الغرض خودی کا تصور اقبال کی شاعری کا بنیادی تصور ہے جس کے بغیر ہم اقبال کی شاعری کا تصور بھی نہیں کرسکتے یہ اقبال کے فلسفہ حیات کی بنیادی اینٹ ہے خودی کا لفظ اقبال نے غرور کے معنی میں استعمال نہیں کیا بلکہ اس کا مفہوم احساس نفس یا اپنی ذات کا تعین ہے یہ ایک ایسی چیز ہے جو احادیث میں بھی موجود ہے:''یعنی جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا"۔
علامہ اقبال کا فلسفہ خودی
اقبال کا پیغام یا فلسفہ حیات کیا ہے اگر چاہیں تو اس کے جواب میں صرف ایک لفظ " خودی" کہہ سکتے ہیں اس لئے کہ یہی ان کی فکر و نظر کے جملہ مباحث کا محور ہے اور انہوں نے اپنے پیغام یا فلسفہ حیات کو اسی نام سے موسوم کیا ہے۔اس محور تک اقبال کی رسائی ذات و کائنات کے بارے میں بعض سوالوں کے جوابات کی تلاش میں ہوئی ہے ۔ انسان کیا ہے ؟ کائنات اور اس کی اصل کیا ہے ؟ آیا یہ فی الواقع کوئی وجود رکھتی ہے یا محض فریب نظر ہے ؟ اگر فریب نظر ہے تو اس کے پس پردہ کیا ہے ؟ اس طرح کے اور جانے کتنے سوالات ہیں جن کے جوابات کی جستجو میں انسان شروع سے سرگرداں رہا ہے۔ اس طرح کے سوالات جن سے انسان کے وجود کا اثبات ہوتا ہے۔ اردو شاعری میں اقبال سے پہلے غالب نے بھی اٹھائے تھے ۔
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے
لیکن اقبال کے سوالات و جوابات کی نوعیت اس سلسلے میں غالب سے بہت مختلف ہے ، یہ غالب نے " عالم تمام حلقہ دام خیال ہے" اور ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے ۔" کے عقیدے سے قطع نظر کرکے ، وجدانی طور پر ایک لمحے کے لئے محسوس کیا ہے اسے بیان کردیا ہے اقبال نے ان سوالوں کے جواب میں دلائل و برہان سے کام لیا ہے ۔ اور اسے ایک مستقل فلسفہ حیات میں ڈھال دیا ہے۔
اگر کوئی کہ من وہم و گماں است
نمودش چوں نود ایں و آں است
یہی فلسفہ حیات ہے جو بعض عناصر خاص سے ترکیب پاکر اقبال کے یہاں مغرب و مشرے کے حکمائے جدید سے بالکل الگ ہوگیا ہے اس کا نام فلسفہ خودی ہے اور اقبال اسی کے مفسر و پیغامبر ہیں ۔ اس فلسفے میں خدابینی و خود بینی لازم و ملزوم ہیں ۔ خودبینی ، خدابینی میں سے خارج نہیں بلکہ معاون ہے ۔ خودی کا احساس ذات خداوندی کاادراک اور ذات خداوندی کا ادراک خودی کے احساس کا اثبات و اقرار ہے خدا کو فاش تر دیکھنے کے لئے خود کو فاش تر دیکھنا از بس ضروری ہے۔
اگر خواہی خدا را فاش دیدن
خودی را فاش تر دیدن بیا موز
اقبال کا تصور خودی
تصور خودی کو اقبال کے فلسفہ حیات و کائنات میں مرکزی حیثیت حاصل ہے ۔ اگر خودی کے تصور کو سمجھ لیا جائے تو اقبال کی شاعری کو سمجھنا آسان ہوجاتا ہے اقبالیات کے ہر نقاد نے خودی پر کسی نہ کسی شکل میں اظہار خیال کیا ہے۔ڈاکٹر سید عبداللہ اس سلسلے میں لکھتے ہیں ۔ " خودی خود حیات کا دوسرا نام ہے ۔ خودی عشق کے مترادف ہے ۔ خودی ذوق تسخیر کا نام ہے ۔ خودی سے مراد خود آگاہی ہے ۔ خودی ذوق طلب ہے ۔ خودی ایمان کے مترادف ہے ۔ خودی سرچشمہ جدت و ندرت ہے ۔ خودی یقین کی گہرائي ہے ۔خودی سوز حیات کا سرچشمہ ہے اور ذوق تخلیق کا ماخذ ہے ۔"
اقبال کے ہاں خودی سے مراد
خودی فارسی زبان کا لفظ ہے جو لغوی اعتبار سے درج ذیل معانی رکھتا ہے
1) انانیت ، خودپرستی ، خود مختاری ، خودسری ، خودرائي
ب ) خود غرضی
ج ) غرور ، نخوت ، تکبر
" خودی " کا لفظ اقبالی کے پیغام یا فلسفہ حیات میں تکبر و غرور یا اردو فارسی کے مروجہ معنوں میں استعمال نہیں ہوا ۔ خودی اقبال کے نزدیک نام ہے احساس غیرت مندی کا ، جذبہ خوداری کا اپنی ذات و صفات کا پاس و احساس کا ، اپنی انا کو جراحت و شکست سے محفوظ رکھنے کا ، حرکت و توانائي کو زندگي کا ضامن سمجھنے کا ، مظاہرات فطرت سے بر سر پیکار رہنے کا اور دوسروں کا سہارا تلاش کرنے کے بجائے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا۔ یوں سمجھ لیجئے کہ اقبال کے نقطہ نظر سے " خودی " زندگي کا آغاز ، وسط اور انجام سبھی کچھ ہے فرد و ملت کی ترقی و تنزل ، خودی کی ترقی و زوال پر منحصر ہے ۔ خودی کا تحفظ ، زندگي کا تحفظ اور خودی کا استحکام ، زندگي کا استحکام ہے ۔ ازل سے ابد تک خودی ہی کی کارفرمائی ہے ۔ اس کی کامرانیاں اور کارکشائیاں بے شمار اور اس کی وستعتیں اور بلندیاں بے کنار ہیں ۔ اقبال نے ان کا ذکر اپنے کلام میں جگہ جگہ نئے انداز میں کیا ہے ۔
خودی کیا ہے راز دورن حیات
خودی کیا ہے بیدارئی کائنات
ازل اس کے پیچھے ابد سامنے
نہ حداس کے پیچھے نہ حد سامنے
زمانے کی دھارے میں بہتی ہوئی
ستم اس کی موجوں کے سہتی ہوئی
ازل سے ہے یہ کشمکش میں اسیر
ہوئی خاک آدم میں صورت پذیر
خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے
فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے
کہیں یہ ظاہر کیا ہے کہ لاالہ الا اللہ کا اصل راز خودی ہے توحید ، خودی کی تلوار کو آب دار بناتی ہے اور خودی ، توحید کی محافظ ہے ۔
خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ
خودی ہے تیغ فساں لا الہ الا اللہ
کہیں یہ بتایا ہے کہ انسان کی ساری کامیابیوں کا انحصار خودی کی پرورش و تربیت پر ہے ۔ قوت اور تربیت یافتہ خودی ہی کی بدولت انسان نے حق و باطل کی جنگ میں فتح پائی ہے ۔خودی زندہ اور پائندہ ہو تو فقر میں شہنشائی کی شان پیدا ہوجاتی ہے ۔ اور کائنات کا ذرہ ذرہ اس کی تصرف میں آجاتا ہے ۔
خودی ہے زندہ تو ہے فقر میں شہنشاہی
ہے سنجرل و طغرل سے کم شکوہ فقیر
خودی ہو زندہ تو دریائے بیکراں پایاب
خودی ہو زندہ تو کہسار پر نیاں و حریر
ڈاکٹر افتخار صدیقی " فروغ اقبال " میں اقبال کے نظریہ خودی کے بارے میں رقمطراز ہیں ۔ " نظریہ خودی ، حضرت علامہ اقبال کی فکر کا موضوع بنا رہا۔ جس کے تمام پہلوؤں پر انہوں نے بڑی شرح و بسط کے ساتھ روشنی ڈالی ہے ۔ اقبال نے ابتداء ہی میں اس بات کو واضح کردیا کہ خودی سے ان کی مراد غرور و نخوت ہرگز نہیں بلکہ اس سے عرفان نفس اور خود شناسی مراد ہے ۔"
چنانچہ " اسرار خودی " کے پہلے ایڈیشن کے دیباچے میں لکھتے ہیں ،
" ہاں لفظ " خودی " کے متعلق ناظرین کو آگاہ کردینا ضروری ہے کہ یہ لفظ اس نظر میں بمعنی " غرور " استعمال نہیں کیا گيا جیسا کہ عام طور پر اردو میں مستعمل ہے اس کا مفہوم محض احساس نفس یا تعین ذات ہے۔" تقریبا" یہی مفہوم اقبال کے اس شعر میں ادا ہوا ہے۔
خودی کی شوخی و تندی میں کبر و ناز نہیں
جو ناز ہو بھی تو بے لذت نیاز نہیں
اقبال کے تصور خودی میں صوفیا فکر کے بیشتر عناصر ملتے ہیں لیکن صوفیوں کی خودی کا تصور روحانی ہوتا ہے ان کی روحانی انا اس درجہ محکم ہے کہ وہ مادی خودی کو وجود مطلق کا جز قرار دیتے ہیں ۔جبکہ اقبال خودی کے مادی لوازم کو نظر انداز نہیں کرتے اور اس مادی خودی کو بھی بر حق اگر چہ تغیر پذیر جانتے ہیں ، صوفی وجود اور خودی کو تسلیم کرلینے کے بعد فنائے خودی میں اپنی نجات سمجھتا ہے ۔ اس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ اس خودی کوبے خودی میں بدل دے تا کہ وہ اپنی اصل سے مل جائے ۔ صوفی اسے ترک خود یا نفی خود کے نام سے یاد کرتے ہیں جبکہ اقبال عارضی خودی کی اہمیت تسلیم کرتے ہیں اور بے خودی تک پہنچنے کے لئے خودی کو ہی ذریعہ اور وسیلہ بناتے ہیں ۔
اقبال کے تصور خودی کے ماخذ
اقبال کے تصور خودی کا ماخذ ڈھونڈنے کے لئے نقادوں نے طرح طرح کی قیاس آرائیاں کیں ۔ اس سلسلے میں نطشے ، برگساں ، ہیگل ، اور لائڈ ماتھر وغیرہ کا نام لیا گيا۔جبکہ خود اقبال نے اس قسم کے استفادے سے انکار کیا۔خلیفہ عبدالحکیم کے خیال میں اقبال نطشے سے نہیں نشٹے سے متاثر تھے ۔ کیونکہ نطشے تو منکر خدا ہے ۔ اقبال کو نطشے کی تعلیم کا وہی پہلو پسند ہے جو اسلام کی تعلیم کا ایک امتیازي عنصر ہے ۔اگرچہ " اسرار خودی " کے اکثر اجزاء فلسفہ مغرب سے ماخوذ ہیں اور یہاں مسلمان فلسفیوں کے خیالات بہت کم ہیں لیکن اسلامی تصوف میں عشق کانظریہ اقبال نے مولانا روم سے لیا ہے ۔ اور اقبال کی شاعری کا انقلاب انگیز پیغام دراصل رومی کے فیض کا نتیجہ ہے ۔ اس بارے میں عبدالسلام ندوی لکھتے ہیں کہ ،
" خودی کا تصور ڈاکٹر صاحب کے فلسفہ کی اساس ہے اور اسی پر ان تمام فلسفیانہ خیالات کی بنیاد ہے بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ یورپین فلسفہ بالخصوص نطشے سے ماخوذ ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس تخیل کو ڈاکٹر صاحب نے مولانا روم سے اخذ کیا ہے۔"
بقول خلیفہ عبدالحکیم،
" رومی انفرادی بقاء کا قائل ہے اور کہتا ہے کہ خدا میں انسان اس طرح محو نہیں ہوجاتا جس طرح کہ قطرہ سمندر میں محو ہوجاتا ہے ۔ بلکہ ایسا ہوتا ہے جیسے کہ سورج کی روشنی میں چراغ جل رہاہے جیسے لوہا آگ میں پڑکر آگ ہوجاتاہے لیکن اس کے باوجود اس کی انفرادیت باقی رہتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے فلسفہ خودی کے لئے بھی یہی نظریہ مناسب تھا اس لئے انہوں نے اس کو مولانا روم سے اخذ کیا ہے۔ " اس سے یہ مطلب نہیں سمجھنا چاہیے کہ ڈاکٹر صاحب کے فلسفے کی اپنی کوئي حیثیت نہیں بلکہ ان کے فلسفہ خودی کے تمام اساسی مضامین درحقیقت قرآن سے ماخوذ ہیں ۔
خودی اور فطرت
اقبال کے نزدیک خود ہی اپنی تکمیل اور استحکام کے لئے غیر خودی سے ٹکراتی ہے جس نسبت سے کوئي شے خودی میں مستحکم اور غیر خود پر غالب ہے اسی نسبت سے اس کا درجہ مدارج حیات میں نفیس ہوتا ہے ۔ مخلوقات میں انسان اس لئے برتر ہے کہ اس کی ذات میں خودی ہے ۔ اور اس خودی سے فطرت انسانی مشاہدہ کی پابند ہے ۔ اقبال کہتا ہے کہ خودی کی منزل زمان و مکاں کی تسخیر پر ختم نہیں ہوتی شاعر کا چشم تخیل انسان کی جد وجہد و عمل کے لئے نئے نئے میدان دکھاتا ہے۔
خودی کی یہ ہے منزل اولیں
مسافر یہ تیرا نشیمن نہیں
تری آگ اس خاکداں سے نہیں
جہاں تجھ سے تو جہاں سے نہیں
خودی اور عشق
خودی کو آگے بڑھانے میں ایک چیز بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔اقبال نے اسے کبھی آرزو اور کبھی عشق کانام دیا ہے ۔ ارتقائے خودی میں عشق سب سے بڑا محرک ثابت ہوتا ہے۔
عشق سے پیدا نوائے زندگي میں زیر و بم
عشق سے مٹی کی تصویروں میں سوز دم بدم
اقبال نے عشق کے کئي مدارج بیان کئے ہیں ،
عشق فقیہہ حرم ، عشق امیر جنود
عشق ہے ابن اسبیل ، اس کے ہزاروں مقام
چنانچء کہیں عشق جمال صورت اختیار کرلیتا ہے اور کہیں جلالی رنگ میں جھلک دکھاتا ہے۔
عشق کے مضراب سے نغمہ تار حیات
عشق سے نور حیات عشق سے نار حیات
ڈاکٹر عابد حسین " خودی اور عشق کا راستہ واضح کرتے ہوئے اپنے مضمون " اقبال کا تصور خودی میں لکھتے ہیں ، " اس راہ میں ایک رہنما کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور وہ رہنما عشق ہے عشق اس مرد کامل کی محبت کو کہتے ہیں جو معرفت نفس کے مدارج سے گزر کر خودی کی معراج پر پہنچ چکا ہے ۔ "
مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصل حیات ، موت ہے اس پر حرام
خودی اور فقر
طلب و ہدایت کے لئے کسی مرد کاہل کے آگے سرنیاز جھکانا تو خودی کو مستحکم کرتا ہے ۔ لیکن مال و دولت و منصب کے لئے دست نگر ہونا اس ضعیف بناتا ہے ۔ گدائی صرف اسی کا نام نہیں کہ مفلس دولت مند کا طفیلی بن جائے بلکہ دولت جمع کرنے کا ہر وہ طریقہ جس میں انسان محنت نہ کرے بلکہ دوسروں کی محنت ہے فائدہ اٹھائے اقبال کے نزدیک گداگری ہے ۔ حتی کہ بادشاہ جو غریبوں کی کمائي پر بسر کرتاہے سوال و گداگری کا مجرم ہے۔
میکدے میں ایک دن ایک مرد زيرک نے کہا
ہے ہمارے شہر کا سلطان گداغے بے نوا
اس کے نعمت خانے کی ہر چیز ہے مانگي ہوئي
دینے والا کون ہے مرد غریب و بے نوا
گدائی اور فقر میں زمین و آسمان کا فرق ہے گدائي مال کی حاجت میں دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلاتا ہے جبکہ فقر مادی لذتوں سے بے نیاز کائنات کی تسخیر کرنا ، فطرت پر حکمرانی اور مظلوموں کو ظالموں کے پنجے سے نجات دلانا ہے۔
ایک فقر سکھاتا ہے صیاد کونخ چھری
اک فقر سے کھلتے ہیں اسرار جہانگیری
اک فقر سے قوموں میں مسکینی و دلگیری
اک فقر سے مٹی میں خاصیت اکسیری
تربیت خودی کے تین مراحل
خودی سے تعمیری کام لینے کےلئے اس کی تربیت ضروری ہے بے قید و بے ترتیب خودی کی مثال شیطان ہے ۔ اقبال بھی گوئٹے کی طرح اسے تخلیق کی عظیم الشان قوت سمجھتے ہیں جو صراط مستقیم سے بھٹک گئی ہے ۔ خودی کی منازل کے علاوہ تربیت خودی کے مراحل انتہائی اہم ہیں یہ مراحل تین ہیں ۔
1) اطاعت الہی : ۔ اقبال کے نزدیک خودی کا پہلا درجہ اطاعت ہے یعنی کہ اللہ کے قانون حیات کی پابندی کرنا
2) ضبط نفس : ۔ دوسرا درجہ ضبط نفس ہے انسان نفس کو جس کی سرکشی کی کوئی حد نہیں قابو میں لائے ۔
3) نیابت الہی : ۔ ان دونوں مدارج سے گزرنے کے بعد انسان اس درجے پر فائز ہوجائے گا۔
جسے انسانیت کا اوج ک مال سمجھنا چاہیے ۔ یہ نیابت الہی کا درجہ ارتقائے خودی کا بلندترین نصب العین ہے ۔
خودی اور خدا کا تعلق
طالب خودی " مرد خدا " کی محبت اس قدر برتر اور سرشار ہوتی ہے اور کیف و سرور کی وجہ سے خدا کی اتنی محبت اس کے دل میں پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ خودی کے کل مراحل طے کرنے کے باوجود اپنے آپ کو ناتمام محسوس کرتا ہے اسی کشش کا نام عشق حقیقی ہے ۔
عشق بھی ہوحجاب میں ، حسن بھی ہو حجاب میں
یا تو خود آشکار ہو، یا مجھے آشکار کر
تو ہے محیط بیکراں ، میں ہوں ذرا ہی آب جو
یا مجھے ہم کنار کر ، یا مجھے بے کنار کر
متاع بے بہا ہے درد و سوز آرزو مندی
مقام بندگي دے کر نہ لوں شان خداوندی
بندگي میں انسان کو سکون ملتا ہے بحرحال یہ جدائي انسان کے لئے مبارک ہے کیونکہ یہی خودی وجہ حیات ہے۔
بے خودی
اقبال کے فسلفہ خودی کی تفصیلات اور جزئیات کے مطالعہ سے اس قانون کا علم ہوتا ہے جس پر عمل کرکے انسان اس درجہ کو پالینے کے قابل ہوجاتا ہے جو اسے حقیقتا" خلیفۃ اللہ کے منصب کا اہل بنا دیتا ہے۔ اس قانون کی پابندی خودی کی تکمیل کے لئے لازمی ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ انسان تنہائی کی زندگی نہیں گزارتا وہ لازما" کسی معاشرہ ، کسی قوم اور کسی ملت کا فرد ہوتا ہے۔ فرد اور ملت کے درمیان رابطہ کے بھی کچھ اصرل اور قوانین ہوتے ہیں اسی رابطے اور قوانین و اصولوں کو اقبال نے بے خودی سے تعبیر کیا ہے ۔
اس رابطہ کو واضح کرنے کے لئے اقبال نے تصوف کی ایک مشہور اصطلاح استعمال کی ہے۔ فارسی اور اردو کے صوفی شعر انفس انسانی کو قطرے سے اور ذات ایزدی کو دریا سے تشبیہ دیتے آئے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ " عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہوجانا " لیکن اقبال نے اس تمثیل کو فرد اور ملت کے درمیان ربط و تعلق ظاہر کرنے کےلئے استعمال کیا ہے۔ فرد کی مثال ایک قطرہ کی ہے اور ملت دریا کی طرح ہے ۔ مگر اقبال کی نظر میں یہ قطرہ ، دریا میں مل جانے کے بعد اپنی ہستی کو فنا نہیں کرڈالتا بلکہ اس طریقہ سے اس کی ہستی مزيد استحکام حاصل کرلیتی ہے ۔ وہ بلند اور دائمی مقاصد سے آشنا ہوجاتا ہے ۔ اس کی قوتیں منظّم اور منضبط ہوجاتی ہیں اور اس کی خودی پائیدار اور لازوال بن جاتی ہے۔
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
دراصل ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ بے خودی سے اقبال کی مراد اجتماعی خودی ہے۔
انفرادی خودی اور اجتماعی خودی کا تعلق
ڈاکٹر سید عبداللہ " طیف اقبال " میں اس موضوع پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔
" خودی کی ایسی صورت جو اپنے علاوہ دوسرے انسانوں کو نظر انداز کرے وہ تخریب اور بگاڑ کی ایک شکل ہے ۔لہذا انسانی تجربے نے بتایا کہ خودی کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ہم رنگ قسم کی خودی ، شعور ، سے متحد ہوجاتی ہے۔ یہاں سے ایک اجتماعی خودی کا تصور پیدا ہوتا ہے۔ جس طرح افراد کا شعور ایک جزو ہوتا ہے ، اسی طرح اجتماعی خودی کا شعور بھی انفرادی خودی کے مانند ہم رنگ کے ساتھ شیرازہ بند ہوتا ہے۔ گویا انفرادی خودی اور اجتماعی خودی ایک دوسرے سے متضاد اور متصادم نہیں ہیں ۔ بلکہ ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہیں ۔ فرد اپنی خودی کے ارتقاء اور استحکام کے بعد ملت کا ایک بیش قیمت سرمایہ بنتا ہے ۔ اور ملت اپنے آئین اور قوانین کو فرد پر لاگو کر کے اس کی خودی کو تعمیری اور تخلیقی حدود کی پابند رکھتی ہے ۔یہی وہ حقیقی ربط ہے جو فرد اور ملت کے درمیان لازما" موجود ہونا چاہیے ۔ یعنی اقبال کی بے خودی در اصل ملت اسلامیہ یا اسلامی ریاست کا قیام ہے ۔جس کے قانون کے اندر رہتے ہوئے خودی کے مکمل اور بہترین تربیت ہوسکتی ہے۔
تکمیل خودی کے لئے ملت اسلامیہ کی ضرورت
مندرجہ بالا بحث سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ خالص فلسفیانہ نظریے کی حد تک انسانیت کا ایک عالمگیر تصور ممکن ہے ۔ لیکن جب اس تصور کو ایک معین اور زندہ نصب العین کی صورت دی جائے تو وسیع سے وسیع نظر رکھنے والا شخص بھی اس بات پر مجبور ہوجاتا ہے کہ انسانیت کی تکمیل کا معیار کسی خاص ملت کو بنائے ۔ اقبال کے نزدیک ملت بیضائے اسلام اس معیار پر پوری اترتی ہے ۔ ان کی نظر میں انسان کی خودی کی حقیقی تکمیل اور فرد و ملت کا متوازن ربط صرف اسلام ہی کی ذریعہ ممکن ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فرد ملت کا متوازن ربط صرف اسلام ہی کے ذریعہ ممکن ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام میں فرد اور ملت کا رشتہ نسل یا وطن کے روابط کی بنیاد پر استوار نہیں ہوتا بلکہ توحید اور رسالت کا وسیع اور ہمہ گیر عقیدہ اس کی بنیاد بنتا ہے۔
جہاں تک فرد کا تعلق ہے اسے حقیقی آزادی ملت اسلامیہ کے اندر ہی حاصل ہوئی کیونکہ اسی ملت نے نوع انسان کو حقیقی معنوں میں حریت ، مساوات ، اور اخوات کا نمونہ دکھایا ۔ توحید کے عقیدہ نے نسل و انسب کے امتیاز کو مٹادیا۔ غریبوں کو امیروں اور زیردستوں کو زبردستوں کے تسلط سے آزاد کر کے عدل و انصاف کے اعلی ترین معیار کو قائم کئے اور اسلام کے رشتوں سے انسانوں کو ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا۔دوسری جانب جماعت کے بارے میں بھی یہی ملت اعلی ترین معیار قائم کرتی ہے ۔ ڈاکٹر سید عبداللہ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں :
" ملت محمد کو انسانی اجتماعی خودی کے لئے ایک مثالی جماعت کہا جا سکتا ہے۔"
بے خودی سے خودی کا استحکام
آخر ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ فرد کے لئے جس طرح اپنی خودی کی تربیت ، ارتقاء اور استحکام ضروری ہے اسی طرح اس خودی کو ایک آئین اور قانون کی حدود میں لانا بھی ضروری ہے ۔ یہ آئین اور قانون وہ ملت مہیا کرتی ہے ۔ جس میں وہ فرد رکن ہوتا ہے۔ اس آئین کی حدود میں آنے کے بعد وہ تمام افراد جن کی انفرادی خودی تربیت کے مراحل سے گزرچکی ہے، ایک اجتماعی خودی کو تشکیل دیتے ہیں۔ یہ اجتماعی خودی مربوط ہوجانے کے بعد ایک جگہ پھر افراد کی انفرادی خودی کے تحفظ اور استحکام کے وسائل پیدا کرتی ہے۔
لیکن ایسی ملت جو انفرادی اور اجتماعی طور پر خودی کی تربیت اور استحکام کے وسائل پیدا کرسکے اور دنیا میں منشائے خداوندی کو پورا کرنے کا باعث بن سکے ۔ وہ صرف ملت اسلامیہ ہی ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ اور کسی قوم میں وہ خصوصیات موجود نہیں جو ایک عالمگیر انسانی برادری کی تشکیل کرنے کے لئے ضروری ہیں ۔ صرف ملت اسلامیہ ہی وہ قوم ہے جو رنگ ، نسل ، زبان ، ملک ، علاقہ اور قبیلہ جیسے محدود امتیازات کو ختم کرکے ایک وسیع انسانی برادری کا تصور دیتی ہے۔ ایسا ہمہ گیر اور وسیع تصور دنیا کی اور کسی قوم کے پاس موجود نہیں ہے۔
احساس خودی کی توسیع
بے خودی یا اجتماعی خودی کی تشکیل کے بعد ملت کے احساس خودی کی توسیع کے لئے جن ذرائع کی ضرورت ہے وہ علم کائنات اور تسخیر کائنات ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی لازمی ہے کہ ملت اپنی تاریخ اور روایات کی حفاظت کرے ۔ تاریخ اقوام کی زندگی کے لئے قوت حافظہ کا درجہ رکھتی ہے ۔ اور حافظہ ہی وہ چیز ہے جس سے مختلف ادراکات کے درمیان ربط اور تسلسل پیدا ہوتا ہے۔ خارجی حیات کے ہجوم میں "میں " یا " ان " کا مرکز حافظہ کے ذریعے ہی ہاتھ آٹا ہے ۔گویا حافظہ کے ذریعے فرد اپنے احساس خودی کی حفاظت کرتا ہے اس طرح تاریخ کے ذریعہ ملت کی زندگی کے مختلف ادوار میں ربط اور تسلسل پیدا ہوتا ہے ۔ یہی شیرازہ بندی ہے اس کے شعور خودی کی کفیل ارو اس کے بقائے دوام کی ضامن بنتی ہے۔ دنیا میں وہی قومیں زندہ رہتی ہیں جو اپنے حال کا رشتہ ایک طرف ماضی سے اور دوسری طرف مستقبل سے استوار رکھتی ہے۔
تمام بحث سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ اقبال بے خودی یا اجتماعی خودی کی صورت میں ایک ایسی ملت یا ریاست کا تصور پیش کرتے ہیں جس کے زير اثر رہتے ہوئے انفرادی خودی کو استحکام اور دوام حاصل ہوسکے ۔
مجموعی جائزہ
الغرض خودی کا تصور اقبال کی شاعری کا بنیادی تصور ہے جس کے بغیر ہم اقبال کی شاعری کا تصور بھی نہیں کرسکتے یہ اقبال کے فلسفہ حیات کی بنیادی اینٹ ہے خودی کا لفظ اقبال نے غرور کے معنی میں استعمال نہیں کیا بلکہ اس کا مفہوم احساس نفس یا اپنی ذات کا تعین ہے یہ ایک ایسی چیز ہے ، جو احادیث میں بھی موجود ہے۔
ترجمہ : " یعنی جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا"
یوں سمجھ لیجئے کہ اقبال ہمیں اپنی ذات کے عرفان کا جو درس دے رہے ہیں وہ دراصل اپنے رب کو پہچاننے کی تلقین کا دوسرا نام ہے۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
سب سے آخر میں یہ کہنا چاہوں گا اگر ہم نے اپنی خودی کو پہچان بھی لیا تو بقول اقبال (رح) ہمیں خودی یہاں بھی ختم ہوجاتی ہے بلکہ لافانی خودی یہاں سے شروع ہوجاتی ہے۔
کی محمد ص سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قل تیرے ہیں
source : www.islamquest.net