اردو
Thursday 28th of November 2024
0
نفر 0

شیعہ فوبیا، حقیقت یا فسانہ/ شیعہ مکتب سے خوف کے اسباب

قدیم یونانی ان لوگوں کو ـ تمسخر کی بنا پر ـ بربر کہتے تھے جن کی ثقافت اور زبان سے وہ ناواقف ہوتے تھے۔ رومیوں نے یہ لفظ یونانیوں سے اخذ کیا اور اس کو اس کے یونانی مفہوم سے خارج کرکے ان دشمنوں کے لئے استعمال کرنے لگے جو ان کی سرزمین پر یلغار کرتے تھے اور رفتہ رفتہ یہ لفظ سیاسی ادب کا حصہ بن کر ایسے لوگوں کے لئے استعمال ہونے لگا جو بہت زيادہ خوفناک ہیں اور اخلاقی زوال، پسماندگی، درندگی اور وحشی پن اور خطرے کے عنوان سے استعمال ہوا اور بربر کا لفظ کسی بھی جھگڑے سے حذف نہیں ہوا اور ہر کسی نے مخالف فریق پر شر اور پسماندگی کا الزام دھرنے کے لئے اس لفظ کو استعمال کیا اور کررہے ہیں۔

سرد جنگ ختم ہوئی اور سوویت نامی عالمی طاقت مٹ گئی تو یہ لفظ مغربی سیاسی اور ثقافتی اداروں کے پاس پہنچا اور انھوں نے کوشش کی کہ مسلمانوں اور اسلام کو اس صفت سے متصف کریں جس کے نتیجے میں مغربی معاشروں میں اسلام اور مسلمانوں سے خوف و ہراس میں روز بروز اضافہ ہوا اور دوسری طرف سے مغرب میں مسلمان اقلیتوں کو ظالمانہ امتیاز سلوک اور عالم اسلام کو عمومی طور پر مغرب کے غیر منصفانہ برتاؤ کا سامنا کرنا پڑا اور یوں مغرب اور مسلمانوں کے درمیان فکری اور عملی تشدد اور انتہا پسندی کو فروغ ملا اور ہر فریق اپنے آپ کو حق مطلق سمجھنے لگا اور مخالف فریق مطلقا باطل ہے۔ چنانچہ اس راستے سے واپسی اعتدال اور میانہ روی کی طرف رجوع اور باہمی احترام اور تہذیبی و اخلاقی تنوع اور رنگا رنگی کو تسلیم کئے بغیر ممکن نہ تھی۔ یہ وہی نتیجہ تھا جو فرانسیسی مصنف زویتان تودورف (Tzvetan Todorov) نے اپنی کتاب "بربروں کا خوف" (The Fear of Barbarians) میں اخذ کیا ہے اور وہ مغرب کو اسلام اور مسلمانوں پر بربریت کا الزام لگانے سے اجتناب کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ 

شیعہ سے خوف کی حقیقت کیا ہے؟ 

لیکن عالم اسلام میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو دوسرے کے ساتھ تعامل کے سلسلے میں زویتان تودوروف کے سے نتیجے پر نہیں پہنچ سکے ہیں اور وہ اب بھی اپنے عوام کو "رافضی، بتوں کے بندے، مشرکین" جیسے الفاظ کو اہل تشیع کے لئے اسعتمال کرتے ہیں اور ان نعروں کے بیچوں بیچ ایک عظیم اعتقادی اور مذہبی نظام ـ یعنی شیعہ ـ کو کافر قرار دینے کے درپے ہیں اور پھر اپنے ہاتھوں ہزاروں قتلوں کو بھول کر شیعہ کو بربر، وحشی، انحراف و ارتداد جیسے القاب سے نوازتے ہيں تا کہ دوسرے اسلامی مذاہب کے درمیان اہل تشیع کا شدید خوف پھیلایا جاسکے اور یوں شیعہ فوبیا اور بالفاظ دیگر شیعہ کے خلاف جنگ، کو معرض وجود میں لایا جاتا ہے۔ خوف و ہراس کا یہ سلسلہ جاہلی و تشدد پسند فتوؤں اور خاص گروپوں کے زیر قبضہ مساجد کے منابر و محاریب تک، گمراہ کن تشہیری مہمات اور تعلیم و تربیت کے اداروں تک اور کتابوں کی اشاعت سے تقسیم تک پھیلا ہوا ہے جن میں البتہ سیٹلائٹ چینلز، ذرائع ابلاغ اور انٹرنیٹ سائٹوں کو بھی شامل کرنا چاہئے۔ یہ اندھا دھند دشمنی اور شیعیان آل رسول(ص) کی نسبت یہ بدنیتی اسلامی مذاہب کے درمیان شدید ترین جھگڑوں اور تنازعات کا سبب بنی ہوئی ہے اور نہ صرف عالم اسلام کا امن غارت ہوچکا ہے بلکہ پوری دنیا کی سلامتی کو خطرات لاحق ہوئے ہیں۔ 

دینی مذاہب کی دشمنی اور ان سے خوف کی چند دلیلیں 

1۔ یہ کہ کوئی شخص اپنے فریق مقابل کے ساتھ ایک دینی دشمن کی طرح رویہ اپنائے اور ظاہر ہو کہ وہ دوسرے ادیان و مذاہب کے پیروکاروں کو ان کے حق سے محروم کرنا چاہتا ہے اور یہ امر شیعہ کے ہاں نہیں دیکھا جاتا اور وہ نہ تو دشمنی کرتے ہیں نہ ہی ان کے رویے سے دوسروں کی محروم کی کوشش ثابت ہوتی ہے۔ 

2۔ یہ کہ فریق مقابل ان لوگوں کی آزادی فکر و اظہار کو ممنوع کرے جو اس شخص کے مذہب کے پیرکار ہیں اور وہ فریق اس شخص کو زور زبردستی سے اپنا عقیدہ قبول کرنے پر مجبور کرے؛ یہ کام شرعی اعتبار سے بھی نادرست ہے اور پھر شیعہ مذہب کے پیروکاروں میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو دوسرے ادیان و مذاہب کو زبردستی شیعہ کرنے کا خواہاں ہو بلکہ شیعیان آل رسول(ص) کی اکثریت کا عقیدہ ہے کہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کا احترام کرنا چاہئے اور ان کے لئے آزادی اظہار و عقیدہ اور شہری حقوق میں مساوات کا قائل ہونا چاہئے۔ 

3۔ یہ کہ فریق مقابل زبان اور تہذیب و ثقافت کے اعتبار سے مختلف ہو اور استعماری منصوبوں پر عمل پیرا ہو اور اپنی زبان و ثقافت کو دوسروں پر مسلط کرنا چاہے اور اس شخص اور اس کے ہم عقیدہ لوگوں کی ثروت اور سرمایوں کو غارت کرنا چاہئے اور اس کی خود مختاری اور استقلال کو چھین لے؛ وہی مسئلہ جو انیسویں اور بیسویں صدی میں دیکھا گیا لیکن اہل تشیع کی طرف سے نہیں بلکہ مغربی طاقتوں کی طرف سے۔ یہ مسئلہ بھی شیعہ کے ہاں ناپید ہے وہ جس معاشرے میں بسیرا کرتے ہیں اس معاشرے میں گھل مل جاتے ہیں، اسی معاشرے کی زبان بولتے ہیں اور دوسروں کے ساتھ قرابت داری کے رشتے استوار کرتے ہیں۔ 

اب سوال یہ ہے کہ شیعہ سے خوفزدگی کیوں؟ 

شیعہ سے خوفزدگی کا توہم موجودہ زمانے میں چند محرکات کی بنیاد پر پھیلایا جارہا ہے: 

1۔ بدعنوان اور استبدادی حکومتوں کو تقویت پہنچانا

بہت سی حکومتیں معاصر اسلامی دنیا میں، آمر، مستبد اور خودرائے و بدعنوان حکومتیں ہیں جو اپنی بقاء کے لئے مختلف راستوں کو آزماتی ہیں یہ سلسلہ معاشی ترقی اور عرب ـ صہیونی مسائل کے منظر عام پر آنے کے بعد سامنے آیا اور حال ہی میں شیعہ مکتب سے خوف و دہشت پھیلانے اور شیعہ فوبیا کے ذریعے اس کو تقویت پہنچائی گئی۔ 

2۔ تہذیبی ـ تاریخی ورثے کی موجودگی

ایک موضوع سے شدید خوف ایک نفسیاتی بیماری کی مانند ہے جو نسل اندر نسل گھومتی ہے، تاریخ اسلام میں مذاہب کے درمیان کراہت اور خوف کے متقابل و دو فریقی و چند فریقی ورثے پائے جاتے ہیں جو نسل در نسل منتقل ہوتے ہیں؛ بعض مسلمان آج بھی گوکہ اکیسویں صدی ميں زندگی بسر کررہے ہیں لیکن ان کی فکر کو پختگی نصیب نہیں ہوئی اور وہ آج بھی اسلامی تاریخ کی ابتدائی صدیوں کے ماحول میں رک گئے ہیں۔ (1) 

3۔ سیاسی ـ معاشرتی بیداری کی سطح گرنا

بیشتر اسلامی ممالک میں عمومی سیاسی ـ سماجی بیداری کی گرتی سطح ان ممالک میں ایسے قوانین کی منظوری میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے جن کی پابندی حکومتوں کے لئے لازمی ہو۔ ان ممالک کی قومیں بدستور اپنی مذہبی، دینی، قومی و قبائلی اور جغرافیائی و علاقائی وابستگیوں میں الجھی ہوئی ہیں اور سیاسی بیداری کے حوالے سے شدید کمزوری کا شکار اور شک و تردد کی حالت میں ہیں۔ 

4۔ با اثر غیر ملکی فریقوں کی موجودگی و ریشہ دوانیاں 

عالم اسلام میں یہودی ریاست یا اسرائیل اور مغربی ممالک کے مختلف ادارے ـ با اثر علاقائی فریقوں کی حیثیت سے اسلامی ـ عربی جنگ سے خوب خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں کیونکہ وہ اس تنازعات کے بیچوں بیچ اپنے قلیل المدت اور طویل المدت مفادات کے درپے رہتے ہیں اور مغربی و صہیونی حکام خود بھی اس حقیقت کے معترف ہیں [بس دیر صرف مسلمانوں کے سمجھنے کی ہے]۔ 

شیعہ سے خوف یا شیعہ فوبیا کے وہم کا علاج 

جیسا کہ عرض ہوا خوف ایک نفسیاتی بیماری ہے جس کی اپنی دلائل بھی ہیں اور اس کے علاج کا طریقہ کار یہ نہیں ہے کہ اس کا مکمل طور پر انکار کیا جائے کیونکہ اگر اس کا انکار کیا جائے تو وہ لوٹ کر آتی ہے بلکہ اس بیماری یعنی شیعہ کے بغض و عناد اور شیعہ کے خلاف یکطرفہ جنگ یا شیعہ سے خوف کے توہم کا علاج حقیقی روشوں سے ممکن ہے جیسے: 

1۔ اس نفسیاتی بیماری کا بامقصد علاج ضروری ہے

پہلی بات یہ ہے کہ اس کا بنیادی علاج کرنا ضروری ہے اور اس کے لئے بدعنوان اور مستبد حکومتوں کو بدل کر قومی حقوق و آزادی اور کرامت کے حصول کے لئے جدوجہد کرنی چاہئے اور اس راستے میں انہيں کسی بھی دین اور مذہب کی طرف توجہ نہيں دینی چاہئے بلکہ قومی سطح پر سوچنا چاہئے۔ کیونکہ استبدادیت و آمریت اقوام کی سماجی حیات میں بنیادی خطرہ سمجھتی جاتی ہے جو افراد اور گروپوں اور جماعتوں کے لئے خطرات کھڑی کردیتی ہے لیکن یہ استبدادی حکومتیں نہ صرف یہ مسائل حل کرنے کی کوشش نہیں کرتیں اور نہ صرف ایک صحتمند اور طاقتور نظام کے قیام کی غرض سے اتحاد و یکجہتی قائم کرنے کی کوشش نہیں کرتیں بلکہ خود بھی دشمنوں کا ہاتھ بٹاتی ہیں اور اپنی بقاء کے لئے ان کے ہر مطالبے پر لبیک کہتی ہیں۔ 

2۔ مسلمان آج کے زمانے میں جئیں نہ کہ ماضی میں 

یہ اقوام عالم کی طرح مسلم اقوام بھی موجودہ زمانے میں جئیں اور اپنی تمام تر کوشش زندگی کے مختلف پہلؤوں کی ترقی کے لئے بروئے کار لائیں اور اپنے آپ کو گذشتہ صدی اور گذشتہ صدیوں سے وابستہ نہ ہونے دیں اور اس طرح اپنے حال اور مستقبل کو باطل و منسوخ نہ کریں؛

بقول اقبال

وہ قوم نہیں لائق ہنگامۂ فردا 

جس قوم کی تقدیر میں امروز نہیں ہے

یعنی وہ قوم مستقبل کو سنوارنے کے لائق ہی نہیں ہے جو حال کو اپنے حال پر چھوڑ دے اور ماضی میں زندگی بسر کرے اور اس کی تقدیر میں "آج" موجود ہی نہ ہو۔ 

3۔ معاشروں کو مسلسل ترقی کرنی چاہئے ورنہ ۔۔۔ 

جو معاشرہ ترقی نہیں کرے گا وہ جینے کے لائق نہیں ہے۔ [رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و دیگر پیشوایان دین] فرماتے ہیں کہ جس کا آج گذشتہ کل کی مانند ہو وہ گھاٹا اٹھانے والوں میں سے ہے اور جس شخص کا گذشتہ کل آج سے بہتر ہو وہ ملعون ہے اور ملعون ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ شخص اللہ مختلف اشکال اور صورتوں میں اللہ کی رحمتوں سے محروم ہے؛ ہمارے عرب اور اسلامی معاشروں کو کوشش کرنی چاہئے کہ پسماندگی کے اسباب ـ بالخصوص فکری پسماندگی ـ سے جان چھڑائیں اور اپنی سیاسی بیداری کی سطح کو بلند کریں یہاں تک کہ عالمی طاقتیں اور تباہ کن افکار انہیں نہ ورغلا سکیں اور اس مہم کو سر کرنے کے لئے عادل دینی، تربیتی، تعلیمی، مدنی (سول)، سرکاری وغیرہ اداروں اور تنظیموں کو ہمہ جہت کوش کرنے کی ضرورت ہوگی۔ 

4۔ اخلاق حسنہ کی اقدار کی تعمیر نو یا احیاء 

ارسطو سے لے کر آج تک بیشتر فلاسفہ اور حکماء نے اس بات کی تائید کی ہے کہ استبدادیت کی عمارت تباہ شدہ انسانی اقدار کے کھنڈرات پر تعمیر ہوسکتی ہے اور عمرانیات علوم کے ماہرین تصدیق کرتے ہیں کہ انسان کو توڑنے کے لئے سب سے مختصر راستہ یہ ہے کہ اخلاق اور اقدار کو تباہ کیا جائے پس معاشروں کے ذمہ داران و منتظمین پر فرض ہے کہ وہ اسلامی معاشروں میں صداقت، محبت، میانہ روی اور اعتدال پسندی، برداشت و مسامحت، قانون، اخلاق اور اقدار کی پابندی، احساس ذمہ داری، باہمی تعاون وغیرہ کے قیام و فروغ کے لئے زیادہ سے زيادہ وقت نکالیں اور زیادہ سے زيادہ کوشش کریں؛ یہ جملہ سننا کہ "معرب میں اسلام ہے لیکن مسلمان نہیں ہیں اور مشرق میں مسلمان ہیں لیکن اسلام نہیں ہے"۔ (2) ہماری اپنی ملتوں کے لئے ایک عیب اور شرمناک ہے؛ یہ جملہ کہنے والے کا مقصد یہ ہے کہ کہ بعض مغربی ممالک میں ـ گوکہ اسلام سرکاری اور عمومی دین نہیں ہے لیکن ـ ایک اچھا اور قابل قبول اخلاقی نظام موجود ہے، حالانکہ بہت سے اسلامی ممالک میں ہم اس نظام کا نفاذ نہیں دیکھ رہے ہیں۔ 

5۔ تمام طبقوں کو منظم کرنے والی حکومتوں کا قیام ضروری ہے

تمام اسلامی ممالک میں ایسا حکومتی نظام قائم ہونا چاہئے جو تمام شہریوں کو ایک قومی دائرے میں اکٹھے کردیں اور ان کے درمیان اختلافات سے قطع نظر ان سب کو ایک قوم کے اراکین اور ایک جسم کے اعضاء و جوارح کی مانند متحد بنا دے؛ اس مہم کا کوئی اور متبادل نہیں ہے نہ فرقہ وارانہ حکومت کا قیام اس علاج ہے اور نہ ہی قومی و قبائلی نظام، جو اس وقت کئی ممالک میں موجود ہے اور ان ہی ممالک میں عوام کو بدترین انداز سے ٹارچر کیا جارہا ہے اور ان کو اپنی رائے بیان کرنے اور حتی کہ بہت سے ممالک میں حق رائے دہی تک نہیں دیا جاتا اور سارا اختیار اور ملک کی ساری دولت اور تمام وسائل ایک قبیلے یا ایک گروہ کے پاس ہیں اور باقی ماندہ عوام کو ان ممالک میں غلاموں کی سی زندگی گذارنی پڑرہی ہے اور انہیں مختلف روشوں سے جتایا جاتا ہے کہ گویا خدا نے انہیں حکمران خدمت کی پیروی اور متابعت کے لئے پیدا کیا ہے۔ 

1۔ مضمون نگار کی اس رائے سے اختلاف کیا جاسکتا ہے اور وہ یوں کہ اسلام کی پہلی صدی میں مسلمانوں میں جتنا شعور تھا یہ آج کے متشدد اور فرقہ پرست اور تکفیری گروپ ان کی مانند ہرگز نہيں ہیں اور ان کی طرح نہیں سوچتے اور ان کے برابر قوت برداشت نہیں رکھتے یہ تو جاہلی دور میں رہ رہے ہیں یعنی یہ اسلام کی پہلی صدی سے بھی پیچھے چلے گئے ہیں ورنہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ اور اصحاب نے عقیدے کے اختلاف پر نہ تو کسی کا گلا کاٹا اور نہ ہی کسی کے قتل و غارت کا فتوی دیا۔/ مترجم

2۔ یہ الفاظ سید جمال الدین اسد آباد یا جمال الدین افغانی سے منسوب ہیں۔ جو انھوں نے یورپ کا دورہ کرنے کے بعد کہے تھے۔


source : http://www.abna.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اخلاق کی لغوی اور اصطلاحی تعریف
افغانستان میں قرآن کریم کی بے حرمتی، مغرب میں ...
ہندو مذہب میں خدا کا تصور و اجتماعی طبقہ بندی
مسجد اقصیٰ اسرائیلی نرغے میں
سب سے پہلے اسلام
سيد حسن نصراللہ کا انٹرويو
بازار اسلامی حکومت کے سایہ میں
دور حاضر کی دینی تحریکیں
نیک گفتار
اسلامی بیداری 1

 
user comment