طاعت و تسلیم ولاء کا جوھر ھے ۔
اگر بر محل طاعت ھوتی ھے تو اس کی بڑی قیمت ھے اور اگر اپنی جگہ نہ ھو تو اس کی کوئی قیمت نھیں ھوتی، عصیان و سرکشی اورانکارکی بھی قیمت ھوتی ھے جب کہ ان کا تعلق شیطان سے ھے،لیکن اگر ان کا تعلق خدا کے رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اھل بیت(علیہم السلام) اور مسلمانوں کے صاحبانِ امر سے ھو تو یہ قیمت کی ضد قرار پائیں گے۔
چنانچہ سورہٴ زمر کی آیت ۱۷ میں ان دونوں قیمتوں کو جمع کر دیا گیاھے ۔ ارشاد ھے:
< وَ الَّذِیْنَ اجْتَنَبُواْ الطَّاغُوتَ اٴن یَعبُدُوھَا، وَ اٴنَابُوا إلیٰ اللّٰہِ لَھُمُ الْبُشریٰ>
اور جو لوگ طاغوت کی پرستش کرنے سے پرھیز کرتے ھیں اور خدا سے لولگاتے ھیں ان کے لئے بشار ت ھے، اور سورہٴ نحل میں ارشاد ھے:
<اٴنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اجْتَنِبُوا الْطَّاغُوتَ>[1]
تم خدا کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو۔
طاعت و عبادت، انکار و اجتناب ایک چیز ھے اور خدا نے ھمیں اپنی، اپنے رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی اور رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بعد اولی الامر کی طاعت کا حکم دیا ھے:
<اٴطِیعُوا اللّٰہَ وَاٴطِیعُوا الرَّسُولَ وَ اٴولِی الاٴمرِ مِنکُم>
دوسری طرف ھمیں شیطان وطاغوت کی نافرمانی کرنے اور اس کے انکار کرنے کا حکم دیا ھے ۔
<یُرِیدُونَ اٴن یَّتَحَاکَمُوا إلیٰ الطَّاغُوتِ وَقَد اٴمِرُوا اٴن یَکفُرُوا بِہِ>[2]
وہ لوگ طاغوت کو اپنا حاکم بنانا چاہتے ھیں جبکہ انھیں اس کا انکار کرنے کا حکم دیا گیا ھے ۔
اور رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بعد ائمہ اھل بیت(علیہم السلام)ھی اولی الامر ھیں لہذا ان کی طاعت واجب ھے اور جو وہ حکم دیں اس کو بجالانا فرض ھے:
"فھم ساسة العباد و اٴرکان البلاد و ھم حجّج اللّٰہ علیٰ اٴھل الدنیا"
وہ بندوں کے سر براہ اور شھروں کے ارکان اور وہ دنیا والوں پر خدا کی حجتیں ھیں۔
توحید میں طاعت
ھم ھر طریقہ سے اس بات پر ایمان رکھتے ھیں کہ طاعت صرف خدا سے مخصوص ھے اور اس کے اذن و حکم کے بغیر کسی کی اطاعت نھیں کی جا سکتی۔ رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور ان کے اھل بیت(علیہم السلام) کی طاعت در حقیقت خد اھی کی طاعت ھے ۔
"من اٴطاعکم فقد اٴطاع اللّٰہ و من عصاکم فقد عصی اللّٰہ"
جس نے آپ کی اطاعت کی اس نے خد اکی اطاعت کی اور جس نے آپ کی نافرمانی کی اس نے خدا کی نافرمانی کی۔
تسلیم
طاعت کے مصداق میں سے ایک تسلیم ھے، یعنی مکمل طور پر خود کو سپرد کر دینا، کسی بات کا انکار نہ کرنااور کسی بات پر اعتراض نہ کرنا۔ اورتسلیم کا بلند ترین مرتبہ دلوں کا جھکنا ھے ۔
"مسلم فیہ معکم و قلبی لکم مسلم و رائي لکم تبع" سر تسلیم کرنے والا ھوں میرا دل آپ کے لئے جھکا ھوا ھے اور میری رائے آپ کی تابع ھے ۔
"سلم لمن سالمکم و حرب لمن حاربکم"
میں اس سے صلح کروں گا جس سے آپ کی صلح ھے اور اس سے جنگ کروں گا جس سے آپ کی جنگ ھوگی۔ صلح و جنگ تولا و تبرا کے دورخ ھیں، صرف تولا کرنا صاحبان امر کے سامنے تسلیم ھونا نھیںھے بلکہ اس کے دو پھلو ھیں اور وہ یہ ھیں: میں اس سے صلح کروں گا جس سے آپ کی صلح ھوگی اوراس کا تعلق صرف آپ ھی سے نھیں ھے اور اس سے جنگ کروں گا جس سے آپ کی جنگ ھوگی۔
یہ جملہ تولا اور تبرا کا بہت ھی نازک و دقیق مفھوم ھے۔
"سلم لمن سالمکم و حرب لمن حاربکم"
ولاء و برائت کا قیق جملہ صلح اور جنگ کے بارے میں معاشرہ کے سامنے ایک نیا سیاسی نقشہ پیش کرتا ھے، حرب یعنی جدائی اور بیزاری، اس کو جنگ نھیں کہہ سکتے کیونکہ افتراق وبیزاری اور قتال میں فرق ھے۔
کیونکہ ھمارا اجتماعی لگاؤ سیاسی و مادی مصلحتوں کی بنا پر وجود میں نھیں آ سکتا وہ تو بس تولا و تبرا ہ سے منظم ھو سکتا ھے، کبھی ھم اپنے خاندان اور ھمسایوں سے قطع تعلقی کرلیتے ھیں اور ان لوگوں سے اتصال و روابط رکھتے ھیں جو کہ زمان و مکان کے اعتبار سے بہت دور ھیں۔
زیارت عاشورہ میں آیا ھے:
"إنّی سلم لمن سالمکم و حرب لمن حاربکم و وليّ لمن والاکم و عدولمن عاداکم"
میں اس سے صلح کروں گا جس سے آپ صلح کریں گے اور اس سے جنگ کروں گا جس سے آپ کی جنگ ھوگی میں اس سے دوستی کروں گا جو آپ کا دوست ھوگا اور اس سے دشمنی کروں گا جو آپ کا دشمن ھوگا۔
عمار کی سند سے علی(علیہ السلام) کے بارے میں رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا یہ قول نقل ھوا ھے:
"إنہ منی و اٴنا منہ حربہ حربی وسلمہ سلمی و سلمی سلم اللّہ"
وہ مجھ سے ھے اورمیں اس سے ھوں ۔۔۔ اس کی جنگ میری جنگ ھے، اس کی صلح میری صلح ھے اور میری صلح خدا کی صلح ھے ۔
ترمذی نے اپنی صحیح میں زید بن ارقم سے روایت کی ھے: رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے علی،(علیہ السلام) فاطمہ(علیہ السلام)، حسن و حسین(علیہ السلام) سے فرمایا:
"اٴنا حرب لمن حاربتم و سلم لمن سالمتمُ"۔[3]
میں اس سے جنگ کروں گا جس سے تمھاری جنگ ھوگی اور اس سے صلح کروں گا جس سے تمھاری صلح ھوگی۔
ابن ماجہ نے اپنی سنن میں روایت کی ھے کہ رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا:
"اٴنا سلم لمن سالمکم و حرب لمن حاربتم "۔[4]
میں اس سے صلح کروں گا جس سے تمھاری صلح ھوگی اور میں اس سے جنگ کروں گا جس سے تمھاری جنگ ھوگی۔
اسی کو حاکم نے مستدرک الصحیحین میں اورابن اثیر جزری نے اسد الغابہ میں نقل کیا ھے ۔[5]
متقی نے کنز العمال میں [6] نقل کیا ھے ۔
سیوطی نے در منثور میں آیہٴ تطھیر-سورہٴ احزاب-کی تفسیر میں اور ھیثمی نے مجمع الزوائد میں اس کو نقل کیا ھے ۔[7]
یہ جنگ و صلح، یا قطع تعلقی اور رسم و راہ باقی رکھنے میں اتحاد کے معنی ھیںکیونکہ اھل بیت(علیہم السلام) کی جنگ در حقیقت رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی جنگ ھے اور ان کی صلح رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی صلح ھے اور رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی جنگ و صلح خدا کی جنگ اور صلح ھے اسی طرح تولا اور تبرا کے تمام مفردات توحید کے تحت آتے ھیں۔
مدد اور انتقام
ولاء بہت سخت مسئلہ ھے،صلح میں، ناچاقی میں، کشائش و تنگی میں ساتھ رھنا بہت دشوار ھے اگر صرف کشائش میںھوتا تو ولاء کا مسئلہ آسان ھو جاتا اور پھر اس سخت ولاء کا اقتضا مدد کرنا اور انتقام لینا بھی ھے اور اگر مدد نہ کی جائے تو ولا ء ھی ختم ھو جائے گی خدا وند عالم کا ارشاد ھے:
<وَالَّذِینَ آوَوْا وَ نَصَرُوا اٴولٰئِکَ بَعضُھُم اٴولِیَاءُ بَعضٍ> [8]
اور جن لوگوں نے پناہ دی اور نصرت کی وہ ایک دوسرے کے سرپرست و ولی ھیں۔
اسی طرح ولاء ایک حق ھے جو خون خواھی اور انتقام سے جدا نھیں ھو سکتا۔ بیشک جو ولاء اپنے حامل کو جنگ و قتل،قطع تعلقی،روابط اور نفع وضرر پر نہ ابھارے در حقیقت وہ ولاء نھیں ھے بلکہ وہ ولاء کی صورت ھے ۔
زیارت عاشورہ میں ھم یہ تمنا کرتے ھیں اور خدا سے دعا کرتے ھیں کہ ھمیں پاک خونوں کا انتقام لینے والوں میں قرار دے جو کہ ظلم و ستم سے کربلا میں بھائے گئے۔
"فاٴساٴل اللّٰہ الذی اکرم مقامک و اکرمني بک ان یرزقني طلب ثارک مع امام منصور من اھل بیت محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)"۔
پس میں خدا سے سوال کرتا ھوں کہ جس نے آپ کے مرتبہ کوبلند کیا اور آپ کے ذریعہ مجھے عزت بخشی کہ وہ مجھے محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اھل بیت(علیہم السلام) میں امام منصور کے ساتھ آپ کے خون کا بدلہ لینے والا قرار دے۔
زیارت عاشورہ ھی میں ھے:
"واساٴلہ اٴن یبلِّغنی المقام المحمود لکم عند اللہ، و اٴن یرزقني طلب ثارکم مع إمام ھدی ظاھر ناطق بالحقّ منکم"
میں اس سے سوال کرتا ھوں کہ وہ مجھے اس مقام محمود تک پھنچا دے جو خدا کے نزدیک آپ کا مقام و مرتبہ ھے اور مجھے آپ میں سے ھادی، ظاھر اور حق کے ساتھ بولنے والے امام کے ساتھ انتقام لینے والا قرار دے۔
اور زیارت جامعہ میں مکمل طور پر مدد کرنے کی طاقت کا اعلان کرتے ھیں، و نصرتی لکم معدَّة، اور میری مدد آپ کے لئے تیار و حاضر ھے ۔
محبت و مودت
یہ ولاء اھل بیت کی بنیاد ھے۔
اس سلسلہ میں قرآن مجید میں آیت نازل ھوئی ھے جو ھر زمانہ میںلوگوں کے سامنے پڑھی جاتی ھے ۔
<قُل لاَ اٴسئَلُکُم عَلَیہِ اٴجرًا إلاَّ الْمُوَدَّةَ فِی الْقُربیٰ> [9]
رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ان سے کھدیجئے کہ میں تم سے تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نھیں مانگتا سوائے اس کے کہ تم میرے قرابتداروں سے محبت کرو۔
قرابتداروں سے مراد، بلا اختلاف رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اھل بیت(علیہم السلام) ھی ھیں۔
اس واجب محبت کی طرف زیارت جامعہ میں وارد نص بھی اشارہ کر رھی ھے:
"ولکم المودة الواجبة و الدرجات الرفیعة"
آپ کے لئے واجب محبت اور آپ کے لئے بلند درجات ھیں۔
طاعت اور محبت ھی ولاء کی روح یا اور اس کا جوھر ھیں، امام جعفر صادق(علیہ السلام) سے دریافت کیا گیا:کیا محبت دین کا جزء ھے ؟امام(علیہ السلام)نے فرمایا:کیا دین محبت کے علاوہ کچھ اور ھے، اگر انسان پتھر سے بھی محبت کرے گا تو خدا اس کو اسی کے ساتھ محشور کرے گا۔
جیسا کہ ھم پھلے بھی بیان کر چکے ھیںکہ محبت کا تعلق مقولہٴ توحید سے ھے۔
پس جو شخص خدا سے محبت کرتا ھے وہ رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے بھی محبت کرتا ھے اور ان کے اھل بیت(علیہم السلام) سے بھی محبت کرتا ھے اور جو رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور آپ کے اھل بیت(علیہم السلام) سے محبت کرتا ھے وہ خدا سے بھی محبت کرتا ھے ۔
پھلے جملہ کے بارے میں رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے منقول ھے:
"اٴحبونی بحب اللّٰہ و احبوا اٴھل بیتی بحبی"
خدا کی محبت کے سبب مجھ سے محبت کرو اور میری محبت کے سبب میرے اھل بیت(علیہم السلام) سے محبت کرو۔
دوسرے جملہ کے بارے میں زیارت جامعہ میں وارد ھوا ھے:
"من اٴحبکم فقد اٴحب اللّٰہ و من اٴبغضکم فقد اٴبغض اللّٰہ "
جس نے آپ سے محبت کی در حقیقت اس نے خدا سے محبت کی اور جس نے آپ سے عداوت رکھی اس نے خدا سے عداوت کی ۔
اسی طرح جو شخص خدا سے محبت کرتا ھے وہ مومنوں سے اس لئے محبت کرتا ھے کہ وہ خدا سے محبت کرتے ھیں اور جو مومنین سے محبت کرتا ھے وہ لا محالہ خدا سے محبت کرتا ھے ۔
خدا کی محبت اس بات کا باعث ھوتی ھے کہ نفسِ انسان میں محبت کے درجات کو بلند و قوی کردے، ضروری ھے کہ انسان کی حیات میں یھی محبت حاکم رھے تاکہ انسان خداکے علاوہ اور راہ خدا کے علاوہ کسی سے محبت نہ کرے۔
پھلے نکتہ کے بارے میں خدا فرماتا ھے:
<قُل إن کَانَ آبَاوٴُکُم وَ اٴبناوٴکُم۔۔۔اٴحَبَّ إلَیکُم مِنَ اللّٰہِ وَ رَسُولِہِ وَ جِہَادٍ فِي سَبِیلِہِ، فَتَرَبَّصُوا حَتَّی یَاٴتِیَ اللّٰہُ بِاٴمْرِہِ، وَاللّٰہُ لا یَھدِي الْقَومَ الفَاسِقِینَ>[10]
اے رسول کہہ دیجئے کہ اگر تمھارے باپ دادا اور تمھارے بیٹے تمھیں خدا و رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے اور اس کی راہ میں جھاد سے زیادہ محبوب و عزیزھیں تو انتظار کرو یھاں تک کہ خدا کا حکم آجائے اور خدا بدکاروں کی ھدایت نھیں کرتا ھے ۔
دوسری جگہ ارشاد ھے:
<وَ الَّذِینَ آمَنُوا اٴشَدُّ حُباً لِلّٰہِ >[11]
اور جو لوگ ایمان لائے ھیں وہ خدا سے محبت میں شدید ھیں۔
اور دعا میں وارد ھوا ھے:
"اللھم اجعل حبک اٴحب الاٴشیاء إلي، و اجعل خشیتک اٴخوف الاٴشیاء عندي، و اقطع عنيحاجات الدنیا بالشوق الی لقائک"
اے اللہ! اپنی محبت کو میرے نزدیک تمام اشیاء کی محبت سے زیادہ کر دے اور اپنی خشیت کو میرے نزدیک ھر چیز سے زیادہ خوفناک قرار دے اور اپنی ملاقات کے شوق کے ذریعہ دنیا کی حاجتوں کو مجھ سے بر طرف کر دے۔
دوسرے نکتہ کے بارے میں تو رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور ان کے اھل بیت سے وارد ھونے والی بہت سی حدیثوں میں نص وارد ھوئی ھے ۔ ان ھی میں سے وہ حدیث بھی ھے جس کو امام محمد باقر(علیہ السلام) نے رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے نقل کیاھے:
"اٴلا و احب فی اللّٰہ و ابغض فی اللّٰہ و اٴعطیٰ فی اللّٰہ، و منع في اللہ، فھو من اٴصفیاء اللّٰہ الموٴمنین عند اللہ، اٴلا و اٴن الموٴمنین إذا تحابا فی اللّٰہ عزوجل، و تصافیا فی اللّٰہ کانا کالجسد إذا اشتکی اٴحدھما من جسدہ موضعا، وجد الآخر اٴلم ذلک الموضع"
دیکھو! جس نے خدا کے لئے محبت کی اور جس نے خدا کے لئے دشمنی کی اور خدا کے لئے دیا اور خدا کے لئے منع کیا تووہ خدا کے برگزیدہ و منتخب بندوں میں سے ھے جو خدا کے نزدیک مومن ھیں اور دیکھو جب دو مومن خدا کے لئے محبت کرتے ھیں اور خدا کے لئے ایک دوسرے سے خلوص رکھتے ھیں تو وہ دونوں ایک بدن کی مانند ھو جاتے ھیں اگر دونوں میں سے کسی کے بدن میں کھیں تکلیف اور درد ھوتا ھے تودوسرا اپنے بدن میں اسی جگہ درد محسوس کرتا ھے ۔
محبت کی دو قسمیں ھیں، ایک سادہ اور ھلکی پھلکی محبت اوردوسری سوچ و سمجھ کر محبت کرنا یہ خدا کی محبت کے تحت ھوتی ھے، پھلی محبت کا تاریخ میں کوئی وقار نھیں اور نہ ھی انسان کی زندگی اور اس کی سر نوشت میں اس کاکوئی اثر ھوتا ھے کیونکہ وہ ایک قسم کی خواھش ھوتی ھے جو انسان کے اندر پیدا ھوجاتی ھے،ھاں وہ محبت جو خدا کی محبت کے تحت ھوتی ھے یہ وھی محبت ھے جس کو مودت اھل بیت کے ذیل میں بیان کر چکے ھیں ان کی محبت دوسری ھی چیز ھے وہ سادہ محبت نھیں ھے، یہ ایسی محبت نھیں ھے جس کا انسان اپنی زندگی میں تجربہ کرتا ھے یہ وہ محبت ھے جوخدا کی محبت کے تحت ھوتی ھے، اس محبت کی علامتیں اور خصلتیں مشھور اور نمایاں ھیں۔
اس محبت کی پھلی خصلت یہ ھے کہ یہ تبریٰ سے جدا نھیں ھوتی ھے ھر محبت کے ساتھ کچھ عداوت و بغض بھی ھوتا ھے اور ھر خوشی کے ساتھ ناراضگی و غضب بھی ھوتا ھے اور ھر تولا کے ساتھ تبریٰ ھوتا ھے اور جو محبت عداوت و بغض کے ساتھ جمع ھوتی ھے وہ سادہ اور ھلکی پھلکی محبت ھے ۔
ایک شخص امیر المومنین(علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ھوا اور کھنے لگا: میں آپ سے بھی محبت کرتا ھوں اور آپ کے مخالف و مد مقابل سے بھی محبت کرتا ھوں ۔ آپ نے فرمایا: اس صورت میںتم کانے ھو( تمھیں آدھا نظر آتا ھے) یا تم اندھے ھو یا دیکھتے ھو۔ زیارت میں وارد ھوا ھے "موال لکم ولاٴولیائکم و مبغض لاٴعدائکم و معاد لھم" میں آپ کا دوست ھوں اور آپ کے دوستوں کا دوست ھوں آپ کے دشمنوں سے نفرت کرتا ھوں اور ان کا دشمن ھوں ۔
اس محبت کی دوسری خصلت: یہ محبت لوگوں کی محبت کے تحت ھوتی ھے بالکل ایسے ھی جیسے پھلی محبت خدا کی محبت کے تحت ھوتی ھے کیونکہ راہ خد امیں محبت کرنے کادائرہ وسیع ھوتا ھے اس میں خود اھل بیت(علیہم السلام)سے بھی محبت ھوتی ھے اور ان کے دوستوں سے بھی محبت ھوتی ھے۔ "موال لکم ولاٴولیائکم"یہ ممکن نھیں ھے کہ انسان کسی سے خدا کے لئے محبت کرے اور اس سے محبت نہ کرے کہ جس سے محبوب خدا کے لئے محبت کرتا ھے۔
اس محبت کی تیسری خصلت: یہ جنگ و صلح کے موقعہ پر عملی صورت اختیار کر لیتی ھے، "سلم لمن سالمکم و حرب لمن حاربکم"
چوتھی خصلت: محبت خدا کے لئے ھوتی ھے اور عداوت بھی خدا کے لئے ھوتی ھے،یہ دونوں اجتماعی لگاؤ کا کامل نقشہ کھینچتے ھیں۔
اثبات و ابطال
اھل بیت(علیہم السلام) سے محبت کرنے میں یہ واجب ھے کہ ھم ان کی ثقافت اور ان کے معارف سے دفاع کریں، جس کا انھوں نے اثبات کیا ھے اس کا ھمیں اثبات کرنا چاہئے اور جس کا انھوں نے ابطال کیا ھے ھمیں ا س کا ابطال کرنا چاہئے کیونکہ تاریخِ اھل بیت(علیہم السلام) میں ثقافتی اور علمی روایتوں پر دشمنوں نے ھر چیز سے زیادہ حملے کئے ھیں چنانچہ فقھائے اھل بیت(علیہم السلام) اور ان کے مکتب کے علماء نے ان کے معارف و ثقافت، ان کی فقر اور ان کی اسلام شناسی سے دفاع کیا ھے ۔
اس دائرہ میں اثبات و ابطال بھی ھے جو کہ جھاد و جنگ اور صلح و قطع تعلقی کے میدان میں ھوتا ھے، زیارت جامعہ میں آیا ھے:
"سلم لمن سالمکم و حرب لمن حاربکم، محقق لما حققتھم، مبطل ما اٴبطلتم"۔
جس سے آپ کی صلح ھوگی میں اس سے صلح کروں گا اور جس سے آپ کی قطع تعلقی ھوگی میرا اس سے کوئی تعلق نھیںھوگا۔ جو آپ نے ثابت کیا ھے میں اسی کو ثابت کروں گا اور جس کو آپ نے باطل قرار دیا ھے میں اس کو باطل قرار دونگا۔
میراث و انتظار
کوئی زمانہ ایسا نھیں تھا جس میں ولاء نہ رھی ھو اور یہ مستقبل میں بھی رھے گی، تاریخ کے آغاز سے، حضرت آدم(علیہ السلام) اور حضرت نوح سے لے کر،تاریخ کی انتھاء تک ولاء رھے گی یھاں تک کہ آل محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) میں سے حضرت مھدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف ظھور فرمائیںگے اور زمین کو عدل و انصاف سے پر کریں گے اور زمین کو ظالموں کے تسلط سے آزاد کرا لیں گے تاکہ خدا کا وہ وعدہ پورا ھو جائے جو اس نے تو ریت و زبور میں کیا ھے۔
<وَلَقَد کَتَبْنَا فِی الزَّبُورِ مِن بَعدِ الذِّکرِاٴنَّ الاٴرضَ یَرِثُھَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ>[12]
ھم نے توریت کے بعد زبور میں یہ لکھ دیا ھے کہ زمین خدا کی ھے ھم اس کو اپنے نیک بندوں کو عطا کریں گے۔
یہ توریت و زبور میں خدا کا وعدہ ھے اور تاریخ میں ھے کہ اھل بیت(علیہم السلام) نے انبیاء اور صالحین سے میراث پائی ھے، ان سے نماز و ذکر، زکواة، حج اور خدا کی طرف بلانے کی میراث پائی ھے ۔
زیارت امام حسین(علیہ السلام)( زیارت وارث) میں اس علمی و ثقافتی اور جھادی میراث کو امام حسین(علیہ السلام) سے مخصوص کیا گیا ھے جو کہ آپ کو انبیاء سے ملی ھے،یہ زیارت تہذیبی اور علمی مفاھیم کی حامل ھے ۔
"السلام علیک یا وارث آدم صفوة اللّٰہ، السلام علیک یا وارث نوح نبي اللّہ، السلام علیک یا وارث إبراھیم خلیل اللّہ، السلام علیک یا وارث موسیٰ کلیم اللّٰہ، السلام علیک یا وارث عیسیٰ روح اللّٰہ۔۔۔ "
اے آدم کے وارث آپ پر سلام، اے نبیِ خد انوح کے وارث آپ پر سلام، اے خلیلِ خدا ابراھیم کے وارث آپ پر سلام، اے کلیمِ خدا موسیٰ کے وارث آپ پر سلام اے روحِ خدا عیسیٰ کے وارث آپ پر سلام۔۔۔
یہ میراث طول تاریخ میں آدم و نوح سے لے کر رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) خدا اور علی مرتضیٰ(علیہ السلام) تک جاری رھی۔
امام حسین(علیہ السلام) نے کربلا میں روز عاشورہ اس علمی،ثقافتی، تہذیبی اور جھادی میراث کو مجسم کر دیا،ولایت کی تاریخ بہت عمیق ھے، تاریخ میں اس کی جڑیں گھری ھیں، اھل بیت(علیہم السلام) نے انبیاء سے نیک و طویل راستہ میراث میں پایا ھے اور ھم نے ان سے ان کی میراث پائی ھے ۔
ھم نے ان سے نماز، روزہ، حج، زکوٰة، نیکیوں کی ھدایت کرنا، برائیوں سے روکنا، جھاد، خدا کی طرف بلانا، اور ان سے ذکر و اخلاص اور توحید کے تمام اقدارکی میراث پائی ھے،چنانچہ ھم خدا کے اس قول<فَخَلَّفَ مِن بَعدِھِم خَلفٌ اٴضَاعُوا ْالصَّلاةَ> پس ان کے بعد وہ لوگ جانشین ھوئے جنھوں نے نماز کو ضائع کر دیا، ھم نماز کی حفاظت کرتے ھیں اور اسے قائم کرتے ھیں، لوگوں کو اس کی طرف بلاتے ھیں، بالکل اس طرح جیسا کہ پھلے ھمارے بزرگوں نے حفاظت کی ھے، انشاء اللہ ھم ان لوگوں میں قرار پائیں جو خدا کے اس قول پر عمل کرتے ھیں: <وَاٴمُر اٴھلَکَ بِالصَّلاةِ وَ اصْطَبِر عَلَیْھَا> اپنے خاندان والوں کو نماز کا حکم دو اور خود بھی ادا کرتے رھو۔ چنانچہ ھم اپنے معاشرہ اور اپنے خاندان میں خدا کی اس عظیم میراث کی حفاظت کرتے ھیں کہ جس کو ھم نے اپنے بزرگوں سے نسلا ً بعد نسل میراث میں پایا ھے۔
یہ ھے طول تاریخ میں ولاء کا سلسلہ اور زمانہٴ آئندہ میں ولایت کا سلسلہ ھے، جس کے لئے ھم آل محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) میں سے امام مھدی(علیہ السلام) کے ظھور کے منتظر ھیں اور ان کے ظھور کے ساتھ کشائش و کامیابی کے منتظر ھیں اور اس عالمی انقلاب کے منتظر ھیں جس کی خدا نے ھمیں اپنی کتاب میں اور اس سے پھلے توریت و زبور میں خبر دی ھے ۔
<وَلَقَد کَتَبْنَا فِی الزَّبُورِ مِن بَعدِ الذِّکرِ اٴنَّ الاٴرضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصَّالِحُونَ>
ھم نے توریت کے بعد زبور میں یہ لکھ دیا ھے کہ زمین کی میراث صالح بندے پائیں گے۔
انتظار کے معنی منفی و سلبی نھیں ھیں جیسا کہ لوگ چاند و سورج گھن لگنے کا انتظار کرتے ھیں بلکہ انتظار کے معنی مثبت ھیں جیسا کہ انتظار سے متعلق حدیثوں سے سمجھ میں آتا ھے، اور وہ سیاسی، ثقافتی اور عملی تیاری تاکہ ظھور مھدی اور روئے زمین پر آنے والے عظیم انقلاب کے لئے راہ ھموار کریں۔
انتظار کے معنی اس مثبت مفھوم کے لحاظ سے، نیک باتوں کا حکم دینا، بری باتوں سے روکنا، خدا کی طرف بلانا، ظالموں سے جھاد کرنا، کلمة اللہ کو بلند کرنا اور روئے زمین پر خدائی تہذیب و ثقافت کو نشر کرنا، نماز قائم کرنا اور بہت سی چیز یں ھیں جو کائنات میں آنے والے انقلاب کی راہ ھموار کرتی ھیں۔
یہ ھے ولاء کا مستقبل اسی کی طرف زیارت جامعہ میں اشارہ کیا گیا ھے، منتظر "لاٴمرکم مرتقب لدولتکم۔۔۔حتی یحیی اللّٰہ تعالیٰ دینہ بکم، و یردّکم فی اٴیامہ، و یظھرکم لعدلہ، و یمکنکم فی اٴرضہ"۔
آپ کے امر کا منتظر ھوں، آپ کی حکومت کی طرف آنکھ لگائے ھوئے ھوں ۔۔۔یھاں تک کہ خدا آپ کے ذریعہ اپنے دین کو زندہ کر دے اور آپ کو اپنے زمانہ میں واپس لائے اور اپنے عدل کے لئے آپ کو غالب کر دے اور اپنی زمین پر آپ کو قدرت عطا کر دے۔
آخری لفظ سورہ قصص کی ابتدائی آیتوں کی طرف اشارہ ھے:
<وَ نُرِیدُ اٴن نَمُنَّ عَلیٰ الَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا فِی الاٴرضِ وَ نَجعَلَھُم اٴئِمَّةً، وَ نَجعَلَھُمُ الوَارِثِینَ، وَ نُمَکِّنَ لَھُم فِی الاٴرضِ>
ھم چاہتے ھیں کہ ان لوگوں پر احسان کریں جن کو زمین پر کمزور کر دیا گیا ھے اور انھیں امام بنائیں اور انھیں وارث قرار دیں اور زمین پر انھیں قدرت عطا کر دیں۔
اور یہ انتظار، عمل، جد و جھد، صبر و مقاومت، تعمیر، دین ِ خدا کے لئے زمین ھموار کرنے کی کوشش، روئے زمین پر حکومت خدا کے قائم کرنے کے لئے لوگوں کو حاضر کرنے کی صورت میں ظاھر ھوتا ھے نیز:
لوگوں کو خدا کی طرف دعوت دیں، نیک باتوں کا حکم دیں،بری باتوں سے روکیں، باطل سے جنگ کریں اور کفر کے سر غناؤں سے جھاد کریں۔
اب ھم آپ کے سامنے دعائے ندبہ کے کچھ جملے پیش کرتے ھیں،جس کو پڑھ کر مومنین(علیہ السلام) اپنے امام(علیہ السلام) کے فراق اور ان کی کشائش کے انتظار میں آہ و زاری کرتے ھیں۔
"اٴین بقیة اللّٰہ التی لا تخلو من العترة الھادیة؟
کھاں ھے وہ بقیة اللہ جس سے ھدایت کرنے والی عترت رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے دنیاخالی نھیں ھو سکتی ۔
اٴین المعدّ لقطع دابر الظلمة؟
کھاں ھے وہ جس کو ظلم کی جڑکاٹنے کے لئے مھیا کیا گیا ھے ۔
اٴین المنتظر لاقامة الامت و العوج؟ این المرتجیٰ لازالة الجور و العدوان؟
کھاں ھے وہ جس کا انتظار کجی نکالنے اور انحراف کو درست کرنے کے لئے کیا جا رھا ھے ۔ کھاں ھے وہ جس سے ظلم و جور کو دفع کرنے کی امیدیں کی جارھی ھیں۔
اٴین المدخر لتجدید الفرائض و السنن؟
کھاں ھے وہ جس کو فرائض و سنن کی تجدید کے لئے ذخیرہ کیا گیا ھے۔
اٴین المتخذ[13] لإعادة الملّة و الشریعة؟
کھاں ھے وہ جس کو مذھب و شریعت کو لوٹانے کے لئے منتخب کیا گیا ھے۔
اٴین الموٴمّل لاٴحیاء الکتاب و حدودہ؟
کھاں ھے وہ کہ جس سے کتاب خدا اور اس کے حدود کو زندہ کر نے کی امید ھے۔
اٴین محیي معالم الدین و اٴھلہ؟
کھاں ھے دین اور دینداروں کو زندگی دینے والا۔
اٴین قاصم شوکة المعتدین؟
کھاں ھے ستمگاروں کی کمر توڑنے والا۔
اٴین ھادم اٴبنیة الشرک و النفاق؟
کھاں ھے شرک و نفاق کی بنیادیں اکھاڑنے والا۔
اٴین مبید اٴھل الفسوق و العصیان و الطغیان؟
کھاں ھے فاسق و عاصی اور سر کشوں کو ھلاک کرنے والا۔
اٴین قاطع حبائل الکذب و الإفتراء؟
کھاں ھے جھوٹ و افتراء کی رسیوں کو کاٹنے والا ۔
اٴین مبید العتاة و المردة، و مستاٴصل اٴھل الفساد والتّضلیل و الإلحاد؟
کھاں ھے اختلاف کی شاخیں تراشنے والا، کھاں ھے انحراف و خواھشات کے آثار کو مٹانے والا،، کھاں ھے سر کشوں اور باغیوں کو ھلاک کرنے والا، کھاں ھے عناد و الحاد و گمراھی کے سر غناؤں کو جڑ سے اکھاڑنے والا۔
اٴین معزّ الاٴولیاء و مذلّ الاٴعداء؟
کھاں ھے دوستوں کو عزت دینے والا اور دشمنوں کو ذلیل کرنے والا۔
اٴین جامع الکلمة علیٰ التقویٰ؟
کھاں ھے سب کو تقوے پر جمع کرنے والا۔
اٴین باب اللّٰہ الذی منہ یوٴتیٰ؟
کھاں ھے وہ باب خدا کہ جس سے اس کی بارگاہ میں حاضر ھوا جاتا ھے۔
اٴین صاحب یوم الفتح و ناشر رایة الھدیٰ؟
کھاں ھے چھرہٴ خدا کہ جس کی طرف دوست رخ کر تے ھیںِ،کھاں ھے وہ سبب جو زمین و آسمان کا اتصال قائم کرتا ھے،کھاں ھے وہ جوروز فتح کا مالک اور پرچمِ ھدایت کا لھرانے والا۔
اٴین موٴلف شمل الصلاح و الرضا؟
کھاں ھے وہ جو نیکی و رضا کے منتشر اجزا کو جمع کرنے والا ھے۔
اٴین الطالب بذحول الاٴنبیاء و اٴبناء الاٴنبیاء؟
کھاں ھے انبیاء اور اولاد انبیاء کے خون کا بدلہ لینے والا۔
اٴین الطالب بدم المقتول بکربلا ؟
کھاں ھے شھید کربلا کے خون کا مطالبہ کرنے والا۔
اٴین المنصور علیٰ من اعتدی علیہ و افتریٰ؟
کھاں ھے وہ کہ جس کی ھر ظالم اور افترا پر داز کے مقابلہ میں مدد کی جائے گی۔
اٴین المضطر الذی یجاب اذا دعیٰ؟
کھاں ھے وہ مضطر کہ جس کی دعا مستجاب ھے خواہ جب بھی کرے۔
اٴین صدر الخلائق ذو البرّ و التقویٰ؟
کھاں ھے ساری مخلوقات کا سر براہ، صاحب صلاح و تقویٰ۔
اٴین ابن النبیّ المصطفیٰ و ابن عليّ المرتضیٰ و ابن خدیجة الغراء و ابن فاطمة الکبریٰ؟
کھاں ھے فرزندرسول مصطفی، پسر علی مرتضیٰ، نور نظر خدیجہ اور لخت جگرفاطمہ۔ [14]
انتظار،آہ و زاری،نالہ و شیون اورامر بالمعروف، نھی عن المنکر، اور امام مھدی(علیہ السلام) کے ظھور و قیام اور آپ کی کشائش کے لئے زمین ھموار کرنے کے لئے ظالموں سے جھاد کی نھایت کوشش کے ساتھ ملا ھوا ھے ۔
یہ بین اور آہ و زاری مومنین کے دلوں کو کام و کوشش، قیام و انقلاب، ثابت قدمی و مقاومت،محاذ لینے، جھاد کرنے، اسلام کی طرف بلانے، بنانے بگاڑنے اور امام زمانہ کے ظھور اور آپ کی آفاقی حکومت کے قیام و تشکیل کے لئے زمین ھموار کرتی ھے کہ جس کا خدا نے اپنی کتاب میں وعدہ کیا ھے:
<وَلَقَد کَتَبنَا فِی الزَّبُورِ مِن بَعدِ الذِّکرِ۔۔۔>
اس میں شک نھیں ھے کہ امام مھدی(علیہ السلام) کا ظھور اس نسل کے گزر جانے کے بعد ھوگا جو آپ(علیہ السلام) کے ظھور و قیام کے لئے زمین ھموار کرے گی کیونکہ اس سلسلہ میں اسلامی نصوص تواتر کی حد تک پھنچی ھوئی ھیں، یھی وہ نسل ھے کہ امام مھدی کے ظھور و قیام کے لئے زمین ھموار کرے گی، اس صورت میں انتظار کے یہ معنی ھوں گے کہ امر بالمعروف، کوشش و عمل میں جلدی اور تیزی کے ساتھ زمین ھموار کی جائے۔
جیسا کہ ھم پھلے بھی کہہ چکے ھیں، ولاء میراث اور انتظار ھی ھے، میراث ھمیں انبیاء و صالحین کے راستہ پر چلنے کی ترغیب کرتی ھے اور انتظار ھمیں امیدکی اس درخشاں کرن کو کھولنے پر ابھارتی ھے کہ جس کو خدا ھمارے لئے مستقبل میں کھولے گا۔
لیکن اس امید کے لئے واجب ھے کہ وہ ھمیشہ کوشش وجانفشانی اور تگ ودو سے متصل ھو، یھا ں تک کہ خدا کے اذن سے یہ وعدہ پورا ھو جائے، انتظار و امیدعلامات کانام نھیں ھے ۔
زیارت
زیارت ولاء کا مظھر اور اس کے آثار میں سے ھے:
زیارت ایک واضح حالت ھے جوھماری اھل بیت(علیہم السلام) سے محبت کے لئے مشھور ھے ھم اس کی پابندی کرتے ھیں،اس کی طرف دعوت دیتے ھیں، ولاء کے دائرہ میں زیارت کی ایک تہذیب و ثقافت ھے، اس کے کچھ آداب ھیں، کچھ نصوص ھیں جن کی تلاوت کرتے ھیں یہ ولاء کے ثقافتی افکار و مفاھیم سے معمور ھیں اور زندگی میں ا س کا ایک اثر ھے ۔
زیارت کی غرض، تاریخ میں صالح و ھدایت سے مالامال راستہ کے ذریعہ عضوی و ثقافتی استحکام ھے۔ھم اس کارواںکا جز ھیں جو توحید، اخلاص، تقویٰ، نماز، جھاد، زکواة، امر بالمعروف، ذکر، شکر اور صبر و قوت کے اقدار سے مالا مال ھے ۔ھم اس مبارک راستہ یا قافلہ کا جز لا یتجزا ھیں کہ جس کا سلسلہ تاریخ میں اھل بیت(علیہم السلام) سے لیکر انبیاء کی تحریک تک پھیلا ھوا ھے، آدم سے نوح وابراھیم اور موسیٰ و عیسیٰ وغیرہ تک ھے، ھم اس راستہ کا جز ھیں اور اس تاریخی جنگ و کشمکش کا جز ھیں جو اس کے راستہ کے ھر مرحلہ میں اسلام و جاھلیت اور توحیدو شرک کے درمیان ھوتی رھی ھیں، ھم اس شجر طیبہ کا جز ھیں کہ جس کی جڑیں تاریخ کی گھرائیوں میں اتری ھوئی ھیں۔
ھم اس شجر کی شاخیں ھیں، اس درخت سے ھمیں نسبت ھے،اس کی ھمیں حفاظت کرنا چاہئے:
<اٴلَم تَرَ کَیفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً کَلِمَةً طَیِّبَةً، کَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ، اٴصلُھَا ثَابِتٌ وَ فَرعُھَا فِی السَّمَاءِ>
کیا تم نے غور نھیں کیا کہ خدا نے پاک کلمہ کی مثال پاک درخت سے دی ھے، اس کی جڑ ثابت و محکم ھے اور اس کی شاخیں آسمانوں میں ھیں۔
اس درخت سے ھمارا رشتہ ھے، اس کے بارے میں ھمیں اپنے ضمیر و وجدان اور عقل و دل میں غور کرنا چاہئے اور جب ھمیں اس شجر طیبہ اور تاریخ کے اس مبارک خاندان سے نسبت کا گھرا احساس ھوگاتو اسی تناسب سے چیلنج کے مقابلہ میں ھماری قوت، صبر و صلابت زیادہ ھوگی اور خوفناک راستوں اور لغزشگاھوں جو راہ زندگی میں ھمارے سامنے آتی ھیں، ان کے خلاف ھمارے اندر ثبات و استقلال میں اضافہ ھوتا ھے ۔
زیارت اس استحکام کا اھم عامل ھے
زیارت سے ایک قوی پر شفقت فضا پیدا ھوتی ھے جس میں اس مبارک خاندان اور تاریخ کے اس صالح راستہ سے تہذیبی، ثقافتی اورتحرک کی نسبت کی تاکید کی گئی ھے۔
رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)خدا، امیر المومنین(علیہ السلام)، فاطمہ زھرا(علیہ السلام)، حسن(علیہ السلام) و حسین(علیہ السلام)، تمام اھل بیت(علیہم السلام)، انبیاء،اولیاء خدا اور صالح مومنین کے لئے جو زیارتیں اھل بیت(علیہم السلام) سے نقل ھوئی ھیں وہ اس تہذیبی اور ثقافتی میراث سے معمورھیںاور اس راستہ پر چلنے اور اس مبارک خاندان سے نسبت ا وران کے دشمنوں اور ان سے جنگ کرنے والوں سے اعلانِ براٴت کے مفھوم سے بھری ھوئی ھیں۔
میں نے اپنی کتاب "الدعا عند اھل البیت(علیہ السلام)" کی آخری فصل میں زیارت کے بارے میں ایک تحقیق پیش کی ھے، لہٰذا ھم نے جو بات وھاں بیان کی ھے اسی پر اکتفاء کرتے ھیں یھاں اس کی تکرار نھیں کریں گے۔
[1] النحل: ۳۶
[2] النساء: ۶۰
[3] مجمع الزوائد : ج۹ ص ۱۶۹/ مذکورہ حوالے فضائل الخمسہ من الصحاح الستہ / فیروزآبادی: ج۱ ص ۳۹۶ تا ۳۹۹ سے نقل کئے گئے ھیں۔
[4] سنن ابن ماجہ مقدمہ باب ۱۱ ص ۱۴۵
[5] مستدرک حاکم نیشاپوری: ج ۱۳ ص ۱۴۹/ کتاب معرفة الصحابہ/ مبغض اھل البیت یدخل النار و لوصام و صلی۔ اھل بیت سے دشمنی رکھنے والا جھنم میں جائے گا خواہ اس نے روزہ رکھا ھو اور نماز پڑھی ھو۔
[6] کنز العمال: ج۶ ص ۲۱۶
[7] مجمع الزوائد : ج۹ ص ۱۶۹/ مذکورہ حوالے فضائل الخمسہ من الصحاح الستہ / فیروزآبادی: ج۱ ص ۳۹۶ تا ۳۹۹ سے نقل کئے گئے ھیں
[8] انفال: ۷۲۔
[9] سورہ شوریٰ آیت ۲۳/ دلائل الصدق ج۲ ص ۱۲۰ تا ۱۲۶ طبع قاھرہ میں ھے کہ یہ آیت اھل بیت کی شان میں نازل ھوئی ھے، نیز الغدیر/ ج ۲ ص ۳۰۶ تا ۳۱۰/ اور ج ۳ ص Klتھران۔
[10] توبہ: ۲۴۔
[11] بقرہ: ۱۶۵
[12] انبیاء: ۱۰۵
[13] اکثر نسخوں میں (اٴین المتخیّر) آیا ھے۔
[14] دعائے ندبہ
source : www.sadeqeen.com