قرآن تین پهلوؤں سے معجزه هے:الف۔ لفظ ب۔ معنی ج۔ اس کا لانے والا۔ یه تینوں جهتیں کس حد تک اس کے الهی هونے پر دلالت کرتی هے؟
ایک مختصر
کلی طور سے اعجاز کی بعض و جهتیں ظاهر کرتی هیں که قرآن اس زمانه میں اور کسی بھی زمانه میں غیر خدا کی طرف سے لایا هوا نهیں هو سکتا۔ مثلا قرآن کا بلاغتی معجزه که کسی خاص زمان و مکان سے مخصوص نهیں هے اور یه شیوه بیان کسی کے بس میں نهیں هے نه اس زمانه میں اورنه مستقبل میں۔
لیکن اعجاز کی بعض وجهیں صرف اس حد تک دلالت کرتی هیں که اس زمانه میں ممکن نه تھا که قرآن غیر خدا کی طرف سے تصور کیا جاتا۔ مثلا اس کی دوسری وجه یعنی قرآن کےمعانی و مطالب (اس صورت میں که هم یه فرض کریں که قرآن کے تمام علوم و معارف اس وقت لوگوں کی ﺴﻤﺠﮭ میں آگئے هیں اور انسان کی دسترس میں هیں ) دوسری طرف اعجاز کی بعض وجهیں قرآن لانے والے که خصوصیت کی طرف بھی اشاره کرتی هیں۔ یعنی نه ماضی میں، نه حال میں اور نه مستقبل میں کوئی ایسا شخص جس نے دنیا میں کهیں درس نه پڑھا هو ایسی کتاب لانے پر قادر نهیں هے۔ جبکه اعجاز کی بقیه وجهیں قرآن کو هر جاهل و عالم کے لئیے هر زمانه و هر مکان میں تاریخی معجزه بتاتی هیں یعنی ابد تک کوئی انسان اس طرح کی کتاب خلق نهیں کر سکتا۔
اب یه دیکھنا چاهئے که مذکوره وجهوں میں سے کون سے وجهیں قرآن کے الهی هونے کو کس مقدار میں ثابت کرتی هیں۔ (ایک قول یه هیں که ) قرآن لانے والے کی حیثیت سے اعجاز فقط اس بات کو ثابت کرتا هے که مفاد قرآن خداوند عالم کے جانب سے هے لیکن یه که الفاظ بھی اس کی جانب سے هیں یه ثابت نهیں هوتا۔[1]
اب اگر یه کها جائے که حضرت رسول اکرم (صل الله علیه و آله وسلم) اپنی جانب سے ایسے الفاظ کا انتخاب نهیں کر سکتے تھے ،یا ایسی تعبیر میں استعمال نهیں کرسکتے تھے، پس الفاظ ، عبارتیں اور ترکیبیں بھی الهی هیں ،تو هم یه کهیں گے که یه بات قرآن کی فصاحت و بلاغت اور در حقیقت قرآن کے بلاغتی اعجاز سے تعلق رکھتی هے ۔ نتیجه میں یه وجه قرآن لانے والے کے اعجاز کی حیثیت سے شمار نهیں هوگی ،مگر یه که یه دعویٰ کیا جائے که هر چند که هم یه ثابت نه کر پائیں که اس طرح کی بلاغت خدا سے مقدور نهیں هے لیکن کم از کم رسول خدا (صل الله علیه و آله وسلم) سے تو یه چیز بهر حال مقدور نهیں تھی ۔ اس فریضه کے ساﺗﮭ اور اس وجه پر تکیه کرتے هوئے یه نتیجه نکالا جا سکتا هے که قرآن کے الفاظ ،عبارتیں اور ترکیبیں سب خداوند عالم کی جانب سے هیں۔وه چار چیزیں جو قرآن کے معانی و مطالب کے اعجاز کے سلسله میں ذکر کی جاتی هیں ،[2] صرف اس کے مفاد کے الهی هونے کوثابت کر سکتی هیں ،لیکن قرآن کے لفظی اعجاز کی وجهیں بلاغتی و عددی اعجاز یه ثابت کرتی هیں که قرآن کے الفاظ و ترکیبیں بھی الهی هیں[3] ۔ اسی طرح وه آیتیں بھی جو ایک دوسرے سے مربوط هیں اور حقیقت میں ایک هی سیاق رکھتی هیں وی بھی قرآن کے الهی هونے کو ثابت کرتی هیں ،لیکن ان امور سے بالا تر یه کیسے ثابت کیا جاسکتاهے که تمام آیتیں ،( چا هے ان میں سیاق کے اعتبار سے اتحاد نه پایا جاتا هو)سوروں کا وجود نیز تمام سورے اور اس قرآن کی پیدائش جو اس وقت همارے هاتھوں میں هے ،الهی هے؟
اس سوال کا جواب معمولا "تاریخ قرآن "کی بحث میں ذکر هوا هے [4] بعض اهل سنت اور بیشتر مستشرقین نے اس نکته کو هوا دی هے که جمع قرآن ،سوروں کی پیدائش ،سوروں کا جمع کیا جاتا اور تشکیل پانا اور موجوده قرآن کا ظهور و وجود پیغمبر اکرم صل الله علیه و آله وسلم کی رحلت کے بعد عمل آیا هے ۔[5]-[6]
مزید مطالعه کے لیئے ماخذ:
هادوی تهرانی ،مھدی ،مبانی کلامی اجتهاد۔
[1] بعض لوگ اسی بات کو قبول کرتے هیں اور کهتے هیں که : اگر چه قرآن کا مفاد و معنی الهی لیکن اس کے الفاظ خود پیغمبر اکرم صل الله علیه وآله وسلم کے هیں۔ جبکه ماضی اورحال کے تقریبا تمام علمائے اسلام معتقد هیں که : حدیث قدسی اور قرآن میں یهی فرق هے که حدیث قدسی کا مفاد الهی هے لیکن الفاظ بشری هیں اور خود پیغمبر اکرم صل الله علیه و آله وسلم کی جانب سے هیں ،جبکه قرآن کے الفاظ بھی خدا کی جانب سے هیں
[2] عنوان "اعجاز قرآن "ملاحظه هو۔
[3] شاید قرآن کے بلاغتی اعجاز پر ماضی سے حال تک همارے علماء کی تاکید کی وجه یهی هے که وه اس کی دلالت کے دائره کو بیشتر اور وسیع دﯿﮐﮭ رهے تھے۔
[4] نمونه کے طور پر ان کتابوں کی طرف رجوع کریں : ابوعبدالله زنجانی ۔تاریخ القرآن؛ محمود رامیار ،تاریخ قرآن؛ سید محمد باقرحجتی ،پژوهشی در تاریخ قرآن ۔ سید محمد رضا جلالی نائینی ،تاریخ جمع قرآن کریم۔
[5] عنوان :"جمع قرآن " ملاحظه هو۔
[6] ھادوی تهرانی ،مهدی۔ مبادی کلامی اجتهاد،صص52-53 موسسه فرهنگی خانه خرد، قم،چاپ اول
source : www.islamquest.net