو خود بھی سیدھے راستہ پر چلا اورلوگوں کو بھی اسی راستہ پر چلایا یہانتکہ دین محکم اورپایدارہوگیا۔
ایک اورخطبہ میں ارشاد فرماتے ہیں :امام من اتقی وبصیرۃ من اھتدی [11](پیغمبر اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم )متقین کے امام اورطلبگاران ہدایت کے لیے آنکھوں کی بصارت تھے ۔
خود امیرالمومنین علیہ السلام کہ جس نے عدل وانصاف کی جنگ لڑی اورپورے دردمندانہ طریقے سے حکومت کی باگ ڈور صرف اس لیے سنبھالی تاکہ مظلوم کو اس کا حق واپس دلایا جاسکے ، ایسے رہبر کی مظلومیت کا اندازہ لگانا مشکل ہے کہ جو معاشرے میں حق وانصاف کی بنیادوں کو مستحکم کرنے اور مظلوموں کی مدد کرنے میں اپنا سب کچھ قربان کردے ۔جس کی سیرت اس کے قول کی بڑھ کر تصدیق کرے لیکن لوگ اس کے وجود کی نعمت سے غفلت کریں یقینا بدبختی ہے ان لوگوں کی جنہوں نے اس عظیم نعمت کا کفران کیا اوربالآخر حجاج بن یوسف ثقفی جیسے ظالم حکمران کا دوردیکھا ۔حضرت علی علیہ السلام اپنے حکومتی ہدف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں : اللهم اِنّك تعلم اَنّه لم يكن الذى كان مِنّا منافسةً في سلطان و لَاالتِماس شى ءٍ من فضول الحُطام و لكن لنَرُدَّ المَعالم مِن دينك و نُظهِر الاِصلاح في بلادك، فيأمن المظلومون مِنْ عبادك و تقامُ المعطَّلةُ مِن حدودك۔[12].
خدایا!توجانتا ہے کہ قیام اورحکومت سے ہمارامقصد ، قدرت کا عشق اورمال ودولت کا حصول نہیں ہے بلکہ ہدف صرف یہ ہے کہ تمہارے دین کو اس جگہ پر کہ جہاں تھا لوٹاسکیں اورتیرے شہروں میں اصلاح کرسکیں تاکہ تیرے مظلوم بندے امان میں رہیں اورتیری جن حدود کر ترک کردیا گیا ہے ان کو قائم کرسکیں ۔
اوردوسری طرف فاسد حکمران بھی ہیں جو صرف دنیا پرستی کے اسیر ہیں جنہوں نے حکمرانی کو ہدف قراردیتے ہوئے اس تک پہنچنے میں سب جائز وناجائز کو انجام دیا ۔وہ تمام کام جن کی دین اسلام کے ساتھ ساتھ انسانی اقدار بھی اجازت نہیں دیتیں ان کوبھی کرگزرنے میں ذرا برابرہچکاہٹ محسوس نہ کی اورزندگی کے چارروز اسی غفلت میں گزاردیئے ۔جنہوں نے نہ صرف لوگوں پر ظلم کیا بلکہ اپنے اوپر بھی ظلم وستم کیا امیرالمومنین ایسے ظالم اورجابر حاکم کے بارے میں رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہوئے ، ارشاد فرماتے ہیں :یؤتی یوم القیامۃ بالامام الجائر ولیس معہ نصیر ولاعاذرفیلقی فی نار جھنم فیدورفیھا کما تدورالرحی ثم یرتبط فی قعرھا ۔[13] قیامت کے دن ظالم رہبر کا پیش کیا جائے گا جس کا اس دن کوئی مددگارنہیں ہوگا اورنہ ہی عذرخواہی قبول کرنے والا، اس کو جھنم کے شعلوں میں جھونک دیا جائے گا اوروہاں چکی کی طرح چکر کھائے گا اوراس کے بعد اس کو قعرجھنم میں جکڑدیا جائے گا ۔
حضرت علی علیہ السلام کا اصلی درد اورغم یہ تھا کہ افسوس ہے کہ لوگ نیک اورصالح رہبری اورقیادت کو نہ صرف قبول نہ کریں بلکہ اس کو کمزوربنانے کے لیے کمرباندھ لیں جس کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ فاسق اورفاجر حکمران مسلط ہوجائیں گے ۔امام علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں ۔ولکننی آسی ان یلی امرھذہ الامۃ سفھاؤھاوفجارھا فیتخذوا مال اللہ دولاوعبادہ خولا و الصالحین حربا والفاسقین حزبا [14]مجھے دکھ اس بات کا ہے کہ امت کی زمام احمقوں اورفاسقوں کے ہاتھ چلی جائے وہ مال خدا کو اپنی املاک اوربندگان خدا کو اپنے غلام بنا لیں ،نیک لوگوں سے جنگ کریں اورفاسق لوگوں کو اپنی جماعت میں شامل کرلیں ۔
شاید یہاں پر یہ سوال پیدا ہو کہ حقیقتا صالح اورنیک رہبری تو امام معصوم انجام دے سکتا ہے کہ جس کی حکمرانی اوررہبری میں عدل وانصاف قائم ہوسکتا ہے ایک عام انسان کیسے ایسی حکومت قائم کرسکتا ہے ؟جواب بہت سادہ ہے ہر حکمران جو عدل وانصاف کو قائم کرنے کے لیے اپنی قدرت کو وسیلہ بنائے وہ ایساکرسکتاہے جس کے دل میں لوگوں کی خدمت کرنے کا جذبہ ہو۔ یقینا شریر اورمفسد لوگ اس کی حکومت میں ختم نہیں ہوسکتے لیکن ان کے خاتمے کے لیے اورعدل وانصاف کو قائم کرنے کے لیے کوشش توکرسکتاہے اوروہ صفات جو ایک رہبر میں ہونی چاہییں اگران کو اپنا لے تو اس کی شہرت بھی ایک عادل بادشاہ کے طورپر ہوسکتی ہے مسلمان تو دور کی بات آغاز اسلام میں نجاشی بادشاہ کے لیے پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم)کی زبانی یہ الفاظ کہ تم(مسلمانوا) حبشہ چلے جاو وہاں کا حاکم عادل اورمہربان ہے نجاشی مسلمان نہیں تھا لیکن انسانی اصولوں کا پابند تھا ۔.
باب دوم :
ایک رہبر اورحکمران کی صفات
یقینا ایک رہبر اورحکمران جو لوگوں کو دنیا اورآخرت کی سعادت دینا چاہتا ہے ان کی مشکلات کو دورکرنا چاہتاہے اس میں چند ایک ایسی صفات ہونی چاہییں جو اس کے عمل کی تصدیق کریں اورلوگوں کااعتماد اس پرباقی رہے ہم یہاں امیرالمومنین علیہ السلام کے کلام کی روشنی میں ان صفات کو دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں ایک وہ جو خود حاکم کی شخصی صفات ہیں اوردوسری وہ جو اس کے اوراسکی رعیت کے باہمی ارتباط کو بیان کرتی ہیں ۔
الف:ذاتی صفات :
(۱):تذکیہ نفس
تذکیہ نفس کی افادیت کاکوئی منکر نہیں ہے کیونکہ جس موضوع کو خداوندنے گیارہ قسمیں کھانے کے بعد ذکر کیا ہو قدافلح من زکّٰھا وقدخاب من دسّٰھا؛[15]کہ سعادت اورکامیابی صرف اس کا مقدر بنے گی جو تذکیہ نفس کے زیور سے آراستہ ہوگا اس کی اہمیت میں ذرہ برابرشک کی گنجائش نہیں رہتی۔تذکیہ نفس ہر انسان کے لیے ضروری ہے لیکن ایک رہبر اورراہنما کے لیے اس کی ضرورت اوراہمیت دوسروں کی نسبت بڑھ جاتی ہے کیونکہ انسان کی زندگی نشیب وفرازکا نام ہے اورتذکیہ نفس انسان کو اس سعادت اورشقاوت کے نشیب وفراز سے ڈھکی وادی سے نکال کر سعادت کے ساحل پر لاکھڑا کرتا ہے کیونکہ انسان کا نفس ایک سرکش گھوڑے کی مانند ہے اگر تذکیہ نفس کے تازیانوں سے رام نہ کیا جائے تو انسان کے دامن میں بدبختی اورتباہی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا خصوصا ایک رہبر اورراہنما کے لیے کہ جس کے کاندھے پر اپنے بوجھ کے ساتھ عوامی قافلے کی مہار بھی موجود ہے اسی لیے مولائے کائنات امیرالمومنین علیہ السلام مالک اشتر کو لکھے گئے خط میں ارشاد فرماتےہیں کہ :فلیکن احب الذخائر الیک ذخیرۃ العمل الصالح ،فاملک ھواک ،وشح ّ بنفسک عما لایحل لک [16] ؛ تمھارا محبوب ترین ذخیرہ عمل صالح کو ہانا چاہیے ،خواہشات کوروک کررکھو اورچیز حلال نہ ہو اس کے لیے نفس کو صرف کرنے سے بخل کرو ۔
حضرت علی علیہ السلام نے اس بیان میں تذکیہ نفس پر بہت زور دیا ہے اوراس پر اصرارفرمایا ہے کیونکہ معاشرتی زندگی کی سعادت میں قانون نافذ کرنے والوں کی لیاقت اوراہلیت خود قانون کی نسبت زیادہ موثر اوراثرانداز ہوتی ہے ۔
امام علی علیہ السلام محمد بن ابی بکر کو مخاطب کرتے ہوئے ان لوگوں کے امتیازات کی طرف اشارہ فرماتےہیں جنہوں نے اپنے روحوں کو تذکیہ نفس اورتقوی کے زیورسے آراستہ کیا ۔امام فرماتے ہیں :واعلموا عباداللہ ان المتقین ذھبوا بعاجل الدنیا وآجل الآخرۃ فشارکوا اھل الدنیا فی دنیاھم ،ولم یشارکوا اھل الدنیا فی آخرتھم ؛سکنوا الدنیا بافضل ماسکنت ۔۔۔بندگان خدا !یارکھو کہ پرہیزگار لوگ دنیا اورآخرت کے فوائد لے کر آگے بڑھ گئے وہ اہل دنیا کے ساتھ ان کی دنیا میں شریک رہے لیکن اہل دنیا ان کی آخرت میں شریک نہ ہوسکے ؛وہ دنیا میں بھی بہترین زندگی گزارتےرہے ۔۔۔۔[17] حضرت علی علیہ السلام مالک کو واجبات کی ادائیگی اور ان پرتوجہ کرنے کی تاکید کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :امرہ بتقوی اللہ ،وایثارطاعتہ ،واتباع ما امر۔۔۔۔۔۔لایسعد احدالاباتباعھا ولایشقی الامع جحودھا واضاعتھا ؛سب سے پہلا امر یہ ہے کہ اللہ سے ڈرو، اس کی اطاعت کرو اورجن فرائض وسنن کا اپنی کتاب میں حکم دیا ہے ان کا اتباع کرو کہ کوئی شخص ان کی اتباع کے بغیر نیک بخت نہیں ہوسکتا اورکوئی ان کے انکار اورضائع کرنے کے بغیر شقی اوربدبخت نہیں ہوسکتا۔[18]
حضرت علی علیہ السلام واجبات کی ادائیگی کو خاص اہمیت دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ : ولیکن فی خاصۃ ما تخلص بہ للہ دینک اقامۃ فرائضہ التی ھی لہ خاصۃ ؛اورتمھارے وہ اعمال جنھیں صرف اللہ کے لیے انجام دیتے ہوان میں سے سب سے اہم کام فرائض کی انجام دہی ہے خالصا خدا کےلیے ۔[19]
اسی طرح حضرت علی علیہ السلام اپنی فوج کے کمانڈر شریع بن ھانی کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :اتق اللہ فی کل صباح ومساء ۔۔۔۔۔۔سمت بک الاھواء الی کثیر من الضرر فکن لنفسک مائعا رادعا ؛صبح وشام اللہ سے ڈرتے رہو اور اپنے نفس کو اس دھوکہ باز دنیا سے بچائے رہو اوراس پر کسی حال میں اعتبار نہ کرنا اوریہ یاد رکھنا کہ اگر تم نے کسی ناگواری کے خوف سے اپنے نفس کو بہت سی پسندیدہ چیزوں سے نہ روکا،تو خواہشات تم کو بہت سے نقصان دہ امور تک پہنچا دیں گی لہذا ہمیشہ اپنے نفس کو روکتے ٹوکتے رہو ۔ [20]
۲:علم وبصیرت
ایک رہبر اورراہنما کے لیے علم وبصیرت شرط ہے اوراسلامی تعلیمات میں اس کو ایک اصل کے طورپرقبول کیاگیا ہے اورمختلف مقامات پر اس بات کی طرف اشارہ بھی کیا گیا ہے کہ حکومتی امور ان اشخاص کے ذمہ لگائے جائیں جو ان کی اہلیت اورقابلیت رکھتے ہوں،اصول کافی میں مرحوم کلینی ،شیخ صدوق اورشیخ طوسی نے عمربن حنظلہ کے ذریعے امام صادق علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے کہ جس میں امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: مَنْ کانَ مِنکُمْ مِمَّنْ قَدْ رَوَی حَدیثَنا ونَظَرَ فی حَلالِنا وَحَرامِنا وعَرَفَ اَحْکامَنا فَلْیَرْضَوا بِهِ حَکَماً فَاِنّی قد جَعَلتُهُ عَلَیْکُم حاکماً۔۔[21] امام فرماتے ہیں کہ جو شخص تم میں سے ہماری حدیث کو بیان کرتا ہو اورہمارے حلال وحرام میں صاحب نظر اورتوجہ کرتا ہو اورہمارے احکام کو جانتا ہوتو اس کو اپنا حاکم قراردینا کہ تحقیق میں نے اسے تم پرحاکم قراردیا ہے ۔ حضرت علی علیہ السلام ایک رہبر کےلیے علم اورآگاہی کے سلسلے میں ارشاد فرماتے ہیں :ثم انظر فی امورعمالک فاستعملھم اختبارا ولاتولھم محاباۃ واثرۃ فانھما جماع من شعب الجور والخیانۃ وتوخ منھم اھل التجربۃ والحیاء ؛اس کے بعد اپنے عاملوں کے معاملات پر بھی نگاہ رکھنا اورانہیں امتحان کے بعد کام سپرد کرنا اورخبردار تعلقات یا جانبداری کی بنا پر عہدہ نہ دے دینا کہ یہ باتیں ظلم اورخیانت کے اثرات میں شامل ہیں اوردیکھو کہ جو تجربہ کار اورحیاء والے ہوں ان کو اختیار کرنا ۔۔[22]
کیونکہ ملکی سرمایہ کو اصراف سے بچانے کا ایک راستہ یہی ہے کہ حکومتی عہدے انہیں کے سپردکیے جائیں جو اس کا عالم اورماہر ہو ورنہ انجان وزیر حد سے زیادہ امکانات کو استعمال کرے گا اوراس کا نتیجہ بھی کیفیت اورکمیت کے لحاظ سے بہت ضعیف ہوگا ایک وزیر صنعت وتجارت اوردوسرے شعبوں میں اپنے قیمتی تجربات کے ذریعے بہت سی ملکی مشکلات کو حل کرسکتا ہے اورضروری ہے کہ کسی کو ایک عہدے کےلیے منتخب کرنے سے پہلے اس کے سابقہ کار کو مدنظررکھتے ہوئے اس کا امتحان کیاجائے کہ وہ کتنا تجربہ رکھتا ہے حضرت علی علیہ السلام بھی اسی چیز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ :والقدم فی الاسلام المتقدمۃ ،فنھم اکرم اخلاقا واصح اعراضا ؛ (اے مال عہدہ ان کو دینا )جن کہ پہلے اسلام کےمورد میں خدمات ہوں کہ ایسے لوگ خوش اخلاق اوربے داغ عزت والے ہوتے ہیں ۔ان کے اندر فضول خرچی کی لالچ کم ہوتی ہے ۔[23]
(۳):سادگی کے ساتھ زندگی بسر کرنا
رہبری اورحکمرانی کے عہدے کو قبول کرنے سے ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے جوانسان کو ابھارتی ہیں کہ نچلے طبقہ کی طرح زندگی گزارے تاکہ ان کے درد کو سمجھ سکے اورپھران کی مشکلات کو دورکرنے کی کوشش کرسکے ۔
حضرت علی علیہ السلام اس مقام پر اپنے عمل کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں :وان امامکم قد اکتفی من دنیاہ بطمریہ ،ومن طعمہ بقرصیہ ۔الاوانکم لاتقدرون علی ذلک ،ولکن اعینونی بورع واجتہاد؛یاد رکھ کہ تیرے امام نے اس دنیا سے دو پرانے کپڑے اوردوروٹیوں پر راضی رہا ہے خدا کی قسم تم اس پر قدرت نہیں رکھتے لیکن پرہیز گاری اورکوشش کے ذریعے میری مددکرو۔[24]
نھج البلاغہ کے خطبہ نمبر ۲۰۹میں امام علی علیہ السلام عاصم بن زیاد جو رہبانیت اختیار کرچکا تھا امام علیہ السلام نے اس کو نصیحت کی تو وہ حیران ہوگیا کہ امام علی علیہ السلام جیسا زاھد مجھے رہبانیت سے روک رہا ہے تو امام علی علیہ السلام نے ایک تاریخی جملہ کہا کہ جس سے قیادت اورحکمرانی کا فلسفہ روز روش کی طرف آشکار ہے امام نے فرمایا:ان اللہ تعالی فرض علی آئمۃ العدل ان یقدروا انفسھم بضعۃ الناس کیلایتبیع بالفقیر فقرہ !پروردگار نے آئمہ حق پر فرض کردیا ہے کہ اپنی زندگی کا پیمانہ کمزورترین انسانوں کو قراردیں تاکہ فقیر اپنے فقرکی بنا پر کسی پیچ وتاب کا شکار نہ ہو۔[25]
(۴):ذہانت اورسیاسی بصیرت
رہبرکی صفات میں سے ایک جو اپنی جگہ پر حائزاہمیت ہے رہبر کی ذہانت اورسیاسی بصیرت ہے جس کی وجہ سے رہبر حسن تدبیر کے بغیر کاموں کو انجام نہیں دیے گا اوراہداف تک پہنچنے کےلیے چارہ جوئی کرےگا اورکاموں کو درست سمت میں چلائے گا حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنی حسن تدبیر سے مصرکے حاکم سے کہا کہ جو سات سال خوشحالی کے ہیں ان میں کھانے کی اشیاء کو بچایا جائے ان سات سالوں کے لیے جو آئندہ آئیں گے اورحضرت علی علیہ السلام کے کلام میں بھی ایسی چیز ملتی ہے کہ ایک حاکم ان صفات سے آراستہ ہونا چاہیے غررالحکم میں حسن تدبیر کو حکمرانی کے قوام سے تعبیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : من حسنت سياسته دامت رياسته ۔[26]اسی طرح اگر حسن تدبیر نہ ہوتو اس کا لازمہ حکومت اورحکمرانی کا نابود ہونا ہے : سوء التدبير سبب التدمير[27]اسی طرح جب مصر کی حکومت کے لیے مالک اشتر کا انتخاب کیا تومختلف وزراء کو انتخاب کرنے کے بارے میں فرمایا: و اجعل لراس کل امر من امورک راسا منهم لا يقهره کبيرها و لا يتشتت عليه کثيرها ؛اپنے ہرحکومتی کاموں کے لیے وزراء کو انتخا ب کرنا کہ جن میں دو خصوصیات پائی جاتی ہوں ایک یہ کہ کام کا زیادہ ہونا اسے مغلوب اور ناتوان نہ کردے اوردوسرایہ کہ کام کا زیادہ ہونا اس کو غمگین نہ کردے ۔[28] یقینا حسن تدبیر رکھنے والاحکمران کبھی پریشان نہیں ہوگا اورہر کام کو احسن طریقے سے انجام دے گا ۔ اس شرط کی اہمیت عصرحاضر میں زیادہ روشن ہوجاتی ہے جہاں داخلی اورخارجی دشمنوں اوریجنسیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اورحسن تدبیر سے آراستہ حاکم کبھی مغلوب نہیں ہوگا اور بہت سی مشکلات کا مقابلے کے وقت اپنے حواس اورنفس پر مسلط رہے گا ۔
(۵):شجاعت اورپایداری
رہبر کی صفات میں سے جس کی اپنی جگہ پر بہت اہمیت ہے شجاعت اورمستحکم ارادہ ہے ۔حضرت علی علیہ السلام مالک اشتر کو نصیحت فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ اپنے حکومتی ڈھانچے میں ان لوگوں کو شامل کریں جو شجاع ہوں اوردشمن کا شجاعت اوربہادری کے ساتھ مقابلہ کریں نہ یہ کہ خود ہی بھاگ جائیں یا قدرتمندلوگوں کے ڈر کی وجہ سے ان کے تابع ہوجائیں جو حکومت اورعوام کےنقصان کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔۔۔ثم اھل النجدۃ والشجاعۃ پھر وہ جو رحم دل اورقدرتمند ودولتمند لوگوں کے ساتھ ،سختی اوربہادری سے پیش آئیں ۔[29]
اسی طرح اگر حکمران اوررہبر مستحکم ارادہ کا مالک ہوگا تواپنی حکمرانی اورحکومت کے تمام ایام اورخصوصا مشکل دنوں میں اپنی پالیسیوں کو واضح اوربلاروک ٹوک جاری کرسکتا ہے جس کااچھا اثر نہ صرف عوام پر پڑے گا بلکہ اس کے حکومتی ڈھانچہ میں بھی کوئی تزلزل پیدا نہیں ہوگا
علی علیہ السلام ارشادفرماتے ہیں :لاتجعلوا علمکم جھلا،ویقینکم شکا؛اذاعلمتم فاعملوا،واذا تیقنتم فاقدموا۔
خبرداراپنے علم کو جہل نہ بناواوراپنے یقین کو شک قرارنہ دو ،جب جان لو تو عمل کرو اورجب یقین ہوجائے تو قدم آگے بڑھاو۔[30]
(۶):امانتداری
بلاشبہ امانت ایسی صفت ہے کہ جس کی اسلامی تعلیمات میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے اورجب اسی صفت کا ذکر رہبری اورقیادت اورنہج البلاغہ میں حکمرانو ں کے بارے میں کیا جاتا ہے تو مراد یہ ہے کہ یہ قیادت اوررہبری ایک قسم کی الہی امانت ہے صحیح طریقے سے رہبری کرنا اوراسلامی قوانین کا جاری کرنا ہی امانت داری ہے ،امام علی علیہ السلام اشعث بن قیس کو مخاطب کرتے ہوئے اسی بات کی طرف اشارہ کرتےہیں کہ :یادرکھ وزارت کا عہدہ تیرے کھانے اورپینے کا وسیلہ نہیں ہے بلکہ ایک امانت ہے جو تیری گردن پر ہے ۔
امانتداری کا دوسرا رخ بیت المال کے حوالے سے ہے کہ حاکم اس میں خیانت نہ کرے اوراس کو صحیح طریقے سے خرچ کرے اس حوالے سے حضرت علی علیہ السلام نے بہت سخت اورمحکم رویہ اپنایا حتی کہ بعض لوگ مخالف بھی ہوگئے ۔حضرت علی علیہ السلام نے ہر اس شخص کو حکومتی ڈھانچے میں شامل کرنے سے انکار کردیا کہ جس کی شہرت خیانت کے حوالے سے رہی ہو اگر کوئی پہلے حاکم تھا اورخائن تھا تو سب سے پہلا کام اس کو عزل کرناتھا جس کی وجہ سے بہت سی مشکلات پیدا ہوگئیں لیکن بیت المال کا تعلق عوام سےہے جس کو قطعا برداشت نہیں کیا جاسکتا کیونکہ مولائے کائنات کی نگاہ میں بدترین خیانت وہ ہے جو لوگوں کے ساتھ ہو ۔امیرالمومنین (علیه السلام)مکتوب نمبر ۲۶میں اپنے بعض وزراء کو خط لکھتے ہوئے یہی چیزبیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ :ومن استھان بالامانۃ ورتع فی الخیانۃ [31]۔جس شخص نے بھی امانت کو معمولی تصور کیا اورخیانت کی چراگاہ میں داخل ہوگیا اوراپنے نفس اوردین کو خیانت کاری سے نہیں بچایااس نے دنیا میں بھی اپنے کو ذلت اوررسوائی کی منزل میں اتاردیا اورآخرت میں تو ذلت ورسوائی اس سے بھی زیادہ ہے اوریادرکھو کہ بدترین خیانت امت کے ساتھ خیانت ہے ۔۔
یہانتکہ امام علی علیہ السلام مالک اشتر کو واضح الفاظ میں فرماتےہیں کہ اگر کوئی امانت میں خیانت کرے اوراس کی خیانت ثابت ہوجائے تو اس سے مال واپس چھیننے کے ساتھ ساتھ جسمانی طورپر بھی سزا دینا اوراس کو معاشرے میں بھی ذلیل وخوار کرنا تاکہ دوسروں کے لیے عبرت کا باعث بنے ۔ فبسطت علیہ العقوبۃ فی بدنہ ،اخذتہ بما اصاب من عملہ ،ثم نصبتہ بمقام المذلۃ ،ووسمتہ بالخیانۃ ،وقلدتہ عارالتھمۃ ۔اوراست جسمانی اعتبار سے بھی سزادینا اورجو مال حاصل کیاہے اسے چھین بھی لینا اورمعاشرے میں ذلت کے مقام پر رکھ کر خیانت کاری کے مجرم کی حیثیت سے پہچنوانااورننگ ورسوائی کا طوق اس کے گلے میں ڈال دینا۔[32]اسی طرح اسی خطبہ میں ایک اورجگہ ارشاد فرماتے ہیں کہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کسی عہدے کی کرسی حاصل کرنے کےلیے اپنے آپ کو امین اورنیک ظاہر کرتے ہیں خبردار ان کا ظاہری پن تجھے دھوکہ نے بلکہ پہلے ان کا امتحان لینا کہ واقعی وہ امانتدار ہیں ان کا آپ سے پہلے حکمرانوں کے ساتھ سلوک کیسا تھا ۔۔[33]
(۷):صداقت
صداقت کی صفت کی اہمیت رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث سے لگائی جاسکتی ہے کہ آپ (صلی الله علیه و آله وسلم)نے فرمایا:لاتنظروا الی کثرۃ صلاتھم وصومھم وکثرۃ الحج والمعروف،وطنطنھم باللیل ،ولکن انظروا الی صدق الحدیث واداء الامانۃ ۔کہ لوگوں کی زیادہ نمازیں ،ان کے روزے ،ان کے حج اورنیکیاں اوررات کو انکی مناجات کو نہ دیکھو بلکہ ان کی صداقت اورامانت کی طرف نگاہ کرو ۔[34]
امام علی علیہ السلام نے بھی نہ صرف صداقت سے حکومت کرنے کی سفارش کی بلکہ خود صداقت پر مبنی ایک ایسی الھی حکومت قائم کی جس کی مثال نہیں ملتی ۔اور اسی وجہ سے علی علیہ السلام کو مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا استاد شہید مطہری لکھتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام کی خلافت میں تیسری مشکل امام کی سیاست میں صداقت اورصراحت کا ہونا تھا کہ حتی بعض اپنے لوگ بھی اس کوپسند نہیں کرتے تھے اورکہتے تھے کہ سیاست میں اتنی صداقت نہیں ہوناچاہیے بلکہ سیاست کی چاشنی تو جھوٹ اوردھوکہ ہے ۔اسی وجہ سے علی علیہ السلام کو اچھاسیاستدان نہیں سمجھتے تھے اسی وجہ سے امیرکائنات (علیه السلام) نے بھی واضح الفاظ میں فرمایا:واللہ مامعاویہ بادھی منی ولکنہ یغدرویفجرولو لا کراھیۃ الغدرلکنت من ادھی الناس ولکن کل غدرۃ فجرۃ وکل فجرۃ کفرۃ ۔۔۔۔۔
معاویہ مجھ سے زیادہ سیاستدان اورذہین نہیں ہے لیکن وہ دھوکااورفریب دیتا ہے اورگناہ کرتا ہے اگر دھوکا اورفریب گناہ نہ ہوتا تو میں زیادہ ذہین اورسیاستمدار ہوتا لیکن ہرمکروفریب گناہ ہے اورہرگناہ کفر ہے ۔[35]
مذکورہ بالامطلب سے واضح ہوگیا کہ حضرت علی علیہ السلام کی حکومت صداقت کے عنصرپر قائم تھی اورصداقت کی اہمیت کے پیش نظر مالک اشتر کو بھی ارشاد فرماتےہیں کہ :وایاک والمن علی رعینک باحسانک او التزید فیما کان فعلک اوان تعدھم فتع موعدک بخلفک ان المن یبطل الاحسان والتزید یذھب بنورالحق ،والخلف یوجب المقت عنداللہ ۔[36]
اس مطلب سے واضح ہوتا ہے کہ حاکم صرف حکومت کی سیٹ تک پہنچنے کے لیے جھوٹے وعدے اورلوگوں کو فریب نہ دے لیکن آج کی سیاست میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ سیاسی لوگ اپنے مذموم اہداف تک پہنچنے کےلیے جھوٹے وعدے،فریب اوردھوکے کا سہارا لیتے ہیں اورسیاست کو اسی چیز کا نام دیتے ہیں ۔
(۸):حسن سابقہ
امام علی علیہ السلام کی نگاہ میں ایک وزیر کا حسن سابقہ رکھنا بہت اہم ہے اگر اس کا ماضی اس کے برے اعمال ،ظلم وستم ،خیانت اورفریب کو آشکارکرنے والا ہے تو وہ رہبری اورقیادت کے لائق نہیں ہے اوراس سلسلے میں علی علیہ السلام کا موقف سخت تھا اوربہت سی مشکلات اسی وجہ سے پیدا ہوئی امام کی نگاہ میں بہت سے فرمانراو ایسے تھے جو فرمانروائی کے قابل نہیں تھےعلی علیہ السلام نے ایک لحظہ بھی انہیں ان کے مقام پر برداشت کرنا گوارا نہ سمجھا اوردوسرا اپنے وفادارساتھیوں کو بھی اسی چیز کی تاکید فرماتے ۔مالک اشتر کو فرماتے ہیں :ان شرّوزرائک من کان لاشرار قبلک وزیرا ،ومن شرکھم فی الاثام فلایکونن لک بطانۃ ۔۔۔بدترین وزراء وہ لوگ ہیں کہ جو پہلے برے لوگوں کے وزیرتھے اوران کے گناہوں میں شریک تھے پس ایسا نہ ہو کہ ایسے افراد تمہارے ہم راز بن جائیں کیونکہ گناہگاروں کے یاورتھے اورظالم لوگوں کی مدد کرنے والے تھے پس تم ایسے افراد تلاش کرو جو فکری حوالے سے قوی اورمعاشرے میں جانی پہچانی شخصیات ہوں جنہوں نے کسی ظالم کی مددنہیں کی ایسے لوگ تیری نسبت مھربان تر ہوں گے ۔۔ان کو اپنی نجی اورسرکاری محفلوں میں دعوت کرو ۔[37]
(۹):ریاست طلبی سے پرہیز
ریاست طلبی ایک ھوای نفسانی ہے اس لیے امام علی نے مالک کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :ولاتقولن :انی مومر آمرفاطاع فان ذلک ادغال فی القلب ومنھکۃ للدین ۔ اورنہ کہنا :میں حاکم ہوں اورحکم دیتا ہوں اورحتما حکم جاری ہو ؛کیونکہ ایسی صفات دل کے فاسد اوردین اورحکومت کی نابودی کا سبب بنتا ہے ۔[38]امام علی مالک کو فرماتے ہیں کہ خدا کی قدرت اورعظمت کو ذہن میں رکھ اورجب حاکم ہونا تجھے مغرور بنانے لگے تو خدا کی قدرت اورعظمت کی طرف نگاہ کرنا ۔اسی طرح امام مالک کو ارشاد فرماتے ہیں کہ اس حکومت کو ایک اورنگاہ سے دیکھ اوروہ یہ ہے کہ یہ حکومت ایک امتحان ہے کہ خدا نے اس کے ذریعے لوگوں پر اس کو حاکم بنا کر اس کا امتحان لیتا ہے ۔[39]
ب:اجتماعی صفات
۱:خوش خلقی :
خوش خلقی کی اہمیت کے لیے قرآن مجید کی یہ آیت کافی ہے کہ فرمایا:لوکنت فظاغلیظ القلب لانفضوا من حولک [40]
اور خود امام علی علیہ السلام کا یہ فرمان بھی اس کی اہمیت کو دوچندان کردیتا ہے کہ فرمایا:لاقرین کحسن الخلق ،خوش خلقی جیساکوئی ساتھی نہیں ۔[41]
نہج البلاغہ میں اس صفت کو ایک انسان کا امتیاز خاص بیان کیا گیا ہے امام علی علیہ السلام محمد بن ابوبکر اورمالک اشتر کو فرماتے ہیں کہ محبت ،مہربانی اورشاداب چہرے کے ساتھ لوگوں سے ملیں اوران کے مسائل سے آگاہی پیدا کریں امام علیہ السلام مالک اشتر کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :وأشعرقلبک الرحمۃ للرعیۃ ،والمحبۃ لھم ،واللطف بہم ،ولاتکونن علیہم سبعاضاریاتغتنم اکلھم،(نامہ ۵۳،ص۴۰۳،۴۰۴ترجمہ دشتی )
۲:تواضع وفروتنی
تواضع اورفروتنی ایسی صفات ہیں کہ جو ہرشخص کے لیے پسندیدہ ہیں حضرت علی علیہ السلام خطبہ نمبر ۱۹۲میں تواضع اورفروتنی کو انسان کی دنیوی اوراخروی کامیابی کا راز بتاتےہوئے لوگوں کو متوجہ کرتےہیں کہ اگر غرور اورتکبر کوئی اچھی چیز ہوتی تو خدا اپنے پیغمبروں کے لیے اسے انتخاب کرتا در حالانکہ خدا نے پیغمبروں کو تکبر اورغرور سے منع فرمایا ہے اورپیغمبران خود مومنین کے آگے تواضع اورفروتنی کرتے امام فرماتےہیں :ورضی لھم التواضع ،[42]خداوندمتعال نے انبیاء کے لیے تواضع کو انتخاب کیا ہے اسی طرح حکمت ۱۱۳میں امام تواضع کو انسان کی شخصیت کے عنوان سے یاد کرتے ہیں کہ تکبر اورغرور سے انسان کی شخصیت ظاہر نہیں ہوتی بلکہ تواضع سے ہوتی ہے فرماتے ہیں کہ لاحسب الاالتواضع [43]
ممکن ہے بعض لوگ جیسے رہبر اورحاکم ہیں کہ کسی عہدے پر پہنچ کر تکبر جیسی بیماری میں مبتلاء ہوجائیں جو ان کی بربادی اورنابودی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے اسی لیے امام علی علیہ السلام مالک اشتر کو ارشاد فرماتے ہیں :اپنی رعیت کے سامنے تواضع اورانکساری سے پیش آنا۔[44]اور اسی طرح اگر کوئی سخت بات کہہ دے تو اس کو برداشت کرنے کی طاقت ایک حاکم میں ہونی چاہیے امام فرماتے ہیں :ثم احتمل الخرق منھم والعی ،ونح عنھم الضیق والانف یبسط اللہ علیک بذلک اکناف رحمتہ ؛ان میں سے اگر کوئی بدکلامی کا مظاہرہ کرے تو اسے برداشت کرو اوردل تنگی اورغرور کو دوررکھو تاکہ خدا تمھارے لیے رحمت کے دروازے کھول دے[45]
۳:لوگوں کے عیبوں پر پردہ ڈالنے والا
حضرت امیر کے نورانی کلام سے ایک اورصفت جو ایک رہبر اورحاکم کے لیے ضروری ہے اورجس کی بہت زیادہ اہمیت بیان کی گئی ہے وہ ہے لوگوں کے عیبوں پر پردہ ڈالنا ۔کیونکہ انسان خطا کا پتلا ہے جس سے غلطیاں بھی ہوتی ہیں جن میں عیب بھی ہوسکتے ہیں ،کیونکہ صرف معصوم ہستیاں ہی ایسی ہے اس دنیا پر جن میں کوئی عیب نہیں ورنہ دوسرے لوگ عیبوں سے بالکل پاک نہیں ہیں اسی لیے حاکم خدا کی اس(ستارالعیوب )صفت کا مظہر ہونا چاہیے جس طرح وہ خود امید رکھتا ہے کہ خدا اس کے عیبوں کو چھپائے رکھے تو وہ خدا کی مخلوق کے عیبوں پر پردہ ڈالے ،صرف یہ نہیں بلکہ مولائے کائنات کی نگاہ میں ایک حاکم ایسا ہونا چاہیے جو نہ خود عیب لوگوں کے بیان کرے اورنہ ایسے لوگوں کو اپنے پاس بیٹھنے دے جو دوسروں کے عیبوں کو تلاش کرکے انہیں رسوا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
حضرت علی علیہ السلام مالک اشتر کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ : فان فی الناس عیوبا،الوالی احق من سترھا ،فلاتکشفن عماغاب عنک منھا ،فانما علیک تطھیرما ظھرلک ۔۔۔۔۔فان الساعی غاش،وان تشبہ بالناصحین بہرحال لوگوں میں کمزوریاں پائی جاتی ہیں اوران کی پردہ پوشی کی سب سے بڑی ذمہ داری خود والی پر ہے لہذاخبر دار جو تمہارے سامنے نہیں ہے اس کا انکشاف نہ کرنا ۔۔جہاں تک ممکن ہو لوگوں کے ان تمام عیوب کی پردہ پوشی کرتے رہو جن اپنے عیوب کی پردہ پوشی کی پروردگارسے تمنا رکھتے ہو ہرچغل خور کی تصدیق میں عجلت سے کام نہ لینا کہ چغل خور ہمیشہ خیانت کارہوتا ہے چاہے وہ مخلصین ہی کے بھیس میں کیوں نہ ہو[46]
باب سوم :
رہبر اورحاکم کی ذمہ داریاں
۱:عدل وانصاف کا قیام
عدالت ایک ایسا مقولہ ہے جو اس دور میں زیادہ تر حضرت علی علیہ السلام کی سیرت اورخلافت سے مربوط سمجھا جاتا ہے اس کی وجہ بھی واضح ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے عدالت کے قیام کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کردیا اوراس راستے میں اتنی مشکلات اٹھائیں کہ جو عام انسان کے بس کی بات نہیں ہے ۔
عدالت ایک چیز ہے کہ جو خدا کو پسند ہے اورخدا نے حکمرانوں پر یہ بات بھی فرض کی ہے کہ وہ عدالت کے قیام میں کوشش کریں حضرت علی علیہ السلام عدل کے قیام کو رہبروں کی آنکھوں کی ٹھنڈک سے تعبیر کرتے ہیں فرماتے ہیں کہ :وان افضل قرۃ عین الولاۃ استقامۃ العدل فی البلاد۔[47]کہ تحقیق والیوں کے حق میں بہترین آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان یہ ہے کہ ملک بھر میں عدل وانصاف کا قیام ہے ۔البتہ رہبروں اورحکمرانوں کا اولین فریضہ بھی ہے تاکہ ظلم وستم سے نجات پاتے ہوئے عوام اورلوگوں تک ان کے حقوق پہنچتےرہیں ۔چاہے اس سے بعض خواص کا طبقہ ناپسندیدگی کا اظہار ہی کیوں نہ کرے اگر انصاف کا دامن پکڑا ہوا ہے تو اس کو انجام دو ۔امام علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
ولیکن احب الامور الیک اوسطھا فی الحق واعمھا فی العدل اجمعھالرضی الرعیتہ۔ تمہارے لیے پسندیدہ کام وہ ہونا چاہیے جو حق کے اعتبار سے بہترین ،انصاف کے لحاظ سے سب کو شامل اوررعایاکی مرضی سے اکثریت کے لیے پسندیدہ ہو کہ عام افراد کی ناراضگی خواص کی رضامندی کو بھی بے اثر بنا دیتی ہے [48] اسی طرح فرماتےہیں کہ انصف اللہ ،وانصف الناس من نفسک ومن خاصۃ اھلک ،ومن لک فیہ ھوی من رعیتک فانک لاتفعل تظلم ۔اپنی ذات اپنے اہل وعیال اوررعایا میں جن سے تمھیں تعلق خاطر ہے سب کے سلسلہ میں اپنے نفس اوراپنے پروردگار سے انصاف کرنا کہ ایسا نہ کروگے تو ظالم ہوجاوگے[49]
حضرت علی علیہ السلام مالک اشترکو خطاب کرتےہوئے رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانی ارشادفرماتےہیں کہ :لن تقدس امۃ لایوخذ للضعیف فیھا حقہ من القوی غیرمتتعتع ۔وہ امت پاکیزہ کردارنہیں ہوسکتی جس میں کمزور کو آزادی کے ساتھ طاقتور سے اپنا حق لینے کا موقع نہ دیا جائے ۔[50]
۲:اقرباء پروری سے پرہیز
ایک حاکم کے لیے بہت ہی خطرناک چیز یہی ہے کہ وہ اپنے رشتہ داروں اورقریبی ساتھیوں کو اہمیت دے اوران میں ہی عہدے تقسیم کرے چاہے ان میں لیاقت ہویا نہ ؟ اگروہ اس لائق ہیں تو اس سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے لیکن نالائق لوگوں کو عہدے دینا اس بنا پر کہ وہ حاکم کے رشتہ داراوراس کے قریبی ہیں اورانہیں میں بیت المال تقسیم کرکے دوسرے لوگوں میں فرق کرنا یہ درست نہیں ہے اورتاریخ گواہ ہے کہ جس نے بھی ایسا کیا چاہے وہ خلیفہ ہی کیوں نہ تھا لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتے دکھائی دیا اس لیے امام ایک رہبر کی ذمہ داریوں میں سے شمار کرتے ہیں کہ وہ اقرباپروری سے پرہیز کرے ۔
حضرت علی علیہ السلام کو مصقلہ بن ہبیرہ الشیبانی کی شکایت ملی کہ وہ بیت المال کو اپنے رشتہ داروں اورقریبی آدمیوں میں تقسیم کرتا ہے حضرت علی علیہ السلام نے جب یہ سنا تو بہت سخت الفاظ میں ایک خط لکھا جس میں فرماتے ہیں :انک تقسم فی ء المسلمین الذی حازتہ رماحھم وخیولھم ۔۔۔۔۔۔ولتخفن عندی میزانا۔ (مجھے خبر ملی ہے کہ )تم مسلمانوں کے مال غنیمت کو جسے ان کے نیزوں اورگھوڑوں نے جمع کیاہے اورجس کی راہ میں ان کا خون بہایا گیا ہے اپنی قوم کے ان بدوں میں تقسیم کررہے ہو جو تمھارے خیرخواہ ہیں ،قسم اس ذات کی جس نے دانہ شگافتہ کیا ہے اورجانداروں کو پیدا کیا ہے اگر یہ بات صحیح ہے تو تم میری نظروں میں انتہائی ذلیل ہوگئے اورتمہارے اعمال کا پلہ ہلکاہوجائے گا ۔[51]
۳:مشورت
انسانی معاشروںمیں مشورت اوردوسروں کے تجربات اورافکار سے استفادہ کرنا ایک بنیادی حیثیت کی حامل چیز ہے اسی وجہ سے آج دنیا میں ہرحکمران کے ہرشعبے میں کوئی نہ کوئی مشیر ہوتا ہے اسلامی تعلیمات میں بھی مشورت کو بہت اہمیت حاصل ہے خود خاتم المرسلین کی زندگی بھی اس پر گواہ ہے مختلف جنگوں میں اصحاب سے مشورہ لینا پیغمبر اپنے لیے ضروری سمجھتے تھے اورعلی علیہ السلام مشورت کو ایک اہم پناہگاہ سمجھتے ہوئے فرماتےہیں کہ :ولامظاھرۃ اوثق من المشاورۃ مشورت سے زیادہ مضبوط کوئی پناھگاہ اورپشت پناہ نہیں ہے[52]
حضرت امام علی علیہ السلام مالک اشتر کے وظائف میں سے ایک مشورت کو شمارکرتے ہیں کہ علماء اورحکماء کے ساتھ بیٹھ کر ان سے مشورہ لے تا کہ جو چیز ملک کی مصلحت اورفائدےمیں ہے اس کو انجام دے اورحقیقت بھی یہی ہے کہ جوحکمران اپنے آپ کو مشورت سے بے نیاز سمجھتے ہیں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے اورلغزشوں سے محفوظ نہیں رہ سکتے ۔امام علی علیہ االسلام عھدنامہ مالک میں بعض لوگوں کی صفات بیان کرکے مالک کو منع فرمارہے ہیں کہ ان لوگوں کے ساتھ مشورہ مت کرنا فرمایا:ولاتدخلن فی مشورتک بخیلا یعدل بک عن الفضل ویعدک الفقر،ولاجبانایضعفک عن الامور ولاحریصایزین لک الشرۃ بالجوردیکھو اپنے مشورہ میں کسی بخیل کو شامل نہ کرنا کہ وہ تم کو فضل وکرم کے راستہ سے ہٹادے گا اورفقروفاقہ کا خوف دلاتارہے گا اوراسی طرح بزدل سے مشورہ نہ کرنا کہ وہ ہرمعاملہ میں کمزور بنادے گا اورحریص سے بھی مشورہ نہ کرنا کہ وہ ظالمانہ طریقہ سے مال جمع کرنے کو بھی تمہاری نگاہوں میں آراستہ کردے گا ۔[53]
۴:عوام کی طرف توجہ کرنا اوران سے اچھاسلوک
ایک اہم وظیفہ اورذمہ داری جو حاکم اوررہبر پر آتی ہے اورایسا موضوع ہے کہ جس پر مستقل طورپر بحث کی جاسکتی ہے اورحضرت علی علیہ السلام نے مختلف زاویوں سے اس پر بحث کی ہے مثلا ان پر ظلم نہ ہونے دینا ،ان سے رابطہ رکھنا اورنگہبانو ں کے ذریعے رکاوٹیں کھڑی نہ کرنا ،عوام سے زیادہ دنوں تک پوشیدہ نہ رہنا ،ان سے ٹیکس لیتے وقت ان کے حالات کو دیکھنا ،ان کی مشکلات کو حل کرنے کے بارے میں سوچنا ،اگر غلطی ہوجائے تو عوام سے معافی وغیرہ مانگنا وغیرہ یہ وہ اشارے ہیں کہ جن پر حضرت علی علیہ السلام نے اپنے کلام میں نہ صرف ان کے مثبت اثرات کو بیان کیا ہے وہاں ان کی طرف توجہ نہ کرنے سے جو ایک رہبر کےلیے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں ان کوبھی بیان کیاہے ہم یہاں صرف اشارہ کے طورپر ذکر کرتے ہیں ۔
حضرت علی علیہ السلام برخلاف دنیوی سیاستدانوں کے جو چند اثرورسوخ والے لوگوں کو اہمیت دیتے ہیں اوراپنی ناقص عقل کے مطابق سوچتے ہیں کہ یہ حکمرانی کی کرسی ان کی وجہ سے ہے اورجب تک یہ راضی ہیں اس کی اس کرسی کو کوئی نہیں چھین سکتا امام اس غلط فہمی کو دورکرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ خاص اثرورسوخ والے لوگ سب سے زیادہ تیری حکومت کو نقصان پہنچائیں گے یہ وہ لوگ ہیں جو عدالت برقرارکرنے کے مخالف ہیں ،جتنا بھی دو اتنا ان کے لیے کم ہے ،مشکلات کے وقت سب سے پہلے متزلزل نظرآتے ہیں یہاں تک کہ عوام کی خصوصیات تک پہنچتے ہیں اورفرماتے ہیں :
وانما عمادالدین ،واجماع المسلمین ،والعدۃ للاعداء،العامۃ من الامۃ ،فلیکن صغوک لھم ،ومیلک معھم دین کا ستون ،مسلمانوں کی اجتماعی طاقت ،دشمنوں کے مقابلہ میں سامان دفاع عوام الناس ہی ہوتےہیں لہذا تمھارا جھکاو انہیں کی طرف ہونا چاہیے اورتمھارا رجحان انہیں کی طرف ضروری ہے ۔[54]
جی ہاں عوام ہی رہبر کی اصل طاقت ہے عوام کو مطمئن رکھنا ان کی ضروریات کو پوری کرنا ،ان کے مسائل کو سننا رہبر کی ترجیحات میں شامل ہونی چاہییں تاکہ ضرورت مند اورمظلوم کھلم کھلا اوربغیر ہچکچاہٹ کے اپنا مدعی بیان کرسکے ۔امام علی علیہ السلام فرماتےہیں :وتجلس لھم مجلسا عاما۔۔۔۔حتی یکلمک متکلمھم ۔(فریادیوں کی فریاداورعوام کے مسائل سننے کے لیے )ایک عمومی مجلس کا انعقاد کرو اوراس خدا کے سامنے متواضع رہو کہ جس نے تجھے پیدا کیاہے اپنے تمام نگہبان ،پولیس ،فوج ،اعوان وانصار سب کو دوربٹھا دو تاکہ بولنے والاآزادی سے بول سکے اورکسی طرح کی لکنت کا شکار نہ ہو ۔[55] رعایا سے محبت اورنرمی سے پیش آنا ایک رہبر کا اولین فریضہ ہونا چاہیے مولائے کائنات اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتےہیں :واشعر قلبک الرحمۃ للرعیۃ ،والمحبۃ لھم واللطف بھم ولاتکونن علیھم سبعاضاریا۔رعایا کے ساتھ مہربانی اورمحبت ورحمت کو اپنے دل کا شعار بنالواورخبر دار ان کے حق میں پھاڑکھانے والے درندے کی مثل نہ ہوجاناکہ انہیں کھا جانے ہی کو غنیمت سجھے ۔[56]
عوام میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ جن کی بہت سی کمزوریاں بھی ہوتی ہیں یہ رہبر اورحاکم کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی کمزوریوں اوران کے عیبوں پر پردہ ڈالے امام علی علیہ السلام مالک کو مخاطب کرتےہوئے مکتوب ۵۳میں ارشاد فرماتےہیں کہ :لوگوں کے ان تمام عیبوں کی پردہ پوشی کرتے رہے کہ جن عیبوں کی پردہ پوشی کا اپنے لیے خدا سے تمنا رکھتےہو ۔
اسی طرح ایک اوراہم مورد جس کا تعلق براہ راست عوام سے ہے وہ ہے ٹیکس لینا ،اما م علی علیہ السلام اسی مورد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتےہیں کہ دیکھو ٹیکس کا تعلق زمینوں کی آباد کاری سے ہے ایک حاکم ٹیکس کا حقدار اس وقت ہوسکتا ہے جب اس نے زمینوں کی آبادکاری میں مدد کی ہو ان کی مشکلات کو دورکیا ہو جس نے زمینوں کو آباد کیے بغیر ٹیکس لینے پر اصرار کیا اس نے شہروں کو برباد کیا ۔[57]
۵:دنیاکو ذخیرہ نہ کرنا
آج کے حکمرانوں کاطرزعمل یہ ہے کہ وہ حکمرانی یا کسی عہدے کو غنیمت شمارکرتے ہیں اوریہی سوچتے ہیں کہ انہی دنوں میں کئی سالوں کے لیے دولت جمع کرلیں لیکن حضرت علی علیہ السلام معاشرے میں فقراورغربت کے سبب کو یہی طرزعمل بتاتے ہوئے ارشادفرماتےہیں کہ :جہاں بھی غربت اورفقرآجائے نابودی بھی حتمی ہے اورغربت معاشرے میں اس وقت آتی ہے جب حکمران دولت جمع کرنے میں لگ جائیں اوراپنی کرسی کے جانے کا خوف پیدا ہوجائے ۔حضرت علی علیہ السلام مالک اشتر کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ :وانما یوتی خراب الارض من اعواز اھلھا وانما یعوز اھلھا لاشراف انفس الولاۃ علی الجمع ۔۔۔زمینوں کی بربادی اہل زمین کی تنگدستی سے پیدا ہوتی ہے اورتنگدستی کا سبب حکام کے نفس کا جمع آوری کی طرف رجحان ہوتا ہے اوران کی یہ بدظنی ہوتی ہے کہ حکومت باقی رہنے والی نہیں ہے اوروہ دوسرے لوگوں کے حالات سے عبرت حاصل نہیں کرتے ۔[58]
۶:وزراء کی تشویق
حکومت ایک ماشین کی مانند ہے کہ جس کا ہر وزیر حکومت کی اس مشینری کو چلانے میں حصہ دار ہے اما م علی علیہ السلام کی نظر میں ایک حاکم کے لیے جو حکومت کی باگ ڈورسنبھالے ہوئے ہے ، ایک وظیفہ یہ بھی ہے کہ وزراء کی تشویق کرے جس کے دو اہم فائدے یہ ہیں ایک یہ جن وزراء کی تشویق ہوئی ہے ان کو حوصلہ ملے گا کہ ان کی محنت رایگان نہیں گئی اوردوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ دوسرے وزراء اورحکومتی اہل کار بھی دیکھیں گے تو رشک کریں گے کہ ہمیں بھی ایسا کرنا چاہیے ۔
امام علی علیہ السلام مالک اشتر کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ :وواصل فی حسن الثناء علیھم ،وتعدیدما ابلیٰ ذوو البلاء منھم ،فانّ کثرۃ الذکر لحسن افعالھم تھزالشجاع ،وتحرص الناکل ،انشاء اللہ تعالی ۔اوربرابر(جوانوں اوروزراء کے ) کارناموں کی تعریف کرتے رہنا بلکہ ان کےعظیم کارناموں کا شمار کرتے رہنا کہ ایسے کارناموں کےتذکرے بہادروں کو جوش دلاتے ہیں اورپیچھے رہ جانے والوں کو ابھارتےہیں ۔ [59]
۷:مصاحبت کے لیے اچھے لوگوں کا انتخاب کرنا
ایک اوراہم وظیفہ جو ایک رہبر اورحاکم کا بنتا ہے وہ اپنے آس پاس بیٹھے لوگوں پر توجہ ہے کیونکہ بسااوقات ایک رہبر کی شکست اوراسکی حکومت کاتختہ الٹنے کا سبب یہی لوگ بنتے ہیں لوگوں میں رہبرکی بدنامی کاسبب بھی یہی لوگ ہوتے ہیں اسی لیے رہبرکے لیے ضروری ہے کہ اس کے اردگرد کے لوگ متقی اورپرہیزگارہونے چاہییں ۔امام علی علیہ السلام مالک کو خبردارکرتے ہوئے ارشادفرمایا:والصق باھل الورع والصدق،ثم رضھم علی الایطروک ولایبححوک بباطل لم تفعلہ اپنا قریبی رابطہ اہل تقوی اوراہل صداقت رکھنا اورانہیں بھی اس امر کی تربیت دینا کہ بلاسبب تمہاری تعریف نہ کریں اورکسی ایسے بے بنیاد عمل کا غرورنہ پیدا کرائیں جو تم نے انجام نہ دیا ہو کہ زیادہ تعریف سے غرورپیدا ہوتا ہے ۔[60]
رہبر کے لیے ضروری ہے کہ اس کے اردگرد رہنے والے لوگ سب برابر نہیں ہونے چاہییں بلکہ نیک اوربد میں فرق ہونا چاہیے اس کی رفتار ،اس کے کردار وغیرہ میں یہ چیز ظاہر ہونی چاہیے امام فرماتے ہیں :ولایکونن المحسن والمسی ء عندک بمنزلۃ سواء ،فان فی ذلک تزھیدا لاھل الاحسان فی الاحسان ،وتدریبا لاھل الاساء ۃ علی الاساء ۃ !دیکھو خبردار نیک اوربدکردار تمہارے نزدیک یکساں نہیں نہ ہونےپائیں کہ اس طرح نیک کرداروں میں نیکی سے بددلی پیدا ہوگی اوربدکرداروں میں بدکرداری کا حوصلہ پیدا ہوگا ۔[61]
باب چھارم :صالح رہبری اورقیادت کے آثاروبرکات
اگرچہ اس موضوع پر سیرحاصل بحث نہیں جاسکتی البتہ صرف اس لیے کہ یہ عنوان بھی تشنہ کام نہ رہے صرف اشارہ کرتے ہیں ۔خطبہ نمبر ۴۰میں امام علی علیہ السلام خوارج کے اعتراض کے جواب میں فرماتےہیں کہ آو میں بتاوں کہ حکومت اسلامی کے آثاروبرکات کیا ہیں فرمایا:
۱:مومنین کے لیے امنیت اورآزادی کاحاصل ہونا تاکہ اپنے واجبات کو اچھے طریقے سے انجام دے سکے (یعمل فی امرتہ المومن)[62]
۲:کافر اورمشرک لوگ بھی اپنے فائدے اٹھا سکیں گے اوران پر کوئی جبرنہیں ہوگا۔(ویستمتع فیھا الکافر)[63]
۳:بیت المال کو ایمان داری سے جمع کیا جائے جو لوگوں کی خوشحالی اوران کی مشکلات کے کم ہونے کا سبب بنے گا (یجمع بہ الفیء )[64]
۴:نیک رہبر کی بدولت معاشرتی امنیت حاصل ہوگی (تامن بہ السبل )[65]
۵:مظلوم کا حق ایک ظالم سے فورا لے لیاجائے اورمظلوم کی فریاد کو سنا جائے گا چاہے ظالم کتنا ہی طاقتورکیوں نہ ہو (یوخذبہ للضعیف من القوی)[66]
حالانکہ دنیوی اورغیر الہی حکومتوں میں ایسا ممکن نہیں ہے ایسا تب ہوگا جب رہبر اورقائد صالح ہوگا اسی طرح عھدنامہ مالک اشتر میں اگر غورکریں تو امام نے خط کے شروع میں الہی اوراسلامی حکومت کہ جس کا رہبر صالح اورنیک ہو اس کی برکات کی طرف اشارہ کیا ہے مثلا
۱:شہروں کی آبادکاری صرف صالح اورنیک رہبری کا شاخسانہ ہے (جبایۃ خراجھا)[67]
۲:خداکے دشمنوں سے جنگ کرنا نہ کہ ان کے آگے سر جھکانا (جھاد عدوھا )[68]
۳:لوگوں کی اصلاح ،اچھی تربیت اوران کے رشد کی طرف توجہ کرنا (واستصلاح اھلھا )[69]
یہ مختصر سی تحریریقینا اس موضوع کا حق ادانہیں کرسکتی کیونکہ مطالب کے بحرعمیق نھج البلاغہ سے صرف چند سطور کا انتخاب کیاگیا ہے اگرچہ اس موضوع پرسیر حاصل بحث کرنے کےلیے ایک مستقل کتاب کی ضرورت ہے لیکن صرف اس موضوع کا تعارف کرانے کے لیے یہ مختصر تحریر لکھی گئی ہے ۔
حواله جات:
1شیخ طوسی ،الامالی ،ج۱،ص۲۱۵،ح۳۲۸[1]
2سورہ رعد،آیت ۷[2]
3نھج البلاغہ ،خطبہ ۴۰[3]
4ترجمہ ،سید ذیشان حیدرجوادی ،ص ۹۳[4]
5نھج البلاغہ ،خطبہ ۴۰[5]
6ارسنجانی ،حسن۔حاکمیت دولتھا، ص۶۳[6]
7نھج البلاغہ ،ترجمہ ذیشان جوادی ،خطبہ ،۳،ص۴۳[7]
8ایضا[8]
9نھج البلاغہ ،نامہ ۲۷[9]
10نھج البلاغہ ،کلمات قصار۴۶۷[10]
11ایضا،خطبہ ،۱۱۶[11]
12 نهج البلاغه، ترجمہ فيض الاسلام، خ۱۳۱، ص۴۰۶ ـ ۴۰۷[12]
13نھج البلاغہ ،خطبہ ۱۶۴[13]
14ایضا، نامہ ۶۲[14]
15سورہ شمس ،آیت ۹اور۱۰[15]
16نھج البلاغہ ،نامہ ۵۳[16]
17نھج البلاغہ ،ترجمہ ذیشان حیدر جوادی ،نامہ ۲۷ص۵۱۳[17]
18ایضا ،نامہ ۵۳،ص۵۷۳[18]
19ایضا ،ص ۵۹۱[19]
20ایضا ،مکتوب ۵۶،ص ۶۰۰۔۶۰۱[20]
21اصول کافی ،کلینی ،ج۳،ص۱۵۳[21]
22ایضا ،مکتوب ۵۳،ص ۵۸۳[22]
23ایضا[23]
24نھج البلاغہ ،ترجمہ دشتی ،مکتوب ۴۵،ص۳۹۳۔۳۹۴[24]
25نھج البلاغہ ،ترجمہ ذیشان حیدر جوادی ،خطبہ ،۲۰۹،ص۴۲۹[25]
26غررالحکم ،حدیث نمبر ۸۴۳۸[26]
27ایضا،حدیث نمبر ۵۵۷۱[27]
28نھج البلاغہ ،مکتوب ۵۳[28]
29ایضا،ترجمہ دشتی ،مکتوب ۵۳،ص۴۰۹[29]
30ایضا،ترجمہ ذیشان حیدرجوادی ،کلمات قصار۲۷۴[30]
31نھج البلاغہ ترجمہ ذیشان حیدرجوادی مکتوب ۲۶ص۵۱۱[31]
32نھج البلاغہ ،ترجمہ ذیشان حیدر جوادی ،مکتوب ،۵۳،ص۵۸۵[32]
33ایضا،ص۵۸۷[33]
34مجلسی ،بحارالانوار،ج۷۰،ص۹[34]
35نھج البلاغہ ،ترجمہ ذیشان حیدرجوادی،خطبہ ۲۰۰،ص۴۲۱[35]
36نھج البلاغہ ،مکتوب ۵۳[36]
37ایضا،ص۵۷۷[37]
38ایضا ،مکتوب ۵۳،ص۵۷۴[38]
39ایضا،[39]
40سورہ آل عمران آیت ۱۵۹[40]
41نھج البلاغہ ،ترجمہ ذیشان حیدر جوادی ،کلمات قصار ۱۱۳،ص۶۷۰[41]
42ایضا،خطبہ ۱۹۲[42]
43ایضا ،کلمات قصار۱۱۳[43]
44ایضا ،مکتوب ۵۳[44]
45نھج البلاغہ ،ترجمہ ذیشان حیدر جوادی ،مکتوب ۵۳،ص۵۸۹[45]
46ایضا،ص۵۷۷[46]
47ایضا،ص۵۸۱[47]
48ایضا،ص۵۷۵[48]
49ایضا[49]
50ایضا۔[50]
51نھج البلاغہ، ترجمہ ذیشان حیدر جوادی ، مکتوب ۴۳،ص۵۵۵[51]
52ایضا،کلمات قصار۱۱۳[52]
53ایضا،مکتوب ۵۳،ص۵۷۷[53]
54ایضا[54]
55ایضا ،ص ۵۸۹[55]
56ایضا،ص۵۷۳[56]
57ایضا،ص۵۸۵[57]
58ایضا ،ص۵۸۵[58]
59نھج البلاغہ ،ترجمہ ذیشان حیدر جوادی ،مکتوب ۵۳[59]
60نھج البلاغہ ،ترجمہ ذیشان حیدرجوادی ،مکتوب نمبر۵۳،ص۵۷۷[60]
61ایضا[61]
62خطبہ ۴۰،ترجمہ ذیشان حیدر جوادی ،ص۹۲[62]
63ایضا[63]
64ایضا[64]
65ایضا[65]
66ایضا[66]
67مکتوب ۱۵۳،ترجمہ ذیشان حیدر جوادی ،ص۵۷۲[67]
68ایضا[68]
69ایضا[69]
source : http://www.balaghah.net