ليکن ايسا بھي ہوتا ہے کہ بعض امور ميں اطاعت گزاري ذرا مشکل ہو جاتي ہے - نمونے کے طور پر ہم حضرت ابراھيم عليہ السلام کي داستان کي طرف اشارہ کر سکتے ہيں - عقل اس بات کو بڑي مشکل کے ساتھ قبول کرتي ہے کہ ايک باپ اپنے بيٹے کو ذبح کرے اور اس کي قرباني کرے - کس منطق کے تحت ايسے عمل کي وضاحت کي جا سکتي ہے ؟ اس بات کو کيسے کوئي مان سکتا ہے کہ برسوں کي دعاۆں کے بعد بڑھاپے ميں خدا کي طرف سے عطا ہونے والے بيٹے کو بڑے شوق سے کوئي ذبح کرے ؟ اس کا ايک ہي معقول جواب سامنے آتا ہے اور وہ يہي ہے کہ يہ مکمل طور پر خدا کي محبت سے سرشار ہو کر اطاعت گزاري کرتے ہوۓ يہ عمل آساني سے کيا گيا -
احکام فقھي کي اطاعت گزاري لازمي ہو جاتي ہے يعني يہ ايسے احکامات ہيں کہ ہم ان کي حکمت کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہيں اور صرف اور صرف خدا کے حکم کي بنياد پر ان کي اطاعت کرتے ہيں -
ايسے ہي امور ميں ايک امر کہ جس کے بارے ميں ہم مسلمانوں کو بہت تاکيد اور نصيحت کي گئي ہے، وہ شھداء کے سالار و حضرت ابا عبداللہ الحسين عليہ السلام کي عزاداري ہے - اس عظيم ھستي کے تقدس و احترام کے پيش نظر ان کے مصائب اور مسائل پر آنسو بہانے پر ہميں تاکيد کي گئي ہے تاکہ ہم اس غم و اندوہ کو محسوس کر سکيں جو کربلا کے ميدان ميں آل رسول صلي اللہ عليہ ولہ وسلم کو برداشت کرنا پڑے -
روايات کے مطابق اس عظيم شھيد کي ياد ميں آنسو بہانے کا ثواب اتنا زيادہ ہے کہ اس کا تصوّر بھي نہيں کيا جا سکتا -
امام صادق عليہ السلام فرماتے ہيں کہ
و من ذکر الحسين عنده فخرج من عينه من الدموع مقدار زباب کان ثوابه علي الله عز و جل و لم يرض له بدون الجنة.
يعني جس کے نزديک حضرت حسين بن علي عليہ السلام کا ذکر ہو اور اس کي آنکھوں سے مکھي کے پر کے برابر آنسو جاري ہو جائيں - اس کا اجر خدا کے پاس ہے اور حق تعالي اس کے ليۓ جنت سے کم کسي چيز پر راضي نہيں ہو گا -
source : www.tebyan.net