کربلا سے قبل خاتونِ کر بلا کی قربانیاں
روایت ہے ''کہ ایک روز ثانیٔ زہرا قرآن کی تلاوت کر رہی تھیں اور اپنے پدرِ بزرگوار سے چند آیات کی تفسیر دریافت کی دورانِ تفسیر حضرت علی نے اشارتاً کربلا کا تذکرہ فرمایا تو جناب زینب نے جواب میں عرض کیا ۔بابا !میں اس راز سے واقف ہو ں اور مجھ کو میری ماں نے اس واقعے سے پیشگی آگاہ فرمایا ہے''
اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔
خاندانِ رسالت میں ایک نسوانی بچے کی پیدائش غم آمیز مسرت پر مبنی ایک عجیب و غریب کیفیت کا باعث بنی۔ولادت کی خبر سے جن کے دل شادان و فرحان تھے ان کی آنکھیں اسی خبر سے منسلک ایک اور اندوہناک خبر سے اشک آلود ہوئیں۔ بیٹی کی ولادت سے اہلِ عرب اسے قبل بھی مغموم ہوا کرتے تھے۔ قرآن مجید کے مطابق پورے افراد خانہ کے چہرے اترجاتے تھے۔ اور شرم کے مارے ان کی گردنیں جھک جاتی تھیں۔ لیکن خاندانِ رسالت کے رنجیدہ خاطر ہونے اور جاہل عربوں کی غمناکی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ جاہل عرب نسوانی وجود کو سرے سے ہی منحوس و معتوب جانتے تھے نیز اس کی ولادیت کو پورے قبیلے کیلئے بارگراں سمجھتے تھے۔ اور اس خفت سے دامن چھڑانے کیلئے پریشانی اور مایوسی کے عالم میں مختلف جتن کرتے تھے۔ لیکن خاندانِ نبوت کی اشکباری کا عنوان الگ ہے۔ ان کے غمزدہ ہونے کا سبب بالکل مختلف ہے۔ یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ اول الذکر قبیلہ صنفِ نازک کے وجود کو ہی بنیادی طور پر باعثِ ننگ و عار سمجھتا تھا اور ثانی الذکر خاندان وجودِنسواں کے تئیں بے حرمتی اور توہین پر متفکر ہے۔ وہ(جاہل عرب) اس نازک سی مخلوق کو طفلگی میں ہی زندہ درگور کرنے کے فراق میں ہوتے تھے۔ جبکہ یہ (خاندانِ نبوت سے تعلق رکھنے والے افراد) اس کی شخصیت کو اوج ثریاتک لے جانے کے متمنی ہیں۔ یہ ہے اس فکری انقلاب کے ثمربار اثرات جس نے نسوانیت کی کایا ہی پلٹ دی۔ اورانسانیت کے ماتھے پر شرف و عزت کا جھومر سجھایا۔ مگر اس شرف و عزت کو برقرار رکھنے نیز نسوانیت کے وقار کی سربلندی کیلئے اس خاندان کو بڑی بڑی قربانیاں دینا پڑیں جس کی روشن مثال خاندان نبوت میں ولادت پانے والی یہی بچی ہے جسے تاریخ حضرت زینب بنت علی کے نام سے یاد کرتی ہے۔ مہد سے لے کر لحد تک آپ سلام اللہ علیہا کی پوری زندگی ایثار و قربانی، جہدِ مسلسل، صبر و رضا اور جہاد فی سبیل اللہ سے عبارت ہے۔ آپ کی زندگی کا ہر ہر لمحہ داستانِ الم سے لبریزہے۔ کم سنی میں رحمت العالمین ۖجیسے اول العزم نانا کے سایہ عاطفت سے محروم ہوئیں۔ پانچ سال کی عمر میں ہی اس ہنگامہ خیزی کا بغور مشاہدہ کیا جسے بعد وفاتِ پیغمبر اور اسے پیش تر ملت اسلامیہ دوچار ہوئی۔ نیز جس کا سب سے بڑا خمیازہ اہلبیت کو بھگتنا پڑا۔ سیدہ زینب نے اپنے خاندان سے وابسطہ پانچ عظیم ہستیوں یعنی پنج تن پاک علیہم السلام کا داغ مفارقت جھیلا۔ پیغمبر گرامی ۖ کی وفات کے بعد اس نے اپنی ماں خاتون جنت کی مسلسل آہ و زاری نہ فقط سنی بلکہ اس درد و کرب کو بھی محسوس کیا۔ جو امت پیغمبر کے تئیں دل زہرا میں کروٹیں لے رہا تھا۔ اور قلیل عرصہ بعد ہی مادرام المصائب غم و الم کا کوہ گراں لئے جہانِ فانی سے رخصت ہوئیں۔ ایک کم سن بیٹی کے لئے اس سے بڑا صدمہ کیا ہوسکتا ہے کہ اسے چھوٹی سی عمر میں ہی مادرانہ مسئولیت کا سامنا کرنا پڑے۔ ایک طرف یتیمی کے مہیب سائے دوسری جانب خانہ فاطمہ کی دیکھ ریکھ۔ دنیا میں بہت سے یتیم ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی ذمہ داری کے احساس سے یتیمی کا مداوا کرتے ہیں۔ جناب زینب بھی اس قبیل کی بلاشبہ سرخیل کہلائی جاسکتی ہے۔ خانہ علی میں گو اپنی کم سنی کے باوجود اب بڑا نسوانی کردار سیدہ زنیب کو ہی نبھانا تھا۔ جس کو انہوں نے بخوبی نبھایا۔ حضرت خدیجہ کی رحلت کے بعد جس طرح شہزادی کونین نے اپنے عظیم والد گرامی جناب رسولۖخدا کے شانہ بہ شانہ اپنی ماں کے مقصد حیات اور تمنائے زیست کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا اسی طرح حضرت زینب نے بھی امیرالمومنین کے حق میں حضرت زہرا کا مشن آگے بڑھایا اور ثانی زہرا قرار پائیں۔ انگریزی زبان کی ایک مشہور کہاوت ہے کہ
"ture followers of an able personality are always able persons''.
" یعنی کسی اہل اور قابل شخصیت کے حقیقی پیرو کار اہل اور قابل اشخاص ہی ہوا کرتے ہیں"۔ ثانی زہرا کا اپنے پدر بزرگوار کا قدم بہ قدم ساتھ نبھانامحض خونی رشتہ پر ہی منحصر نہیں تھاحضرت زینب سلام اللہ علیھا اپنی شخصیت و اہلیت کی بنیاد پراپنے پدرِ بزگوار کی ایک بے مثال مونس و معاون ثابت ہوئیں یہی سبب ہے کہ حضرت علی کو اپنی اس بیٹی کی دوری گوارا نہیں تھی چنانچہ خاتون کربلا کا رشتہء ازدواج بھی پدرو دختر کے مابین جدائی کا سبب نہیں بنا ۔ تاریخ میں درج ہے کہ حضرت علی نے منصب خلافت کو زینت بخشی اور کوفے کو اپنا دارالخلافہ قرار دیا تو انہوں نے زینبِ کبریٰ کو معہ اہل عیال اپنے ہمراہ لیا، جسے یہ امر واضع ہو جاتا ہے کہ حضرت علی کی نظر میں حق کی نصرت کیلئے حضرت زینب ایک غیرمتبادل کردار کی حامل تھیں۔ باپ پیٹی کے مابین اس غیر معمولی انسیت اور قربت کا مثبت نتیجہ یہ نکلا کہ خاتون کربلا کو ما قبل کربلا کے تمام اہم اور تاریخی واقعات کا گہرا ادراک تھا وہ کربلا کے تاریخی عوامل و محرکات سے بھی واقف تھیں۔ اور امت مسلمہ کے نشیب و فراز پر ان کی گہری نظر تھی۔ انہوں نے اپنے پدرِ بزرگوار کی پچیس سالہ خاموشی، تنہائی اور گوشہ نشینی کا عالم بھی دیکھا اور علوی حکومت کے دوران ان نامساعد حالات کا بھی بغور مشاہدہ کیا جو حق مخالف سازسی عناصر کے پیدا کردہ تھے ۔
ہاں! زینب ،علی کی رزم و بزم کی عینی شاہد ہے اور انکے جلوت و خلوت سے بھی مانوس! گھر میں ''حکمتِ نبوی کے دروازے'' سے فیض یاب ہوئیں اور ان رزم آرائیوں، شورشوں، اور بغاوتوں کو قریب سے دیکھا جنہوں نے حضرت علی کو ان کے پانچ سالہ دور حکومت میں چین سے بیٹھنے نہ دیا۔ زمانے کی ان نا ہنجاریوں کا راست اثر حضرت زہرا کی اس لاڈلی پر بھی پڑا ۔ حضرت زہرا کو بھی اپنے شوہر نامدار کے تئیں اس ناقدری کا گہرا دکھ تھا۔ اس سلسلے میں دختر پیغمرۖنے جا بجا احتجاج کیا ہے بلکہ باضابطہ ایک تحریک چلائی ۔ تاریخ کا سطحی مطالہ کرنے والے افراد کا یہ گمان صد فی صد غلط ہے کہ حضرت زہرا وہ سارا غم و الم لیکر اس دنیا سے انتقال کر گیئں جو امت اور امیرالمؤمنین کے تئیں ان کے دل مبارک میں تھا ۔عکس العمل اس کے ایک پوشیدہ حقیقت یہی ہے کہ آپ نے اپنے تفکرات، تمائلات ، اپنی دیدہ وری، اپنی حق نوازی اور علی الخصوص اپنا وہ سوز و گداز اپنی اولاد میں بطورِمعنوی وراثت منتقل کر دیا۔ ایک بیٹی کی حیثت سے جناب زینب اپنی ماں کے جملہ معنوی اثاثہ کی بہترین وارث ثابت ہوئیں۔
ابھی ماں کی اندوہناک جدائی کے زخم مندمہل نہیں ہو پائے تھے کہ دلِ زینب کو ایک اور گہرا گھاؤ سہنا پڑا۔ امیرالمومنین کی شہادت نے جناب زینب کی غمزدگی میں مزید اضافہ کر دیا۔ اپنے باپ کی اس غمخوار بیٹی نے حیدرِ کرار کی اس اضطراری حالت کو بھانپ لیا تھا جو شہادت کے پیش تر لیل و نہار میں ان پر طاری تھی۔ کیونکہ امیرالمؤمنین نے کنایتاً اپنے لواحقین کو عنقریب پیش آنے والے اس المناک واقعے سے آگاہ فرمایا تھا۔عقیلۂ بنی ہاشم خدا داد فہم و ادراک سے اپنے مربی کی استعاراتی طرزگفتگو تاڑ گئیں۔ ان کی دور رس نگاہیں ایک عظیم سانحہ کی پیش بینی کر رہی تھیں۔ فطری طور پران کے قلب و ذہن میں ایک اضطرابی کیفیت پیدا ہوئی کہ جس میں ہر آن اضافہ ہو رہا تھا ۔ایک گھناونی سازش کی بھنک ان کی عصری بصیرت کی حس نے محسوس کی ہو گی۔ نتیجتاً حضرت زینب اس روح فرسا غم کو جھیلنے کی خاطر اپنے تمام قوائے صبر مجتمع کر رہی تھیں ۔
انیس رمضان ۴۰ ہجری کو وہ دل گداز لمحہ آن پہنچا جس کی وسعتِ تلخ صدیو ں کے غموں پر بھاری ہے۔''فزت ورب الکعبہ''کی صدائے پر درد مگر وسیع معنی مسجد کوفہ کے درو بام سے اٹھ کر فضاء میں گونجی۔اس انو کھی آواز کا صوتی آہنگ درد و کرب سے مملو تھا مگر معانیاتی وسعت ایک کامل انسان کی مکمل اور کامیاب زندگی کا احاطہ کئے ہوئے تھی۔ درد و کرب سے بھر پور اس ایک گونجھ سے آفاق و انفس لرز اٹھے ۔دشمنانِ علی کا تعصب اپنی آخری حد عبور کر چکا تھا۔ جس سورما نے'' تیغِ لا ''سے کفرو ضلالت کے سر خیلوں کو بے سر کیا تھا،اسی کا سر'' تیغِ مکاری ''سے دو پارہ کیا گیا ۔
خدا جانے ثانی زہرا نے وہ خون آشام منظر کس طرح دیکھا ہو گا کہ جب شیر خدا کو زخمی حالت میں لایا گیا۔ ہر حق بین آنکھ اشکباری سے نازک حالت کی.غمازی کر رہی تھی۔ اور ہر زبان سے جاری ہونے والا نالہ و شیون داستانِ الم بیان کر رہا تھا ۔یہ سر شگافتہ کیا ہوا گویا علم و حکمت اور ھدایت و معرفت کے خزینے میں دراڑ پڑ گئی ہو۔حضرت زینب کی حساس طبعیت پر اس تمام صورتِ حال کا غیر معمولی اثر پڑنا فطری تھا ۔ وہ دیکھ رہی تھی کہ خانۂ نبوت کا تیسرا ستون اب عمودی صورت میں کھڑا نہیں ہے بلکہ مسطحی انداز میں دراز پڑا ہے وہ جو اب تک اس گھر کا سہارا تھا اب خود سہارے کا طالب ہے ۔
عین ممکن ہے کہ علی کی بیٹی سوچ رہی ہو کہ انسانیت کے ایسے ہمدرد امام کو اس قدر بے دردی سے شہید کیا جانا کہاں کا انصاف ہے؟ اپنوں اور غیروں کے اس بہی خواہ کی دشمنی میں کیا کوئی اس حد تک بھی جا سکتا ہے کہ عبادت کے دوران محرابِ مسجد میں امیرالمومنین کو لہو لہان کرے؟
ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ حضرت امام حسن کو زہر دے کر شہید کر دیا گیا اتنا ہی نہیں بلکہ ان کے جنازے پر تیروں کی بارش ہوئی ۔کسی بہن کیلئے اس سے بڑھ کر قیامت اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس کے بھائی کا جنازہ اٹھنے کے بعد دوبارہ لوٹ آئے اور اس کے جنازے میں تیر پیوسطہ ہوں ۔امام حسن کے علم و حلم ، غریب پروری ، صبر و شکیبائی ، اور صلح جوئی کے بدلے میں اس گھرانے کو زہر دغا ملا جس نے امام کے جگر ِمبارک کے ساتھ ساتھ اس کی بہن کا دل ِ مبارک بھی سہ پارہ کر دیا۔
یہ شہادت ام المصائب کے رنج و تکلیف کی چوتھی کڑی تھی گویا حلقہ بہ حلقہ زنجیرِمصیبت تیار ہو رہی ہو جو خاتون کربلا کے قلب و روح کو اپنی گرفت میں لے رہی تھی ان پے در پے المناک واقعات سے خانہ نبوت مصیبت کدہ بنتا جارہا تھا اتنے بڑے اعصاب شکن مصائب صنف نازک کی شخصیت کے تارو پود بکھیرنے کیلئے کافی ہوا کرتے ہیں لیکن یہ تو خیبر شکن کی پروردہ زینب تھیں جس نے ان تمام مصائب کا مردانہ وار مقابلہ کیا اول تو یہ تربیت کا اثر تھا ثانیاً پنجتنِ پاک کی آخری یاد گار امام حسین ابھی سلامت تھے جو اپنی اس بہن کی امیدوں کے مرکز کی حیثیت رکھتے تھے۔ اس تیرہ و تار دنیا میں یہی نورانی ذات تھی جس کی بدولت زینب کی کائنات روشن تھی یہی وجہ ہے کہ زینب سفرو حضر میں، خواب و بیداری میں اسی ذات اقدس کے متعلق فکرمند رہنی لگیں۔ وہ ہر لمحہ اسی کے ساتھ متّمسک رہنا چاہتیں۔
امام حسین ایک مشفق بھائی کے ساتھ ساتھ حضرتِ زینب کی نظر میں ایک بہترین رہبر بھی تھے جب سے ان کے شعور نے آنکھ کھولی اسلام کا مجسم نمونہ حسین موجود پایا۔ انہوں نے وہ تمام آداب و اخلاق اور غیر معمولی اوصاف اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے جن کی نظیر کہیں اور نہیں مل سکتی ۔لہٰذ ان کی پیروی کو ہر صورت میں اپنے لئے باعثِ سعادت سمجھتی تھیں۔اس پر مستزاد یہ کہ انہوں نے بارہا اپنے والدین سے واقعہ کربلا کا تذکرہ نہ صرف سن رکھا تھا بلکہ اسے متعلق اپنی ذمہ داری کو بخوبی جان گئی تھیں۔ جس کے مطابق انہیں یقین محکم تھا کہ دینِ اسلام کی حفاظت کی خاطر اما م عالی مقام اپنا سب کچھ قربان کر دیں گے اور زینب کو بھی اس سلسلے میں مصائب کے تمام افلاک سے گزر کر'' صبر کے سدرة المنتہیٰ ''تک پہنچنا ہو گا۔
روایت ہے ''کہ ایک روز ثانیٔ زہرا قرآن کی تلاوت کر رہی تھیں اور اپنے پدرِ بزرگوار سے چند آیات کی تفسیر دریافت کی دورانِ تفسیر حضرت علی نے اشارتاً کربلا کا تذکرہ فرمایا تو جناب زینب نے جواب میں عرض کیا ۔بابا !میں اس راز سے واقف ہو ں اور مجھ کو میری ماں نے اس واقعے سے پیشگی آگاہ فرمایا ہے''
(بحوالہ ٔ کربلا کی شیر دل خاتون ۔ مولفہ، عائشہ بنت شاطی مصری)
بعض روایات کے مطابق حضرت علی اپنی بیٹی کو سختیاں جھیلنے کی مشق بچپن سے ہی کرواتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ خاتون کربلا اپنا کردار نبھانے کیلئے ہر وقت آمادہ دکھائی دیتی ہیں۔اور وہ تحریکِ کربلا کے ہر پڑاؤ پر امام کی بلا چوں وچرا موّید رہیں۔ جب امام عالی مقام نے کربلا کی جانب بظاہر پر خطر سفر کا آغاز کیا تو جہاں چند اکابرین نے (جن میں عبداللہ بن عباس،عبداللہ بن جعفر،عمر بن عبدالرحمان وغیرہ شامل ہیں) سفر کی ہولناکی کے پیش نظریہ مشورہ دیا تھا کہ آپ اس سفر کا ارادہ ترک کریں۔وہاں زینب کو یہ فکر لاحق تھی کہ مبادا امام عالی مقام عازمِ سفر ہوں اور سے ہمراہی کا شرف حاصل نہ ہو ۔
مدینے سے قافلۂ حسینی کی روانگی پر ہی حضرت زینب نے ایک بڑی قربانی پیش کی اس قربانی کو درک کرنے کیلئے دقتِ نظر چاہئے۔ انہوں نے کربلا برپا ہونے سے قبل ہی اپنی گھر گھرہستی مقصدِ حسین کی راہ میں نچھاور کر دی چنانچہ ان کے دو ہی فرزند قافلے میں شامل ہو سکے۔جبکہ ان کی پانچ اولادیں تھیں جنمیں عون ومحمد کربلا میں کام آئے۔باقی تین اولاد( علی،عباس، اور ایک دختر) بشمول اپنے پدرِ نامدار حضرت عبداللہ بن جعفر مدینہ میں ہی مقیم رہیں۔زینب سلام اللہ علیھا کیلئے یہ مرحلہ ایک بڑی آزمائش سے کم نہیں تھا کہ وہ صرف دو فرزند اپنے ہمراہ لے سکیں اور اپنے بہترین شریکِ حیات سمیت اپنے دو فرزند (عباس و علی)اور ایک دختر کو مدینہ میں ہی چھوڑنا پڑا۔
ایک با عفت خاتون کی زندگی کا اعلیٰ ترین مقصد اور کیا ہو سکتا ہے سوائے اس کے کہ وہ ایک مثالی گھر پروان چڑھائے۔اپنے شریک حیات کی شراکت سے اپنے گھر کو جنت کا نمونہ بنائے اور اس میں اپنی اولاد کی بہترین تربیت کا انتظام بہم رکھے۔تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ خاتون کربلا نے اس مقصد کو پا لیا تھا مگر انہوں نے ایک اور عظیم تر مقصد کی خاطر اس اعلیٰ ترین مقصد کو داؤ پر لگا لیا حضرت زینب اپنے گھر کی روح رواں تھی ان کا اپنے ہرے بھرے گھر کا تج دینا گویا اس گھر کے بے ر وح ہو نے پر موقوف تھا
اپنے ماں جائے کی معیت میں زیننب بھی مدینے سے روانہ ہوئیں اپنے شوہرِ با صفا سے انہیں روانگی کی اجازت ملی تو وہ گھر سے نکلتے ہو ئے بار بار پلٹ کر اپنے ان بچوں کی موہنی صورتوں کو تکتی رہتیں جو اپنی ماں کی آغوش سے محرومی کے احساس سے بے چین تھے گویا اپنی عظیم المرتبت ماں سے بزبانِحال ملتجی ہوں کہ مادرانہ شفقت کا اگر کوئی متبادل انتظام ممکن ہو تو اپنے ان بچوں کی خاطر کر کے جائے ۔لیکن دنیا میں چند ایک چیزیں ہی تو ہیں جن کا کوئی متبادل ہی نہیں ان میں شفقتِ مادر بھی ہے ۔
بنتِ علی کی شوہر و اولاد سے جدائی کا منظر بے جان الفاظ کے ذریعے کیھینچنا ممکن ہی نہیں۔ البتہ انہیں اس فرقت سے بھی بڑھ کر اس بات کا قلق تھا کہ بلدِ اسلام مدینے سے روحِ اسلام یعنی حسین ابن علی جا رہے ہیں او ر مدینے کے اکثر و بیشتر باشندے یا تو بے خبری کے عالم میں مگن ہیں یا اس المیہ کو سبک سمجھ رہے ہیں۔توقع کے عین مطابق ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ امام کے عازمِ سفر ہونے کی خبر سے پورا مدینہ شہر امنڈ پڑتا اور جانثاروں کی ایک بڑی جمعیت اپنے امام کے گردا گرد پروانہ وار پھرتی ۔ اس کے بر عکس چند ایک اکابرین مدینہ تو ضرور سامنے آئے مگر جانفشانی کی غرض سے نہیں بلکہ ناصحانہ طمطراق سے امام کے سامنے اپنے دور اندیش ہونے کا انہوں نے برملا اظہار کیا ۔اپنے قائد و رہبر کی بے لوث پیرو حضرت زینب کس قدر ناگوار گزری ہو گی جب اسآ نے دیکھا ہو گا کہ پیروی کے بجائے لوگ آکر امام کو ہی اپنے ارادے سے ہی دست بردار ہونے کا مشورہ دے رہے ہیں ۔
المختصر یہ مختصر سا مظلوم قافلہ اس راہ پر گامزن ہوا جس راہ میں قدم قدم پر اہلِ اقتدار نے مکر وفریب کا دام بچھا رکھا تھا ۔ہر ہر مرحلہ کارواں میں شامل افراد بالخصوص مخدارات با عظمت کواعصاب شکن حالات سے واسطہ تھا۔ اس کے با وجو د ربط و ضبط اور تسلیم و ر ضا کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیا ۔سیدہ زینب کی تقلید میں یہ سب کی سب حکم امام کے تابع رہیں ثانی ٔزہرا نے اپنے گھر کو چھوڑ کر کر بلا سے پیشتر ایک بڑی قربانی پیش کی مگر ابھی انہیں اپنے نانا کے روضے پر حاضری دے کر رخصت بھی ہو نا تھا اور مرقدِ زہرا کوالوداع کہنا تھا اس پر مستزاد یہ کہ اس مدینہ رسول کو خیر باد کہنا تھا جس سے رسول اور آل رسول کی یادیں وابسطہ تھیں۔ بالآخر کاروانِ حق پسند مدینہ سے روانہ ہو کر خوف و وہشت کے مختلف سحراووں کی خاک چھانتا ہو ا مکہ مکرمہ پہنچا مکہ جس میں چرند و پرند کو بھی بطفیل نبی ٔ کریم امان حاصل تھا لیکن اب یہی مقدس شہر امن کے غارت گروں کی کمین گاہ بن چکا تھا اور فرزند رسول ۖ اور آل رسول کا ان کے مشکل وقت میں پناہ گاہ نہ بن سکا۔حرم پاک پر بھی دشمنان اسلام کے مہیب سائے منڈلا رہے تھے۔ امام نے جب اپنی ، اپنے چند رفقا ء اور اہل و عیال کی جانوں کے تئیں خطرہ محسوس کیا تو انہوں نے ایام حج میں حرم پاک کے تقدس کی خاطر کوچ کرنے کا ارادہ کر لیا۔اور حج کو عمرے میں تبدیل کر کے وہا ں سے نکلنے کا حکم صادر فرمایا۔
زینب کا وطنِ عزیز چھوٹ چکا ہے مکہ میں بھی اس کی عزیز ترین شخصیت کے قاتل زیر احرام ہتھیار چھپائے تاک میں بیٹھے ہیں کہ کب موقع ہاتھ لگ جائے تاکہ جانِ کعبہ کو قتل کر ڈالیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اب جس منزل کی طرف امام قدم فرسا ہوئے وہا ں سے بھی مسلسل دل دہلا دینے والے پیغامات موصول ہو رہے ہیں۔اکا برین کوفہ امام کی تشریف آوری پر مصر تھے اور انہوں نے کنایتاً کوفے کے حالات کا نقشہ اپنے معتدد خطوط میں یوں کھینچا تھا
'' اما بعد !باغات سر سبز ہو گئے ہیں اور پھل پک چکے ہیں اور پیالے چھلک رہے ہیں، آپ جب چاہیں اپنے جمع شدہ لشکر کے پاس آجائیں ، آپ پر سلامتی ہو'' (تاریخِ ابن کثیر جلد ٨)
لیکن اب حالات کا رخ سو فی صد بدل چکا تھا مشہور شاعر فرذوق بن ابیہ سے مروی ہے کہ ''میں ایام ِ حج میں حرم میں داخل ہوگیا کہ اچانک مجھے حضرت حسین کی زیارت نصیب ہوئی تو میں نے عرض کیا۔کیا وجہ ہے کہ آپ ایام ِ حج میں حرم پاک کو چھوڑ کر کہیں اور جا رہیں ، اے پسر رسول میرے ماں ماپ آپ پر قربان ! آپ کس وجہ سے حج سے سبقت کر رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا اگر میں سبقت نہ کروں تو میرا خوں اسی حرم میں بہایا جائے گااور اس کی تقدیس پائمال ہو گی ۔پھر آپ نے مجھ سے پوچھا ، تمہارا تعلق کس شہر سے ہیں تو میں نے کہا میں عراقی ہوں ، آپ نے مجھ سے عراقیوں کے متعلق پوچھا تو میں نے آپ سے کہاکہ عراقیوں کے دل آپ کے ساتھ ہیں اور تلواریں بنی امیہ کے ساتھ ہیں'' (البدایہ و النہایہ جلد ہشتم )
مکہ سے روانگی کے بعد جوں ہی قافلہ امام منزل زبالہ پر پہنچا تو غریب کوفہ حضرت مسلم کی شہادت کی خبر امام کوملی آپ نے اس اندوہ ناک واقعے سے اپنی بہن کو بھی آگاہ کیا اس کے علاوہ ہانی بن عروہ جیسے جانثاروں کی شہادت کی اطلاعات آپ کو متواتر ملتی رہیں۔یہاں تک کہ حسین اپنی عظیم بہن شریکتہ الحسین سمیت کربلا میں وارد ہوئے اور ایک عظیم مشن کی تکمیل کے لئے مشترکہ طور خیمہ زن ہوئے۔
حدیثِ عشق دو باب است کربلا و دمشق
یکے حسین رقم کرد دیگرے زینب
source : abna.ir