جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے:
<یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اٴَطِیعُوا اللهَ وَاٴَطِیعُوا الرَّسُولَ وَاٴُوْلِی الْاٴَمْرِ مِنْکُم>[1]
”اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو، رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کروجو تمھیں میں سے ھیں“۔
یھاں پر یہ سوال اٹھتا ھے کہ اولوا الامر سے مراد کون حضرات ھیں؟
اولوا الامر کے بارے میں اسلامی مفسرین کے درمیان بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ھے، ذیل میں ھم اس کا خلاصہ پیش کرتے ھیں:
۱۔ بعض اھل سنت مفسرین اس بات کا عقیدہ رکھتے ھیں کہ ”اولوا الامر “ سے مراد ھر زمانہ اور ھر مقام کے حکام وقت اور بادشاہ ھیں،اور اس میں کسی طرح کا کو ئی استثنا نھیں ھے جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کی ذمہ داری ھے کہ وہ ھر حکومت کی پیروی کریں اگرچہ وہ مغل حکومت ھی کی کیوں نہ ھو۔
۲۔ صاحب تفسیر المنار اور صاحب تفسیر فی ظلال القرآن وغیرہ اس بات پر عقیدہ رکھتے ھیں کہ اولوا الامر سے مراد عوام الناس کے نمائندے، حکام وقت، علمااور صاحبان منصب ھیں ،لیکن اس شرط کے ساتھ کہ ان کا حکم اسلامی قوانین کے برخلاف نہ ھو۔
۳۔ بعض دیگر علماکے نزدیک اولوا الامر سے معنوی اور فکری حکّام یعنی علمااور دانشورمراد ھیں، ایسے دانشور جو عادل اور قرآن و سنت سے مکمل طور پر آگاہ ھوں۔
۴۔ اھل سنت کے بعض مفسرین کا کھنا ھے کہ اولوا الامر سے مراد صرف ابتدائی چار خلفاء ھیں، ان کے علاوہ کوئی دوسرا اولوا الامر میں شامل نھیں ھے لہٰذا ان کے بعد دوسرے زمانہ میں کوئی اولواالامر نھیں ھوگا۔
۵۔بعض دوسرے مفسرین نے پیغمبر اکرم (ص)کے اصحاب اور ان کے ناصروں کو اولواالامر مانا ھے۔
۶۔ بعض مفسرین نے ایک یہ بھی احتمال دیا ھے کہ اولوا الامر سے مراد اسلامی لشکرکا سردار ھے۔
۷۔ تمام شیعہ مفسرین اس بات پر متفق ھیں کہ اولوا الامر سے مراد ”ائمہ معصومین علیھم السلام“ ھیں جن کو خدا اور رسول کی طرف سے اسلامی معاشرے میں مادی اور معنوی رھبری کی ذمہ داری عطا کی گئی ھے، ان کے علاوہ کوئی دوسرا شخص اولوا الامر میں شامل نھیں ھے، البتہ جو افراد ان کی طرف سے منصوب کئے جاتے ھیں اور اسلامی معاشرہ میں ان کو کوئی عھدہ دیا جاتا ھے تو معین شرائط کے ساتھ ان کی اطاعت بھی لازم ھے، البتہ اولوا الامرکے عنوان سے نھیںبلکہ ان کی اطاعت اس لئے ضروری ھوتی ھے کہ وہ اولوا الامر کے نائب اور نمائندے ھوتے ھیں۔
اب ھم یھاں مذکورہ تفاسیر کے سلسلہ میں تحقیق و تنقید کرتے ھیں:
اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ پھلی تفسیرکا آیت کے مفھوم اورتعلیمات اسلامی سے کو ئی تعلق نھیںھے ، اور یہ بات ممکن نھیں ھے کہ کوئی بھی حکومت ،خدا اور رسول کے برابر قرار دے دی جائے اور اس کی اطاعت کی جائے اور اس میں کسی بھی طرح کی کوئی قید و شرط نہ ھو، اسی وجہ سے شیعہ مفسرین کے علاوہ خود اھل سنت کے مفسرین نے اس پھلی تفسیر کو قبول نھیں کیا ھے۔
دوسری تفسیر بھی آیہٴ شریفہ سے ھم آھنگ نھیں ھے، کیونکہ آیت میں اولوا الامر کی اطاعت کو بغیر کسی قید و شرط کے واجب قرار دیا گیا ھے۔
تیسری تفسیر یعنی جس میں عادل اور قرآن و سنت سے واقف علمااور دانشوروں کو اولوا الامر قرار دیا گیا ھے، وہ بھی آیت کے اطلاق سے ھم آھنگ نھیں ھے، کیونکہ علمااو ردانشوروں کی پیروی کی شرط یہ ھے کہ ان کا حکم قرآن و سنت کے برخلاف نہ ھو، لہٰذا اگر وہ کسی خطا کے مرتکب ھوجائیں (کیونکہ وہ معصوم تو ھیں نھیں ان سے خطا ھوسکتی ھے) یا کسی دوسری وجہ کی بنا پر حق سے منحرف ھوجائیں تو پھر ان کی اطاعت ضروری نھیں ھے، لیکن آیہٴ شریفہ میں اولوا الامر کی اطاعت کو مطلق اور پیغمبر اکرم کی طرح ضروری قرار دیا گیا ھے، اس کے علاوہ وہ علمااو ردانشور افراد جنھوں نے قرآن و سنت سے احکام حاصل کئے ھیں ان کی اطاعت خداو رسول کی اطاعت ھوگی، اور الگ سے بیان کرنے کی ضرورت نھیں ھے۔
چوتھی تفسیر ( جس میں چاروں خلفا ھی کو اولوا الامر قرار دیا گیا) کا مطلب یہ ھے کہ آج مسلمانوں کے درمیان کوئی اولوا الامرنہ ھو، اس کے علاوہ اولوا الامر کو چاروں خلفا سے مخصوص کرنے پر بھی کوئی دلیل نھیں ھے۔
پانچویںاور چھٹی تفسیر یعنی صحابہ اور سرداران لشکر سے مخصوص کرنے میں بھی یھی مشکل ھے، یعنی ان لوگوں سے مخصوص کرنے پر بھی کوئی دلیل نھیں ھے۔
بعض علمااھل سنت جیسے مصر کے مشھور و معروف دانشور”شیخ محمد عبدہ“ نے مشھور و معروف مفسر ”فخر الدین رازی“ کی پیروی کرتے ھوئے دوسرے احتمال ( کہ اولوا الامر سے مراد ،عوام الناس کے نمائندے، حاکم وقت، علمااور صاحب منصب افراد ھیں ،لیکن اس شرط کے ساتھ کہ ان کا حکم اسلامی قوانین کے برخلاف نہ ھو)میں چند شرائط کا اضافہ کرتے ھوئے قبول کیا ھے ، ان میں سے ایک شرط یہ بیان کی ھے کہ حاکم وقت مسلمان ھو (جیسا کہ لفظ ”منکُم“ سے نتیجہ نکلتا ھے) اور اس کا حکم قرآن اور سنت کے برخلاف نہ ھو، مزید یہ کہ اس کا حکم اپنے اختیار سے ھو نہ کہ اس نے مجبوری کی حالت میں حکم دیا ھواور یہ کہ مسلمانوں کی فلاح و بھبود کے لئے حکم کرے، نیز ایسے مسائل میں حکم کرے جس میں دخالت کا حق رکھتا ھو (نہ عبادت جیسی چیزوں میں کہ جس کا حکم اسلام میں معین ھے) مزید یہ کہ جس مسئلہ میں حکم کررھا ھو اس میںشریعت کی طرف سے کوئی خاص نص موجود نہ ھو ، ان تمام چیزوں کے علاوہ اتفاقی طور پر نظریہ دے(یعنی ایسا نہ ھو کہ ایک حاکم کچھ کہہ رھا ھے تو دوسرا کچھ)۔
اور چونکہ یہ لوگ اس بات پر عقیدہ رکھتے ھیں کہ تمام امت یا امت کے تمام نمائندے خطا اور غلطی نھیں کرسکتے ،یعنی معصوم ھوتے ھیں، اور ان شرائط کا نتیجہ یہ ھوتا ھے کہ ایسا حکم جس میں کوئی قید و شرط نہ ھوپیغمبر اکرم (ص)کی اطاعت کی طرح ھوجاتا ھے، (جس کا نتیجہ ”اجماع“ کو حجت ماننا اور اس کو قبول کرنا ھے)، لیکن اس تفسیر پر بھی بہت سے اعتراضات ھیں، کیونکہ:
۱۔ اجتماعی مسائل میں بہت ھی کم مقامات پر اتفاق ھوتاھے جس کی بنا پر امت مسلمہ کے اکثر امور میں ھمیشہ ایک بے نظمی با قی رھے گی، اور اگر لوگ اکثریت کے نظریہ کو قبول کرنا چاھیں تو اس پر اعتراض یہ ھے کہ اکثریت معصوم نھیں ھے بلکہ پوری امت کا اجماع معصوم ھے، لہٰذا ان میں سے کسی ایک کی بھی اطاعت ضروری نہ ھوگی۔
۲۔ علم اصول میں یہ بات ثابت ھوچکی ھے کہ بغیر امام معصوم کے”تمام امت “ کے معصوم ھونے پر کوئی دلیل نھیں ھے، (اگر امام معصوم اجماع میں شامل نہ ھو تو اس اجماع کا کوئی فائدہ نھیں ھے)
۳۔ اس تفسیر کے حامیوں کی ایک شرط یہ تھی کہ ان کا حکم قرآن و سنت کے برخلاف نہ ھو، لیکن قرآن اور سنت کے خلاف ھے یا نھیں اس کو دیکھنے کی ذمہ داری کس پر ھوگی، تو یہ ذمہ داری مجتھد اور قرآن و سنت سے آگاہ علماکی ھوگی جس کا نتیجہ یہ ھوگا کہ مجتھدین اور علماکی اجازت کے بغیر اولوا الامر کی اطاعت جائز نہ ھوگی، بلکہ علماکی اطاعت اولوا الامر سے بلند ھوگی، جبکہ یہ نظریہ بھی آیت سے ھم آھنگ نھیںھے۔
یہ ٹھیک ھے کہ انھوں نے علمااور دانشوروں کو بھی اولوا الامر میں شمار کیا ھے لیکن حقیقت یہ ھے کہ اس تفسیر کی بنا پر علمااور مجتھدین کا مرتبہ ان نمائندوں سے بلند ھوگا نہ کہ ان کے ھم پلہ، کیونکہ علماو دانشورحضرات اولوا الامر کے امور کے نگراں ھیںکہ کھیں ان کے نظریات قرآن و سنت کے مخالف تو نھیں ھیں، لہٰذا وہ ان سے بلند مرتبہ پر فائز ھیں جو کہ مذکورہ تفسیر سے ھم آھنگ نھیں ھے۔
لہٰذامذکورہ تفسیر پر متعدد اعتراض ھوئے ھیں۔
صرف ساتویں تفسیر مذکورہ اعتراضات سے خالی ھے یعنی اولوا الامر سے مراد ائمہ معصومین علیھم السلام ھے، کیونکہ یہ تفسیر مذکورہ آیت میں موجود ہ وجوبِ اطاعت کے اطلاق سے مکمل طور پر ھم آھنگ ھیں، کیونکہ ”عصمت“ ان کو ھر طرح کی خطا و غلطی سے محفوظ رکھتی ھے، اسی لئے امام کا حکم پیغمبر اکرم (ص)کے حکم کی طرح بغیر کسی قید و شرط کے واجب الاطاعت ھے، اور انھیں آنحضرت (ص)کی اطاعت کی صف میں قرار دیا جانا مناسب ھے، جیسا کہ لفظ ”اطیعوا“ کی تکرار کے بغیر ”رسول“ پر عطف ھوا ھے۔
قابل توجہ بات یہ ھے کہ اھل سنت کے بعض مشھور و معروف علماجیسے فخر الدین رازی نے مذکورہ آیت کے ذیل میں اس حقیقت کا اعتراف کیا ھے، جیسا کہ موصوف تحریر کرتے ھیں:
”خداوندعالم نے جس کی اطاعت کو قاطعانہ اور بغیر چون و چرا کے لازم اور ضروری قرار دیا ھے اس کا معصوم ھونا ضروری ھے، کیونکہ اگر خطا اور غلطی سے معصوم نہ ھو ، اور گنا ھوں کے وقت خدا اس کی اطاعت کو لازم قرار دے اور خطا کی صورت میں بھی اس کی پیروی لازم ھو تو یہ تو خود خداوندعالم کے حکم میں تضاد اور ٹکراؤ ھوگا، کیونکہ ایک طرف تو خداوندعالم نے کسی کام کو ممنوع قرار دیا ھے اور دوسری طرف ”اولوا الامر “ کی پیروی لازم قرار دی ھے ، لہٰذا یھاں ”امر“ اور ”نھی“ دونوں جمع ھوجائیںگے، (یعنی ایک طرف خدا کہہ رھا ھے کہ اس کام کو انجام دو، دوسری طرف اسی کام سے روک بھی رھا ھے)
ایک طرف خداوندعالم اولوا الامر کی اطاعت کا مطلق طور پر حکم دے رھا ھے، دوسری طرف اگر اولوا الامر معصوم نہ ھو اور خدا اس کی اطاعت کا حکم دے تو یہ حکم صحیح نھیں ھے، اس مقدمہ سے یہ بات واضح ھوتی ھے کہ مذکورہ آیت میں جس اولوا الامر کی طرف اشارہ کیا گیا اس کا معصوم ھونا ضروری ھے۔
اس کے بعد فخر الدین رازی تحریر کرتے ھیں کہ یہ معصوم یا تو تمام امت ھے یا امت کے کچھ افراد ھیں ،دوسرا احتمال صحیح نھیں ھے، کیونکہ ھم امت کے ان بعض افراد کو پہچانیں اور اس تک رسائی ممکن ھو، جبکہ ایسا نھیں ھے،(یعنی وہ معصوم کو ن ھے ھمیں معلوم نھیں ھے) اور جب یہ احتمال ردھوجاتا ھے تو صرف پھلا احتمال باقی رہتا ھے کہ پوری امت معصوم ھے، اور یہ خود اس بات کی دلیل ھے کہ امت کا اجماع اور اتفاق حجت و قابل قبول ھے، اور یہ بہترین دلیل ھے۔[2]
(قارئین کرام!)جیسا کہ آپ حضرات جانتے ھیں کہ فخر رازی مختلف علمی مسائل پر اعتراضات کرنے کے شوقین ھیں یھاں مذکورہ آیت میں اولوا الامر کے معصوم ھونے کو قبول کرتے ھیں، لیکن مکتب اھل بیت اور ائمہ علیھم السلام سے آشنائی نہ رکھنے کے سبب اس احتمال سے چشم پوشی کرلیتے ھیں کہ امت کے معین حضرات اولوا الامر ھیں، اور مجبوراً اولوا الامر کے معنی تمام امت (یا عام مسلمانوں کے نمائندے) مرادلیتے ھیں، جبکہ یہ احتمال قابل قبول نھیں ھے کیونکہ ھم نے پھلے بھی عرض کیا کہ اولوا الامر اسلامی معاشرہ کے لئے رھبر ھے اور اسلامی حکومت نیز امت مسلمہ کی مشکلات کے فیصلے اسی کے ذریعہ ھوتے ھیں، جبکہ ھم یہ بات بھی جانتے ھیں کہ تمام حکومتی عھدہ داروں میں اتفاق ھونا ممکن نھیں ھے، کیونکہ مسلمانوں کو درپیش اجتماعی ، سیاسی، ثقافتی، اخلاقی اور اقتصادی مسائل میں سب لو گوں کاھونا غالباً ممکن نھیں ھے، اور اکثریت کی پیروی اولوا الامر کی پیروی شمار نھیں ھوگی، لہٰذا فخر الدین رازی اور ان کی پیروی کرنے والے معاصرین کے عقیدہ کا لازمہ یہ ھوگا کہ اولوا الامر کی اطاعت کی جگہ باقی نہ رھے، اور صرف استثنائی صورت اختیار کرلے۔
(قارئین کرام!)ھماری تمام باتوں کا خلاصہ یہ ھوا کہ آیہٴ شریفہ صرف ان معصوم حضرات کی رھبری کو ثابت کرتی ھے جوامت کا ایک حصہ ھیں۔ (غور کیجئے)
چند اعتراضات اور ان کے جوابات
مذکورہ تفسیر پر کچھ اعتراضات ھوئے ھیں،جن کو ھم بغیر طرفداری کے بیان کرتے ھیں:
۱۔ اگر ”اولوا الامر“ سے مراد ائمہ معصومین علیھم السلام ھوں تو چونکہ لفظ ”اولی“ جمع کا صیغہ ھے، لہٰذا آیت سے ھم آھنگ نھیں ھے، کیونکہ ھر زمانہ میں امام معصوم صرف ایک ھوتا ھے۔
اس اعتراض کا جواب یہ ھے کہ ھر زمانہ میں امام معصوم ایک سے زیادہ نھیں ھوتا لیکن ھر زمانہ میں ایک ھی امام ھوتا ھے اس کے بعد دوسرا امام،تاآخر، اور ھم جانتے ھیں کہ آیہٴ شریفہ ھر زمانہ کے افراد کو امام کی اطاعت کے لئے حکم دے رھی ھے۔
۲۔ اس معنی کے لحاظ سے پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ میں اولوا الامر موجود نھیں تھے ، تو پھر کس طرح ان کی اطاعت کا حکم دیا گیا؟
اس اعتراض کا جواب بھی مذکورہ جواب سے واضح اور روشن ھوجاتا ھے کیونکہ آیہٴ شریفہ کسی خاص زمانہ سے مخصوص نھیں ھے، لہٰذا ھر صدی کے مسلمانوں کا وظیفہ معین کرتی ھے، اور دوسرے الفاظ میں یوں کھیں کہ خود پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ میں خود آنحضرت (ص)اولوا الامر تھے ، کیونکہ اس وقت پیغمبر اکرم (ص)کے پاس دو منصب تھے ایک منصب ”رسالت“ جیسا کہ آیہٴ شریفہ میں ”اٴطَیعُوا الرَّسوُلَ“ آیاھے ، دوسرے ”امت اسلامی کی رھبری اور سرپرستی“ اس آیت میں ”اولوا الامر“ سے یاد کیا گیا ھے، اس بنا پر پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ میں معصوم رھبر اور پیشوا خود آنحضرت تھے ، یعنی منصب رسالت اور احکام اسلام کی تبلیغ کے علاوہ اس منصب پر بھی فائز تھے، اور شاید ”رسول“ اور ”اولوا الامر“ کے درمیان ”اطیعوا“ کی تکر ار نہ ھو نا اس بات کی طرف اشارہ ھے، دوسرے الفاظ میں یوں سمجھئے کہ منصب ”رسالت“ اور منصب ”اولوا الامر“ دو مختلف منصب ھیں جو پیغمبر اکرم (ص)میں ایک ساتھ جمع تھے، لیکن امام کے سلسلہ میں جدا مسئلہ ھے اور امام صرف دوسرا منصب رکھتا ھے۔
۳۔ اگر ”اولوا الامر“ سے مراد ائمہ معصومین اور معصوم رھبر ھوں تو درج ذیل آیہٴ شریفہ میں مسلمانوں کے اختلاف کی صورت میں صرف خدا و رسول کی طرف رجو ع کرنے کا حکم کیو ں دیا گیاھے، ارشاد ھوتا ھے:
< فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِی شَیْءٍ فَرُدُّوہُ إِلَی اللهِ وَالرَّسُولِ إِنْ کُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ ذَلِکَ خَیْرٌ وَاٴَحْسَنُ تَاٴْوِیلًا>[3]
”پھر اگر آپس میں کسی بات میں اختلاف ھوجائے تو اُسے خدا و رسول کی طرف پلٹادو، اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھنے والے ھو، یھی تمھارے حق میں خیر اور انجام کے اعتبار سے بہترین بات ھے“۔
جیسا کہ آپ نے ملا حظہ کیا کہ اس آیت میںاولوا الامر کی بات نھیں کی گئی ھے، اور اختلاف دورکرنے کے لئے صرف خدا و رسول کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیاگیا ھے، یعنی کتاب خدا ، (قرآن کریم) اور سنت پیغمبر کے ذریعہ اختلاف حل کیا جائے گا۔
اس سوال کے جواب میں ھم عرض کرتے ھیں کہ اولاً یہ اعتراض شیعہ مفسرین پر نھیں ھے بلکہ اگر ذرا غور کریں تو دوسری تفسیروں پر بھی یھی اعتراض وارد ھوتا ھے، اور دوسرے یہ کہ اس بات میں کوئی شک نھیں ھے کہ مذکورہ آیت میں اختلاف اور تنازع سے مراد احکام کا اختلاف ھے، مسلمانوں کی رھبری اور حکومت کے جزئی مسائل کا اختلاف مراد نھیں ھے ،کیونکہ ان مسائل میں قطعی طور پر اولوا الامر کی اطاعت ھونی چاہئے، (جیسا کہ آیت کے پھلے فقرہ میں بیان ھوا ھے) لہٰذا اختلاف سے مراد اسلام کے عام قوانین اور احکام کا اختلاف مراد ھے جس کا جواز خدااور پیغمبر سے مخصوص ھے، کیونکہ امام صرف احکام کو نافذ کرتا ھے، احکام کو وضع نھیں کرتا، اور نہ ھی اسلام کے کسی قانون کو نسخ کرتا، بلکہ ھمیشہ احکام خدا اور سنت پیغمبر کو نافذ کرتا ھے، اور اسی وجہ سے اھل بیت علیھم السلام سے منقول احادیث میں بیان ھوا ھے کہ اگر(کسی راوی کے ذریعہ) ھم سے کوئی بات کتاب خدا اور سنت پیغمبر کے برخلاف سنو تو اس کو ھرگز قبول نہ کرو ،کیونکہ ھمارے لئے قرآن اور سنت پیغمبر کے برخلاف حکم کرنا محال اور ناممکن ھے۔
مختصر یہ کہ احکام اور اسلامی قوانین لوگوں کے اختلاف کو حل کرنے کا پھلا مرجع خدا اور پیغمبر اکرم (ص)ھيں، کیونکہ پیغمبر پر وحی ھوتی ھے، اور اگر امام معصوم کوئی حکم بیان کرتا ھے تو وہ اپنی طرف سے نھیں ، بلکہ قرآن کریم یا پیغمبر اکرم (ص)سے حاصل ھوئے علم کی بناپر ھوتا ھے، لہٰذا اختلاف حل کرنے والوں کی صف میں اولوا الامرکو ذکر نہ کرنے کی وجہ روشن ھوجاتی ھے۔[4]
[1] سورہٴ نساء ، آیت ۵۹۔
[2] تفسیر کبیر فخر رازی ، جلد ۱۰، صفحہ ۱۴۴، طبع مصر ۱۳۵۷ھ ش۔
[3] سورہ نساء ، آیت ۵۹۔
[4] تفسیر نمونہ ، جلد ۳، صفحہ ۴۳۵۔