مسلمانوں کے اقتصادی فرائض میں سے ایک فریضہ 'خمس' کا ادا کرنا ہے، اس طرح کہ بعض مقاماتمیں اپنے مال کا ایک پنجم حصہ ایک خاص صورت میں خرچ کرنے کے لئے اسلامی حاکم کو دینا چاہئے۔خمس سات چیزوں پر واجب ہے:*جو کچھ سال بھر کے اخراجات سے زیادہ بچ جائے (کسب کار کانفع)* معدن * خزانہ *جنگی غنائم * وہ جواہرات جو سمندر کی تہہ سے نکالے جاتے ہیں۔*حلال مال حرام کے ساتھ مخلوط ہوچکا ہو۔*وہ زمین جسے کافر ذمی زایک مسلمان سے خریدے۔خمس ادا کرنا بھی نمازو روزہ کی طرح واجبات میں سے ہے اورتمام بالغ اورعاقل اگر مذکورہ سات موارد میں سے ایک کے ،ما لک ہوں تو اس پر عمل کرنا چاہئے جس طرح شرعی فریضہ کے آغاز پرہرکوئی نمازو روزہ کی فکر میں ہوتا ہے اسے خمس وزکات ادا کرنے اور دیگرواجبات کی فکر میں بھی ہونا چاہئے لہٰذا ضرورت کی حد تک ان کے مسائل سے آشنائی ضروری ہے، چنانچہ ہم یہاں پر خمس کے سات موارد میں سے صرف ایک کے بارے میں وضاحت کریں گے جس سے معاشرے کے لوگ زیادہ دوچار ہیں ، اور وہ سال بھر کے خرچ سے بچے ہوئے مال پر خمس ہے:اس مسئلہ کو واضح کرنے کے لئے ہمیں درج ذیل دوسوالوں کے جواب پر غور کرنا چاہئے:١۔ سال کے خرچ سے کیا مراد ہے؟٢۔ کیا خمس کا سال قمری، یاشمسی مہینوںسے حساب ہوتا ہے اور اس کا آغاز کس وقت ہے؟سال کا خرچہ:اسلام لوگوں کے کسب وکار کے بارے میں احترام کا قائل ہے اور اپنی ضروریات کو پورے کرنے کو خمس پر مقدم قراردیاہے۔لہٰذا ہر کوئی اپنی آمدنی سے سال بھر کا اپنا خرچہ پورا کرسکتا ہے۔اور سال کے آخر پرکوئی چیز باقی نہ بچی ، توخمس کی ادائیگی اس پر واجب نہیں ہے ۔ لیکن اگر متعارف اور ضرورت کے مطابق افراط وتفریط سے اجتناب کرتے ہوئے زندگی گزارنے کے بعد سال کے آ خر میں کوئی چیز باقی بچ جائے تو اس کے ایک پنجم حصہ خمس کے عنوان سے ادا کردے اور باقی ٤٥ حصہ اپنے لئے بچت کرے۔لہٰذا، مخارج کا مقصد وہ تمام چیزیں ہیںجو اپنے اور اپنے اہل وعیال کے لئے ضروری ہوتی ہیں۔ مخارج کے چند نمونوں کی طرف ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:* خوارک وپوشاک* گھر کا سامان، جیسے برتن، فرش وغیرہ۔* گاڑی جو صرف کسب وکار کے لئے نہ ہو۔ * مہانوں کا خرچہ۔*شادی بیاہ کا خرچ۔*ضروری اور لازم کتابیں۔*زیارت کا خرچ * انعامات و تحفے جو کسی کو دئیے جاتے ہیں۔*اداکیا جانے والا صدقہ، نذر یا کفارہ ۔خمس کا سال:انسان کو بالغ ہونے کے پہلے دن سے نماز پڑھنی چاہئے، پہلے ماہ رمضان سے روزے رکھنے چاہئے اور پہلی آمدنی اس کے ہاتھ میں آنے کے ایک سال گزرنے کے بعد گزشتہ مال کے خرچہ کے علاوہ باقی بچے مال کا خمس دیدے۔ اس طرح خمس کا حساب کرنے میں، سال کا آغاز، پہلی آمدنی اور اس کا اختتام اس تاریخ سے ایک سال گزرنے کے بعد ہے۔اس طرح سال کی ابتداء:* کسان کے لئے ۔۔۔۔ پہلی فصل کاٹنے کا دن ہے۔* ملازم کے لئے ۔۔۔۔ پہلی تنخواہ حا صل کرنے کی تاریخ ہے۔* مزدورکے لئے ۔۔۔۔ پہلی مزدوری حاصل کرنے کی تاریخ ہے۔* دوکاندار کے لئے ۔۔۔۔۔ پہلا معاملہ انجام دینے کی تاریخ ہے۔* جومال مندرجہ ذیل طریقوں سے حاصل ہوجائے، اس پر خمس نہیں ہے:١۔وراثت میں ملا ہوامال۔٢۔بخشی گئی چیز(ہبہ)۔٣۔ حاصل کئے گئے انعامات۔٤۔ جو کچھ انسان کو عیدی کے طور پر ملتاہے۔ز٥۔ وہ مال جو کسی کو خمس، زکات یا صدقہ کے طور پر دیا جاتاہے۔خمس نہ دینے کے نتائج:١۔جب تک مال کا خمس ادا نہ کیا جائے، اس میں ہاتھ نہیں لگا سکتے ہیں، یعنی اس کے کھانے کو نہیں کھایا جاسکتا، جس کا خمس ادا نہ کیا گیا ہو اور اس پیسے سے کوئی چیز نہیں خریدی جاسکتی ہے جس کا خمس ادا نہ کیا گیا ہو۔٢۔ اگر خمس نہ نکالے گئے پیسوں سے (حاکم شرع کی اجازت کے بغیر) کاروبار کیا جائے تو اس کار وبارکا ١٥معاملہ باطل ہے۔٣۔ اگر خمس نہ نکالے گئے پیسے حمام کے مالک کو دے کر غسل کرے تو وہ غسل باطل ہے۔٤۔ اگر خمس نہ نکالے گئے پیسوں سے مکان خریدا جائے، تو اس مکان میں نماز پڑھنا باطل ہے۔خمس کے احکام: ١۔ اگر قناعت کرکے کوئی چیز سالانہ خرچہ سے بچ جائے اس کا خمس دینا چاہئے۔٢۔ اگر گھر کے لئے سامان خریدا ہو اور اس کی ضرورت نہ رہے تو احتیاط واجب زززکی بناپر اس کا خمس دینا چاہئے، مثال کے طور پر ایک بڑا فرج خریدے اور پہلے فرج کی ضرورت باقی نہ رہے۔٣۔اشیائے خوردو نوش جیسے چاول، تیل، چائے وغیرہ جو سال کی آمدنی سے اس سال کے خرچہ کے لئے خریدی جاتی ہے، اگرسال کے آخر میں بچ جائے تو اس کا خمس دینا چاہئے۔٤۔ اگر ایک نابالغ بچے کا کوئی سرمایہ ہو اور اس سے کچھ نفع کمائے تو احتیاط واجب کے طور پر اس بچے کو بالغ ہونے کے بعد اس کا خمس دینا چاہئے۔مصرف خمس:خمس کے مال کو دوحصوں میں تقسیم کرنا چاہئے، اس کا نصف سہم امام زمان علیہ السلام ہے اور اسے مجتہد جامع الشرائط جس کی انسان تقلید کرتا ہے یا اس کے وکیل کو دیا جاتا ہے دوسرے نصف کو بھی مجتہد جامع الشرائط یا اس کی اجازت سے ضروری شرائط کے حامل سادات کو دیا جائے۔خمس کے محتاج سید کے شرائط:* غریب ہو یا ابن السبیل ہو، اگرچہ اپنے شہر میں غریب ومحتاج نہ ہو۔*شیعہ اثنا عشری ہو۔*کھلم کھلا گناہ کا مرتکب نہ ہو ( احتیاط واجب کی بناپر) اور اسے خمس دینا گناہ انجام دینے میں مددکا سبب نہ ہو۔*احتیاط واجب کی بناء پران افراد میں سے نہ ہو جن کے اخراجات اس (خمس لینے والے) کے ذمہ ہوں، جیسے بیوی بچے۔ نوٹ:مذکورہ تمام مسائل امام خمینی [رہ] کی توضیح المسائل اور رہبر معظم کی استفتاآت کے مطابق ہیں [منبع:آموزش احکام ،فلاح زادہ] ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۲۴۲
source : www.abna.ir