اردو
Tuesday 23rd of July 2024
0
نفر 0

فدک، معتبرترین تاریخی دستاویز - 1

 فدک، معتبرترین تاریخی دستاویز - 1

ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی (اورقرابت دار کو اس کا حق دو) تو نبی اکرم (ص) نے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو بلایا اور فدک انہیں عطا فرمایا"

فدک، معتبرترین تاریخی دستاویز - 1

بسم اللہ الرحمن الرحیم
فدک معتبرترین تاریخی دستاویز

بقلم: سید علی رضا حسینی

ترجمہ: ف۔ح۔مہدوی

قال ابوسعید الخدری : " لمّا نزلت هذه الآیة "و آت ذاالقربی حقه" دعا النبی صلی اللہ علیه وآله و سلم فاطمة و اعطاها فدک" (1)

ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی (اورقرابت دار کو اس کا حق دو) تو نبی اکرم (ص) نے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو بلایا اور فدک انہیں عطا فرمایا"

قال ابوبکر: قال رسول اللہ صلی اللہ علیه و آله و سلم : لا نورث، ما ترکنا صدقة"

فقال علی علیه السلام: " وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ" (2) و قال زکریا: يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ " (3)

فقال ابوبکر: هکذا

فقال علی علیه السلام هذا کتاب اللہ ینطق (4)

ترجمہ: ابوبکر نے کہا: رسول اللہ (ص) نے فرمایا ہے : ہم انبیاء ورثہ نہیں چھوڑتے ہم اپنے بعد جو کچھ چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔

علی (ع) نے فرمایا: اور سلیمان داؤد کا وارث بنا" اور " زکریا نے عرض کیا (پس مجھے ایسا فرزند عطا کردے) جو میرا اور آل یعقوب کا وارث ہو"

ابوبکر نے کہا: ایسا ہی ہے۔

پس علی (ع) نے فرمایا: یہ خدا کی کتاب ہے جو بول رہی ہے!

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ممکن ہے کہ تاریخ اور حدیث کے اہل تسنن کے معتبر مصادر و مآخذ سے ناواقف افراد شاید تصور کرتے ہوں کہ فدک کا واقعہ مخصوص شیعہ نظریات و عقائد کا حصہ ہے جبکہ اگر وہ تعصب اور جانبداری کی عینک اتار کر محققانہ نگاہ سے صحاح و مسانید اور تاریخ و حدیث کے مجموعات کی ورق گردانی کریں تو جان لیں گے کہ یہ مسئلہ تشیع کا مخصوص مسئلہ ہی نہیں بلکہ اہل سنت کے معتبر دلائل و شواہد بھی اس حقیقت کو ثابت کرتے ہیں۔

یہ مقالہ "فدک، معتبرترین تاریخی دستاویز" سعی کرتا ہے کہ فدک کے بارے میں اہل سنت کے منابع میں منقولہ دلائل، حقیقت کے متلاشی آزاد اندیش اور روشن ضمیر انسانوں کی خدمت میں پیش کرے۔

۩ ۩ ۩ ۩ ۩

فدک، معتبرترین تاریخی دستاویز

محمد امین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم "اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ" (5) کی ندا کے ساتھ ہی خدا کے آخری سفیر اور سید الانبیاء و المرسلین کی حیثیت سے مبعوث ہوئے۔

بعثت کے ابتدا ئی ساعتوں میں ہی آپ (ص) کی وفا شعار زوجۂ مطہرہ ام المؤمنین حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا، جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قدموں میں نثار کرنے کے لئے اپنے مال و جان کے لئے کسی قدر و قیمت کی قائل نہ تھیں، آپ (ص) پر ایمان لے آئیں اور "لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ" کا کلمہ پڑھ کر اپنی جان نثاری کا ثبوت دیا، جس کی ان کے وجود کا ہر ذرہ گواہی دیتا ہے۔

آپ (ص) اللہ کے چچا، کفیل و سرپرست مؤمن قریش حضرت ابوطالب علیہ السلام کے فرزند علی (ع) جن کی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے چھوٹے بھائی کی مانند تربیت فرمائی تھی ـ بھی آپ (ص) پر ایمان لائے۔ (6)

خدیجہ سلام اللہ علیہا نے آپ (ص) کے دوش بدوش تبلیغ رسالت کے ابتدائی مراحل کی تمام صبر آزما مشکلات اور دشواریاں خندہ پیشانی سے برداشت کرلیں۔

خدا نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور خدیجہ سلام اللہ علیہا کو عظیم ترین امانت الہیہ کی حفاظت کا فریضہ سنبھالنے پر انہیں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا جیسا عظیم ترین تحفہ عنایت فرمایا۔

حضرت رسول اکرم (ص) ان فداکار و جان نثار ماں بیٹی سے شدید محبت کرتے تھے۔ خاص بات یہ تھی کہ خداوند متعال نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس بیٹی کو بقائے دین اور آپ (ص) کی نسل کی بقاء کا موجب قرار دیا تھا۔

خدیجہ سلام اللہ علیہا دنیا سے رخصت ہوئیں تو یہ مصیبت آپ (ص) پر بہت بھاری تھی مگر فاطمہ سلام اللہ علیہا کا وجود آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تسلی و تسکین کا باعث تھا۔

جب حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی شادی کا وقت آیا، آپ (س) کے والد ماجد (ص) نے خدا کے امر (7) سے آپ (س) کا نکاح اس مرد سے کرایا جو سب سے پہلے اسلام لایا تھا اور بچپن سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زیر تعلیم و تربیت رہا تھا اور اس طرح خاندان نبی (اہل بیت) کی تشکیل ہوئی۔ (8) اور قرآن کے ساتھ ساتھ عترت کی بقاء کی ضمانت بھی فراہم ہوئی۔ (9)

خداوند متعال نے اپنے تحفۂ عظیم کی عظمت مختلف مناسبتوں سے گوناگوں مواقع پر بیان فرمائی؛ جبکہ اس تحفۂ عظیم کی معرفت طبیعی طور پر لوگوں کے لئے ناممکن تھی۔

کبھی آپ سلام اللہ علیہا کو آیت تطہیر میں اہل بیت علیہم السلام کا محور و مرکز قرار دیا: "هُم فاطمة و ابوها و بعلها و بنوها" (= یہ فاطمہ اور ان کے والد اور خاوند اور دو بیٹے ہیں) تا کہ نبی اکرم (ص) کئی مہینوں تک ہر روز صبح و شام آپ سلام اللہ علیہا کے گھر تشریف لاتے رہیں اور آپ (س) اور آپ (س) کے خاندان پر درود و سلام بھیجتے رہیں۔ (10)

خداوند متعال کبھی آیت مباہلہ میں "نسائنا" کے تحت آپ سلام اللہ علیہا کو خاندان نبوت کی اکلوتی خاتون کے عنوان سے تعارف کراتا ہے تا کہ آپ کی عظمت کو نہ صرف مسلمانوں پر ثابت کردے بلکہ اہل عالم پر بھی ثابت ہوجائے جن میں اہل کتاب بھی شامل ہیں۔ (11)

کبھی اپنے نبی (ص) کی زبان سے جو (وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى۔ (12) اپنی جانب سے کچھ بولتے ہی نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا کلام اس وحی کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا جو آپ پر نازل ہوتی ہے۔) آپ سلام اللہ علیہا کو سیدة نساء الجنة (13) اور سیدة نساء العالمین جیسے القاب عطا فرماتا ہے۔

فاطمہ سلام اللہ علیہا حضرت حق تعالی کی رضا پر توجہ کامل رکھنے اور اپنے والد بزرگ سے عملی نمونے اور اسوہ حسنہ حاصل کرنے کی بنا پر دنیا کی طرف توجہ نہیں دیا کرتی تھیں اور دنیا کی زاہدترین خاتون تھیں کیونکہ والد بزرگوار (ص) آپ سلام اللہ علیہا کو زہد کی تربیت دلایا کرتے تھے۔

پیغمبر اکرم (ص) فدک اپنی اکلوتی بیٹی کو بخش دیتے ہیں:

پیغمبر اکرم (ص) فدک اپنی اکلوتی بیٹی کو بخش دیتے ہیں:

جب اہل خیبر نے محسوس کیا کہ اسلام کے مقابلے ڈٹ نہیں سکیں گے، فدک اور ۔۔۔ کو صلح کے عنوان سے پیغمبر اکرم (ص) کے حوالے کردیا۔ خدا نے بھی اس آیت کے ضمن میں فدک کو رسول اللہ (ص) کی ملکیت خاص قرار دیا: وَمَا أَفَاء اللہ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ وَلَكِنَّ اللہ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَى مَن يَشَاء وَ اللہ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (14)

اس کے بعد جبرئیل نازل ہو کر خدا کا پیغام لے کر آئے: وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ (15) اور پیغمبر (ص) نے خدا کے حکم سے فدک حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو بخش دیا۔ شاید سب لوگ حیرت زدہ تھے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے زہد اور بندگی کی رفعتوں کے باوجود، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فدک آپ سلام اللہ علیہا کو ہی کیوں بخش دیا؟ فاطمہ سلام اللہ علیہا کو اس کی کیا ضرورت ہے؟

لیکن کسے معلوم تھا کہ فدک فاطمہ سلام اللہ علیہا کے ہاتھ میں، تاریخ کی سب سے بڑی دستاویز تھا؟!

اہل سنت کے منابع حدیث و تاریخ میں رسول خدا (ص) کی طرف سے اپنی بیٹی کو اس بخشش کے بارے میں کثیر روایات ذکر ہوئی ہیں۔ سیوطی درالمنثور میں بعض منابع کا ذکر کرتے ہیں جنہوں نے اس حقیقت کو دو صحابیوں ابو سعید خدری اور عبد اللہ بن عباس سے نقل کیا ہے۔ سیوطی مسند بزاز، مسند ابی یعلی، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ سے نقل کرتے ہیں کہ جب یہ آیت (و آت ذالقربی حقه) نازل ہوئی، رسول خدا (ص) نے فاطمہ سلام اللہ علیہا کو بلایا اور فدک انہیں بخش دیا۔ (16)

اس حقیقت نے سنہ 7 ہجری کو عملی جامہ پہنا اور فدک تین برسوں تک فاطمہ سلام اللہ علیہا کے ہاتھ میں رہا اور جناب سیدہ سلام اللہ علیہا نے ان برسوں کے دوران وہاں کاشتکار اور مزارع رکھ لئے تھے۔

یہ مضبوط و مستحکم سند تاریخ کے طول و عرض میں جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی حقانیت کی واضح دلیل تھی، جس کا ایک گوشہ یأقوت ابن عبد اللہ حموی نے اپنی کتاب "معجم البلدان" میں ذکر کیا ہے۔ اور ہم اس کے مختصر ترجمے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ یأقوت فدک کے بارے میں کہتے ہیں: "فدک ان املاک میں سے ہے جو حملے اور محنت و مشقت کے بغیر ہی حاصل ہوئے ہیں۔

چنانچہ یہ رسول اکرم (ص) کا مِلکِ خاص تھا۔

یہ وہی چیز ہے کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا نے فرمایا: رسول اللہ (ص) نے فدک مجھے بخش دیا ہے اور ابوبکر نے گواہ پیش کرنے کو کہا اور اس بات کی اپنی ایک داستان ہے۔ (17)

یأقوت ابن عبداللہ نے یہ داستان کچھ یوں بیان کی ہے:

"جب رسول اللہ (ص) انتقال کرگئے۔ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا نے ابوبکر سے فرمایا: رسول اللہ (ص) نے فدک میرے لئے قرار دیا ہے پس تم اسے میرے حوالے کرو اور علی ابن ابیطالب علیہما السلام نے گواہی دی۔ ابوبکر نے دوسرا شاہد پیش کرنے کو کہا تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خادمہ ام ایمن نے بھی شہادت دی۔" (18)

"اس کے بعد عمر نے خلافت کا عہدہ سنبھالا تو ان کی "اجتہادی رائے" کا نتیجہ یہ ہؤا کہ فدک رسول خدا (ص) کی وارثین کو لوٹا دیا جائے۔

علی (ع) پہلے کی طرح کہہ رہے تھے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے اپنی زندگی میں ہی فدک فاطمہ سلام اللہ علیہا کو ہبہ کردیا ہے۔

پس جب عمر ابن عبدالعزیز خلیفہ بنے تو انھوں نے مدینہ کے والی کو لکھا کہ فدک جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے وارثین کو لوٹا دے اور عمر ابن عبدالعزیز کے دور میں فدک ان کے ہاتھ میں ہی رہا۔

جب یزید ابن عبدالملک نے اقتدار سنبھالا، فدک کو جناب فاطمہ (ص) کے وارثین سے واپس لیا اور ابوالعباس سفاح (پہلے عباسی خلیفہ) کے دور تک بنو امیہ کے ہاتھ میں تھا۔

ابوالعباس سفاح نے فدک حسن ابن حسن ابن علی ابن ابیطالب علیہم السلام کے سپرد کیا تا کہ اسے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے فرزندوں کے درمیان تقسیم کردیں۔ جب منصور کی خلافت کی باری آئی اور بنو حسن (ع) نے اس کے خلاف قیام کیا، اس نے فدک بنو فاطمہ (س) سے واپس لیا۔ جب مہدی عباسی نے اقتدار سنبھالا اس نے فدک بنو فاطمہ (س) کو واپس لوٹایا۔ اس کے بعد موسی الہادی اور اس کے بعد آنے والے خلفاء نے فدک اپنے قبضے میں رکھا۔

جب مأموں کا دور آیا تو خاندان علی (ع) کا ایک نمائندہ اس کے پاس آیا اور فدک کا مطالبہ کیا۔ مأمون نے فرمان جاری کیا کہ فدک کے لئے ایک سند تیار کی جائے۔ سند تیار ہوئی اور مأمون کے سامنے پڑھی گئی۔

پس معروف شاعر دعبل خزاعی نے یہ شعر کہا:

اصبح وجه الزمان قد ضحکا

بِرَدِّ مأمون هاشم فدکاً

ترجمہ: زمانے کا چہرہ خندان ہؤا

جب مأمون نے فدک بنوہاشم کو لوٹایا (19)

یأقوت حموی مأمون کے توسط سے فدک بنو ہاشم کو لوٹا دئے جانے کے بارے میں لکھتے ہیں:

جب سنہ 210 کا آغاز ہؤا مأمون نے فرمان جاری کیا کہ فدک جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے فرزندوں کو لوٹا دیا جائے۔

اس نے مدینہ میں اپنے والی قثم بن جعفر کو لکھا: "امر مسلم ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فدک اپنی بیٹی فاطمہ (ص) کو عطا فرمایا ہے اور یہ امر آل محمد (ص) کے نزدیک آشکار اور مشہور ہے۔ اس کے بعد بی فاطمہ سلام اللہ علیہا (ابوبکر کے دور میں) اس حقیقت کی دعویدار تھیں اور جناب کی شخصیت کے پیش نظر حق یہی ہے کہ ان کے دعوے کی تصدیق کی جائے"۔

(بہرحال) مأمون نے رائے دی کہ فدک جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے وارثوں کو لوٹا دیا جائے۔

جب متوکل عباسی کا دور آیا اس نے فدک فرزندان فاطمہ سلام اللہ علیہا سے واپس لیا۔ (20)

معجم البلدان سے منقولہ متن کا حاصل اور خلاصہ ان احادیث کی تأئید و تصدیق کرتا ہے جو محدثین و مفسرین نے تفصیل سے روایت کی ہیں اور وہ کچھ یوں ہے:

1۔ فدک رسول اللہ (ص) کی خاص ملکیت تھا۔

2۔ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے فرمایا: رسول اللہ (ص) نے فدک مجھے عطا فرمایا ہے۔

3۔ علی (ع) نے اس امر کی شہادت دی اور اس پر تأکید فرمائی۔

4۔ رسول اللہ (ص) کی خادمہ ام ایمن نے بھی گواہی دی۔

5۔ عمر نے اپنے دور خلافت میں فدک رسول اللہ کے وارثین کو لوٹایا (جو تھوڑا عرصہ بعد ان سے واپس لے لیا گیا)۔

6۔ عمر کے توسط سے فدک لوٹا دیئے جانے کے بعد علی (ع) فرمایا کرتے تھے: پیغمبر اکرم (ص) نے اپنے دوران حیات فدک فاطمہ سلام اللہ علیہا کو عطا فرمایا ہے۔

7۔ عمر ابن عبدالعزیز نے اپنے دور خلافت میں حکم دیا کہ فدک جناب کی اولاد کو لوٹا دیا جائے۔

8۔ یزید ابن عبدالملک نے فدک واپس لیا اور اسی طرح بنو امیہ کے قبضے میں تھا۔

9۔ پہلے عباسی بادشاہ ابوالعباس سفاح نے فدک بنو فاطمہ کو واپس کردیا۔

10۔ منصور نے واپس لیا۔

11۔ مہدی عباسی نے فدک ان کو واپس کردیا۔

12۔ موسی الہادی اور اس کے بعد آنے والوں نے فدک بنو فاطمہ سے لے کر اپنے پاس رکھا۔

13۔ مأمون نے کہا: پیغمبر اکرم (ص) نے فدک جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کو عطا کیا تھا۔

یہ امر آل نبی (ص) کے نزدیک آشکار اور مشہور تھا۔

فاطمہ سلام اللہ علیہا تسلسل کے ساتھ فدک کی مالکیت کی دعویدار تھیں اور حق یہی ہے کہ ان کے دعوے کی تصدیق کی جائے۔

14۔ مأمون نے فدک وارثان فاطمہ سلام اللہ علیہا کو واپس کیا اور حکم دیا کہ اس کے لئے ایک سند تدوین کی جائے اور مأمون کے سامنے پڑھی گئی۔

15۔ متوکل عباسی نے فدک جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے وارثین سے واپس لیا۔

کتنی عجیب بات ہے کہ کوئی شخص تفسیر اور حدیث کی کتب میں منقولہ احادیث پر آنکھیں بند کردے اور انہیں نظر انداز کر دے۔ اور تاریخ نے صدیوں کے دوران جو کچھ لکھا ہے اس کو تغافل کے نگاہ سے دیکھ کر فراموشی کے سپرد کرے اور (مثلاً) معجم البلدان کی طرف نگاہ ڈالے تو اس میں مذکورہ ناقابل انکار شواہد سے چمگادڑ کی مانند گذر جائے اور ایک مکھی کی مانند عمر ابن عبدالعزیز کے اس قول پر اتر آئے کہ پیغمبر (ص) نے فدک فاطمہ سلام اللہ علیہا کو عطا نہیں کیا تھا۔ عجیب تر یہ کہ اس سے قبل کی چند سطروں میں آیا ہے کہ فلما ولّی عمر ابن عبدالعزیز الخلافة کتب الی عامله فی المدینة یأمره بِردِّ فدک الی وُلد فاطمة سلام اللہ علیها فکانت فی ایدیهم فی ایام عمر ابن عبدالعزیز۔

جب عمر ابن عبدالعزیز نے خلافت کا عہدہ سنبھالا تو اس نے مدینہ میں اپنے والی کو لکھا کہ فدک بنو فاطمہ سلام اللہ علیہا کو لوٹا دے۔ پس فدک عمر ابن عبدالعزیز کے ایام میں ان کے ہاتھ میں تھا۔

خلاصہ یہ کہ پیغمبر اکرم (ص) نے خدا کے حکم سے فدک اپنی بیٹی حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو عطا فرمایا۔ فدک ـ تاریخ کی یہ معتبر ترین سند ـ جناب سیدہ کے ہاتھ میں تھا۔ حتی کہ پیغمبر اکرم (ص) کی وفات کی مصیبت عظمی کا وقت آن پہنچا۔

پیغمبر اکرم (ص) نے وفات پاکر پوری کائنات کو سوگوار و عزادار کردیا اور اس مصیبت کی عظمت اتنی تھی کہ انسانی عقل اس کے ادراک سے عاجز ہے۔ مناسب تو یہ تھا کہ نبوت کا چمکتا دمکتا سورج غروب ہونے پر امت کے اوپر پیغمبر اکرم (ص) کی بے انتہا رحمت و محبت لوگوں کے ذہنوں میں اور یادوں میں زندہ ہوجاتی۔ وہ رحمت و محبت و مہربانی جو خدا نے ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے: عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ (21)

آپ (ص) کے لئے تمہارے (یعنی مسلمانون کی) اوپر آنے والی ہر مصیبت شاقّ اور تکلیف دہ ہوتی ہے۔ آپ (ص) تمہاری ہدایت کا حرص رکھتے ہیں اور مؤمنین پر شفیق و مہربان ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے پسماندگان میں صرف ایک بیٹی "فاطمہ سلام اللہ علیہا" چھوڑی تھی۔ وہی بیٹی جس کو آپ (ص) اپنا ٹکڑا کہا کرتے تھے، مہینوں تک صبح و شام آپ (ص) اپنی اس بیٹی کے گھر کے دروازے پر حاضر ہوتے اور اور منظر عام و خاص میں اس پر درود و سلام بھیجتے اور اس آیت کی تلاوت فرماتے جو آپ سلام اللہ علیہا کی طہارت کی دلیل تھی: " إِنَّمَا يُرِيدُ اللہ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا"۔ (22)

اور اپنی اس بیٹی کی رضا اور غضب کو اپنی اور خدا کی رضا اور غضب قرار دیتے ہوئے فرمایا کرتے تھے: فاطمة بضعة منی من اذاها فقد اذانی (فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس نے اس کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی ہے) یا فاطمة بضعة منی من اغضبها فقد اغضبنی (= فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس نے اس کو غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا ہے)۔ (23)

"یا فاطمة انّ اللہ یغضب لغضبِکِ و یرضی لرضاک (= اے فاطمہ! بتحقیق تیرے غضبناک ہونے پر خدا غضبناک ہوتا ہے اور تیری خوشنودی پر خدا خوشنود ہوتا ہے)۔ (24)

پیغمبر اسلام (محسن امت) (ص) کی یہی اکلوتی یادگار ـ جن پر اپنے والد معظم (ص) کی وفات حسرت آیات کی عظیم مصیبت سب سے زیادہ گران تھی، ابوبکر کے پاس آئیں اور فدک کا مطالبہ کیا۔ یہ ایسی مسلمہ حقیقت ہے جس پر مسلمانوں کا اتفاق ہے اور کسی نے بھی اس سے انکار نہیں کیا ہے اور اہل سنت کے معتبر منابع نے بھی اس حقیقت کو بیان کیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا فاطمہ سلام اللہ علیہا کا دعوی یہ تھا کہ فدک رسول اللہ (ص) کا نحلہ اور ملک خاص ہے جو ان (فاطمہ سلام اللہ علیہا) کے ہاتھ میں تھا اور ان کے مزارعین اور کاشتکاروں کو اس سے نکال باہر کیا گیا تھا؟

کیا فاطمہ سلام اللہ علیہا اس کا مطالبہ کر رہی تھیں اور حاکم وقت گواہ پیش کرنے پر زور دے رہے تھے؟

عجیب ہے یہ ماجرا! کیا مصیبت زدہ دختر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جائداد سے کارکنوں کو نکال باہر کرنا ان حضرات کی قاموس میں تعزیت شمار ہوتا تھا؟ [یا پھر یہ قل لا اسئلکم علیہ اجرا الا المودۃ فی القربی کے تحت خاندان نبی (ص) سے محبت کا اظہار تھا؟]۔

فاطمہ سلام اللہ علیہا سے گواہ پیش کرنے کو کہا جار رہا ہے؟ کیا پیغمبر اکرم (ص) نے قانون قضاء (قانون عدل) سکھاتے ہوئے انہیں یہ نہیں سکھایا تھا کہ مدعی پر لازم ہے کہ گواہ پیش کرے؟ جبکہ ہم سب ان دلائل و شواہد کی بنا پر جانتے ہیں کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا مدعی نہیں تھیں بلکہ فدک تو ان کے تصرف میں تھا۔ [مدعی تو وہ تھے جن کا دعوی تھا کہ انبیاء اپنے بعد کوئی ترکہ نہیں چھوڑتے اور ان کا کوئی ترکہ ہوتا ہی نہیں اور اس کے لئے حدیث جعل کرنے پر اتر آئے تھے]۔

اہم سوال یہ کہ کیا ایسی شخصیت سے بھی گواہ پیش کرنے کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے جو آیت تطہیر کا مصداق ہو اور خداوند متعال نے خود ہی تمام پلیدیوں (منجملہ جھوٹ اور کذب) سے اس کی طہارت کی گواہی دی ہو؟

کیا آیت تطہیر کے دوسرے مصداق حضرت علی (ع) کی گواہی جناب سیدہ کی حقانیت و صداقت کے اثبات کے لئے کافی نہیں تھی؟

کیا ام ایمن کی شہادت یقین تک پہنچنی کے لئے کافی نہیں تھی جن کا پیغمبر اکرم (ص) نے "جنتی خاتون" کی حیثیت سے تعارف کرایا تھا؟ (25)

[مصادیق آیت تطہیر اور جنتی خاتون کی بات نہ مان کر] سیدة النساء العالمین حضرت فاطمة الزہراء سلام اللہ علیہا سے کہا گیا کہ "لا یجوز الا شهادة رجلین او رجل و امرأتین" (=دو مردوں یا پھر ایک مرد اور دو عورتوں کی شہادت کےسوا اور کوئی گواہی جائز اور قابل قبول نہیں ہے!!!!!)

یا یہ کہ کیا فاطمہ سلام اللہ علیہا ابوبکر سے اپنی جائداد "فدک" کا پیغمبر اکرم (ص) کےترکےکی حیثیت سے مطالبہ کررہی تھیں؟

یا یہ کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا دو چیزوں کا ابوبکر سے مطالبہ کررہی تھیں:

1۔ فدک کا، جو جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کی ذاتی جائداد تھا یا

2۔ رسول اللہ (ص) کےترکےسے اپنا حصہ مانگ رہی تھیں؟

اور چونکہ ابوبکر کا دعوی تھا کہ فدک حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی جائداد نہیں بلکہ رسول اللہ (ص) کےترکےکا جزء ہے۔ اسی لئے حضرت سیدہ کےجواب میں انھوں نے اس "حدیث" کا سہارا لیا : "لا نورث ما ترکنا صدقة" (=ہم ارث نہیں چھوڑتے اور جو کچھ ہم چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔)

اب ہم اس حدیث کا تجزیہ کرتے ہیں جو بخاری نے نقل کی ہے اور اہل سنت عام طور پر اسی سے استناد و استدلال کرتے ہیں:

بخاری نے عائشہ سے روایت کی ہے کہ: فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا نمائندہ بھیج کر ابوبکر سے مدینہ اور فدک میں رسول اللہ (ص) کو خدا کی جانب سے لوٹائی جانے والی املاک میں سے اپنے ارث اور خیبر کےباقیماندہ خمس کا مطالبہ کیا۔ ابوبکر نے کہا: رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ "ہم انبیاء" کوئی ارث اپنے پیچھے نہیں چھوڑتے اور ہمارا ترکہ صدقہ ہوتا ہے اور آل محمد (ص) کو ان اموال میں سے صرف اپنا حصہ مل سکتا ہے اور خدا کی قسم میں رسول اللہ (ص) کےصدقے میں کوئی تبدیلی نہیں کروں گا اور اس کو اسی حال پر چھوڑوں گا جس طرح کہ رسول اللہ (ص) کے زمانے میں تھا اور اس میں اسی طرح عمل کروں گا جس طرح کہ آپ (ص) نے عمل کیا تھا۔ پس ابوبکر نے اس میں سے کچھ بھی فاطمہ سلام اللہ علیہا کو دینے سے انکار کردیا۔ اسی رو سے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا ابوبکر پر غضبناک ہوئیں اور ان سے قطع تعلق کیا اور جب تک زندہ تھیں ابوبکر سے بات چیت بند رکھی۔ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا پیغمبر (ص) کی وفات کےبعد 6 مہینوں تک زندہ رہیں اور جب ان کا انتقال ہوا تو انہیں اپنے شوہر نے رات کی تاریکی میں دفنایا اور ابوبکر کو رسم تدفین اور نماز جنازہ کی اطلاع نہیں دی اور علی (ع) نے خود ان کےجنازے کی نماز ادا کی۔" (26)

یہ حدیث بخاری نے مختصر لفظی اختلاف کے ساتھ اپنی "صحیح" میں چار مقامات پر نقل کی ہے:

الف) کتاب فضائل اصحاب النبی (ص)

ب) کتاب الخمس ـ باب فرض الخمس

ج) کتاب الفرائض

د) کتاب المغازی

حدیث کا پہلا جملہ: فاطمہ بنت النبی (ص) نے اپنا نمائندہ ابوبکر کے پاس بھیجا (تا کہ تین چیزوں کا مطالبہ کریں):

1۔ ما افاء اللہ بالمدینة (= جو کچھ خدا نے مدینہ میں رسول اللہ (ص) کو عطا فرمایا ہے۔

2۔ "فدک" یعنی وہ جائداد جو فاطمہ سلام اللہ علیہا کے کہنے کے مطابق رسول اللہ (ص) نے انہیں بخشی ہے۔

3۔ "ما بقی من خمس خیبر" (= جو کچھ خیبر کے خمس سے باقی بچا ہے)۔

(اب معلوم یہ کرنا ہے کہ) کیا یہ سب چیزیں پیغمبر اکرم (ص) کا ترکہ تھیں؟ تا کہ اس امر پر بحث کی جاسکے کہ کیا پیغمبر کا کوئی وارث ہوسکتا ہے یا نہیں؟ (کیا پیغمبر (ص) اپنے بعد ارث اور ترکہ چھوڑتے ہیں یا نہیں؟)۔

بحث کو واضح کرنے کی غرض سے، سب سے پہلے ہمیں رسول اللہ (ص) کی مالی حالت کے بارے میں جاننا ہوگا:

حدیث "لا نورث ما ترکنا صدقة" سے قطع نظر رسول اللہ (ص) کے اموال اور آپ کی جائداد ـ جس کو شرعی اصطلاح میں فیئ کہا جاتا ہے ـ کی دو قسمیں ہیں:

الف: وہ اموال و جائداد جو سورہ حشر کی چھٹی آیت کے تحت رسول اللہ (ص) کی خاص ملکیت ہے اور کوئی بھی اس میں آپ (ص) کا شراکت دار نہیں ہے اور آپ (ص) سے آپ کے وارثین کو منتقل ہوتی ہے: اللہ تعالی کا ارشاد ہے: وَمَا أَفَاء اللہ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ وَلَكِنَّ اللہ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَى مَن يَشَاء وَ اللہ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (27) (= اور جو کچھ خدا نے ان سے اپنے رسول (ص) کی طرف لوٹایا ہے، ایسی چیز ہے جس کے حصول کے لئے نہ تو تم (مسلمانوں) نے گھوڑے دوڑائے ہیں نہ ہی اونٹ، مگر خدا اپنے رسل کو جس پر چاہے مسلط کردیتا ہے اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے)۔

ب: وہ اموال و املاک جو سورہ حشر کی ساتویں آیت کے تحت پیغمبر اکرم (ص) کو ملتی ہیں جو آپ (ص) کا ملک خاص نہیں بلکہ قرابت دار، ایتام، مساکین اور ابناء السبیل (راستے میں رہ جانے والے افراد) بھی ان میں شریک ہیں۔ ارشاد ربانی ہے:" مَّا أَفَاء اللہ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّهِ وَ لِلرَّسُولِ وَ لِذِي الْقُرْبَى و َالْيَتَامَى وَ الْمَسَاكِينِ وَ ابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاء مِنكُمْ (28) (= اور بستیوں والوں کا جو کچھ (مال و مِلک) اللہ تعالی اپنے رسول ((ص)) کے ہاتھ لگائے وہ اللہ کا ہے اور رسول ((ص)) کا اور رسول (ص) کے قرابتداروں اور یتیموں، مسکینوں کا اور راستے میں (بے خرچ) رہنے والے مسافروں کا ہے تا کہ تمہارے دولتمندوں کے ہاتھ میں ہی یہ مال گردش کرتا نہ رہ جائے)۔

پس یہ وہ مال ہے جو مِلک خاص محسوب نہیں ہوتا اور ارث کے عنوان سے وارثین کو نہیں ملتا۔

اور ان دو آیتوں کے مطابق "فَیئ" کی دو قسمیں ہیں: وہ "فَیئ" جو بغیر لڑے بھڑے رسول اللہ (ص) کے ہاتھ لگے اور یہ رسول اللہ (ص) کی خاص ملکیت ہے۔

اور وہ "فَیئ" جو جنگ کے نتیجے میں حاصل ہوئی ہو (29) جو اگرچہ رسول اللہ (ص) کی ملکیت ہے (اور اللہ تعالی نے آپ (ص) کو ہی لوٹا دی ہے) لیکن یہ ملک خاص نہیں ہے (30) اور ارث یا ترکہ محسوب نہیں ہوتی۔

اور نیز سورہ انفال کی آیت شریفہ کے مطابق جو کچھ رسول اللہ (ص) کو دیا جاتا ہے وہ نبی اکرم (ص) کی ملکیت خاص نہیں ہے بلکہ دوسرے بھی اس میں شریک ہیں۔ ارشاد ربانی ہے : وَاعْلَمُواْ أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ (31) (= اور جان لو کہ ہر قسم کی غنیمت (کمائی) جو تم حاصل کرتے ہو، اس کا پانچواں حصہ خدا، اس کے رسول (ص)، آپ (ص) کے اقرباء، یتیموں، مسکینوں اور راہ میں بے خرچ رہ جانے والوں کے لئے ہے۔ (32) یہ وہ اموال و املاک ہیں جن میں ارث اور ترکے کا تصور نہیں ہے بلکہ آپ (ص) کے جانشین بر حق کو منتقل ہوتے ہیں تا کہ اسی طرح عمل کریں جیسا کہ رسول اللہ (ص) نے عمل کیا تھا۔

حدیث کی وضاحت:

فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا نمائندہ ابوبکر کے پاس روانہ کیا تا کہ مدینہ اور فدک میں خدا کی طرف سے رسول اللہ (ص) کو لوٹائے گئے اموال و املاک سمیت خیبر کے باقیماندہ خمس کا مطالبہ کرے۔ ظاہر ہے کہ

اولاً: فیئ کی دو قسموں کے پیش نظر جن میں ایک جنگ کے بغیر پیغمبر (ص) کو دی گئی ہے اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ملکیت خاص ہے اور ایک وہ جو (بالواسطہ طور پر) جنگ کے ذریعے ہاتھ آتی ہے (جیسے جزیہ و خراج وغیرہ) جس میں ارث اور ترکے کا تصور نہیں ہے۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی درخواست ارث کے عنوان سے فیئ کی پہلی قسم کے لئے ہوسکتی ہے۔

ثانیاً: اگر پیغمبر اکرم (ص) نے فدک فاطمہ سلام اللہ علیہا کو نہ بخشا ہوتا تو پھر تو "ما افاء اللہ" (جو کچھ خدا نے آپ (ص) کو لوٹایا یا دلوایا) میں فدک بھی شامل ہوتا اور فدک کے نام پر تأکید و تصریح بلا وجہ ہوتی۔

پس معلوم ہوتا ہے کہ رسالت مآب (ص) کے انتقال پرملال کے وقت فدک فیئ کا جزء نہیں تھا پس فاطمہ سلام اللہ علیہا فدک کا ارث کے عنوان سے مطالبہ نہیں کر رہی تھیں۔

ثالثا: جیسا کہ بیان ہؤا خمس بھی ارث اور ترکے کے عنوان سے نہیں جوڑا جاسکتا مگر کسی خاص وسیلے سے تملیک کے عنوان سے کسی کو واگذار کیا جائے اور اس صورت میں یہ خمس، خمس شمار نہیں ہوگا (بلکہ کسی کی ملکیت سمجھا جائے گا)۔

پس اگر جناب سیدہ (ص) نے خیبر کے باقیماندہ خمس کا مطالبہ کیا ہو یقیناً ارث کے عنوان سے نہ ہوگا بلکہ خمس میں آپ سلام اللہ علیہا کے اپنے حصے اور اپنے حق کے عنوان سے ہوگا۔

پس اس حدیث کامفہوم و مدلول کچھ یوں ہے کہ: سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا ابوبکر سے تین چیزوں کا مطالبہ کررہی تھیں:

1۔ فیئ سے اپنی میراث مانگ رہی تھیں جو رسول اللہ (ص) کی خاص ملکیت تھی۔

2۔ فدک کا مطالبہ کررہی تھیں جو رسول اللہ (ص) کی جانب سے ہبہ اور بخشش کے تحت سیدہ سلام اللہ علیہا کی اپنی ذاتی ملکیت تھا۔

3۔ خمس میں سے اپنے حصے کا مطالبہ کررہی تھیں جو ارث کے عنوان سے نہیں تھا بلکہ سیدہ سلام اللہ علیہا ذی القربی کا واضح ترین اور قریب ترین مصداق تھیں۔

چنانچہ ان احادیث سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ فدک آپ (ص) کا ترکہ نہیں تھا۔

چنانچہ حدیث کا دوسرا جملہ کچھ یوں ہے:

ابوبکر نے سیدہ سلام اللہ علیہا کو جواب دیتے ہوئے کہا: رسول اللہ (ص) نے فرمایا ہے کہ "لانورث ما ترکنا صدقة" (= ہم انبیاء ارث نہیں چھوڑتے، ہمارا ترکہ صدقہ ہوتا ہے۔) ابوبکر کی بات مذکورہ تین مطالبات میں سے صرف ایک مطالبے کا جواب ہوسکتا ہے گو کہ انھوں نے اپنا یہ جواب نبی زادی سلام اللہ علیہا کے تینوں مطالبات کا جواب قرار دیا ہے اور آپ سلام اللہ علیہا کے تینوں مطالبوں کے جواب میں یہی ایک بات کہی ہے۔

بہر حال حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا ابوبکر سے کچھ درخواستین کی ہیں اور ابوبکر نے بھی ان درخواستوں کا جواب دیا ہے اور اب ہم ان درخواستوں اور ان کے جواب کا تجزیہ کرتے ہیں:

یہاں متعدد سوالات پیدا ہوتے ہیں:

1۔ کیا حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا اپنے مطالبے میں حق بجانب تھیں یا معاذ اللہ یہ مطالبہ مکابرے، زور زبردستی، یا جہل و تکبر پر مبنی تھا؟! اگر حق بجانب تھیں تو آپ سلام اللہ علیہا کو ان کا حق کیوں نہیں دیا گیا؟ اگر یہ مطالبہ معاذاللہ جہل و نا آگاہی پر مبنی تھا تو سیدہ سلام اللہ علیہا حدیث "لانورث" سن کر مطمئن کیوں نہیں ہوئیں؟

2۔ کیا ابوبکر حضرت سیدہ سلام اللہ علیہا کی نگاہ میں ثقہ یا عادل نہ تھے یا یہ کہ ان کا کذب سیدہ کے لئے ثابت ہوچکا تھا؟

3۔ اگر فرض کریں کہ سیدہ سلام اللہ علیہا یہ مطالبہ زور زبردستی کے عنوان سے کررہی تھیں تو اس کی کیا وجہ تھی؟ کیا مال دنیا کا حرص اور طویل دنیاوی خواہشات اس کا سبب تھیں جبکہ آپ (س) جانتی تھیں کہ آل محمد (ص) میں سب سے پہلے اپنے والد سے جاملین گی اور اس امر کی خبر ـ خود عائشہ کی روایت کے مطابق ـ رسول اللہ (ص) نے آپ سلام اللہ علیہا کو دی تھی۔ (33)

علاوہ بریں حضرت سیدہ فاطمہ اور آپ (ص) کے خاوند حضرت علی علیہما السلام زہد و پارسائی کا عملی نمونہ تھے۔ اور اس حوالے سے وارد ہونے والی احادیث ناقابل تشکیک و انکار ہیں۔

سورہ ہل اتی (سورة الانسان) اسی حقیقت کی روشن دلیل ہے۔ (34)

کیا حضرت سیدہ سلام اللہ علیہا ابوبکر سے حسد کرتی تھیں؟ کیا (معاذ اللہ) حسد اور لالچ اس امر کا باعث ہؤا کہ "سیدة نساء العالمین"، "سیدة نساء اهل الجنة"،"بضعة النبی" اور "امّ ابیها" پیغمبر اکرم (ص) کے وقفیات و صدقات کو حرص کی نگاہ سے دیکھیں اور ان وقفیات و صدقات میں رسول اکرم (ص) کی روش کے مطابق عمل کرنے پر راضی نہ ہوں؟! اور اگر رسول اللہ (ص) کا جانشین و خلیفہ آپ (ص) کی سیرت پر عمل کرنا چاہے تو آپ سلام اللہ علیہا ان سے قطع تعلق کرکے عمر کے آخری لمحوں تک ان سے قطع کلام کرلیں؟ [اور یہ البتہ الگ موضوع ہے کہ یہ جانشین و خلیفہ تھا کون؟]۔

اگر حضرت فاطمہ کا عمل معاذ اللہ زور زبردستی پر مبنی تھا اور اس بنا پر ایک امر باطل پر اصرار کررہی تھیں تو کیا وہ چاہتی تھیں کہ وہ اپنے دور کے امام و خلیفہ سے قطع تعلق کریں تا کہ ابوبکر غضبناک ہوکر دنیا سے رخصت ہوں؟ جبکہ احادیث میں ہے کہ:

" من مات و لم یعرف امام زمانہ مات میتة الجاهلیة" (= جو شخص اپنے زمانے کے امام کو پہچانے بغیر مرجائے وہ جاہلیت کی موت مرا ہے) (35) یا "من مات و لیس فی عنقه بیعة مات میتَة الجاهلیة" (= جس کی گردن میں کسی کی بیعت نہ ہو اور وہ دنیا سے رخصت ہوجائے وہ جاہلیت کی موت مرا ہے۔) (36) یا "من خرج من السلطان شبرا فمات میتة الجاهلیة" (=جو شخص ایک بالشت برابر حکومت کے فرمان سے خروج کرے اور مرجائے وہ جاہلیت کی موت مرا ہے۔) (37)

کیا سیدة نساء اہل الجنة (معاذ اللہ) جاہلیت کی موت مری ہیں؟ (38) یا یہ کہ آپ سلام اللہ علیہا نے حضرت علی (ع) کو امام زمانہ اور اپنے والد ماجد کا جانشین و خلیفہ اور حاکم وقت تسلیم کیا تھا اور علی (ع) کی بیعت کی تھی [اور آپ کو وہ بیعت یاد تھی جبکہ دوسرے بظاہر غدیر خم میں حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھ پر کی ہوئی بیعت بھول گئے تھے!] اور آپ سلام اللہ علیہا ایک بالشت برابر بھی اپنے حاکم کے فرمان سے باہر نہیں ہوئی تھیں؟ اگر فاطمہ سلام اللہ علیہا کا عمل زور زبردستی اور مکابرے پر مبنی تھا تو علی (ع) نے کیوں آپ سلام اللہ علیہا کی تأئید و حمایت کی اور ان کی حمایت میں چھ مہینوں تک بیعت سے اجتناب کیا؟ یا یوں کہئے کہ علی (ع) کیوں ایسے شخص کی مخالفت پر کمربستہ ہوئے جو (بقول خود) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سیرت پر عمل کرنا چاہتا تھا؟

 


source : www.tebyan.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت عيسى عليہ السلام كى ولادت كا سر آغاز
قرآن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ(اول)
تيسرا سبق
پيغمبراسلام (ص) كا دفاع كرنيوالوں كى شجاعت
اہل سنت اور واقعہ غدیر
بئر معونہ کا واقعہ
امام سجاد(ع) واقعہ کربلا ميں
خلفائے راشدین اہلِ سنت کی نظر میں
حضرت آدم علیه السلام وحوا کے کتنے فرزند تھے؟
کربلا میں خواتین کا کردار

 
user comment