اردو
Sunday 24th of November 2024
0
نفر 0

کیا تفویض کا اعتقاد﴿ یعنی دنیا کے امور کی تدبیر ائمہ اطہارعلیھم السلام کو سونپا جانا﴾ جو بعض احادیث میں نقل کیا گیا ہے، قابل قبول ہے؟

کیا تفویض کا اعتقاد﴿ یعنی دنیا کے امور کی تدبیر ائمہ اطہارعلیھم السلام کو سونپا جانا﴾ جو بعض احادیث میں نقل کیا گیا ہے، قابل قبول ہے؟

آئمۂ سے متعلق تفویض کے اثبات میں ہمارے علم میں چند احادیث آئی ہیں کیا یہ تفویض غیر استقلالی ہے ؟ ﻋﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺳﻨﺎﻥ ﻗﺎﻝ: ﻛﻨﺖ ﻋﻨﺪ ﺃﺑﻲ ﺟﻌﻔﺮ ﻋﻠﻴﻪ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻓﺬﻛﺮﺕ ﺍﺧﺘﻼﻑ ﺍﻟﺸﻴﻌﺔ ﻓﻘﺎﻝ: ﺇﻥ ﺍﻟﻠﻪ ﻟﻢ ﻳﺰﻝ ﻓﺮﺩﺍً ﻣﺘﻔﺮﺩﺍً ﻓﻲ ﺍﻟﻮﺣﺪﺍﻧﻴﺔ ﺛﻢ ﺧﻠﻖ ﻣﺤﻤﺪﺍً ﻭﻋﻠﻴﺎً ﻭﻓﺎﻃﻤﺔ ﻋﻠﻴﻬﻢ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻓﻤﻜﺜﻮﺍ ﺃﻟﻒ ﺩﻫﺮ, ﺛﻢ ﺧﻠﻖ ﺍﻷﺷﻴﺎﺀ ﻭﺃﺷﻬﺪﻫﻢ ﺧﻠﻘﻬﺎ ﻭﺃﺟﺮﻯ ﻋﻠﻴﻬﺎ ﻃﺎﻋﺘﻬﻢ ﻭﺟﻌﻞ ﻓﻴﻬﻢ ﻣﺎ ﺷﺎﺀ, ﻭﻓﻮﺽ ﺃﻣﺮ ﺍﻻﺷﻴﺎﺀ ﺇﻟﻴﻬﻢ ﻓﻲ ﺍﻟﺤﻜﻢ ﻭﺍﻟﺘﺼﺮﻑ ﻭﺍﻻﺭﺷﺎﺩ ﻭﺍﻷﻣﺮ ﻭﺍﻟﻨﻬﻲ ﻓﻲ ﺍﻟﺨﻠﻖ, ﻷﻧﻬﻢ ﺍﻟﻮﻻﺓ ﻓﻠﻬﻢ ﺍﻷﻣﺮ ﻭﺍﻟﻮﻻﻳﺔ ﻭﺍﻟﻬﺪﺍﻳﺔ, ﻓﻬﻢ ﺃﺑﻮﺍﺑﻪ ﻭﻧﻮﺍﺑﻪ ﻭﺣﺠﺎﺑﻪ ﻳﺤﻠﻠﻮﻥ ﻣﺎ ﺷﺎﺀ ﻭﻳﺤﺮﻣﻮﻥ ﻣﺎ ﺷﺎﺀ ﻭﻻ ﻳﻔﻌﻠﻮﻥ ﺇﻻ ﻣﺎ ﺷﺎﺀ }ﻋﺒﺎﺩ ﻣﻜﺮﻣﻮﻥ * ﻻ ﻳﺴﺒﻘﻮﻧﻪ ﺑﺎﻟﻘﻮﻝ ﻭﻫﻢ ﺑﺄﻣﺮﻩ ﻳﻌﻤﻠﻮﻥ{ ﻓﻬﺬﻩ ﺍﻟﺪﻳﺎﻧﺔ ﺍﻟﺘﻲ ﻣﻦ ﺗﻘﺪﻣﻬﺎ ﻏﺮﻕ ﻓﻲ ﺑﺤﺮ ﺍﻻﻓﺮﺍﻁ ﻭﻣﻦ ﻧﻘﺼﻬﻢ ﻋﻦ ﻫﺬﻩ ﺍﻟﻤﺮﺍﺗﺐ ﺍﻟﺘﻲ ﺭﺗﺒﻬﻢ ﺍﻟﻠﻪ ﻓﻴﻬﺎ ﺯﻫﻖ ﻓﻲ ﺑﺮ ﺍﻟﺘﻔﺮﻳﻂ, ﻭﻟﻢ ﻳﻮﻑِ ﺁﻝ ﻣﺤﻤﺪ ﺣﻘﻬﻢ ﻓﻴﻤﺎ ﻳﺠﺐ ﻋﻠﻰ ﺍﻟﻤﺆﻣﻦ ﻣﻦ ﻣﻌﺮﻓﺘﻬﻢ, ﺛﻢ ﻗﺎﻝ: ﺧﺬﻫﺎ ﻳﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﻓﺈﻧﻬﺎ ﻣﻦ ﻣﺨﺰﻭﻥ ﺍﻟﻌﻠﻢ ﻭﻣﻜﻨﻮﻧﻪ. http://shiaonlinelibrary.com/الکتب/1456_بحار-الأنوار-العلامة-المجلسی-ج-٢٥/الصفحة_341 اور یہ ایک اور حدیث بھی ہے : ﻭﺃﻣﺎ ﺍﻟﻤﻌﺎﻧﻲ ﻓﻨﺤﻦ ﻣﻌﺎﻧﻴﻪ ﻭﻣﻈﺎﻫﺮﻩ ﻓﻴﻜﻢ، ﺍﺧﺘﺮﻋﻨﺎ ﻣﻦ ﻧﻮﺭ ﺫﺍﺗﻪ ﻭﻓﻮﺽ ﺇﻟﻴﻨﺎ ﺃﻣﻮﺭ ﻋﺒﺎﺩﻩ، ﻓﻨﺤﻦ ﻧﻔﻌﻞ ﺑﺎﺫﻧﻪ ﻣﺎ ﻧﺸﺎﺀ، ﻭﻧﺤﻦ ﺇﺫﺍ ﺷﺌﻨﺎ ﺷﺎﺀ ﺍﻟﻠﻪ، ﻭﺇﺫﺍ ﺃﺭﺩﻧﺎ ﺃﺭﺍﺩ ﺍﻟﻠﻪ ﻭﻧﺤﻦ ﺃﺣﻠﻨﺎ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﺰ ﻭﺟﻞ ﻫﺬﺍ ﺍﻟﻤﺤﻞ ﻭﺍﺻﻄﻔﺎﻧﺎ ﻣﻦ ﺑﻴﻦ ﻋﺒﺎﺩﻩ ﻭﺟﻌﻠﻨﺎ ﺣﺠﺘﻪ ﻓﻲ ﺑﻼﺩﻩ http://shiaonlinelibrary.com/الکتب/1457_بحار-الأنوار-العلامة-المجلسی-ج-٢٦/الصفحة_16#top
ایک مختصر
ہمارے علم کے مطابق ائمہ ﴿ع﴾ کے تفویض کے ثبوت میں چند احادیث نقل کی گئی ہیں، کیا یہ تفویض غیر محکم ہے؟ «وَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ قَالَ: کُنْتُ عِنْدَ أَبِی جَعْفَرٍ الثَّانِی(ع) فَذَکَرْتُ اخْتِلَافَ الشِّیعَةِ فَقَالَ إِنَّ اللَّهَ لَمْ یَزَلْ فَرْداً مُتَفَرِّداً فِی وَحْدَانِیَّتِهِ ثُمَّ خَلَقَ مُحَمَّداً وَ عَلِیّاً وَ فَاطِمَةَ فَمَکَثُوا أَلْفَ أَلْفِ دَهْرٍ ثُمَّ خَلَقَ الْأَشْیَاءَ وَ أَشْهَدَهُمْ خَلْقَهَا وَ أَجْرَى عَلَیْهَا طَاعَتَهُمْ وَ جَعَلَ فِیهِمْ مِنْهُ مَا شَاءَ وَ فَوَّضَ أَمْرَ الْأَشْیَاءِ إِلَیْهِمْ فَهُمْ قَائِمُونَ مَقَامَهُ یُحَلِّلُونَ مَا شَاءُوا وَ یُحَرِّمُونَ مَا شَاءُوا وَ لَا یَفْعَلُونَ إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ فَهَذِهِ الدِّیَانَةُ الَّتِی مَنْ تَقَدَّمَهَا غَرِقَ وَ مَنْ تَأَخَّرَ عَنْهَا مُحِقَ خُذْهَا یَا مُحَمَّدُ فَإِنَّهَا مِنْ مَخْزُونِ الْعِلْمِ وَ مَکْنُونِهِ»؛ (بحار الأنوار، ج 25، ص 25). ایک اور حدیث میں آیا ہے:«وَ أَمَّا الْمَعَانِی فَنَحْنُ مَعَانِیهِ وَ مَظَاهِرُهُ فِیکُمْ اخْتَرَعَنَا مِنْ نُورِ ذَاتِهِ وَ فَوَّضَ إِلَیْنَا أُمُورَ عِبَادِهِ فَنَحْنُ نَفْعَلُ بِإِذْنِهِ مَا نَشَاءُ وَ نَحْنُ إِذَا شِئْنَا شَاءَ اللَّهُ وَ إِذَا أَرَدْنَا أَرَادَ اللَّهُ وَ نَحْنُ أَحَلَّنَا اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ هَذَا الْمَحَلَّ وَ اصْطَفَانَا مِنْ بَیْنِ عِبَادِهِ وَ جَعَلَنَا حُجَّتَهُ فِی بِلَادِه»؛ (بحار الأنوار، ج 26، ص 14).

تفصیلی جوابات
توحیدی نظریہ کے مطابق، خداوند متعال کی ذات کے علاوہ کوئی مخلوق مطلق آزاد و مختار نہیں ہے۔
ذات باری تعالی کے علاوہ تمام مخلوقات اسی ذات کے مظہر اور تجلی ہیں جو اپنی ذات و صفات میں اسی ذات سے وابستہ ہیں۔ اور وہ سب مخلوقات ذاتی طور پر خداوند متعال کے محتاج ہی۔ اس بناپر کائنات میں تدبیر امور کے مانند ذاتی طور پر ہر قسم کی مداخلت اور موثر ھونا خداوند متعال سے مخصوص ہے اور ان صفات الہی کو صرف مظہر و تجلی کے عنوان سے مخلوقات سے نسبت دینا جائز ہے اور سوال میں ذکر کی گئی روایات بھی اسی نکتہ کی طرف تاکید کرتی ہیں۔
دوسری جانب سے فلسفہ اور عرفان کے مطابق کہا جاسکتا ہے کہ: انسان کامل، خداوند متعال کا بلند ترین مظہر ہے اور وجود کی جامعیت کی وجہ سے یہی انسان کامل ھستی کے بلند مقام پر فائز ھونے کے سبب، اپنے سے نچلے درجہ کی مخلوقات کے بارے میں خلق و پرورش کے سلسلہ میں ربوبی اور واسطہ کا رول ادا کرتا ہے۔ کیونکہ انسان کامل مخلوقات کے لئے خداوند متعال کے فیض کا واسطہ اور وسیلہ ھوتا ہے۔[1]
اس کے علاوہ ، امام صادق ﴿ع﴾ کے بیان کے مطابق ، انسان جس قدر ذات الہی کی عبودیت کی راہ میں فنا فی ا للہ ھونے کی کوشش کرتا ہے، اسی قدر ربوبیت کی تجلی کے مقام تک پہنچ سکتا ہے۔[2]
اس لحاظ سے تفویض اور مخلوقات کے امور کو ائمہ اطہار﴿ع﴾ کو سونپے جانے کے یہ معنی ہیں کہ وہ خداوند متعال کے فیض کا واسطہ ہیں، نہ یہ کہ وہ خداوند متعال سے الگ اور آزادانہ طور پر کوئی کام انجام دے سکیں، کیونکہ خدا کے علاوہ کسی کو معمولی حد میں بھی آزاد اور مستقل سمجھنے کا اعتقاد شرک اور خلاف توحید ہے۔

[1] گرامی، محمد علی، لولا فاطمه، ص22، دار الفکر، طبع اول، 1381ش.
[2] «العبودیة جوهر کنهها الربوبیة فما فقد من العبودیة وجد فی الربوبیة»؛ مصباح الشریعة، ج 1، ص 5، مؤسسة الاعلمی للمطبوعات، بیروت، چاپ اول، 1400ق؛ همچنین ملا حظہ ھو: «ربوبیت و انسان کامل»، سؤال 3416؛ «انسان و ربوبیت»، سؤال 10528؛ «امام علی (ع) و علم غیب و خالق زمین و رعد و برق»، سؤال 7474.


source : www.islamquest.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

زکوٰة نہ دینے کا بیان
نماز کی اہمیت اور فوائد
کمیٹی میں ڈالے گئے پیسے پر خمس کا کیا حکم ہے؟
فلسفہٴ نماز
جھاد
تقلید کیا ھے
دنیا کی حقیقت
اصول فقہ کا مختصر تعارف
علم عرفان میں عام حجاب اور خاص حجاب سے کیا مراد ...
اذان میں «حَیَّ عَلٰی خَیرِالعَمَل» کی دلیل

 
user comment