دین ایک عربی لفظ ھے لغت میں اس کے معنی اطاعت وجزا وغیرہ کے ھیں ۔ اصطلاحاً دین خالق کائنات اور انسان پر اعتقاد اور اس اعتقاد سے متعلق الٰھی عملی دستورات پر یقین و ایمان کو کھا جاتا ھے ۔ لھذا جو افراد اصلاًکسی خالق کائنات کے وجود پر اعتقاد نھیں رکھتے ھیں بلکہ کائنات کو فقط ایک حادثہ یاbig mang theory کے مطابق ایک دھماکہ پر محمول کرتے ھیں وہ دائرھٴ دین سے خارج اور بے دین کھلاتے ھیں لیکن ایسے افراد جو کسی خالق پر ایمان رکھتے ھیں ، ھر چند ان کے دینی عقائد و اعتقادات انحرافی اور خرافاتی ھوں ،وہ دیندار کھلاتے ھیں ۔ اس بنیاد پر موجودہ ادیان حق و باطل میں تقسیم ھو جاتے ھیں ۔ دین حق اس آئین و اصول کو کھتے ھیں جس کے عقائد صحیح اور عین حقیقت ھوں ۔ دین حق کے لئے ضروری ھے کہ وہ انسان کے لئے ایسے کردار و رفتار کوتجویز کرے کہ جس کے ذریعے انسان اپنے کمال حقیقی تک رسائی حاصل کر سکے ۔
اصول و فروع دین
ھر دین کم از کم دو حصوں پر مشتمل ھوتا ھے :
۱۔ ایسا عقیدہ یا عقائد کہ جو دین کی بنیاد یا اساس قرار پاتے ھوں ۔
۲۔ ایسے عملی دستورات و قوانین جو ان بنیادی عقائد سے متناسب اور ان ھی عقائد سے اخذ شدہ ھوں ۔ اسی وجہ سے ھر دین کے عقائد والے حصے کو اصول دین اور احکام عملی والے حصے کو فروع دین کھا جاتا ھے ۔
آسمانی ادیان اور ان کے اصول
علمائے تاریخ اورماھرین علوم انسانی وعلوم جامعہ کے درمیان مختلف ادیان کی پیدائش سے متعلق متعدد اختلافات پائے جاتے ھیں لیکن اسلامی مصادر سے حاصل شدہ اطلاعات کے مطابق کھا جا سکتا ھے کہ دین کی تاریخ پیدائش انسان کی پیدائش کے ساتھ ھی شروع ھو گئی تھی ۔
تاریخ بشر کا پھلا انسان ( حضرت آدم علیہ السلام) پیغمبر خدا اور منادی توحید تھا ۔ شرک آمیز ادیان محض تحریفات اور ذاتی ،فردی و گروھی اغراض کی بناء پر وجود میں آئے ھیں ۔
توحیدی ادیان کہ جو آسمانی اور حقیقی ادیان ھیں ، تین مشترک اصل کلی کے حامل ھیں:
۱۔ خدائے واحد پر اعتقاد و ایمان اور عالم آخرت میں ھر انسان کی ابدی زندگی پر اعتقاد ۔ (توحید)
۲۔ اس دنیا میں انجام دئے جانے والے امور و افعال کی جزاوسزاپر اعتقاد ۔ (قیامت)
۳۔ خدا وند عالم کی طرف سے ھدایت بشر کے لئے انبیاء(ع) کی بعثت پر اعتقاد ۔( نبوت)
در حقیقت یہ تینوں اصول ان بنیادی سوالوں کے جواب میں ھیں جو ھر انسان کے دل میں بسا اوقات پیدا ھوتے ھیں ۔
۱۔ مبدائے ھستی کو ن ھے ؟
۲۔زندگی کا اختتام کس شئی پر ھے ؟
۳۔ کس راہ و روش کے ذریعے زندگی کو بھترین طرز پر گزاراجا سکتا ھے ؟
اصول دین اپنے ساتھ کچھ لوازمات لیکر آتے ھیں جن سے دین کا عقیدتی سیسٹم تشکیل پاتا ھے ۔ ان اعتقادات میں اختلافات کی بنیاد پر مختلف ادیان ، فرقے اور مذھب وجود میں آتے ھیں ۔ جیسے بعض انبیاء(ع) کی نبوت اور آسمانی کتاب کے تعین میں اختلا ف جو اسلام ، یھودیت اور عیسائیت میں اختلافات کی علت اور سبب بناھے ۔ اختلافات کی بناء پر بعض دوسرے ایسے اعتقادات اور عقائد بھی وجود میں آگئے ھیں جو اصلی اعتقادات سے قطعاً مناسبت نھیں رکھتے مثلاً عیسائیوں کا تثلیثی اعتقاد ،یقینا نظریھٴ توحید کی ممانعت کرتا ھے ھر چند عیسائی اپنے اس نظریے کی توجیہ کرتے ھیں لیکن کامیاب نھیں ھو پاتے۔ اسی طرح جانشین نبی کے انتخاب میں اختلاف( کہ آیا جانشین نبی خدا کی طرف سے منتخب ھوتا ھے یا عوام الناس بھی انتخاب کر سکتے ھیں )بھی اصول دین میں اختلافات کی بنیاد پر ھی پیدا ھوتا ھے ۔ یہ اتنا اھم اختلاف ھے کہ اسلام میں دو وسیع فرقوں کی پیدائش کا سبب بن گیا ھے ۔
الغرض ، توحید ، نبوت اور قیامت تمام آسمانی ادیان کے اساسی ترین عقائد میں شمار ھوتے ھیں ۔
انسان کی فطرت جستجو و تجسس
انسان کی روحی صفات میں سے ایک ،حقائق اور واقعیات سے متعلق اسکی جستجو و تحقیق ھے ۔ یہ صفت ھر انسان میں اس کے بچپنے ھی سے ظاھر ھو جاتی ھے اور آخر عمر تک جاری رھتی ھے ۔ انسان کی یھی صفت ھے جو اسکو دین سے متعلق مسائل کے بارے میں تحقیق کرنے پر مجبور کرتی ھے اور اس سے کھتی ھے کہ دین بر حق کی شناخت کے لئے اقدام کرے ۔
آیا عالم غیب یا غیر محسوس وجود رکھتاھے ؟ وجود رکھنے کی صورت میں آیا عالم غیب اور عالم مادی میں کوئی رابطہ پایا جاتا ھے ؟ رابطہ پائے جانے کی صورت میں آیا کوئی ایسی غیر محسوس ذات ھے جس نے اس مادی دنیا کو خلق کیا ھے ؟
آیا وجود انسان فقط اسی مادی اور محدود زندگی تک ھی محدود ھے یا ایک دوسری زندگی بھی ھے ؟ دوسری زندگی ھونے پر آیا اس مادی و محدود زندگی اور اس دوسری زندگی میں کوئی رابطہ پایا جاتا ھے ؟ رابطہ ھونے کی صورت میں وہ کون کون سے عامل ھیں جو دوسری زندگی میں موثر ھوتے ھیں ؟ اور ایسی کون سی راہ و روش ھے جس کی بنیاد پر زندگی کا ایک کامیاب اور مناسب دستورعمل حاصل کیا جاسکتا ھے ، ایسا دستور عمل جو انسانی کمال و سعادت کیلئے معاون ھو ؟
یہ ایسے سوالات ھیں جو ھمیشہ ھر انسان کو ان کے جوابات کے حصول پر اکساتے رھتے ھیں ۔ ایک دوسرا عامل جو انسان کو حقیقت جوئی پر ابھارتا ھے ، یہ ھے کہ انسان ھمیشہ یہ چاھتا ھے کہ اسکی خواھشات و ضروریات کی تکمیل ھو ۔ ھر چند اسکی یہ خواھشات علمی اور سائنسی پیشرفت کے سائے میںپوری ھوئی جاتی ھیں لیکن دین کا بھی ان ضروریات کی تکمیل اور راہ حق کی نشاندھی میں اھم کردار ھوتا ھے۔ دین بشر کوبتاتا ھے کہ اسکی کون سی خواھش مناسب ھے اور کون سی نا مناسب ۔ دین انسان کو اس کے حقیقی منافع و مصالح سے آشنا کراتا ھے نیز اسکو نقصانات سے محفوظ رکھتا ھے ۔
خدا شناسی ایک فطری خواھش ھے جس کا سر چشمہ بعض ماھرین نفسیات "حس دینی " کو قرار دیتے ھیں ۔ اس حس کو حس تجسس ، حس نیکی اور حس زیبائی کے ساتھ ساتھ روح انسان کے چوتھے بُعد سے تعبیر کرتے ھیں ۔ یہ افراد تاریخ اور باستان شناسی کی بنیاد پر دعویٰ کرتے ھیں خدا پرستی ھمیشہ بنی آدم کا خاصہ رھا ھے ۔ یھی عمومیت ھے جس کی بنا ء پر کھا جا سکتا ھے کہ خدا پرستی ایک فطری شئی ھے ۔
شناخت دین کی اھمیت
بشر جس وقت اس بات سے آگاہ ھوتا ھے کہ طول تاریخ میں ھمیشہ ایسے افراد گزرے ھیں جنھوں نے یہ دعویٰ کیا ھے کہ وہ ھدایت بشر کی خاطر خدا کی طرف سے بھیجے گئے ھیں اور ان افراد نے اپنے پیغام کے ارسال و ترسیل میں ھر طرح کے مصائب و آلام بر داشت کئے ھیں تو انسان خود بخود دین کی تلاش میں نکل کھڑا ھوتا ھے تاکہ ان پیغمبروں کے پیغام کی حقیقت کی تھہ تک رسائی حاصل کر سکے ۔ مخصوصاً اسے جب ان پیغمبروں کے پیغام میں سعادت و نعمت ابدی کی بشارت اور عذاب و عقاب کی خبر ملتی ھے تو اسکی تحقیق و جستجو والا بُعد اس کی دوسری صفات پر حاوی ھو جاتا ھے ۔ ایسا آدمی آکر کس بنا ء پر اپنی اس جبلی صفت کو کچل سکتا ھے ؟
ھاں ! ممکن ھے بعض افراد اپنے عیش و آرام کی خاطر تحقیق و جستجو سے متعلق زحمات کو قبول نہ کریں یا صرف اس بناء پر کہ دین کو قبول کرنے کی صورت میں انھیں دین کی طرف سے عائد شدہ بعض پابندیوں کو قبول کرنا پڑے گا ، سرے سے تلاش و شناخت دین سے منحرف ھو جائیں ۔ لیکن ایسے افرادکی مثال ان چھوٹے بچوں کی سی ھے جو دوا کی کڑواھٹ کی بناء پر ڈاکٹر کے پاس جانے سے گریز کرتے ھیں اور آھستہ آھستہ موت سے قریب ھو تے جاتے ھیںکیونکہ ایسا بچے اپنے نفع و نقصان کے ادراک کے لئے مناسب رشدعقلی کا حامل نھیں ھوتے ۔ لیکن ایک عاقل انسان ھمیشہ اس جستجو میں رھتا ھے کہ حقیقی دین کھاں ھے تاکہ دین بر حق اسکی دائمی اور اخروی نعمتوں کو اس کے لئے فراھم کر سکے ۔
انسان کمال طلب ھے
بشر کا ایک خاصہ یہ بھی ھے کہ اس کے اندر ھمیشہ یہ خواھش بیدار رھتی ھے کہ وہ قدم بقدم کمال و عروج حاصل کرتا رھے ۔ بعض افراد کے نزدیک یہ کمال فقط اسی مادی دنیا تک محدود ھوتا ھے اور وہ اپنی ساری زندگی عیش و آرام میں گزار کر ختم کر دیتے ھیں البتہ ایسے لوگوں کے نزدیک اس چند روزہ زندگی کے ماوراء دوسری کوئی دائمی زندگی نھیں ھوتی ۔
لیکن وہ افراد جو اپنی پیدائش کی غرض و غایت کودرک کر لیتے ھیں ان کے نزدیک اس مادی اور چند روزہ زندگی کے علاوہ بھی ایک اخروی و دائمی زندگی ھوتی ھے ، اوراسکے لئے وہ اس چند روزہ زندگی میں اقدامات کرنے لگتے ھیں ۔
حقیقت بھی یھی ھے کہ انسانی زندگی کا خاتمہ اسی چند روزہ دنیا پر نھیں ھو جاتا ھے بلکہ ایک دوسری حیات بھی ھے جو کبھی ختم نہ ھونے والی ھے ۔ انسانی کمال یہ ھے کہ وہ اس محدود زندگی کو اس دائمی زندگی کا مقدمہ قرار دے تاکہ اپنی اخروی زندگی کی حقیقی نعمتوں اور لذتوں سے بھرہ ور ھو سکے ۔
دین اس درمیان بھت اھم کردار ادا کرتا ھے کیونکہ آنے والی دائمی زندگی عالم غیب سے مربوط ھے اور انسان اس کا احساس نھیں کر پاتا ھے لھذا دین اسکو اسکی اخروی زندگی کی اھمیت ، حقیقت اور اس تک رسائی کی راہ و روش کی نشاندھی کرتا ھے ۔ جس کے لئے وہ بشر کو اپنی دنیاوی زندگی گزارنے کے لئے ایک الٰھی دستور العمل پیش کرتا ھے جس میں انسانی زندگی کے تمام ابعاد اور پھلوؤں کو پیش نظر رکھتے ھوئے مختلف احکام و قوانین شامل ھوتے ھیں کہ اگر انسان دین بر حق کے ذریعے پیش کردہ اس دستورالعمل پر عمل پیرا ھو جائے تو دائمی و اخروی زندگی کے ساتھ اسکی یہ مادی دنیا بھی سنور جاتی ھے اور انسان اپنے حقیقی کمال تک رسائی حاصل کر لیتا ھے ۔
source : taqreeb.ir