اردو
Thursday 28th of November 2024
0
نفر 0

مسلمانوں کے ایک دوسرے پر حقوق

معلی بن خنیس امام صادقعلیہ السلام سے نقل کرتا ہے، کہ امام (ع) سے عرض کیا کہ ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کا کیا حق ہے ؟

آپ(ع) نے فرمایا :سات حق واجب ہے اگر ان میں سے ایک حق کو بھی ضایع کیا تو وہ خدا کی ولایت سے خارج ہے ، اور اس انسان کے لئے خدا اور خدا کے نور سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔

البتہ اس روایت میں سات حقوق کو بیان کیا ہے لیکن ایک اور روایت بھی ہے اسے بھی امام (ع) نے معلی بن خنیس سے فرمایا ہے ؛ اس میں ستر(٧٠) حقوق کو متذکر ہوا ہے ، میں ان ستر کو بیان نہیں کروں گا چونکہ آپ ان سب پر عمل نہیں کر سکتے ہیں صرف انہیں سات حقوق کو بیان کروں گا جو اس روایت میں بیان ہوا ہے ۔

آپ(ع) نے فرمایا: : «إِنِّي عَلَيْكَ شَفِيقٌ أَخَافُ أَنْ تُضَيِّعَ وَلَاتَحْفَظَ وَتَعْلَمَ وَلَاتَعْمَلَ»؛ مجھے ڈر ہے کہ تمہیں ان حقوق کے بارے میں علم حاصل ہو جائے اور ان پر عمل نہ کریں اور ان حقوق کو ضایع کرے ۔

مغلی : میں نے امام سے عرض کیا : خدا پر توکل کرتا ہوں ، آپ فرمائیں اور ہم بھی ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے ۔

پہلا حق:

«قَالَ أَيْسَرُ حَقٍّ مِنْهَا أَنْ تُحِبَّ لَهُ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِكَ وَ تَكْرَهَ لَهُ مَا تَكْرَهُ لِنَفْسِكَ» ان سب سے آسان حق یہ ہے کہ جو کچھ تم اپنے لئے پسند کرتے ہو اپنے مومن بھائی کے لئے بھی اسےپسند کرو، اور جس چیز کو اپنے لئے پسند نہیں کرتے ہو اسے اپنے مومن بھائی کے لئے بھی پسند نہ کرو ۔

یہ پہلا حق ہے جو ایک مومن پر اپنے دوسرے مومن بھائی کا ہے ،ہم اس حق کے کتنے پایبند ہیں اور کس حد تک اس پر عمل کرتے ہیں ؟!

ہم اپنے اسی طلبگی کے دائرے سے شروع کریں ،کہ جس قدر ہم خود رشدکرنا چاہتے ہیں اور ہماری خواہش ہوتی ہے کہ ہمارا علم زیادہ ہو جائے ،کیا واقعا دوسروں کے علم زیادہ ہونے کے بھی خواہشمند ہیں یا نہیں ؟

اگر کوئی طلبہ ہو جو درس وبحث میں مشغول ہو ،لیکن ابھی وہ مریض ہو جائے اور یہ سننے میں آئے کہ اب وہ کسی درس و بحث میں شرکت نہیں کر سکتا ،اس وقت اگر کوئی الحمد للہ بول لیں ،تو وہ آیندہ کسی کام کا نہیں رہے گا ۔

ضروری نہیں یہ منہ سے بولے ،یہ پسند اور ناپسندانسانی نفس کی صفت ہے لہذا اس کو بیان کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے ،اگر کوئی فقیر ہو جائے یا مریض ہو جائے تو ہم میں سے کوئی ہے جو اس حد تک احساس کرے کہ وہ خود فقیر ہوا ہے اور خود مریض ہوا ہے ؟ہم ایسے نہیں ہیں ، اگر کسی کو پریشانی اورمشکلات میں دیکھیں تو ہم اسی اندازہ کا یہ احساس کرے کہ یہ ہماری مشکلات اور پریشانی ہے ، پس ہم میں سے اکثر اس حق کو اداء نہیں کرتے ، اما م(ع) نے فرمایا یہ سب سے چھوٹا حق ہے ۔

ہمیں یہ پسند نہیں ہے کہ کوئی ہماری غیبت کرے ، اگر کوئی آپ سے یہ بتائیں کہ میں نے کل آپ سے کوئی جھوٹی نسبت دی ہے تو آپ کتنا ناراض ہوتا ہے ؟ لیکن ہم خود دوسروں کی غیبت کرتے ہیں ،بغیر کسی وجہ کے کسی کے احترام کو پائمال کر لیتے ہیں ۔

میں نے اس الیکشن کے ایام میں ایک بات سنی کہ یہ بات سن کر لرزہ بہ اندام ہواہوں اور منہ سے یہ بات نکلی کہ خدا کرے ایسا نہ ہو؟کسی طلبہ نے بتایا ہے کہ میں اسی شہر قم کے اندر ٢٠ جگہوں پر منبر پر جا کر ایک امیدوار کے خلاف باتیں کی ہے ، کیا یہ دین کے مطابق ہے ؟ہمارے بزرگوں،رہبرمعظم انقلاب اسلامی ہمیشہ یہ فرماتے ہیں کہ دوسروں کی اچھائیوں کو بیان کرو ، اگر آپ امیداوروں میں سے کسی ایک کو پسند کرتے ہو تو یہ بولوکہ یہ شخص دیندار ہے انقلابی ہے ، اچھا کام کرتا ہے ، لیکن یہ بتانا کہ اس کے مال ودولت حرام ہے ؟! مگرتمہیں قاضی بنایا گیا ہے ، کیا تم نے اس بارے میں تحقیق کی ہے ؟! واقعاً یہ چیزیں حوزہ علمیہ کے لئے خطر ناک ہے ۔

کسی کے حمایت کرنے کے نام سے ،وہ بھی مقدس عناوین کو استعمال کر کے ایسا کام کر جاتے ہیں ،یہاں پر اس عنوان کوبھی خراب کرتا ہے ،اور اپنے اخلاقی بنیادوں کو بھی ،ہم کیسے اپنے آپ کو ایسے کام کرنے کی اجازت دیتا ہے ؟! اگر کسی کو کچھ بولنے کا موقع ملے اور وہ اسی موقعیت سے استفادہ کرتے ہوئے ہماری اہانت کرنا شروع کرے ، تو ہمین یہ پسند ہے ؟ایسا نہیں ہے تو اگر مجھے بھی کوئی مقام و منصب ملا تو اپنے آپ کو یہ اجازت نہیں دینی چاہئے کہ دوسروں کی اہانت کرے ، کسی پر تہمت لگائے ۔

اس روایت کو پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ پیغمبر اکرم (ص) جب معراج پر گئے تو خدا نے فرمایا : اگر کسی نے کسی مومن کی اہانت کی «بارَزَني بِالمُحَارَبَة»تو گویا اس نے مجھ سے جنگ لڑنے لئے مبارزطلب کیا ہے ، یہ ایک مصداق ہے ، واقعاً یہ ایک حق ہے ، مجھے اگر یہ پسند ہو کہ میرا اپنا گھر ہو تو مجھے اسی اندازہ سے دوسرے طلاب کے لئے گھر ہونے کو پسند کرنا چاہئے ، اگراپنے لئے عزت کے خواہان ہو تو دوسروں کے لئے بھی اتنا ہی پسند کرنا چاہئے ،اگر اس میں دوسروں کے لئے ایک ذرہ بھی کم کے خواہان ہوں تو اس روایت سے خارج ہے ۔

اگرہم یہ بتائیں کہ دوسرے کی عزت ہونی چاہئے لیکن مجھ سے دس درجہ نیچے کا ہو،یہ بھی خلاف ہے ،اس کا مطلب ہے کہ آپ دوسروں کواپنے سے نیچے کا درجہ کا خواہاں ہے ، اگر مجھے استاد ہونا پسند ہوتودوسرے کے لئے اسے پسند کرنا چاہئے ۔

ہمارے والد محترم اپنے آخری دو سالوں میں بیماری کی وجہ سے تدریس نہیں کر سکے تو اس وقت ایک دن مرحوم آیت اللہ العظمی تبریزی (رہ) ان کی عیادت کے لئے آئے تھے ( اس وقت آقای تبریزی خود زندہ تھے )اس وقت  فرمایا ؛مجھے آپ کے درس برگزار نہ ہونے پر بہت افسوس  ہے ، میں خود تو درس نہیں دے سکتا ، اورآپ کا درس بھی تعطیل ہوا ہے ، اس وقت آقای تبریزی بھی مریض تھے ، میں نے یہ احساس کیا کہ  جتنا اپنے درس کے چھٹی ہونے پر پریشان تھے اسی اندازہ سے ہمارے مرحوم والد (رہ) کے درس کے تعطیل ہونے پر پریشان تھے ،ہمیں ایسا ہی ہونا چاہئے ۔

ہم سب کا قدر مشترک ہمارا ایمان ہے (اگر یہ ہمارے اندر ہوانشاء اللہ) اگر ہم اپنے اس قدر مشترک کی حفاظت کرنا چاہئے ،تو ہمیں ان حقوق کی بھی حفاظت کرنی چاہئے ، کہیں ایسا نہ ہو کہ بغیر کسی وجہ کے بالکل اطمینان کے ساتھ کسی کو بہت ہی اوپر لے جائیں اور دوسرے کو بہت ہی حقیر اور ذلیل کرے ، شرعی لحاظ سے انسان ایک بات کو کہیں بتا سکتا ہے اور بالکل اسی بات کو دوسری جگہ پر نہیں بتا سکتا ۔

اگر کوئی آپ سے مشورہ کریں اور آپ سے کسی کے بارے میں کوئی سوال کرے اورآپ اس کے کسی راز کو جانتا ہو تو وہاں پر بھی اسی مقدار کو بتانا چاہئے جو ضروری ہو تا کہ مشورہ میں خیانت نہ ہو ، لیکن جو کچھ آپ کو پتہ ہے ان سب کو بتانا جائز نہیں ہے ، مثلاً کوئی اپنی بیٹی کو کسی کو دینا چاہتا ہے آپ اس انسان کے سو برائیوں کو جانتا ہے ، لیکن اگر ان میں سے صرف ایک کو بیان کرے تو کافی ہے اور وہ اس کے بعد اپنی بیٹی اسے نہیں دیتا ،تو یہاں پر اسی مقدار پر اکتفاء کرنا چاہئے ،یہاں پر اگر اجمالی طور پر بیان کرنا کافی ہو تو تفصیلی طور پر بھی بتانا جائز نہیں ہے ، ہمارے دینی مسائل اس قدر دقیق ہیں ۔

لیکن یہ افسوس کا مقام ہے کہ کیوں آج ہمارا حوزہ ان مسائل سے دورہوتا جارہا ہے ؟ ہمیں خود ان مسائل پر عمل پیرا ہونا چاہئے اورلوگ دیکھیں کہ ہم ان پر عمل کر رہے ہیں تا کہ ہماری باتیں ان پر اثر کرے ۔

بہر حال امامعلیہ السلام نے اس روایت میں سات حقوق کوبیان کیا ہے : «أَيْسَرُ حَقٍّ مِنْهَا أَنْ تُحِبَّ لَهُ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِكَ وَ تَكْرَهَ لَهُ مَا تَكْرَهُ لِنَفْسِكَ»؛ ان میں سے سب سے آسان حق یہ ہے کہ جس چیز کو اپنے لئے پسند کرتے ہو اسے دوسرے مومن بھائی کے لئے پسند کرو ، اور جس چیز کو اپنے لئے پسند نہیں کرتے ہو اسے دوسرے کے لئے پسند نہ کرو ۔

روایت کی بقیہ حصہ کو بعد میں بیان کروں گا ۔


source : http://www.fazellankarani.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اخلاق کی لغوی اور اصطلاحی تعریف
افغانستان میں قرآن کریم کی بے حرمتی، مغرب میں ...
ہندو مذہب میں خدا کا تصور و اجتماعی طبقہ بندی
مسجد اقصیٰ اسرائیلی نرغے میں
سب سے پہلے اسلام
سيد حسن نصراللہ کا انٹرويو
بازار اسلامی حکومت کے سایہ میں
دور حاضر کی دینی تحریکیں
نیک گفتار
اسلامی بیداری 1

 
user comment