اردو
Wednesday 18th of December 2024
0
نفر 0

دینی عقل تک پہنچنے کے لئے آپ کونسے عملی طریقوں کی تجویز کرتے ہیں؟

دینی عقل تک پہنچنے کے لئے آپ کونسے عملی طریقوں کی تجویز کرتے ہیں؟

مہربانی کرکے بتائیے کہ دینی عقل تک پہنچنے کے لئے آپ کونسے عملی طریقوں کی تجویز کرتے ہیں؟
ایک مختصر
قابل بیان ہے کہ علم، ایمان اور عمل کے درمیان دائمہ رابطہ موجود ہے، انسان اس وقت دینی عقل تک پہنچتا ہے جب جس قدر وہ سمجھتا ہے اور جانتا ہے اس پر عمل کرتا ہے- روایتوں میں آیا ہے کہ:" جو کچھ جانتے ھو اس پر عمل کرو، تاکہ جو چیز نہیں جانتے ھو اس سے بے نیاز ھو جاو گے-"[1] اکثر اوقات انسان پوچھتا ہے کہ فلاں مسئلہ کیسا ہے؟ فلاں چیز کا حکم کیا ہے؟ لیکن کافی اوقات ہم بہت سی چیزوں کو جانتے ہیں، جیسے: ہم جانتے ہیں کہ جھوٹ بولنا برا ہے، غیبت کرنا بری چیز ہے- بہت سی چیزیں حرام ہیں، کئی چیزیں واجب ہیں- اگر ہم جن چیزوں کو جانتے ہیں ان پر عمل کریں، تو یہ وہی عقل تک پہنچنے کا پہلا قدم ہے -پہلے قدم پر انسان کو سادگی کے ساتھ ان چیزوں کی فہرست مرتب کرنی چاہئیے جنھیں وہ جانتا ہے- حرام چیزوں سے پرہیز کرے اور واجب چیزوں پر عمل کرے اور اس کے بعد ان کا اثر دیکھے- بقول ( عارف باللہ) مرحوم آیت اللہ بہاءالدین": تجربہ علم کی بہترین راہ ہے-"جب انسان تکالیف الہی کو بجالانے کا پابند ھوتا ہے، تو اس میں بصیرت پیدا ھوتی ہے، اس کے دل میں ایک ایسا نور پیدا ھوتا ہے کہ اس کے بعد دوسری چیزوں کو بہتر سمجھ سکتا ہے، اس میں ایک عمیق ادراک پیدا ھوتا ہے- جب یہ ادراک عروج پیدا کرتا ہے تو انسان کا اعتقاد قوی ھوتا ہے- ایمان، علم کے علاوہ ایک اختیاری فعل ہے، ممکن ہے ایک شخص علم رکھتا ھو اور دوسرا شخص یقین رکھتا ھو- انسان کو اگر اپنے علم پر یقین پیدا ھو جائے ، یہ اختیاری فعل ہے اور اس وقت علم زیادہ ھوتا ہے ، اور یہ امر نیک عمل کی روشنی میں شکوفائی پیدا کرتا ہے اور انسان کلی عقل تک پہنچتا ہے اور قدم بہ قدم اس کے قریب ھو جاتا ہے اور اس کے قریب ھوکر اس کے فہم و معرفت میں اضافہ ھوتا ہے- اس بنا پر یہ راستہ قابل عمل اور سادہ ہے- جو لوگ ( عارف بااللہ)مرحوم حضرت آیت اللہ بہاء الدینی کی خدمت میں حاضر ھوتے تھے اور کمال تک پہنچنے کے نسخہ کی درخواست کرتے تھے تو وہ ایک تنہائی سادہ نسخہ بیان فرماتے تھے، اور فرماتے تھے:" گناہ سے پرہیز کیجئے، اس کے معنی تکلیف الہی پر عمل کرتا ہے ، کیونکہ گناہ سے پرہیز کرنا، یعنی واجبات کو بجا لانا، کیونکہ ترک واجنات حرام ہے-" وہ فرماتے تھے:" اسے انجام دو باقی خود ٹھیک ھو جائے گا-"

[1] - حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج 27، 164، موسسہ آل البیت ، قم 1409 ق-


source : www.islamquest.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اللہ کی مرضی ہی اہلبیت (ع) کی رضا ہے
مولا کا مفہوم امام سے اعلي ہے
جبر و اختیار کی وضاحت
دینی عقل تک پہنچنے کے لئے آپ کونسے عملی طریقوں کی ...
مرجع تقلید کے ہوتے ہوئے ولی فقیہ کی ضرورت کیوں؟
غدیر ھمارا پاک و پا کیزہ عقیدہ
الله تعالی نے انسان کو کس مقصد کے لئے خلق فرمایا ...
کیا خداوند متعال کی حکمت کو ثابت کیا جاسکتا ہے؟
اخلاص کا نتیجہ
ادیان کے درمیان گفتگو کی ضرورت اور اس کے آداب

 
user comment