''اصحاب الرس'' (1) كون ہيں (1) اس سلسلے ميں بہت اختلات ہے _(3)
وہ ايسے لوگ تھے جو'' صنوبر''كے درخت كى پوجاكرتے تھے اور اسے ''درختوں كا بادشاہ ''كہتے تھے يہ وہ درخت تھا جسے جناب نوح عليہ السلام كے بيٹے ''يافث'' نے طوفان نوح كے بعد ''روشن اب''كے كنارے كاشت كيا تھا ''رس''نامى نہر كے كنارے انھوں نے بارہ شہر اباد كر ركھے تھے جن كے نا م يہ ہيں: ابان ،اذر،دي،بہمن ،اسفند ،فروردين،اردبہشت ،خرداد ،تير،مرداد، شہريور،اور مہر،ايرانيوں نے اپنے كلنڈر كے بارہ مہينوں كے نام انہى شہروں كے نا م پر ركھے ہوئے ہيں _
چونكہ وہ درخت صنوبر كا احترام كرتے تھے لہذا انھوں نے اس كے بيج كو دوسرے علاقوں ميں بھى كاشت كيا اور ابپاشى كے لئے ايك نہر كو مختص كرديا انھوں نے اس نہر كاپانى لوگوں كے لئے پينا ممنوع قرار دے ديا تھا ،حتى كہ اگر كوئي شخص اس سے پى ليتا اسے قتل كر ديتے تھے وہ كہتے تھے كيونكہ يہ ہمارے خداو ں كا سرمايہ حيات ہے لہذا مناسب نہيں ہے كہ كوئي اس سے ايك گھونٹ پانى كو كم كردے _
وہ سال كے بارہ مہينوں ميں سے ہر ماہ ايك ايك شہر ميں ايك دن كے لئے عيد منايا كرتے تھے اور شہر سے باہر صنوبر كے درخت كے پاس چلے جاتے اس كے لئے قربانى كرتے اور جانوروں كو ذبح كركے اگ ميں ڈال ديتے جب اس سے دھواں اٹھتا تو وہ درخت كے اگے سجدے ميں گر پڑتے اور خوب گريہ كيا كرتے تھے _ہر مہينے ان كا يہى طريقہ كار تھا چنانچہ جب ''اسفند'' كى ابادى اتى تو تمام بارہ شہروں كے لوگ يہاں جمع ہو تے اور مسلسل بارہ دن تك وہاں عيد منايا كرتے كيونكہ يہ ان كے بادشاہوں كا دارالحكومت تھا يہيں پر وہ مقدور بھر قربانى بھى كيا كرتے اور درخت كے اگے سجدے بھى كيا كرتے_
جب وہ كفر اور بت پرستى كى انتہا كو پہنچ گئے تو خدا وند عالم نے بنى اسرائيل ميں سے ايك نبى ان كى طرف بھيجا تاكہ وہ انھيں شرك سے روكے اور خدائے وحدہ لاشريك كى عبادت كى دعوت دے ليكن وہ اس نبى پر ايمان نہ لائے اب اس نبى نے فساد اور بت پرستى كى اصل جڑ يعنى اس درخت كے قلع قمع كرنے كى خدا سے دعا كى اور بڑا درخت خشك ہو گيا، جب ان لوگوں نے يہ صور ت ديكھى تو سخت پريشان ہوگئے اور كہنے لگے كہ اس شخص نے ہمارے خداو ں پر جادو كر ديا ہے كچھ كہنے لگے كہ ہمارے خدا اس شخص كى وجہ سے ہم پر ناراض ہو گئے ہيں كيونكہ وہ ہميں كفر كى دعوت ديتا ہے_ اب بحث مباحثے كے بعد سب لوگوں نے اللہ كے اس نبى كو قتل كر نے كى ٹھان لى اور گہرا كنوں كھوداجس ميں اسے ڈال ديا اور كنوئيں كامنہ بند كر كے اس كے اوپر بيٹھ گئے اور اس كے نالہ و فرياد كى اواز سنتے رہے يہاں تك كہ اس نے جان جان افريں كے سپرد كردى،خدا وند عالم نے انھيں ان برائيوں اور ظلم و ستم كى وجہ سے سخت عذاب ميں مبتلا كر كے نيست و نابود كر ديا _
--------------------------------------------------------------------------------
(1)سورہ فرقان ايت 38 ميں اس ظالم وستمگر قوم كا ذكر موجود ہے
(2)''رس'' كا لفظ در اصل مختصر اور تھوڑے سے اثر كے معنى ميں ہے جيسے كہتے ہيں :''رس الحديث فى نفسي'' (مجھے اس كى تھوڑى سى بات ياد ہے ) يا كہا جاتا ہے ''وجد رسا من حمي'' (اس نے اپنے اندر بخار كا تھوڑا سا اثر پايا)_ كچھ مفسرين كا نظريہ يہ ہے كہ ''رس'' كا معنى ''كنواں'' ہے_ معنى خواہ كچھ بھى ہو اس قوم كو اس نام سے موسوم كرنے كى وجہ يہ ہے كہ اس كا اب تھوڑا سا اثر يا بہت ہى كم نام اور نشان باقى رہ گيا ہے يا اس وجہ سے انھيں ''اصحاب الرس''كہتے ہيں كہ وہ بہت سے كنوو ں كے مالك تھے يا كنوو ں كا پانى خشك ہو جانے كى وجہ سے ہلاك و برباد ہو گئے
(3)رجوع كريں تفسير نمونہ ج8ص386
source : www.tebyan.net