اردو
Thursday 18th of July 2024
0
نفر 0

فدک، معتبرترین تاریخی دستاویز -3

فدک، معتبرترین تاریخی دستاویز -3

ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی (اورقرابت دار کو اس کا حق دو) تو نبی اکرم (ص) نے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو بلایا اور فدک انہیں عطا فرمایا"۔

فدک، معتبرترین تاریخی دستاویز -3

فدک، معتبرترین تاریخی دستاویز - 2

بہر حال اس بات کا جواب ڈھونڈنا بہت ہی دشوار ہے کہ خلیفہ نے ایسا کیوں کیا اور فدک اور ساری دولت و جائیداد اہل بیت سے کیوں چھینی؟ کیوں کہ حدیث سے تو عدم ارث والی بات ثابت نہ ہوسکی۔ اب یہ نہیں معلوم کہ اس کا نام حسد رکھا جاسکتا ہے یا نہیں مگر یہ ظلم اور غصب کے زمرے سے خارج نہیں ہوسکتا۔ اور اگر یہ حدیث واقعی تھی اور تمام عقلی اور نقلی موانع کے باوجود فرض کیا جائے کہ رسول اکرم سے نقل ہوئی تھی تو پھر تو رسول اکرم کا ترکہ صدقہ تھا اور جوتے، تلوار اور گھوڑا بھی صدقہ ہی ہوگا جبکہ علی (ع) اور اہل بیت علیہم السلام پر صدقہ حرام تھا۔ چنانچہ نہ تو علی (ع) صدقہ لینے پر راضی ہوسکتے تھے اور نہ ہی خلیفہ صدقے کی پیشکش کرسکتے تھے اور پھر وہ جو علی اور فاطمہ علیہماالسلام کا حق لیکر صدقے میں تبدیل کررہے تھے اور اس کے لئے اس قسم کی حدیث کا سہارا لے رہے تھے تو وہ صدقہ ـ جو شرعا اہل بیت پر حرام تھا ـ کیونکر انہیں پیش کردیتے؟ چنانچہ ثابت ہوتا ہے کہ جس مال و ملک میں رحمت و شفقت و تفضل کی گنجائش ہو اس کے لئے کوئی شرعی مانع نہیں ہوتا اور شرعی مانع ہو تو ایک خلیفہ کو اس میں کسی بھی عنوان سے استثناء کا قائل ہونا ناقابل قبول ہوگا اور اگر تصور کیا جائے کہ حدیث صحیح تھی تو ان کا یہ تفضل امر حرام تھا اور اب سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کا حاکم کیونکر حرام کا مرتکب ہوسکتا ہے؟ آپ خود ہی سوچ لیں۔
اور ہاں! فدک تو اس یہ ثابت ہوچکا کہ وہ رسول اللہ (ص) نے اپنی زندگی میں ہی اپنی بیٹی کو عطا فرمایا تھا اور وہ ارث کا حصہ نہیں تھا چنانچہ اس پر سرکار کا قبضہ اعلانیہ طور پر غصب کے زمرے میں آتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات اور مترجم کی توضیحات و ضمیمہ جات:
1۔ مسند ابی یعلی ج2 ص534۔
2۔ سورہ نمل آیت 16۔
3۔ سورہ نمل آیت 16
4۔ الطبقات الکبری ـ ابن سعد ـ ج2 ص315۔
5۔ سورة العلق آیت 1۔
حدیث لانورث ما ترکناہ صدقہ کا افسانہ الگ مقالے کی شکل میں بھی آرہا ہے۔
6۔ اہل سنت کے معتبر منابع نے صحابہ کے ایک گروہ سے روایت کی ہے: "اول من اسلم علی علیہ السلام" = سب سے پہلے علی علیہ السلام ایمان لے آئے (یعنی علی علیہ السلام وہ سابق الاسلام ہیں جن پر کوئی سبقت حاصل نہیں کرسکا ہے)۔ جن منابع نے گروہ صحابہ سے روایت کی ہے وہ کچھ یوں ہیں:
الف) زید بن ارقم سے بسند صحیح سنن الترمذی ج5 ص600 ـ حدیث نمبر 3735 کتاب المناقب ب21 ـ مسند احمد بن حنبل ج4 ص371 و ص368- مستدرک علی الصحیحین حاکم نیسابوری و التخلیص ذهبی ج3 ص136، نے روایت کی ہے۔
ب) سلمان فارسی سے مستدرک حاکم ج3 ص136 ـ مجمع الزوائد ابن کثیر ج9 ص 124 کتاب المناقب باب 4-4 حدیث 14599، نے بسند صحیح روایت کی ہے
ج) عبد اللہ بن عباس: مستدرک حاکم ج3 ص465 نے بسند صحیح عبد اللہ بن عباس سی روایت کی ہے۔
د) سعد ابن ابی وقاص: مستدرک حاکم و التخلیص ذهبی ج3 ص499 نے بسند صحیح سعد بن ابی وقاص سے روایت کی ہے۔
ھ) معقل بن یسار سے بسند صحیح مسند ابن حنبل ج5 ص126 و مجمع الزوائد ابن کثیر ج9 ص123 کتاب المناقب باب 37 ـ 4- 4 اسلامه علیه السلام ح14595 نے،
و) عائشہ سے بسند صحیح الاصابة فی تمییز الصحاب‍ة میں ابن کثیر ج8 ص183 نے،
ز) قثم بن عباس سے بسند صحیح مستدرک حاکم ج3 ص125 نے اور
ہ) علی علیہ السلام سے بسند صحیح مستدرک حاکم ج3 ص125 نے روایت کی ہے۔
7۔ پیغمبر اکرم (ص) کا یہ کلام کہ "السلام علیکم یا اہل البیت" جس کے دلائل اگلے صفحات میں ذکر ہونگے، اس حقیقت کا ثبوت ہے۔
8۔ رسول اکرم (ص) سے باسناد صحیح تواتر کے ساتھ روایت ہوئی ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا: انّی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و عترتی اہل بیتی (= میں تمہارے درمیان دو بھاری چیزیں چھوڑے جارہا ہوں : کتاب خداوندی اور میری عترت یعنی اہل بیت علیہم السلام) اس کے منابع و مآخذ اتنے زیادہ ہیں کہ ذکر منابع کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی مگر نمونے کے عنوان سے بعض منابع یہان ذکر کئے جاتے ہیں: صحیح مسلم ج5 ص25 ح36 ـ (2408) و ص36 ح37 و سنن ترمذی ج5 ب32 ح621 و سنن نسائی ج5 ص45 و مسند احمد بن حنبل ج3 ص17 و مسند ابی یعلی ج4 ص297 و کتاب السنة الشیبانی ص 629 و معجم الکبیر للطبرانی ج5 ص166 رقم 4169۔
9۔ بہت سے معتبر سنی منابع میں آیت تطہیر (إِنَّمَا يُرِيدُ اللہ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا) کی شأن نزول "حضرت فاطمہ، آپ کے والد، خاوند اور دو بیٹوں کے بارے میں بیان ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر سنن الترمذی ج5 ص621 رقم 3781 ـ خصائص النسائی صفحہ 4 مسند احمد بن حنبل ج6 ص298۔ حسکانی نے بھی شواهد التنزیل میں اس بات کی تأئید میں 30 حدیثیں ثبت کی ہیں۔
10۔ ان النبی (ص) کان اذ اطلع الفجر یمر ببیت علی و فاطمة فیقول السلام علیکم یا اهل البیت الصلاة " إِنَّمَا يُرِيدُ اللہ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا" اسدالغابة ـ ابن اثیر ـ ج5 صفحہ 174 ـ داراحیاء التراث العربی ـ نبی اکرم (ص) جب بھی نماز فجر کی لئے اٹھتے اور علی و فاطمہ سلام اللہ علیہما کے گھر کے سامنے سے گذرتے تو فرماتے: سلام ہو تم پر اے اہل بیت ـ الصلاة الصلاة ـ اور خدا نے ارادہ فرمایا ہے الی آخر۔۔۔
11۔ جب آیت مباهله " فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةُ اللہ عَلَى الْكَاذِبِينَ" (آل عمران 61) نازل ہوئی رسول اللہ (ص) نے علی و فاطمہ و حسن و حسین علیہم السلام کو بلایا اور فرمایا خدا یا! یہ میرے اہل ہیں۔ صحیح مسلم ج5 فضائل الصحابة باب فضائل علی ابن ابی طالب سلام اللہ علیہما ص23 ح32۔
12۔ سورہ نجم آیات 3 و 4۔
13۔ صحیح بخاری ج3 ص96 کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم باب مناقب فاطمة سلام اللہ علیہا۔
14۔ سورہ حشر آیت 6۔ ترجمہ: اور جو کچھ خدا نے ان سے اپنے رسول (ص) کی طرف لوٹایا ہے، ایسی چیز ہے جس کے حصول کے لئے نہ تو تم (مسلمانوں) نے گھوڑے دوڑائے ہیں نہ ہی اونٹ، مگر خدا اپنے رسل کو جس پر چاہے مسلط کردیتا ہے اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔
15۔ سورہ اسراء آیت 26۔ ترجمہ: اور قرابت دار کو اس کا حق دے دو۔
16۔ مسند ابی یعلی ج2 ص534 ح436 ۔ 1408، دار المأمون للتراث بیروت و تفسیر الدرالمنثور ج5 صص273 و 274۔
17۔ معجم البلدان ج4 ص238۔
18۔ معجم البلدان ج4 ص239۔
19۔ معجم البلدان ج4 ص239۔
20۔ معجم البلدان ج4 ص240۔
21۔ سورہ توبہ آیت 128۔
22۔ انس کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نماز فجر کے لئے نکلتے تو فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گھر کے سامنے سے گذرتے اور فرماتے " الصلاة الصلاة یا اھل البیت - إِنَّمَا يُرِيدُ اللہ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ـ درالمنثور ـ سیوطی ـ ج6 ص605- منقول از ابن ابی شیب‍ة ـ احمد ابن حنبل ـ ترمذی ـ ابن جریر طبری ـ ابن المنذر ـ الطبرانی ـ الحاکم اور ابن مردویه۔
23۔ صحیح بخاری ج3 ص 96۔
24۔ کنزالعمال ج13 ص674 ح73725۔
25۔ سیر اعلام النبلاء ج2 ص224۔
26۔ عن عائشة ان فاطمة بنت رسول اللہ (صلی اللہ علیه و آله و سلم ) ارسلت الی ابی بکر تسأله میراثها من رسول اللہ (صلی اللہ علیه و آله و سلم ) مما افاء اللہ علیه بالمدینة و فدک و مابقی من خمس خیبر فقال ابوبکر: ان رسول اللہ (صلی اللہ علیه و آله و سلم ) قال: لا نورث ما ترکنا صدقة، انما یأکل آل محمد فی هذا المال و انی و اللہ لا اغیر شیئا من صدقة رسول اللہ (صلی اللہ علیه و آله و سلم ) عن حالها التی کان علیها فی عهد رسول اللہ (صلی اللہ علیه و آله و سلم ) و لاعملن فیها بما عمل به رسول اللہ (صلی اللہ علیه و آله و سلم )۔ فابی ابوبکر ان یدفع الی فاطمة منها شیئا فوجدت فاطمة ===== علی ابی بکر فی ذالک فهجرته فلم تکلمه حتی توفیت و عاشت فاطمة (سلام اللہ علیها) بعد النبی(صلی اللہ علیه وآله و سلم )ستة اشهر فلما توفیت دفنها زوجهاعلی(علیه السلام) ¬ لیلا و لم یؤذن بها ابابکر و صلی علیها۔ (صحیح بخاری ج3 ص252 کتاب المغازی باب 155- غزوة خیبر حدیث 704)
27۔ سورہ حشر آیت 6۔
28۔ سورہ حشر آیت 7۔
29۔ "فَیئ" کی یہ قسم بظاہر وہ اموال اور آمدنیاں ہیں جو کفار کے مفتوحہ علاقوں سے جزیہ اور خراج یا مفتوحہ زمینوں، جنگلات وغیرہ سے حاصل ہوتی ہیں کیوں کہ جنگ کے دوران حاصل والے اموال غنیمت کے زمرے میں آتے ہیں اور سورہ انفال کی آیت 41 میں اس کا حکم دیگر آمدنیوں کے ضمن میں بیان ہؤا ہے (مترجم)۔
30۔ اور بستیوں والوں کا جو کچھ (مال و مِلک) اللہ تعالی اپنے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے ہاتھ لگائے وہ اللہ کا ہے اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا اور رسول کے قرابتداروں اور یتیموں، مسکینوں کا اور راستے میں (بے خرچ) رہنے والے مسافروں کا ہے تا کہ تمہارے دولتمندوں کے ہاتھ میں ہے یہ مال گردش کرتا نہ رہ جائے(حشر 7)
یعنی یہ کہ فیئ غنیمت کی مانند نہیں ہے جس کا صرف پانچواں حصہ پیغمبر اکرم اور ضرورتمندوں کے لئے ہو اور باقی چار حصے جنگ میں شریک مجاہدین کے لئے ہو۔
اس آیت میں فیئ کی تقسیم کے لئے ترجیحات بیان کی گئی ہیں۔ اور ان کا اختیار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس ہے گو کہ رسول اللہ ان اموال کو اپنی ذات کے لئے نہیں چاہتے بلکہ اسلامی حکومت کے رہبر اور امت کے زمامدار کی حیثیت سے وہ انہیں رفاہ عامہ کے کاموں میں ہی مصرف کرتے ہیں لیکن اگر وہ خود ان اموال میں بھی کوئی مصلحت تشخیص دین تو آپ (ص) کا اختیار ہے ۔ اسی آیت کے آخر میں ارشاد ہے : وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا وَاتَّقُوا اللہ إِنَّ اللہ شَدِيدُ الْعِقَابِ (= جو کچھ رسول اللہ (ص) تمہیں عطا کرتے ہیں (اور جو کچھ تمہارے لائے ہیں) وہ تم لے لو (اور اس پر عمل کرو اور اکتفا کرو) اور جن چیزوں سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تمہیں روکا ہے، ان سے پرہیز کرو اور اور خدا سے درو کیونکہ خدا کا کیفر بہت شدید ہے۔) یہاں ان لوگوں کا جواب واضح طور پر دیا گیا ہے جو فیئ کی تقسیم کے حوالے سے اعتراض کررہے تھے۔ اور واضح ہوتا ہے کہ ان کا اختیار رسول اللہ کے پاس ہے اور کسی کو اعتراض کا حق نہیں ہے۔ (مترجم)
31۔ سورہ انفال آیت 41۔
32۔ آیت کا مذکورہ بالا ترجمہ اہل سنت کے تراجم سے زیادہ ملتا جلتا ہے۔ جہاں اہل سنت کے مترجمین و بعض مفسرین نے کہا ہے کہ غنمتم من شیئ سے مراد یہ ہے کہ تم جس قسم کی جوکچھ غنیمت حاصل کرو اور اس کی تفسیر میں "من شیئ" (اور جو کچھ) سے تھوڑا یا زیادہ یا قیمتی یا سستا مراد لی گئی ہے۔ (ترجمہ و تفسیر مولوی محمد جوناگرھی مطبوعہ شاہ فہد پرنتنگ پریس 1417 ھ مدینہ منورہ ) جبکہ شیعہ تراجم میں قرآنی آیت کے ظاہری مفہوم کا پورا پورا خیال رکھا گیا ہے اور آیت کا ترجمہ کچھ یوں ہے: اور جان لو کہ تمہیں جس چیز سے بھی فائدہ (آمدنی) حاصل ہو۔ ہم کہتے ہیں کہ خدا کے پاس جو خود حرف اور لفظ کا خالق ہے اور اسی نے انسانوں کو بولنا اور لکھنا سکھایا ہے، الفاظ کی کمی نہ تھی اور مراد غنیمت ہوتی تو شیئ کی بجائے "قتال" یا "حرب" یا "غزوہ" کا لفظ بھی لا سکتا تھا اور پھر ہمارے تمام مراجع تقلید اور علما‌ئے فقہ کا اسی مفہوم سے اتفاق ہے اور انھوں نے شیئ کے ساتھ مصادیق بیان کئے ہیں جن میں ایک جنگی غنیمت بھی ہے۔(مترجم)۔
33۔ عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے وقت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا بے قرار تھیں اور رو رہی تھیں۔ آپ (ص) نے اپنی بیتی کو بلایا اور ان کے کان میں کچھ کہا تو بی بی مسکرانے لگیں۔ سبب دریافت کیا گیا تو سیدہ نے فرمایا: میں آپ (ص) کے دنیا سے رخصت ہوجانے کے غم میں رو رہی تھی تو آپ (ص) نے فرمایا کہ میں (فاطمہ) آپ (ص) کے خاندان میں سے سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جاملوں گی۔ چنانچہ میں خوش ہوکر مسکرائی۔ صحیح بخاری ج3 باب 42 ص83 مناقب قرابة الرسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حدیث 233۔
34۔ ابن مردویہ نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ ارشاد الہی :" وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا( سورة الانسان ـ آیت 8 ترجمہ: اور وہ خدا اپنا کھانا ـ جسے وہ چاہتے ہیں (اور جس کی انہیں ضرورت ہوتی ہے) - «مسكين » اور «يتيم » اور «اسير» کو دے دیتے ہیں !)، علی ابن ابیطالب اور سیدہ فاطمہ بنت رسول اللہ صلوات اللہ علیہم اجمعین کے حق میں نازل ہوئی ہے۔ تفسیر درّالمنثور ـ سیوطی ـ ج8 ص371۔
اہل بیت نبی (ص) کی عظمت کی عظیم سند۔
ابـن عباس کہتے ہیں : ((حسن اور حسين علیہما السلام بیمار ہوئے, پيغمبر (ص) بعض صحابہ کے ہمراہ ان کی عیادت کو تشریف لائے اور آپ (ص) نے علی (ع) سے فرمایا: اى ابوالحسن ! بہتر تھا کہ آپ اپنے بیٹوں کی شفا کے لئے نذر مان لیتے۔
عـلـى (ع ) اور فـاطـمہ (س) اور سیدہ (س) کی خادمہ فضہ نے نذر مان لیا کہ اگر ان دو سیدوں کو شفا ملے تو وہ تین دن تک روزہ رکھیں گے۔
کچھ دنوں میں دونوں کو شفا ملی اور دونوں صحتیاب ہوئے، اب حبکہ غذائی مواد کے لحاظ سے گھر خالی تھا، علی (ع) نے تین من (تقریبا 9 کلوگرام) جو قرض پر اٹھایا اور فاطمہ (س) نے ایک تہائی جو پیس کر آٹا تیار کیا اور روٹیاں پکالیں۔ افطار کے وقت ایک سائل دروازے پر حاضر ہؤا اور کہا: ((السلام عليكم یا اہل بيت محمد(ص ) سلام ہو آپ پر ¬ اے اہل بیت محمد (ص)! میں مسلمان مساکین میں سے ایک مسکین ہوں مجھے کھانا عنایت فرمائیں))۔
ان سب نے مسکین کو اپنے اوپر مقدم رکھا اور ہر ایک نے کھانے میں سے اپنا حصہ مسکین کو دیا اور رات پانی پی کر بسر کی۔
دوسرے روز پھر سب نے روزہ رکھا۔ افطار کے لئے کھانا تیار تھا کہ اسی اثناء میں دروازے پر ایک یتیم حاضر ہؤا اور انھوں نے اس روز بھی اپنا کھانا یتیم کے حوالے کیا اور پانی پی کر روزہ افطار کیا (اور تیسرے روز بھی روزہ رکھا)۔
تیسرے روز ایک اسیر وقت مغرب دروازے پر آیا اور سب نے کھانے میں سے اپنا حصہ اسیر کو بخشا۔ جب صبح ہوئی علی (ع) حسن و حسین علیہما السلام کے ہاتھ پکڑ کر رسول اللہ (ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں دیکھا تو وہ بھوک کی شدت سے کانپ رہے تھے۔ فرمایا: آپ لوگوں کی یہ حالت مجھ پر بہت بھاری ہے، چنانچہ آپ (ص) اٹھے اور ان کے ہمراہ سیدہ (س) کے گھر تشریف لائے۔ دیکھا تو سیدہ محراب مین کھڑی نماز پڑھ رہی ہیں، جبکہ بھوک کی شدت سے شکم کمر سے چپکا ہؤا ہے اور آنکھیں گود پڑ گئی ہیں۔ پيغمبر(ص ) بہت ہی ناراحت ہوئے۔ اسی حال میں جبرئيل امین نازل ہوئے اور کہا: اے محمد (ص)! یہ سورت لے لیں اور جان لیں کہ ایسے عظیم خاندان کی عظمت کی آپ کو تبریک ونہنیت کہتا ہے اور پھر جبرائیل امین نے آپ (ص) پر سورہ دہر کی تلاوت کی))۔(مترجم بحوالہ تفسیر نمونہ)۔
35۔ صحیح بخاری ـ ج5 ـ ص82 و 96۔
36۔ صحیح مسلم ج3 ـ کتاب الامارة ـ باب الامر بلزوم الجماعة ـ دوسری روایت اہل تسنن کے نزدیک ہی معتبر ہے اور پہلی روایت پر شیعہ اور سنی راویوں کا اتفاق ہے۔
37۔ صحیح مسلم ج3 ـ کتاب الامارة ـ باب الامر بلزوم الجماعة ـ صحیح بخاری ج4 ـ کتاب الفتن ـ باب قول النبی سترون بعدی اموراً۔
38۔ تہران کی مسجد ۔۔۔۔۔ کے ایک امام جماعت کہتے ہیں کہ سنہ ۔۔۔۔۔ میں الغدیر کے مؤلف علامہ عبدالحسین امینی رحمہ اللہ نجف سے تہران تشریف لائے تو میں بھی ان کی ملاقات کے لئے حاضر ہوا اور علامہ سے درخواست کی کہ ہمارے غریب خانے بھی تشریف لائیں۔ علامہ نے میری دعوت قبول کرلی۔ میں نے علامہ کے اعزاز میں دیگر افراد کو بھی دعوت دی تھی وہ سب حاضر تھے کہ علامہ تشریف لائے اور ہم نے استقبال کیا۔ رات کو میں نے علامہ سے درخواست کی کہ کوئی ایسی بات سنائیں جس سے استفادہ کیا جاسکے اور روحانی تسکین کا سبب بنے۔ علامہ امینی نے فرمایا:
«میں بعض کتب کا مطالعہ کرنے شام کے شہر حلب گیا اور وہیں مصروف مطالعہ ہوا۔ اس دوران ایک سنی تاجر سے شناسائی ہوئی۔ وہ نہایت مہذب اور منطقی انسان تھے اور میری ان کی دوستی بڑھتی گئی۔۔۔ ایک روز انھوں نے مجھے کھانے کی دعوت دی اور اپنے گھر بلایا۔ میں نے دعوت قبول کی اور جب رات کو ان کے گھر میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ شہر حلب کے تمام بزرگ شخصیات حاضر ہیں۔ بلندپایہ علمائے دین، جامعہ حلب کے اساتذہ، وکلاء، تجار و دکاندار؛ غرض ہر طبقے کے افراد کے علاوہ حلب کے قاضی القضات بھی موجود ہیں۔ کھانا کھایا گیا اور مہمانوں کی پذیرایی ہوئی تو قاضی القضات نے میری طرف رخ کیا اور کہا: جناب امینی صاحب! یہ شیعہ کیا مذہب ہے، اس کی بنیاد و اساس کیا ہے جس کا پیچھا تم سے چھوڑا ہی نہیں جارہا؟
میں نے کہا: کیا یہ حدیث آپ کے ہاں قابل قبول ہے یا نہیں: «قال رسول اللہ (ص): من مات و لم یعرف امام زمانہ مات میتة الجاہلیة = جس نے اپنے زمانے کے امام کو پہچانے بغیر موت کو گلے لگایا وہ جاہلیت کی موت مرا ہے»؟
انھوں نے کہا: یہ حدیث صحیح ہے۔
میں نے کہا: آج کی بحث جاری رکھنے کے لئے یھی حدیث کافی ہے۔ قاضی القضات نے خاموشی اختیار کرلی۔۔۔
تھوڑی دیر بعد میں نے پوچھا: آپ کی نظر میں حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام کس پائے کی خاتون ہیں؟
کہنے لگے: "انہا مطہرة بنص الکتاب"۔ نص قرآن کے مطابق سیدہ سلام اللہ علیہا پاک و مطہر بی بی ہیں اور حضرت زہراء (ص) آل رسول کے عظیم مصادیق میں سے ایک ہیں۔
میں نے کہا: "حضرت فاطمہ حکام وقت سے ناراض و غضبناک ہوکر کیوں دنیا سے رخصت ہوئیں؟ کیا وہ امام امت اور رسول اللہ کے خلفاء برحق نہ تھے؟ یا پھر معاذاللہ حضرت فاطمہ (س) امام وقت کی معرفت حاصل کئے بغیر جاہلیت کی موت مریں!؟
حلب کے عالم حیرت میں ڈوب گئے کیونکہ اگر وہ کہتے کہ کہ حضرت زہراء کا غضب اور آپ (س) کی ناراضگی صحیح تھے تو اس کا لازمہ یہ ہوگا کہ حکومت وقت باطل تھی۔۔۔ اور اگر کہتے کہ سیدہ (س) سے غلطی سرزد ہوئی ہے اور آپ (س) معرفت امام کے بغیر ہی دنیا سے رخصت ہوئی ہیں تو یہ فاش غلطی ان کے مقام عصمت کے منافی ہوتی۔ جبکہ آپ (ص) کے مقام عصمت و طہارت کی گواہی قرآن مجید نی دی ہے۔
حلب کے قاضی القضات بحث کی سمت تبدیل کرنے کی غرض سے بولے: جناب امینی! ہماری بحث کا حکام عصر کی نسبت حضرت زہراء کے غضب و ناراضگی سے کیا تعلق ہے؟
مجلس میں حاضر افراد علم و دانش کے لحاظ سے اعلی مراتب پر فائز تھے اور انہیں معلوم ہوچکا تھا کہ علامہ امینی نے اس مختصر سی بحث میں کیا کاری ضرب ان کے عقائد پر لگائی ہے!
میں نے کہا: آپ لوگوں نے نہ صرف اپنے زمانے کے امام کو نہیں پہچانا ہے بلکہ ان افراد کی حقانیت کے حوالے سے بھی شک و تردد میں مبتلا ہیں جن کو آپ خلفاء رسول (ص) سمجھتے ہیں۔۔۔
ہمارے میزبان جو ایک طرف کھڑے تھے قاضی القضات سے کہنے لگے: «شیخنا اسکت؛ قد افتضحنا = ہمارے شیخ! خاموش ہوجاؤ کہ ہم رسوا ہوگئے؛ یعنی آپ نے ہمیں رسوا کردیا"»۔
ہماری بحث صبح تک جاری رہی اور صبح کے قریب جامعہ کے متعدد اساتذہ، قاضی اور تاجر حضرات سجدے میں گر گئے اور مذہب تشیع اختیار کرنے کا اعلان کیا اور اس کے بعد انھوں نے علامہ امینی کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے انہیں کشتی نجات میں بٹھانے کا اہتمام کیا تھا۔
حوالہ جات اور مترجم کی توضیحات:
1۔ مسند ابی یعلی ج2 ص534۔
2۔ سورہ نمل آیت 16۔
3۔ سورہ نمل آیت 16
4۔ الطبقات الکبری ـ ابن سعد ـ ج2 ص315۔
5۔ سورة العلق آیت 1۔
حدیث لانورث ما ترکناہ صدقہ کا افسانہ الگ مقالے کی شکل میں بھی آرہا ہے۔
6۔ اہل سنت کے معتبر منابع نے صحابہ کے ایک گروہ سے روایت کی ہے: "اول من اسلم علی علیہ السلام" = سب سے پہلے علی علیہ السلام ایمان لے آئے (یعنی علی علیہ السلام وہ سابق الاسلام ہیں جن پر کوئی سبقت حاصل نہیں کرسکا ہے)۔ جن منابع نے گروہ صحابہ سے روایت کی ہے وہ کچھ یوں ہیں:
الف) زید بن ارقم سے بسند صحیح سنن الترمذی ج5 ص600 ـ حدیث نمبر 3735 کتاب المناقب ب21 ـ مسند احمد بن حنبل ج4 ص371 و ص368- مستدرک علی الصحیحین حاکم نیسابوری و التخلیص ذهبی ج3 ص136، نے روایت کی ہے۔
ب) سلمان فارسی سے مستدرک حاکم ج3 ص136 ـ مجمع الزوائد ابن کثیر ج9 ص 124 کتاب المناقب باب 4-4 حدیث 14599، نے بسند صحیح روایت کی ہے
ج) عبد اللہ بن عباس: مستدرک حاکم ج3 ص465 نے بسند صحیح عبد اللہ بن عباس سی روایت کی ہے۔
د) سعد ابن ابی وقاص: مستدرک حاکم و التخلیص ذهبی ج3 ص499 نے بسند صحیح سعد بن ابی وقاص سے روایت کی ہے۔
ھ) معقل بن یسار سے بسند صحیح مسند ابن حنبل ج5 ص126 و مجمع الزوائد ابن کثیر ج9 ص123 کتاب المناقب باب 37 ـ 4- 4 اسلامه علیه السلام ح14595 نے،
و) عائشہ سے بسند صحیح الاصابة فی تمییز الصحاب‍ة میں ابن کثیر ج8 ص183 نے،
ز) قثم بن عباس سے بسند صحیح مستدرک حاکم ج3 ص125 نے اور
ہ) علی علیہ السلام سے بسند صحیح مستدرک حاکم ج3 ص125 نے روایت کی ہے۔
7۔ پیغمبر اکرم (ص) کا یہ کلام کہ "السلام علیکم یا اہل البیت" جس کے دلائل اگلے صفحات میں ذکر ہونگے، اس حقیقت کا ثبوت ہے۔
8۔ رسول اکرم (ص) سے باسناد صحیح تواتر کے ساتھ روایت ہوئی ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا: انّی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و عترتی اہل بیتی (= میں تمہارے درمیان دو بھاری چیزیں چھوڑے جارہا ہوں : کتاب خداوندی اور میری عترت یعنی اہل بیت علیہم السلام) اس کے منابع و مآخذ اتنے زیادہ ہیں کہ ذکر منابع کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی مگر نمونے کے عنوان سے بعض منابع یہان ذکر کئے جاتے ہیں: صحیح مسلم ج5 ص25 ح36 ـ (2408) و ص36 ح37 و سنن ترمذی ج5 ب32 ح621 و سنن نسائی ج5 ص45 و مسند احمد بن حنبل ج3 ص17 و مسند ابی یعلی ج4 ص297 و کتاب السنة الشیبانی ص 629 و معجم الکبیر للطبرانی ج5 ص166 رقم 4169۔
9۔ بہت سے معتبر سنی منابع میں آیت تطہیر (إِنَّمَا يُرِيدُ اللہ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا) کی شأن نزول "حضرت فاطمہ، آپ کے والد، خاوند اور دو بیٹوں کے بارے میں بیان ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر سنن الترمذی ج5 ص621 رقم 3781 ـ خصائص النسائی صفحہ 4 مسند احمد بن حنبل ج6 ص298۔ حسکانی نے بھی شواهد التنزیل میں اس بات کی تأئید میں 30 حدیثیں ثبت کی ہیں۔
10۔ ان النبی (ص) کان اذ اطلع الفجر یمر ببیت علی و فاطمة فیقول السلام علیکم یا اهل البیت الصلاة " إِنَّمَا يُرِيدُ اللہ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا" اسدالغابة ـ ابن اثیر ـ ج5 صفحہ 174 ـ داراحیاء التراث العربی ـ نبی اکرم (ص) جب بھی نماز فجر کی لئے اٹھتے اور علی و فاطمہ سلام اللہ علیہما کے گھر کے سامنے سے گذرتے تو فرماتے: سلام ہو تم پر اے اہل بیت ـ الصلاة الصلاة ـ اور خدا نے ارادہ فرمایا ہے الی آخر۔۔۔
11۔ جب آیت مباهله " فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةُ اللہ عَلَى الْكَاذِبِينَ" (آل عمران 61) نازل ہوئی رسول اللہ (ص) نے علی و فاطمہ و حسن و حسین علیہم السلام کو بلایا اور فرمایا خدا یا! یہ میرے اہل ہیں۔ صحیح مسلم ج5 فضائل الصحابة باب فضائل علی ابن ابی طالب سلام اللہ علیہما ص23 ح32۔
12۔ سورہ نجم آیات 3 و 4۔
13۔ صحیح بخاری ج3 ص96 کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم باب مناقب فاطمة سلام اللہ علیہا۔
14۔ سورہ حشر آیت 6۔ ترجمہ: اور جو کچھ خدا نے ان سے اپنے رسول (ص) کی طرف لوٹایا ہے، ایسی چیز ہے جس کے حصول کے لئے نہ تو تم (مسلمانوں) نے گھوڑے دوڑائے ہیں نہ ہی اونٹ، مگر خدا اپنے رسل کو جس پر چاہے مسلط کردیتا ہے اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔
15۔ سورہ اسراء آیت 26۔ ترجمہ: اور قرابت دار کو اس کا حق دے دو۔
16۔ مسند ابی یعلی ج2 ص534 ح436 ۔ 1408، دار المأمون للتراث بیروت و تفسیر الدرالمنثور ج5 صص273 و 274۔
17۔ معجم البلدان ج4 ص238۔
18۔ معجم البلدان ج4 ص239۔
19۔ معجم البلدان ج4 ص239۔
20۔ معجم البلدان ج4 ص240۔
21۔ سورہ توبہ آیت 128۔
22۔ انس کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نماز فجر کے لئے نکلتے تو فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گھر کے سامنے سے گذرتے اور فرماتے " الصلاة الصلاة یا اھل البیت - إِنَّمَا يُرِيدُ اللہ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ـ درالمنثور ـ سیوطی ـ ج6 ص605- منقول از ابن ابی شیب‍ة ـ احمد ابن حنبل ـ ترمذی ـ ابن جریر طبری ـ ابن المنذر ـ الطبرانی ـ الحاکم اور ابن مردویه۔
23۔ صحیح بخاری ج3 ص 96۔
24۔ کنزالعمال ج13 ص674 ح73725۔
25۔ سیر اعلام النبلاء ج2 ص224۔
26۔ عن عائشة ان فاطمة بنت رسول اللہ (صلی اللہ علیه و آله و سلم ) ارسلت الی ابی بکر تسأله میراثها من رسول اللہ (صلی اللہ علیه و آله و سلم ) مما افاء اللہ علیه بالمدینة و فدک و مابقی من خمس خیبر فقال ابوبکر: ان رسول اللہ (صلی اللہ علیه و آله و سلم ) قال: لا نورث ما ترکنا صدقة، انما یأکل آل محمد فی هذا المال و انی و اللہ لا اغیر شیئا من صدقة رسول اللہ (صلی اللہ علیه و آله و سلم ) عن حالها التی کان علیها فی عهد رسول اللہ (صلی اللہ علیه و آله و سلم ) و لاعملن فیها بما عمل به رسول اللہ (صلی اللہ علیه و آله و سلم )۔ فابی ابوبکر ان یدفع الی فاطمة منها شیئا فوجدت فاطمة ===== علی ابی بکر فی ذالک فهجرته فلم تکلمه حتی توفیت و عاشت فاطمة (سلام اللہ علیها) بعد النبی(صلی اللہ علیه وآله و سلم )ستة اشهر فلما توفیت دفنها زوجهاعلی(علیه السلام) ¬ لیلا و لم یؤذن بها ابابکر و صلی علیها۔ (صحیح بخاری ج3 ص252 کتاب المغازی باب 155- غزوة خیبر حدیث 704)
27۔ سورہ حشر آیت 6۔
28۔ سورہ حشر آیت 7۔
29۔ "فَیئ" کی یہ قسم بظاہر وہ اموال اور آمدنیاں ہیں جو کفار کے مفتوحہ علاقوں سے جزیہ اور خراج یا مفتوحہ زمینوں، جنگلات وغیرہ سے حاصل ہوتی ہیں کیوں کہ جنگ کے دوران حاصل والے اموال غنیمت کے زمرے میں آتے ہیں اور سورہ انفال کی آیت 41 میں اس کا حکم دیگر آمدنیوں کے ضمن میں بیان ہؤا ہے (مترجم)۔
30۔ اور بستیوں والوں کا جو کچھ (مال و مِلک) اللہ تعالی اپنے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے ہاتھ لگائے وہ اللہ کا ہے اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا اور رسول کے قرابتداروں اور یتیموں، مسکینوں کا اور راستے میں (بے خرچ) رہنے والے مسافروں کا ہے تا کہ تمہارے دولتمندوں کے ہاتھ میں ہے یہ مال گردش کرتا نہ رہ جائے(حشر 7)
یعنی یہ کہ فیئ غنیمت کی مانند نہیں ہے جس کا صرف پانچواں حصہ پیغمبر اکرم اور ضرورتمندوں کے لئے ہو اور باقی چار حصے جنگ میں شریک مجاہدین کے لئے ہو۔
اس آیت میں فیئ کی تقسیم کے لئے ترجیحات بیان کی گئی ہیں۔ اور ان کا اختیار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس ہے گو کہ رسول اللہ ان اموال کو اپنی ذات کے لئے نہیں چاہتے بلکہ اسلامی حکومت کے رہبر اور امت کے زمامدار کی حیثیت سے وہ انہیں رفاہ عامہ کے کاموں میں ہی مصرف کرتے ہیں لیکن اگر وہ خود ان اموال میں بھی کوئی مصلحت تشخیص دین تو آپ (ص) کا اختیار ہے ۔ اسی آیت کے آخر میں ارشاد ہے : وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا وَاتَّقُوا اللہ إِنَّ اللہ شَدِيدُ الْعِقَابِ (= جو کچھ رسول اللہ (ص) تمہیں عطا کرتے ہیں (اور جو کچھ تمہارے لائے ہیں) وہ تم لے لو (اور اس پر عمل کرو اور اکتفا کرو) اور جن چیزوں سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تمہیں روکا ہے، ان سے پرہیز کرو اور اور خدا سے درو کیونکہ خدا کا کیفر بہت شدید ہے۔) یہاں ان لوگوں کا جواب واضح طور پر دیا گیا ہے جو فیئ کی تقسیم کے حوالے سے اعتراض کررہے تھے۔ اور واضح ہوتا ہے کہ ان کا اختیار رسول اللہ کے پاس ہے اور کسی کو اعتراض کا حق نہیں ہے۔ (مترجم)
31۔ سورہ انفال آیت 41۔
32۔ آیت کا مذکورہ بالا ترجمہ اہل سنت کے تراجم سے زیادہ ملتا جلتا ہے۔ جہاں اہل سنت کے مترجمین و بعض مفسرین نے کہا ہے کہ غنمتم من شیئ سے مراد یہ ہے کہ تم جس قسم کی جوکچھ غنیمت حاصل کرو اور اس کی تفسیر میں "من شیئ" (اور جو کچھ) سے تھوڑا یا زیادہ یا قیمتی یا سستا مراد لی گئی ہے۔ (ترجمہ و تفسیر مولوی محمد جوناگرھی مطبوعہ شاہ فہد پرنتنگ پریس 1417 ھ مدینہ منورہ ) جبکہ شیعہ تراجم میں قرآنی آیت کے ظاہری مفہوم کا پورا پورا خیال رکھا گیا ہے اور آیت کا ترجمہ کچھ یوں ہے: اور جان لو کہ تمہیں جس چیز سے بھی فائدہ (آمدنی) حاصل ہو۔ ہم کہتے ہیں کہ خدا کے پاس جو خود حرف اور لفظ کا خالق ہے اور اسی نے انسانوں کو بولنا اور لکھنا سکھایا ہے، الفاظ کی کمی نہ تھی اور مراد غنیمت ہوتی تو شیئ کی بجائے "قتال" یا "حرب" یا "غزوہ" کا لفظ بھی لا سکتا تھا اور پھر ہمارے تمام مراجع تقلید اور علما‌ئے فقہ کا اسی مفہوم سے اتفاق ہے اور انھوں نے شیئ کے ساتھ مصادیق بیان کئے ہیں جن میں ایک جنگی غنیمت بھی ہے۔(مترجم)۔
33۔ عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے وقت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا بے قرار تھیں اور رو رہی تھیں۔ آپ (ص) نے اپنی بیتی کو بلایا اور ان کے کان میں کچھ کہا تو بی بی مسکرانے لگیں۔ سبب دریافت کیا گیا تو سیدہ نے فرمایا: میں آپ (ص) کے دنیا سے رخصت ہوجانے کے غم میں رو رہی تھی تو آپ (ص) نے فرمایا کہ میں (فاطمہ) آپ (ص) کے خاندان میں سے سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جاملوں گی۔ چنانچہ میں خوش ہوکر مسکرائی۔ صحیح بخاری ج3 باب 42 ص83 مناقب قرابة الرسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حدیث 233۔
34۔ ابن مردویہ نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ ارشاد الہی :" وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا( سورة الانسان ـ آیت 8 ترجمہ: اور وہ خدا اپنا کھانا ـ جسے وہ چاہتے ہیں (اور جس کی انہیں ضرورت ہوتی ہے) - «مسكين » اور «يتيم » اور «اسير» کو دے دیتے ہیں !)، علی ابن ابیطالب اور سیدہ فاطمہ بنت رسول اللہ صلوات اللہ علیہم اجمعین کے حق میں نازل ہوئی ہے۔ تفسیر درّالمنثور ـ سیوطی ـ ج8 ص371۔
اہل بیت نبی (ص) کی عظمت کی عظیم سند۔
ابـن عباس کہتے ہیں : ((حسن اور حسين علیہما السلام بیمار ہوئے, پيغمبر (ص) بعض صحابہ کے ہمراہ ان کی عیادت کو تشریف لائے اور آپ (ص) نے علی (ع) سے فرمایا: اى ابوالحسن ! بہتر تھا کہ آپ اپنے بیٹوں کی شفا کے لئے نذر مان لیتے۔
عـلـى (ع ) اور فـاطـمہ (س) اور سیدہ (س) کی خادمہ فضہ نے نذر مان لیا کہ اگر ان دو سیدوں کو شفا ملے تو وہ تین دن تک روزہ رکھیں گے۔
کچھ دنوں میں دونوں کو شفا ملی اور دونوں صحتیاب ہوئے، اب حبکہ غذائی مواد کے لحاظ سے گھر خالی تھا، علی (ع) نے تین من (تقریبا 9 کلوگرام) جو قرض پر اٹھایا اور فاطمہ (س) نے ایک تہائی جو پیس کر آٹا تیار کیا اور روٹیاں پکالیں۔ افطار کے وقت ایک سائل دروازے پر حاضر ہؤا اور کہا: ((السلام عليكم یا اہل بيت محمد(ص ) سلام ہو آپ پر ¬ اے اہل بیت محمد (ص)! میں مسلمان مساکین میں سے ایک مسکین ہوں مجھے کھانا عنایت فرمائیں))۔
ان سب نے مسکین کو اپنے اوپر مقدم رکھا اور ہر ایک نے کھانے میں سے اپنا حصہ مسکین کو دیا اور رات پانی پی کر بسر کی۔
دوسرے روز پھر سب نے روزہ رکھا۔ افطار کے لئے کھانا تیار تھا کہ اسی اثناء میں دروازے پر ایک یتیم حاضر ہؤا اور انھوں نے اس روز بھی اپنا کھانا یتیم کے حوالے کیا اور پانی پی کر روزہ افطار کیا (اور تیسرے روز بھی روزہ رکھا)۔
تیسرے روز ایک اسیر وقت مغرب دروازے پر آیا اور سب نے کھانے میں سے اپنا حصہ اسیر کو بخشا۔ جب صبح ہوئی علی (ع) حسن و حسین علیہما السلام کے ہاتھ پکڑ کر رسول اللہ (ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں دیکھا تو وہ بھوک کی شدت سے کانپ رہے تھے۔ فرمایا: آپ لوگوں کی یہ حالت مجھ پر بہت بھاری ہے، چنانچہ آپ (ص) اٹھے اور ان کے ہمراہ سیدہ (س) کے گھر تشریف لائے۔ دیکھا تو سیدہ محراب مین کھڑی نماز پڑھ رہی ہیں، جبکہ بھوک کی شدت سے شکم کمر سے چپکا ہؤا ہے اور آنکھیں گود پڑ گئی ہیں۔ پيغمبر(ص ) بہت ہی ناراحت ہوئے۔ اسی حال میں جبرئيل امین نازل ہوئے اور کہا: اے محمد (ص)! یہ سورت لے لیں اور جان لیں کہ ایسے عظیم خاندان کی عظمت کی آپ کو تبریک ونہنیت کہتا ہے اور پھر جبرائیل امین نے آپ (ص) پر سورہ دہر کی تلاوت کی))۔(مترجم بحوالہ تفسیر نمونہ)۔
35۔ صحیح بخاری ـ ج5 ـ ص82 و 96۔
36۔ صحیح مسلم ج3 ـ کتاب الامارة ـ باب الامر بلزوم الجماعة ـ دوسری روایت اہل تسنن کے نزدیک ہی معتبر ہے اور پہلی روایت پر شیعہ اور سنی راویوں کا اتفاق ہے۔
37۔ صحیح مسلم ج3 ـ کتاب الامارة ـ باب الامر بلزوم الجماعة ـ صحیح بخاری ج4 ـ کتاب الفتن ـ باب قول النبی سترون بعدی اموراً۔
38۔ تہران کی مسجد ۔۔۔۔۔ کے ایک امام جماعت کہتے ہیں کہ سنہ ۔۔۔۔۔ میں الغدیر کے مؤلف علامہ عبدالحسین امینی رحمہ اللہ نجف سے تہران تشریف لائے تو میں بھی ان کی ملاقات کے لئے حاضر ہوا اور علامہ سے درخواست کی کہ ہمارے غریب خانے بھی تشریف لائیں۔ علامہ نے میری دعوت قبول کرلی۔ میں نے علامہ کے اعزاز میں دیگر افراد کو بھی دعوت دی تھی وہ سب حاضر تھے کہ علامہ تشریف لائے اور ہم نے استقبال کیا۔ رات کو میں نے علامہ سے درخواست کی کہ کوئی ایسی بات سنائیں جس سے استفادہ کیا جاسکے اور روحانی تسکین کا سبب بنے۔ علامہ امینی نے فرمایا:
«میں بعض کتب کا مطالعہ کرنے شام کے شہر حلب گیا اور وہیں مصروف مطالعہ ہوا۔ اس دوران ایک سنی تاجر سے شناسائی ہوئی۔ وہ نہایت مہذب اور منطقی انسان تھے اور میری ان کی دوستی بڑھتی گئی۔۔۔ ایک روز انھوں نے مجھے کھانے کی دعوت دی اور اپنے گھر بلایا۔ میں نے دعوت قبول کی اور جب رات کو ان کے گھر میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ شہر حلب کے تمام بزرگ شخصیات حاضر ہیں۔ بلندپایہ علمائے دین، جامعہ حلب کے اساتذہ، وکلاء، تجار و دکاندار؛ غرض ہر طبقے کے افراد کے علاوہ حلب کے قاضی القضات بھی موجود ہیں۔ کھانا کھایا گیا اور مہمانوں کی پذیرایی ہوئی تو قاضی القضات نے میری طرف رخ کیا اور کہا: جناب امینی صاحب! یہ شیعہ کیا مذہب ہے، اس کی بنیاد و اساس کیا ہے جس کا پیچھا تم سے چھوڑا ہی نہیں جارہا؟
میں نے کہا: کیا یہ حدیث آپ کے ہاں قابل قبول ہے یا نہیں: «قال رسول اللہ (ص): من مات و لم یعرف امام زمانہ مات میتة الجاہلیة = جس نے اپنے زمانے کے امام کو پہچانے بغیر موت کو گلے لگایا وہ جاہلیت کی موت مرا ہے»؟
انھوں نے کہا: یہ حدیث صحیح ہے۔
میں نے کہا: آج کی بحث جاری رکھنے کے لئے یھی حدیث کافی ہے۔ قاضی القضات نے خاموشی اختیار کرلی۔۔۔
تھوڑی دیر بعد میں نے پوچھا: آپ کی نظر میں حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام کس پائے کی خاتون ہیں؟
کہنے لگے: "انہا مطہرة بنص الکتاب"۔ نص قرآن کے مطابق سیدہ سلام اللہ علیہا پاک و مطہر بی بی ہیں اور حضرت زہراء (ص) آل رسول کے عظیم مصادیق میں سے ایک ہیں۔
میں نے کہا: "حضرت فاطمہ حکام وقت سے ناراض و غضبناک ہوکر کیوں دنیا سے رخصت ہوئیں؟ کیا وہ امام امت اور رسول اللہ کے خلفاء برحق نہ تھے؟ یا پھر معاذاللہ حضرت فاطمہ (س) امام وقت کی معرفت حاصل کئے بغیر جاہلیت کی موت مریں!؟
حلب کے عالم حیرت میں ڈوب گئے کیونکہ اگر وہ کہتے کہ کہ حضرت زہراء کا غضب اور آپ (س) کی ناراضگی صحیح تھے تو اس کا لازمہ یہ ہوگا کہ حکومت وقت باطل تھی۔۔۔ اور اگر کہتے کہ سیدہ (س) سے غلطی سرزد ہوئی ہے اور آپ (س) معرفت امام کے بغیر ہی دنیا سے رخصت ہوئی ہیں تو یہ فاش غلطی ان کے مقام عصمت کے منافی ہوتی۔ جبکہ آپ (ص) کے مقام عصمت و طہارت کی گواہی قرآن مجید نی دی ہے۔
حلب کے قاضی القضات بحث کی سمت تبدیل کرنے کی غرض سے بولے: جناب امینی! ہماری بحث کا حکام عصر کی نسبت حضرت زہراء کے غضب و ناراضگی سے کیا تعلق ہے؟
مجلس میں حاضر افراد علم و دانش کے لحاظ سے اعلی مراتب پر فائز تھے اور انہیں معلوم ہوچکا تھا کہ علامہ امینی نے اس مختصر سی بحث میں کیا کاری ضرب ان کے عقائد پر لگائی ہے!
میں نے کہا: آپ لوگوں نے نہ صرف اپنے زمانے کے امام کو نہیں پہچانا ہے بلکہ ان افراد کی حقانیت کے حوالے سے بھی شک و تردد میں مبتلا ہیں جن کو آپ خلفاء رسول (ص) سمجھتے ہیں۔۔۔
ہمارے میزبان جو ایک طرف کھڑے تھے قاضی القضات سے کہنے لگے: «شیخنا اسکت؛ قد افتضحنا = ہمارے شیخ! خاموش ہوجاؤ کہ ہم رسوا ہوگئے؛ یعنی آپ نے ہمیں رسوا کردیا"»۔
ہماری بحث صبح تک جاری رہی اور صبح کے قریب جامعہ کے متعدد اساتذہ، قاضی اور تاجر حضرات سجدے میں گر گئے اور مذہب تشیع اختیار کرنے کا اعلان کیا اور اس کے بعد انھوں نے علامہ امینی کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے انہیں کشتی نجات میں بٹھانے کا اہتمام کیا تھا۔
39۔ صحیح بخاری ج5 ص96۔
40۔ کنزالعمال ج13 ص674 حدیث 37725۔
41۔ سورہ طہ آیت 81۔
42۔ مقالی کی آخر مین حدیث لا نورث کی مکمل مگر مختصر جرح کی گئی ہی۔(مترجم)
43۔ سورہ نمل آیت 16۔
44۔ سورہ مریم آیات 5 و 6۔
45۔ البتہ ہمارا عقیدہ ہے کہ آپ (ص) عقل کُلّ کے مالک ہیں اور وحی الہی سے پیوستہ ہیں چنانچہ معمولی امور کے علاوہ تاریخ اور علوم و فنون میں بھی دیگر انسانوں سے زیادہ علم و آگہی رکھتے ہیں اور آپ (ص) کی عصمت میں بھی اگر شک کیا جائے قرآن اور حدیث اور ہر وہ شۓ مشکوک ہوکر رہ جائے گی جس کا تعلق آپ (ص) سے ہوگا۔ (مترجم)۔
46۔ سورہ نمل آیت 16۔
47۔ سورہ مریم آیات 5 و 6۔
48۔ الطبقات الکبری ـ ابن سعد ـ ج2 ص315 ـ درالمنثور ++++
49۔ یہ کیسی حدیث ہے جس کی تحت رسول اللہ کی ارث سے آپ (ص) کی اکلوتی بیٹی کو محروم کردیا گیا مگر خود عائشہ اسی ارث کی اکلوتی مالکن بنیں؟ جبکہ اگر یہ حدیث صحیح ہو تو پھر عام بھی ہونی چاہئے اور اس کا اطلاق سب پر ہونا چاہئے جبکہ اب سوال یہ ہے کہ عائشہ نے رسول اللہ (ص) کی گھر کی مالکیت کا دعوی کیوں کیا اور رسول اللہ کے گھر کو ارث سمجھ کر ان کے حوالے کیا گیا جبکہ اس حدیث کے تحت ارث نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صدقہ ہوتا ہے جس میں تمام محتاج مسلمانوں کا حق ہے اور اگر ہم فرض کریں کہ ام المؤمنین کا مسئلہ مستثنیات میں سے تھا تو پھر دیگر امہات المؤمنین کا کیا قصور تھا اور انہیں کیوں کچھ نہیں دیا گیا؟ اور اگر ارث ام المؤمنین کے حق میں درست تھا تو ان کا اس میں کتنا حصہ بنتا تھا؟ کیا بیوی کا حصہ ارث کا آٹھواں حصہ نہیں ہوتا؟ کیا اس وقت 9 امہات المؤمنین بقید حیات نہ تھیں ؟ اور اگر تھیں تو کیا ارث کا آٹھواں حصہ بھی ان 9 امہات المؤمنین میں تقسیم نہیں ہونا چاہئے تھا؟ اگر تقسیم ہونا چاہئے تھا تو عائشہ نے اکیلے اس پر قبضہ کیوں کیا؟ --- حدیث کے جعلی پن کا راز دیکہئے جو اب ان ہی کے ہاتھوں کھلتا ہے جنہوں نے وضع کی تھی۔ علاوہ ازیں علمائے اہل سنت بھی اب ماننے لگے ہیں کہ حدیث جعلی ہے! وجہ بہ یہ ہے جہاں دو خلیفہ دفن ہیں وہ مقام صدقہ ہے اور امت کے ہر فرد کا اس میں حصہ ہے اور وہاں ابوبکر اور عمر کا حصہ بھی اتنا ہی ہے جتنا 2 عام مسلمانوں کا ہوتا ہے اور اگر یہ حدیث درست تسلیم کی جائے تو وہ مقام امت کی ملکیت عامہ میں سے غصب کیا گیا ہے اور کسی مسلمان کا غصبی زمین میں دفن کیا جانا بلا جواز ہے ۔ و اللہ علیم حکیم (مترجم)
50۔ پس فاطمہ سلام اللہ علیہا غضبناک ہوئیں اور ابوبکر سے قطع کلام اور قطع تعلق کیا اور اسی حال میں رہیں حتی کہ وفات پاگئیں۔(صحیح بخاری ج2 ص504 ـ کتاب الخمس ـ ب837 ـ فرض الخمس ـ حدیث 1265۔ مسند احمد بن حنبل ج1 ص25 حدیث 25 (مسند ابی بکر))۔
51۔ اور فاطمہ (س) ابوبکر سی مطالبہ کررہی تھیں اور ابوبکر نے انکار کیا۔ (صحیح بخاری ج2 ـ کتاب الخمس ـ ب 837 ـ فرض الخمس ـ حدیث 1265۔ صحیح مسلم ج4 کتاب الجهاد ـ ب15 ـ حکم الفیئ ـ حدیث 54 ـ و مسند احمد ابن حنبل ـ ج1 ص25 حدیث 25 (مسند ابی بکر))۔
52۔ قال (عمر) فلما تولی ابوبکر قال انا ولی رسول اللہ فجئتما و تطلب میراثک من ابن اخیک و یطلب هذا میراث امرأته من ابیها فقال ابوبکر: قال رسول اللہ "لا نورث ما ترکنا صدقة فرأیتماه کاذبا، آثما، غادرا، خائنا و اللہ یعلم انه لصادق بارٌّ، راشد، تابع للحق۔ ثم توفی ابوبکر و انا ولی رسول اللہ و ولی ابی بکر فرأیتمانی کاذبا، آثما، غادرا، خائنا و اللہ یعلم انی لصادق بارٌّ، راشد، تابع للحق۔(صحیح مسلم ج4 ص28 کتاب الجهاد و السیر باب 15 حکم الفیئ ـ حدیث49 ـ مؤسسة عزالدین۔
53۔ صحیح بخاری ج4 ص121- کتاب النفقات باب 180 حبس النفقة الرجل ـ حدیث 272۔
54۔ صحیح بخاری ج3 ص188 ـ کتاب المغازی باب 129 حدیث 526۔
55۔ وہی مأخذ ص755 ـ کتاب الاعتصام ـ باب 1170 ـ ما یکره من العمق و التنازع فی العلم ـ حدیث 2112 و مسند احمد ابن حنبل ج1 ص447 حیث العباس بن عبدالمطلب حدث 1782 و سنن الترمذی ج4 کتاب السیر ب44 ماجاء فی ترکة رسول اللہ صلی اللہ علیه و آله و سلم حدیث 1610۔
56۔ بحارالانوار، ج 10، ص 120، روايت 1، باب 8۔
57۔ عجیب بات یہ ہے کہ یہ روایت عائشہ سے منقول ہے اور دیگر زوجات رسول نے کبھی بھی اس کی تأئید نہیں کی ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ سورہ تحریم مین اللہ کی دھمکی وصول کرنے والی خانون کے سوا یہ بات رسول اللہ نے کسی اور زوجہ کو نہیں بتائی تھی۔ ابوبکر نے بھی کبھی یہ دعوی نہیں کیا کہ یہ روایت ساری امہات المؤمین نے نقل کی ہے۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ جس ام المؤمنین کو بہتروان حصہ ملنا تھا آپ (ص) نے انہیں حدیث ماترکنا سنادی ہے مگر جن کو آٹھ حصون مین سے سات حصے ملنے تھے ان کونہیں بتایا!!!۔
58۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ جس بیٹی سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم انتہا کی محبت کرتے ہیں اس کو اتنے مسائل سے دوچار کردیں؟۔ سنی منابع میں ایک حدیث نقل ہوئی ہے۔ کہ شیخین غصب فدک کے بعد جناب سیدہ کی عیادت کے لئے پہنچے تو بی بی نے پردہ لگوایا اور: قالت فاطمة سلام اللہ علیہا: الم تسمعا رسول اللہ (ص) يقول رضا فاطمه من رضاي و سخط فاطمة من سخطي فمن احب ابنتي فاطمة فقد ارضاني و من اسخط فاطمة فقد اسخطني قالا نعم سمعناه من رسول اللہ من رسول اللہ (ص) الخ
ترجمہ: جناب سیدہ نے فرمایا: کیا تم دو نے رسول اللہ کو فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ فاطمہ کی رضا میری رضا ہے اور فاطمہ کا غم و غصہ میرا غم و غصہ ہے؟ دونوں نے کہا: ہاں ہم نے یہ حدیث رسول اللہ سے سنی ہے۔۔۔۔ الی آخر
(اعلام النساء - العلامة المعاصر الاستاذ عمر رضا كحاله - ج5 ص1214 مطبوعه دمشق)۔
59۔ کنز العمال ج14 ص130 باب فضل الصدیق۔
60۔ شرح نہج البلاغہ ج4 ص82۔
61۔ ہم اس حقیقت کو بھی نظر انداز کرتے ہیں کہ فدک جناب سیدہ کے تصرف میں تھا اور ابوبکر نے ان کے مزارعین کو فدک سے نکال باہر کیا اور پھر ایک مشکوک سی بات کو حدیث کے طور پر پیش کرکے اپنے دعوے کا دفاع کیا اور بی بی سے شاہد مانگنا شروع کئے جبکہ شاہد تو مدعی کو پیش کرنے چاہئے تھے اور اس بات کو بھی بھول جاتے ہیں کہ ابوبکر نے روئے زمین کی پاک ترین خاتون سے گواہوں کا مطالبہ کرکے گویاان پر جھوٹ کا شبہہ ظاہرکیا مگر چلئے ہم رعایت دیتے ہیں اور اس نکتے کو ان کے عدل اور انصاف کی علامت سمجھتے ہیں!۔ انھوں نے کہا کہ علی اور ام ایمن کی گواہی اس لئے قابل قبول نہیں ہے کہ ان دو میں ایک عورت ہے اور ایک مرد ہے جبکہ ایک مرد ہو تو دوعورتیں ہونی چاہئیں کیونکہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہے۔ ہم نے مندرجہ بالا عبارات میں دیکھا کہ اگر ایک صحابی ایک حدیث نقل کرے تو بھی قابل قبول نہیں ہے مگر سوال یہ ہے کہ وہ ابوبکر جو سیدہ سے دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی کا مطالبہ کررہے تھے انھوں نے اپنی بیٹی سے اس حدیث کی سچائی معلوم کرنے کے لئے حتی ایک شاہد کا مطالبہ نہیں کیا آخر کیوں؟؟؟؟؟۔
62۔ شرح نہج البلاغہ ـ ج4 ـ ص85۔
63۔ شرح نہج البلاغہ 4 ص85۔
64۔ سورہ نمل آیت 16۔
65۔ سورہ مریم آیت 6۔
66۔ کنزالعمال ج5 ص365، و طبقات ابن سعد ج2 ص315۔
67۔ السقیفة لاحمد ابن عبدالعزیز الجوهری۔
68۔ سورہ توبہ آیت 128۔
69۔ المائدہ آیت 50 - یہاں سیدہ (س) نے آیت میں مذکورہ صیغہ جمع مذکر غائب کو جمع مذکر مخاطب میں تبدیل کیا ہے کیونکہ وہ دربار خلافت میں بیٹھے ہوئے حکمرانوں سے مخاطب تھیں(مترجم)۔
70۔ (سورہ مریم آیت 27)، اس کی وضاحت بھی وہی ہے۔
71۔ اشارہ ہے سورہ جاثیہ کی آیت 27 کو جہان ارشاد ہے: وَيَومَ تَقُومُ السَّاعَةُ يَوْمَئِذٍ يَخْسَرُ الْمُبْطِلُونَ = اور اس روز ـ جب قیامت برپا ہوگی باطل والے شدید نقصان و خسران میں ہونگے۔
72۔ بلاغات النساء لاحمد بن ابى الطاهر البغدادى، برواية ابن ابى الحديد مجلد 4 صفحة 89 87 وصفحة 92، وبلاغات النساء صفحة 12 ـ 15۔
73۔ سورہ نمل آیت 16۔
74۔ سورہ مریم آیات 5 و 6۔
75۔ سورہ انفال آیت 75۔
76۔ سورہ نساء آیت 11۔
78۔ سورہ بقرہ آیت 180۔
78۔ سورہ آل عمران آیت 50 (أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ) کی جانب اشارہ ہے اور چونکہ مخاطبین اس کا مصداق بن رہے تھے لہذا سیدہ (س) نے مخاطب کا صیغہ استعمال کیا ہے- مترجم۔
79۔ بلاغات النساء صفحة 16 ـ 17۔
80۔ صحیح بخاری ج3 ص252 کتاب المغازی باب 155- غزوة خیبر حدیث 704۔
81۔ شرح النهج ج4 صص 87 89 و بلاغات النسا ص 12 15۔

 


source : www.islamquest.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عصمت امام کا اثبات
حسین شناسی یعنی حق پرستی
عفو اہلبیت (ع(
فدک ، ذوالفقار فاطمہ (سلام اللہ علیہا)
ولایت علی ع قرآن کریم میں
قاتلان حسین(ع) کا مذہب
''عاشورا ''وجود میں آنے کے اسباب
فاطمہ علیھا السلام ،عالم ہستي کا درخشاں ستارہ
عزم راسخ اور سعی مستقل
نبی (ص) کی ذات محور اتحاد

 
user comment