اردو
Thursday 28th of November 2024
0
نفر 0

اسلام، دوستی اور مهربانی کا مظهر


اسلام، دوستی اور مهربانی کا مظهر

 

عزیزو! اسلام کا اصول ملاپ اور میل جول ہے جدائی اور قطع تعلق نہیں۔ کیونکہ انسانوں کا ایک دوسرے سے میل ملاپ ربط و تعلق معاشرے میں موجود دراڑوں کو پرکردیتا ہے۔اور بعض اوقات باہمی ربط و تعلق نہ ہونے اور دوریوں کی وجہ سے انسان ایک دوسرے کے بارے میں بدگمانی کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان کے درمیان خلیج گہری ہو جاتی ہے۔ لیکن باہمی میل ملاپ قربت اور گفتگو کے ذریعے پتا چلتا ہے کہ سامنے والے کی فکر کیا ہے؟اسکے اہداف و خواہشات کیا ہیں؟ اسکے خواب اور تمنائں کیا ہیں؟ اسکا نکتہ نظر کیا ہے؟ اور اسی طرح فریق ثانی آپ کے متعلق تمام شناسائ حاصل کر لیتا ہے اور یوں ایک انسان دوسرے انسان کوسمجھنے لگتا ہے۔ اور یہ اسلامی معاشرے کی تنظیم کے اسرار میں سے ایک راز ہے۔ لہٰذا معاشرے میں نظر آنے والی یہ بات کہ بعض لوگ ایک دوسرے سے قطع تعلق کۓ ہوۓ ہیں اور بعض ایک دوسرے سے گفتگو تک کے روادار نہیں اسلامی اصولوں کے برخلاف ہے۔دوستی کے متعلق ایک حدیث میں حضرت امام موسی کاظم ںفرماتے ہیں: لاٰتَذہَبِ الحِشَمۃََ بَینَکَ وَبَینَ اَخِیکَ وَابقِ مِنہَا فَاِنَّ ذَہَابَہٰا ذَہٰابُ الحَیٰاءِ اپنے اور اپنے دوست کے درمیان شرم و حیا کا پردہ ختم نہ کرنا کیونکہ اس پردے کے اٹھ جانے سے حیا کا خاتمہ ہو جاتا ہے ۔ دو افراد جن کے درمیان دوستی اور رفاقت کا رشتہ قائم ہے وہ ایک دوسرے کے ساتھ دو انداز سے پیش آ سکتے ہیں:

 

1۔ ایک انداز اور طریقہ یہ ہے کہ ان کے درمیان کوئی پاس و لحاظ نہ ہو کوئی پردہ نہ رہے، سارے حجاب پارہ ہوجائں اور دونوں کے درمیان ایسی کوئی بھی چیز باقی نہ بچے۔ اس بات سے روکا گیا ہے ۔ حضرت امام کاظم ںنے تاکید فرمائ ہے کہ دو افراد کے درمیان کچھ نہ کچھ حیا باقی رہنی چاہۓ جس سے پتا چلے کہ وہ ایک دوسرے کا لحاظ کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے احترام کے قائل ہیں۔ کیونکہ اگر سارے حجاب پارہ ہوجائں اورکوئی حد باقی نہ بچے تو دونوں کی دوستی کو نقصان پہنچے گا ۔

 

2۔ دوسرا انداز و اسلوب یہ ہے کہ دونوں کے درمیان ایک حدِ فاصل قائم ر ہے وہ ایک دوسرے کے تمام رازوں سے واقف نہ ہوں اور ان کے درمیان باہمی پاس و لحاظ برقرار رہے۔ اور یہی انداز مطلوب ہے۔ ایک حدیث میں حضرت امام صادق ںفرماتے ہیں:اِن اَرَدتَ اَن یَصفُوَلَکَ وُدَّ اَخِیکَ فَلاٰ تُمٰازِحَنَّہُ (ا گر تم چاہتے ہو کہ تمہارے بھائی کے ساتھ تمہاری دوستی خالص ہو تو اس سے ہنسی مذاق نہ کرنا) ۔یہاں مذاق سے مراد گھٹیا اور غیر مہذب مذاق ہیں۔ وَلاٰتُمٰارِیَنَّہُ (اس کے ساتھ جھگڑا نہ کرنا) ۔مراد یہ ہے کہ ایسی بحث نہ کرنا جس میں بدکلامی ہو جو دوستی کو خراب کر دیتی ہے۔ وَلاٰ تُبٰاہِیَنَّہُ (اور اس کے سامنے شیخی نہ بگھارنا) ۔ یعنی اسے اپنے رتبے و مقام مال ودولت سے مرعوب کرنے کی کوشش نہ کرنا اور اپنے اس عمل کے ذریعے اس کی شخصیت کو نیچا مت دکھانا۔ وَلاٰتُشٰارَنَّہُ (اور اسے نقصان نہ پہنچانا) ۔یعنی اس کے ساتھ ایسا معاملہ نہ کرنا جس سے فتنہ و فساد سر ابھارے یاایسا عمل نہ کرنا جس سے اس کے او رتمہارے درمیان اختلاف پیدا ہو ۔

 

حضرت امام علی نقی ں فرماتے ہیں: اَلمِرَاءُ یُفسِدُ الصَّدَاقۃََ القَدِیمۃََ وَیُحلِّلُ العِقدۃََ الوَثِیقۃََ وَاَقَلُّ مٰا فِیہِ اَن تَکُونَ فِیہِ المُغٰالبۃََ جدال پرانی دوستیوں کو خراب کر دیتا ہے مضبوط رشتوں کو توڑ دیتا ہے اور اس میں کم از کم یہ ضرور ہوتا ہے کہ ایک فریق دوسرے فریق کو زیر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جدال میں کیونکہ ہر ایک کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ دوسرے کو مغلوب کرے لہٰذا یہ عمل دوستی پر منفی اثرات چھوڑتا ہے ۔ وَالمُغٰالبۃُ اُسُّ اَسبَابِ القطعیۃَِاور ایک دوسرے کو مغلوب کرنے کے لۓ کوشش ہر برائ کی جڑ ہے۔ کیونکہ مغلوب شخص محسوس کرتا ہے کہ وہ غالب کی نظر میں حقیر ہو چکا ہے جبکہ غالب رہنے والا خود کو مغلوب پر برتر محسوس کرتا ہے۔ یہ احساسات دوستانہ تعلقات میں دراڑیں ڈال دیتے ہیں اور دوستی کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔حضرت علی ںنے ہمیں متوجہ فرمایا ہے کہ اگر چغل خور لوگ ہمارے بارے میں ہمارے دوستوں کی کہی ہوئی ناروا باتیں ہمیں آ کر بتائں تو ہمیں ان کی بتائ ہوئی باتوں کو قبول نہیں کرنا چاہۓ: مَن اَطٰاعَ الوٰاشِی ضَیَّعَ الصَّدِیقَ (جوبھی چغلخور کی بات مانتا ہے وہ اپنے دوست کوضائع کر دیتا ہے) کیونکہ چغلخور کا توکام ہی منفی اور بری باتوں کو ایک دوسرے سے بیان کرنا ہے اور اس طرح وہ دوستوں کے درمیان قائم پرانی دوستیوں کو بھی نابود کردیتا ہے اور بنیادی طور پر چغلخور کا مقصد بدی پھیلانے او رایک دوسرے کے درمیان جدائ ڈالنے کے سوا کچھ اور نہیں ہوتا۔

 

حضرت علی ںنے اپنی وصیت میں محمد بن حنفیہ سے فرمایا: اِیّٰاکَ وَالعُجبَ (خود پسندی سے پرہیز کرنا) ۔یعنی ایسا نہ ہو کہ تم اپنے آپ پر ناز کرنے لگو اور اپنی شخصیت کو بزرگ و برتر سمجھنے لگو۔ وَسُوءُ الخُلقِ (بد اخلاقی سے پرہیز کرنا) ۔ایسا نہ ہو کہ تم اپنے دوستوں کے ساتھ برے اخلاق سے پیش آؤ بد کلامی کرو اور سخت رویہ اختیار کرو۔ وَقِلَُّۃ الصَّبرِ (کم حوصلگی اوربے صبری سے پرہیز کرنا) ۔ یعنی کہیں ایسانہ ہو کہ تم دوسروں کی بد سلوکی اور ان کی اذیت وآزار (خواہ عمداً ہو یا بھولے سے) کوبرداشت نہ کرو اور خبردارکہیں ایسا نہ ہو کہ اگر کوئی تمہیں اذیت پہنچاۓ تمہارے ساتھ بد سلوکی کرے اور تم ایک مدت تک حقیقت واضح ہونے کا انتظار نہ کرو۔ فَاِنَّہُ لاٰیَستَقِیمُ لَکَ عَلَی ہِذِہِ الخِصٰالِ الثَّلاٰثِ صَاحبٌ (اس لۓ کہ (تم میں) ان تین صفات کے ہوتے ہوۓ کوئی تمہاری دوستی پر باقی نہیں رہے گا۔) کیونکہ اگر تم اپنے دوستوں کے سامنے اپنی برتری اور فوقیت جتائو گے اور یہ کہو گے کہ میں تم سے برتر ہوں او رتم پست ہو یا ان کے ساتھ بد سلوکی کرو گے یا تعلقات کے دوران پیش آنے والی کمزوریوں کو برداشت نہ کرو گے تو پھر دوستی اور رفاقت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہے گی۔ وَلاٰیَزَالُ لَکَ عَلَیہٰا مِنَ النّٰاسِ مُجٰانِبُ ان صفات اورایسی شخصیت کی بناپر لوگ تم سے گریز کریں گے اورتم لوگوں سے کٹ کے رہ جائو گے۔

 

 


source : al-shia.org
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

کربلا اور اصلاح معاشرہ
مظلومیت ہی مظلومیت
اخلاق کی لغوی اور اصطلاحی تعریف
افغانستان میں قرآن کریم کی بے حرمتی، مغرب میں ...
ہندو مذہب میں خدا کا تصور و اجتماعی طبقہ بندی
مسجد اقصیٰ اسرائیلی نرغے میں
سب سے پہلے اسلام
سيد حسن نصراللہ کا انٹرويو
بازار اسلامی حکومت کے سایہ میں
دور حاضر کی دینی تحریکیں

 
user comment