عجیب دور ہے کہ امام حسینؑ کی یاد کے ایام آتے ہیں تو ہر طرح کے لوگ امام حسینؑ اور ان کے اہل بیت و انصار کو خراج عقیدت پیش کرنے لگتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ لوگ بھی اس ''روایت‘‘ میں شریک ہو جاتے ہیں کہ جن سے آج کے انسانوں کو وہی شکایات ہیں جو امام حسینؑ کو اپنے زمانے کے حکمرانوں سے تھیں۔ ضروری ہے کہ حکمرانوں سے لے کر عام مسلمان تک اپنے آپ کو آئینۂ حسینی کے روبرو کر دے اور پھر جائزہ لے کہ وہ کس قدر حسینی ہے۔
پاکستان میں پچاس فیصد لوگ گندا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ یہ بیان ہمارا نہیں بلکہ پنجاب کے گورنر چوہدری سرور صاحب کا ہے۔ وہ کئی ماہ سے بار بار یہ بیان دے رہے ہیں۔ یزید کی فوج نے امام حسینؑ اور ان کے ساتھیوں پر پانی بند کر دیا تھا۔ یہاں تک کہ خیام حسینی سے ننھے منھے بچوں کی العطش العطش کی صدائیں آتی تھیں۔ آج کے بچے العطش العطش تو نہیں کہتے لیکن ہسپتالوں کے اعداد و شمار گواہ ہیں کہ لاتعداد بچے گندا پانی پینے سے جاں بحق ہو رہے ہیں۔ آج کے حکمران ان بچوں کو پانی تو دیتے ہیں لیکن یہ پانی پی کر بھی بچے اسی طرح ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتے ہیں جس طرح کربلا والوں کے بچے شدت پیاس سے ایڑیاں رگڑ رہے تھے۔
حکمرانوں میں ایسے بھی ہیں جن کے بارے میں ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں چھپ چکی ہیں کہ وہ اپنے پینے کے لئے پانی فرانس سے منگواتے ہیں اور اپنے گھوڑوں کے لئے بھی فرانس سے کھانے کے لئے اعلٰی غذائیں درآمد کرتے ہیں۔ حکمرانوں میں ایسے بھی ہیں جو فرات پر پہرے تو نہیں بٹھاتے لیکن اپنی زمینوں کو غریبوں کے حصے کے پانی سے سیراب کرکے غریبوں کو بھوکا مارنے کا بندوبست کرتے ہیں۔ گویا یہ پوری کی پوری نہریں اور دریا ہی اغوا کرکے لے جاتے ہیں۔ ان میں سے کتنے ہی ہیں جو ہر سال محرم الحرام کی آمد کے موقع پر امام حسینؑ کو خراج تحسین پیش کرنے کی روایت شوق و ذوق سے پوری کرتے ہیں۔
یزیدیوں نے امام حسینؑ کے یار و انصار کو بھوکا رکھا۔ آج پاکستان میں 10کروڑ انسان غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں اور بین الاقوامی اداروں کی رپورٹیں یہ بتاتی ہیں کہ 10 کروڑ انسانوں کو ان کی کھانے کی ضرورت سے بہت کم مقدار میں کھانا میسر ہے اور جنھیں کھانا میسر ہے ان کے کھانے کا معیار بھی قابل ذکر نہیں۔ کچھ عرصہ پہلے اسلام آباد میں ایک نوجوان کی لاش ملی، جس کا پوسٹ مارٹم کیا گیا تو معلوم ہوا کہ کئی دنوں سے اس کے معدے میں کوئی خوراک نہیں گئی۔ اس کی جیب سے 12 روپے برآمد ہوئے۔ اس کی شکل و صورت سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ کوئی پڑھا لکھا نوجوان ہے۔ دوسری طرف امراء کے کھانے ہیں کہ جنھیں شمار نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان کے بڑے بڑے ہوٹلوں میں سے جو کھانا بچ جاتا ہے، اس کا حساب لگایا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کھایا کم گیا ہے، جو بچ گیا ہے اس سے کہیں زیادہ ہے۔
انہی دنوں میں تھر کے علاقے میں قحط سالی سے جس انداز سے بچے مر رہے ہیں، ان کی خبریں دل کو ہلا دینے والی ہیں، لیکن حکمرانوں کا کہنا ہے کہ یہ خبریں ان کو بدنام کرنے کے لئے ذرائع ابلاغ نشر کر رہے ہیں۔ سینے پر ہاتھ رکھ کر کہنے والی بات تو یہ ہے کہ ان حکمرانوں میں ''سادات کرام‘‘ بھی شامل ہیں جن کے بزرگوں کو کربلا میں بھوکا اور پیاسا تہ تیغ کر دیا گیا، جن کا حکمرانوں سے یہی گلہ تھا کہ وہ بیت المال کو ناجائز طریقے سے استعمال کر رہے ہیں۔ جنھیں حکمرانوں کی عوام دشمنی اور عیش پسندی کا شکوہ تھا۔
مورخ مسعودی کا کہنا ہے:
یزید عیش پسند تھا، اس کے پاس شکاری جانور کتے، بندر اور چیتے تھے۔ اس کے ہاں شراب کی محفلیں جمتی تھیں۔ قتل حسینؑ کے بعد ایک دن شراب کا دور چل رہا تھا، ابن زیاد یزید کے داہنی طرف بیٹھا ہوا تھا۔ یزید نے ساقی کو مخاطب کرکے کہا: اے ساقی! مجھے ایسا جام پلا جو میری طبیعت کو سیراب کر دے، پھر ایک ایسا ہی جام ابن زیاد کو دے جو میرا ہم راز اور معتمد ہے، جو میری کامیابیوں اور کوششوں کو مستحکم کرتا ہے۔
مسعودی مزید لکھتا ہے:
بلکہ فرعون یزید سے زیادہ اپنی رعایا کے ساتھ انصاف کرتا تھا اور عوام و خاص کے ساتھ یزید سے بڑھ کر انصاف پسند تھا۔
امام حسینؑ نے یزید کی عیش کوشیوں اور عوام کے ساتھ کی گئی بے انصافیوں کے بارے میں فرمایا:
لوگو! ان حکمرانوں نے شیطان کی اطاعت اختیار کرکے رحمان کی اطاعت ترک کر دی ہے۔ فساد و فتنہ برپا کیا ہے اور اللہ کی حدود کو معطل کر دیا ہے۔ ان لوگوں نے بیت المال پر تصرف جما رکھا ہے اور شریعت الٰہی کے حلال کو حرام قرار دے دیا ہے۔
کیا آج ہم نہیں دیکھتے کہ حکمرانوں نے رحمان کی اطاعت ترک کر رکھی ہے۔ شیطان کی اطاعت اختیار کرلی ہے۔ فساد و فتنہ برپا کیا ہوا ہے۔ ملک میں انتہا پسندی اور فرقہ پرستی کا دور دورہ ہے اور اس کا خاتمہ حکمرانوں کی ترجیح دکھائی نہیں دیتا۔ ملک کے اندر ہر کوئی خوفزدہ ہو کر زندگی گزار رہا ہے اور ملک کی سرحدیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ حکمران خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔ ان کی عیش کوشیوں میں کوئی کمی دکھائی نہیں دیتی۔ پولیس عوام کی حفاظت کے لئے نہیں گویا ان کی حفاظت پر مامور ہے۔ ملک کا ایک بڑا سرمایہ ان کے کروفر کو باقی رکھنے پر خرچ ہو رہا ہے۔
حکمرانوں نے حدود الٰہی کو معطل کر رکھا ہے۔ قصاص حدود الٰہی میں سے ہے۔ عدالتوں نے جن ہزاروں قاتلوں اور دہشت گردوں کو سزائے موت دے رکھی ہے، حکمرانوں نے ان کی گویا حفاظت کا ذمہ اپنے سر لے رکھا ہے اور ان کے بارے میں کئے گئے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں کیا جا رہا ہے۔
ان لوگوں نے بیت المال پر تصرف جما رکھا ہے۔ لوگوں کے اموال میں ناجائز تصرف کرتے ہیں۔ کرپشن کے ذریعے سے انھوں نے ملک کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ اس ملک پر ان حکمرانوں نے غیر ملکی استعماری طاقتوں کو غلبہ دے دیا ہے۔ یہ ان کے گماشتے اور ان شیطانوں کے کارندے بن چکے ہیں۔ اسی کو شریعت الٰہی کے حلال کو حرام کرنا کہتے ہیں۔
امام حسینؑ نے کربلا کے قریب پہنچ کر اپنا راستہ روکنے والی یزیدی فوج کے سامنے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:
لوگو! رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اگر تم میں سے کوئی کسی ظالم حکمران کو اس حالت میں دیکھے کہ وہ محرمات الٰہی کو حلال کرتا ہے، اللہ کے عہد کو توڑتا ہے، سنت رسول کی مخالفت کرتا ہے اور اللہ کے بندوں پر زیادتی کرتا ہے تو ان حالات میں اپنی آواز یا عمل کے ذریعے جو ان کو نہ روکے تو وہ اس ظالم کی طرح مستحق عذاب ہے۔
اس صورتحال نے امام حسینؑ کو بے قرار کر دیا اور انھوں نے باطل نظام سے ٹکرانے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کو ابن جریر طبری نے ان الفاظ میں نقل کیا ہے:
اَلَا تَرَوْنَ اَنَّ الْحَقَّ لاَ یُعْمَلُ بِہٖ وَاَنَّ الْبَاطِلَ لَایُتَنَاھٰی عَنْہُ لِیَرْغَبِ الْمُؤْمِنُ فِیْ لِقَآءِ اللّٰہِ۔فَاِنِّی لَآ اَرَی الْمَوْتَ اِلّاَسَعَادَۃً وَّلَاالْحَیٰوۃَ مَعَ الظَّالِمِیْنَ اِلّاَ بَرَماً۔
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ حق پر عمل نہیں کیا جا رہا اور باطل سے روکا نہیں جا رہا، پس مومن کو چاہیے کہ اس صورتحال میں اللہ سے ملاقات کی تمنا کرے۔ ایسے میں میں موت کو اپنے لئے سعادت کے سوا کچھ نہیں سمجھتا اور ظالموں کے ساتھ زندہ رہنا مجھے ہرگز گوارا نہیں۔
آیئے ہم سب آئینۂ حسینیت میں اپنا سراپا دیکھیں۔ اپنے کردار کا حسینی کردار سے موازنہ کریں اور پھر خود سے اندازہ کریں کہ ہم معرکۂ حق و باطل میں کس طرف کھڑے ہیں۔
source : www.abna.ir