اردو
Thursday 5th of December 2024
0
نفر 0

کیا جنگ نہروان میں خوارج گمراہ ھوئے تھے؟ کیا حضرت علی {ع} کو معاویہ کے فتنہ کی آگ بجھانے میں شک و تذبذب تھا؟

کیا جنگ نہروان میں خوارج گمراہ ھوئے تھے؟ کیا حضرت علی {ع} کو معاویہ کے فتنہ کی آگ بجھانے میں شک و تذبذب تھا؟

میری نظر میں جنگ نہروان کے بارے میں خوارج میں سے کوئی فرد گمراہ نہیں ھوا تھا، کیونکہ حضرت علی {ع} کو معاویہ کے فتنہ کی آگ کو بجھانے کے سلسلہ میں شک اور تذبذب تھا اور انھیں معاویہ کے منافق ھونے پر یقین نہیں تھا، کہ اسے قتل کیا جاتا-
ایک مختصر

خوارج، حضرت علی {ع} کے پیرووں کے ایک گروہ کے افراد تھے، جو جنگ صفین میں، حکمیت کے سلسلہ میں حضرت علی {ع} سے مخالفت کی بنا پر حضرت علی {ع} سے جدا ھوئے اور آپ {ع} کی اطاعت کرنے سے منھ موڑ کر خارج ھو گئے تھے- اس لحاظ سے انھیں " مارقین" بھی کہتے ہیں-

خوارج کی گمراہیاں:

اس گروہ کی گمراہیاں بہت ہیں اور ہم یہاں پر مثال کے طور پر ان میں سے صرف چند گمراہیوں کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:

۱- اہل سنت کے عقائد کے مطابق حضرت علی {ع} پیغمبر اکرم {ص} کے چوتھے خلیفہ تھے، اور شیعوں کے عقائد کے مطابق حضرت علی {ع} رسول اللہ {ص} کے پہلے امام، وصی اور جانشین تھے اور واجب الاطاعت تھے، لیکن اہل نہروان نے حضرت علی{ع} کی مخالفت کر کے آپ {ع} سے جدائی اختیار کی اور سر انجام حضرت علی{ع} کے ساتھ جنگ کی اور یہ ان کی سب سے بڑی گمراہی تھی-

۲- خوارج، جو دینی علم و نظریہ سے عاری تھے، نے جنگ صفین میں شامیوں کی طرف سے ایک حیلہ کی بنا پر قرآن مجید کو نیزوں پر بلند کرنے پر کہا: یہ لوگ بھی ہمارے مانند مسلمان ہیں، اس لئے ہمیں ان سے جنگ نہیں کرنی چاہئے، اور علی{ع} کو حکمیت کو قبول کرنے پر مجبور کیا جو امویوں کے ساتھ کسی قسم کی سازش کرنے پر راضی نہیں تھے- لیکن اسی حکمیت کو حضرت علی {ع} کی طرف سے قبول کرنے پر ان ہی خوارج نے آپ {ع} کی مخالفت کی-

۳- خوارج کے، امام علی {ع} پر اعتراضات میں سے ایک اعتراض یہ تھا کہ وہ کہتے تھے کہ آیہ شریفہ " ان الحکم الا للہ" کی بنا پرحکم صرف خداوند متعال سے مخصوس ہے، اس لحاظ سے حکمین کی رائے کو قبول کرنا، یعنی قرآن مجید اور مذکورہ آیہ شریفہ کی نسبت عدم توجہ ہے- اس آیہ شریفہ کے بارے میں اس قسم کا غلط تصور اس فرقہ کی دوسری گمراہی تھی-

۴- اس گروہ کی گمراہیوں میں سے ایک اور گمراہی یہ تھی کہ وہ کہتے تھے: جو شخص گناہ کبیرہ کا مرتکب ھو جائے وہ کافر ہے اور اسلام کے دائرے سے خارج ہے، مگر یہ کہ توبہ کرکے دوبارہ مسلمان بن جائے- اس بنا پر وہ مسلمانوں { ان کے بقول کفار} کی جان و مال کو مباح جانتے تھے-

لیکن حضرت علی {ع} کے معاویہ سے جنگ کے بارے میں شک و تذبذب کے سلسلہ میں حضرت علی{ع} کے اس بیان پر توجہ کرنا کافی ہے، جب شامی جنگ صفین میں بھاگ گئے، اس وقت حضرت نے فرمایا: { جاو} اور ان کے بچے کھچے افراد، جو شیاطین کے دوست ہیں، کو {بھی} قتل کر ڈالو، ان افراد کو قتل کرو جو یہ کہتے ہیں کہ خدا اور اس کے پیغمبر نے جھوٹ بولا ہے-

اس بنا پر حضرت علی{ع} کو معاویہ سے جنگ کرنے میں کسی قسم کا تذبذب اور شک نہیں تھا بلکہ وہ مصمم تھے اور اپنے ساتھیوں کی بھی اس سلسلہ میں ہمت افزائی فرماتے تھے-
تفصیلی جوابات

ہم آپ کے سوال کا ایک مناسب جواب دینے کے لئے مندرجہ ذیل دو حصوں پر بحث کریں گے:

اول: کیا خوارج جنگ نہروان کے سلسلہ میں گمراہ ھوئے تھے-

دوم: کیا حضرت علی{ع}، معاویہ کے فتنہ کی آگ کو بجھانے کے سلسلہ میں تذبذب اور شک سے دوچار تھے؟ یعنی یقین نہیں رکھتے تھے کہ معاویہ منافق ہے اور اسے قتل کیا جانا چاہئے؟

اس بحث کو شروع کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ اس گروہ کے بارے میں کچھ وضاحتیں بیان کی جائیں:

اس گروہ کو مارقین، خوارج اور نہروانیوں کے ناموں سے پہچانا جاتا ہے-

عربی لغت میں "مرق" خروج کے معنی میں ہے، چنانچہ کہا جاتا ہے:یمرق السھم من الرمیۃ"یعنی تیر، کمان سے خارج ھوتا ہے"-[1]

ہم، ائمہ اطہار{ع} کے اوصاف میں پڑھتےہیں: " الراغب عنکم مارق"[2] مارقین وہ لوگ ہیں، جو دین خدا سے خارج ھوکر پیغمبر {ص} کے جانشین سے جنگ کرنا جائز جانتے ہیں-[3]

بہ الفاظ دیگر، خوارج، حضرت علی {ع} کے پیرووں کے ایک گروہ کے افراد تھے، جو جنگ صفین میں، حکمیت کے سلسلہ میں حضرت علی {ع} سے مخالفت کی بنا پر حضرت علی {ع} سے جدا ھوئے اور آپ {ع} کی اطاعت کرنے سے منھ موڑ کر خارج ھو گئے تھے- اس لحاظ سے انھیں " مارقین" بھی کہتے ہیں-[4]

 

پیغمبر اکرم {ص} کے بیانات میں " خوارج":

چونکہ خوارج، بظاہر مسلمان، اہل نماز و روزہ اور تہجد تھے اور بہت سے مسلمانوں کے لئے اس گروہ کو پہچاننا اور ان سے جنگ کرنا بہت سخت اور دشوار تھا، اس لحاظ سے پیغمبر اسلام {ص} نے قبل از وقت اس گروہ کے خطرات کے بارے میں آگاہ فرمایا تھا اور ان کو پہچاننے کی کچھ نشانیاں بھی بیان فرمائی تھیں، مثال کے طور پر:

الف- آنحضرت {ص} نے خوارج کے بارے میں فرمایا ہے:" میری امت میں ایک دن ایک نیک گفتار لیکن بدکردار گروہ پیدا ھوگا، وہ لوگ، لوگوں کو خدا کی کتاب کی طرف دعوت دیں گے جبکہ خود اس کے بارے میں بے خبر ھوں گے، قرآن مجید کو پڑھتے ھوں گے، لیکن اس کو پڑھنے سے کوئی فائدہ نہیں لیں گے- دین سے اس طرح خارج ھوں گے، جس طرح کمان سے تیر نکل جاتا ہے، وہ دین کی طرف دوبارہ پلٹ کر نہیں آئیں گے، یہ بدترین مخلوقات ہیں ، مبارک ھو اس کو جو اس گروہ کے ہاتھوں قتل ھو جائے یا ان کے ساتھ جنگ کرے گا اور انھیں قتل کرے گا اور جو شخص ان لوگوں کو قتل کرے گا، خدا کے حضور اس کا مقام ان لوگوں سے شائستہ تر ھوگا، اس دوران عرض کی گئی: یا رسول اللہ؛ ان لوگوں کی نشانی کیا ہے؟ آنحضرت {ص} نے فرمایا: اس گرو کی نشانی یہ ہے کہ وہ سر منڈوائے ھوں گے- اس حدیث کو انس بن مالک نے حضرت رسول خدا {ص} سے نقل کیا ہے-[5]

ب- پیغمبر اکرم {ص} نے علی{ع} سے مخاطب ھوکر فرمایا:" میرے بعد تم ناکثین { اصحاب جمل}، قاسطین{ اصحاب معاویہ} اور مارقین{ خوارج} سے جنگ کروگے-[6]

ج- حضرت علی{ع} نے خوارج کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے جاتے ھوئے فرمایا:" اگر مجھے اس چیز کا ڈر نہ ھوتا کہ تم اس جہاد پر کئے ھوئے اجر کے بھروسہ سے عملا مکر جاو گے، تو بیشک تمھیں خبر دیتا کہ پیغمبر اکرم {ص} نے ان افراد کی گمراہی کے پیش نظر ان سے جنگ کرنے کے سلسلہ می دور اندیشی اور بصیرت کے پیش نظر کیا بیان فرمایا ہے، اور بیشک ان کے درمیان ایک مرد ہے، جس کا ایک ہاتھ چھوٹا اور ناقص ہے، اور عورتوں کے جیسے پستان رکھتا ہے اور یہ خدا کے بدترین بندے اور مخلوقات ہیں اور ان کے ہاتھوں قتل کئے گئے افراد، تقرب و وسیلہ کے لحاظ سے خدا کے نزدیک ترین بندے ھوں گے- اس مرد کا لقب مخدج {ناقص} تھا، وہ اس گروہ میں مشہور نہیں تھا، جب مارا گیا اما م علی{ع} نے اس کی لاش کو لاشوں کے درمیان سے تلاش کر لیا اور اس کے پیراہن کو چاک کرکے دیکھا تو اس کے شانوں پر عورت کے مانند پستان تھے- جب حضرت علی{ع} نے اسے تلاش کرلیا تو، تکبیر بلند کر کے فرمایا: بیشک یہ مرد چشم بصیرت رکھنے والوں کے لئے ایک عبرت ہے"-[7]

خوارج کی گمراہیاں:

خوارج کی گمراہیاں زیادہ ہیں، ہم یہاں پر ائمہ معصومین {ع}[8] کی روایتوں سے استفادہ کرتے ھوئے ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

۱- رسول اللہ {ص} کے خلیفہ اور معصوم امام کے خلاف خروج:

۱- اہل سنت کے عقائد کے مطابق حضرت علی {ع} پیغمبر اکرم {ص} کے چوتھے خلیفہ تھے، اور شیعوں کے عقائد کے مطابق حضرت علی {ع} رسول اللہ {ص} کے پہلے امام، وصی اور جانشین تھے اور واجب الاطاعت تھے، لیکن اہل نہروان نے حضرت علی{ع} کی مخالفت کر کے آپ {ع} سے جدائی اختیار کی اور سر انجام حضرت علی{ع} کے ساتھ جنگ کی اور یہ ان کی سب سے بڑی گمراہی تھی- اس لحاظ سے ہم دیکھتے ہیں کہ اہل سنت کے معتزلہ اور اشاعرہ بھی خوارج کو کافر جانتے ہیں-[9]

جب حضرت علی {ع} نے عبداللہ بن عباس کو خوارج کے پاس بھیجا، تو انھوں نے ان کے پاس جاکر کہا:" اے دوستو؛ تعجب کی بات ہے تم اس نامناسب امر کے مرتکب ھوئے ھو اور اپنے امام کے بارے میں باغی ھوکر خارج ھوئے ھو؟"[10]

۲-دین کو غلط سمجھنے کی بناپر حکمیت کو قبول کرنے پر اصرار:

خوارج، بعض ممالک کی بلا منصوبہ فتوحات کی پیداوار تھے، وہ اسلام کے بارے میں عمیق نظریہ نہیں رکھتے تھے بلکہ ظاہر بین تھے اور دینی علم و نظریہ سے عاری تھے، انھوں نے جنگ صفین میں شامیوں کی طرف سے ایک حیلہ کی بنا پر قرآن مجید کو نیزوں پر بلند کرنے پر کہا: یہ لوگ بھی ہمارے مانند مسلمان ہیں، اس لئے ہمیں ان سے جنگ نہیں کرنی چاہئے، اور علی{ع} کو حکمیت کو قبول کرنے پر مجبور کیا جو امویوں کے ساتھ کسی قسم کی سازش کرنے پر راضی نہیں تھے- لیکن اسی حکمیت کو حضرت علی {ع} کی طرف سے قبول کرنے پر ان ہی خوارج نے آپ {ع} کی مخالفت کی-

حضرت علی {ع} خوارج کو نصیحت کرتے ھوئے فرماتے ہیں:" جب شامیوں نے حیلہ اور سازش کی بناپر قرآن مجید کو نیزوں پر بلند کیا، تو کیا تم لوگوں نے یہ نہیں کہا کہ: یہ لوگ ہمارے بھائی اور ہم مسلک ہیں؟ انھوں نے ہم سے امان کی درخواست کی ہے اور کتاب خدا کا سہارا لیا ہے، پس ہم جانتے ہیں کہ ان کی بات کو مان کر ان سے پیچھے ہٹیں؟ اور میں نے تمھارے جواب میں کہا: یہ ایک ایسا کام ہے جس کا ظاہر ایمان اور باطن دشمن اور عداوت کے سوا کچھ نہیں ہے، ابتداء میں رحمت ہے لیکن انجام پشیمانی اور ندامت ہے، پس اپنی اسی حالت میں باقی رہ کر اپنی پہلی راہ سے گمراہ نہ ھو جاو اور جہاد میں استقامت کا مظاہرہ کرکے ہر بات پر اعتبار نہ کرو، کیونکہ ان آوازوں کا جواب دینے کی صورت میں یہ آوازیں تمھیں گمراہ کریں گی اور اگر ان کی طرف اعتنا نہ کرو تو وہ ذلیل و خوار ھوکر رہیں گے-[11]

لیکن ہم مشاہدہ کر رہے ہیں کہ انھوں نے اپنے امام کی نصیحتوں پر عمل نہیں کیا اور گمراہ ھوئے-

۳-آیہ شریفہ" ان ا لحکم الا للہ" سے تمسک کرنے میں گمراہی:

خوارج کی ایک اہم گمراہی، وہ اعتراض تھا جو وہ امام علی پر کرتے تھے اور کہتے تھے:"آیہ شریفہ" ان الحکم الا للہ"[12] کی بنا پر، حکم صرف خداوند متعال سے مخصوص ہے، اس لحاظ سے حکمین کی رائے کو قبول کرنا، یعنی قرآن مجید اور مذکورہ آیہ شریفہ پر توجہ نہیں کرنا ہے-

اگر چہ حکمیت کو مسترد کرنے میں اس آیہ شریفہ کے بارے میں ان کا استدلال باطل ھونا اظہر من الشمس ہے، لیکن پھر بھی ہم اس کی اہمیت کے پیش نظر اس استدلال کو مسترد کرنے والے چند حلی اور نقضی دلائل کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

حلی جواب:

حضرت علی {ع} نے حکمین کے مسئلہ میں فرمایا: ہم نے اختلاف کو دور کرنے کے سلسلہ میں اور جنگ کو خاتمہ بخشنے کے لئے کسی فرد کو حکم قرار نہیں دیا ہے، بلکہ صرف قرآن مجید کو حکمیت کے لئے منتخب کیا ہے، اور چونکہ قرآن مجید ہمارے درمیان جلد میں پوشیدہ خطوط پر مشتمل ہے، اور خود بولتا نہیں ہے اور اس کو ترجمان کی ضرورت ہے اور صرف انسان اس کے بارے میں بات کرسکتے ہیں، جب اس قوم نے ہمیں دعوت دی کہ ہمارے درمیان قرآن مجید حاکم ھونا چاہئے، تو ہم وہ لوگ نہیں تھے جنھوں نے خداوند متعال کی کتاب سے منھ موڑا ھو، جبکہ خداوند متعال نے ارشاد فرمایا ہے: " اگر آپس میں کسی بات میں اختلاف ھوجائے تو اسے خدا اور اس کے رسول کی طرف پلٹا دو"-[13] اختلافات کو خدا کی طرف پلٹا دینا یہ ہے کہ اس کی کتاب کو حاکم قرار دیا جائے اور اختلافات کو پیغمبر کی طرف پلٹا دینے کا مطلب یہ ہے کہ ہم آپ {ص} کی سنت سے تمسک پیدا کریں، اگر حقیقت میں کتاب خدا کو فیصلہ دینے میں دعوت دی جائے، تو ہم سزاوار ترین لوگ ہیں اور اگر پیغمبر {ص} کی سنت کی طرف حکم کیا جائے تو ہم آپ {ص} کی سنت کے سزاوار ترین افراد ہیں اس بنا پر دونوں صورتوں میں حق ہمارے ساتھ ہے"-[14]

حضرت علی {ع} نے ایک اور بیان میں ان کا جواب دیتے ھوئے فرمایا:" کلمۃ حق یراد بھا الباطل"[15]

چونک، خوارج کے جملہ" لا حکم الا للہ" سے مراد یہ تھی کہ جو بھی حکم خدا کی کتاب میں نہ ھو، اس کی پیروی کرنا جائز نہیں ہے اور اس پر عمل کرنا مناسب نہیں ہے- حضرت علی{ع} نے فر مایا:" البتہ، خدا کے حکم کے علاوہ کوئی حکم نہیں ہے، لیکن خوارج غیر خدا کے حکم سے انکار کر کے غیر خدا کی فرمانروائی کا انکار کرنا چاہتے تھے- اس طرح جب غیر خدا کے لئے کوئی حکم و دستور نہ ھو، تو غیر خدا کی حکومت اور فرمان کی بھی نفی ھوتی ہے، کیونکہ حکم کا استنباط اور معاشرہ کی بھلائی کو مد نظر رکھنا اور لوگوں کے حالات کی رعایت کرنا حکومت کی ذمہ داریوں میں سے ہے- خوارج کے ذریعہ غیر خدا کی نفی کرنا، انسانوں کی حکومت کی نفی کا سبب بن جاتا ہے- خوارج کے ذریعہ حکومت کی نفی کرنا اس امر کا سبب بنا کہ امام {ع} ان کو جھٹلاتے ھوئے فرمائیں: " بیشک لوگوں کے لئے ایک نیک یا برا امیراور سر پرست ھونا چاہئے"- بہ الفاظ دیگر، چونکہ خوارج نے غیر خدا کی نفی کی ہے تو، حقیقت میں انھوں نے حکومت کی نفی کی ہے، لیکن غیر خدا کی حکومت کی نفی کرنا ایک باطل امر ہے، در نتیجہ خوارج کا دعوی بھی باطل ہے"- اس کے بعد حضرت علی {ع} نے فرمایا: " لیکن معاشرہ کے لئے ایک نیک یا بد امیر کا ھونا ضروری ہے- اس بنا پر خوارج کا یہ کہنا کہ خدا کے مخصوص حکم کے علاوہ کوئی حکم نہیں ہے، خدا کی طرف سے قابل قبول و قابل نفاذ نہیں ہے، اس لئے مسترد ہے-[16]

نقضی جواب:

اگر ہم اس آیہ شریفہ کو خوارج کے معنی کے مطابق قبول کریں، تو ہماری، انبیاء اور اماموں کی روز مرہ زندگی میں بہت سے نقض پیدا ھوتے ہیں، کہ ہم ان میں سے بعض کی طرف ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:

امام باقر {ع} نے ناقع سے فرمایا:" ان مارقہ{ خوارج} سے کہدو کہ انھوں نے امیرالمومنین{ع} سے جدا ھونے کو کیسے جائز جانا، باوجودیکہ انھوں نے حکمیت سے پہلے آپ {ع} کی پیروی اور خدا سے تقرب کی روشنی میں آپ {ع} کی مدد کرکے آپ {ع} کے رکاب میں خون بہایا تھا؟ وہ جواب میں کہیں گے: انھوں نے دین خدا کے بارے میں حکمیت کو قرار دیا- تو ان سے کہدو:

الف- خود، خدا وند متعال نے بھی اپنے پیغمبر کی شریعت میں اپنے بندوں میں سے دو مردوں کو حکمیت سونپی ہے، جہاں پر { میاں بیوی کے درمیان اختلافات کے سلسلہ میں } فرمایا:" اور اگر دونوں کے درمیان اختلاف کا اندیشہ ھو تو ایک حکم مرد کی طرف سے اور ایک عورت والوں کی طرف سے بھیجو، پھر وہ دونوں اصلاح چاہیں گے تو خدا ان کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرے گا"[17]

ب-رسول خدا {ص} نے جنگ بنی قریظہ کے سلسلہ میں، فیصلہ کرنے کے لئے سعد بن معاذ کو حکم قرار دیا- - - - [18]

اس لئے حضرت علی {ع} پر کوئی اعتراض قابل قبول نہیں ہے بلکہ آپ{ع} نے خدا کی کتاب اور رسول اللہ {ص} کی سنت پر عمل کیا ہے-

۴- گناہ کبیرہ کے مرتکب کو کافر جاننا، ایک اور گمراہی:

خوارج کہتے تھے: جو شخص گناہ کبیرہ کا مرتکب ھو جائے وہ کافر اور اسلام سے خارج ہے، مگر یہ کہ توبہ کرکے دوبارہ مسلمان بن جائے- اس بنا پر وہ مسلمانوں { اپنے زعم میں کفار} کی جان و مال کو مباح جانتے تھے-

حضرت علی {ع} اس سلسلہ میں خوارج سے خطاب کرتے ھوئے فرماتے ہیں:" پس اگر تم لوگ یہ خیال کرتے ھو کہ میں نے خطا کی ہے اور اگر گمراہ ھوا ھوں، تو تم لوگ کیوں پوری امت محمدی {ص} کو میری گمراہی کی وجہ سے گمراہ جانتے ھو؟ اور میری خطا کو ان کے سر تھوپتے ھو؟ اور ان کو میری خطا کے لئے کافر جانتے ھو؟ تلواروں کو ان کی گردنوں پر رکھ کر آنکھیں بند کرکے گناہگار اور بے گناھوں دونوں کا قتل عام کرتے ھو؟ جب تم جانتے ھو کہ پیغمبر اکرم {ص} نے شادی شدہ زنا کار کو سنگسار کیا، اور اس کے بعد اس کی نماز جنازہ پڑھی اور اس کی میراث کو اس کے وارثوں کے حوالہ کیا، قاتل کو سزائے موت دیدی اور اس کی میراث کو اس کے خاندان والوں کے حوالے کیا، چور کے ہاتھ کا ٹےاور غیر شادی شدہ زنا کار پر تازیانہ لگائے اور ان کو غنائم میں سے مدد کرتے تھے تاکہ مسلمان عورتوں سے شادی کریں- پس پیغمبر {ص} انھیں ان کے گناھوں کی وجہ سے سزا دیتے تھے اور ان پر حدود جاری فرماتے تھے، لیکن ان کے اسلامی حقوق کو ضایع نہیں کرتے تھے اور مسلمانوں کی فہرست سے ان کے نام کو حذف نہیں کرتے تھے- { پس وہ گناہ کبیرہ کے مرتکب ھو کر کافر نہیں ھوئے ہیں} تم { خوارج} بد ترین افراد اور شیطان کے آلہ کار ھو اور لوگوں کی گمراہی کا سبب بن جاتے ھو"-[19]

سوال کا دوسرا حصہ:

کیا حضرت علی {ع} کو معاویہ کے فتنہ کی آگ کو بجھانے پر یقین تھا؟ اس سوال کا جواب دینے کے لئے ہمیں معاویہ کے بارے میں حضرت علی {ع} کا نظریہ بیان کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہیں آتا ہے تاکہ معلوم ھو جائے کہ حضرت {ع} کو معاویہ کے فتنہ کی آگ بجھانے میں شک و تذبذب تھا یا نہیں؟

اول: ابن ابی الحدید معتزلی نقل کرتے ہیں: اصحاب پیغمبر {ص} میں سے بہت سے افراد حضرت علی {ع} کے ہمراہ تھے، جنھوں نے پیغمبر اکرم{ص} سے سنا تھا کہ آپ {ص} معاویہ پر مسلمان ھونے کے بعد لعنت بھیجتے تھے اور فرماتے تھے: " معاویہ ایک منافق، کافر اور جہنمی ہے"، اس سلسلہ میں روایت مشہور ہے-[20]

یہ کیسے ممکن ہے کہ علی{ع} کے صحابیوں نے اس حدیث کو سنا ھوگا اور خود امام علی{ع} نے اسے نہ سنا ھوگا؟

دوم: امام علی{ع}، معاویہ کی دھمکی کے جواب میں اپنے خط میں لکھتے ہیں: خداوند متعال کی حمد وثنا کے بعد، تم نے لکھا ہے کہ" ہم سب {قبل از اسلام} آپس میں مہربان اور متحد تھے"- لیکن ہمارے اور تمھارے درمیان ایمان و کفر کی بنا پر جدائی ھوئی ہم {رسول خدا اور خدا پر} ایمان لائے اور تم کافر ھوئے، اس وقت ہم حق کی راہ پر پابند ہیں اور تم گمراہ ھوئے ھو- تم لوگوں میں سے جس نے بھی اسلام قبول کیا، وہ مجبوری کی وجہ سے تھا، کیونکہ تم لوگ اسلام کی ابتداء میں رسول خدا {ص} سے جنگ کرتے تھے"-[21]

سوم: یہ وہ سوال ہے جو خوارج نے عبداللہ بن عباس سے کیا تھا اور جب حضرت علی{ع} نے اس سے سنا تو اس کے جواب میں فرمایا:" یہ جو تم لوگوں نے کہا ہے کہ تمھیں خود شک تھا اور حکمین سے فرمایا کہ تم لوگ معاویہ اور میرے بارے میں اظہار نظر کرنا چنانچہ اگر معاویہ مجھ سے شائستہ تر ھو، تو اسے ولایت پر برقرار رکھنا اور اگر میں امت کی ولایت و خلافت کے لئے برتر اور شائستہ تر ھوں تو میری تائید کرنا- میرا یہ کلام اپنی حقانیت پر مبنی تھا، معاویہ اور دوسرے لوگوں کے بارے میں شک وعدم آگاہی پر مبنی نہیں تھا، بلکہ اپنے کلام و کردار کے بارے میں صرف انصاف پر مبنی تھا، کہ خداوند متعال نے ارشاد فرمایا ہے:" اور کہئے کہ بیشک ہم یاتم ہدایت پر ہیں یا کھلی ھوئی گمراہی میں ہیں"[22] جہاں پر کہ خداوند متعال کو کسی قسم کا شک نہیں تھا اور یقین سے جانتا تھا کہ حضرت پیغمبر {ص} حق پر ہیں، اس کے باوجود یوں فرمایا - خوارج نے کہا : اے علی؛ یہ بھی ہمارے اعتراض کے بارے میں آپ کے لئے واضح حجت اور دلیل ہے[23] --

ہم حضرت علی{ع} کی دو حدیثوں سے اس بحث کو خاتمہ بخشتے ہیں، جن سے حضرت{ع} کی جنگ صفین کے بارے میں پالیسی واضح طور پر معلوم ھوتی ہے-

حضرت علی {ع} نے مسجد کوفہ کے منبر سے فرمایا:" اے کوفہ کے لوگو؛ کیا دشمنوں کے ساتھ جنگ میں تم برداشت نہیں کرتے ہو اگر برداشت نہ کروگے تو خداوند متعال ایک ایسے گروہ کو تم لوگوں پر مسلط کرے گا جس سے تم شائستہ تر ھو"-

اور ایک دوسرے بیان میں جب شامی جنگ صفین میں بھاگ رہے تھے تو حضرت {ع} نے اپنے پیرووں سے فرمایا:" { جاو} اور بچے کھچے افراد جو شیطان کے دوست ہیں، کو بھی قتل کرو، اور قتل کرو ان لوگوں کو جو کہتے ہیں کہ خدا اور اس کے پیغمبر{ص} نے جھوٹ بولاہے-"[24]

اس بناپر، حضرت علی{ع} کو معاویہ کے ساتھ جنگ کے بارے میں کسی قسم کا شک و شبہہ نہیں تھا بلکہ وہ مصمم تھے اور اپنے دوستوں کی بھی اس سلسلہ میں ہمت افزائی فرماتے تھے-

ان گمراہیوں کا بالآخر یہ نتیجہ نکلا کہ اس گروہ نے { ابن ملجم خارجی کے ذریعہ اور اشعث بن قیس کی ہمکاری سے} حضرت علی {ع} کو شہید کیا-[25]

 

[1]فراهيدى، خليل بن احمد، كتاب العين، ج 5، ص 160 ، ناشر: انتشارات هجرت طبع دوم ، 1410 ھ.، قم،

[2] جو آپ سے منہ موڑتا ہے وہ دین سے خارج ھوتا ہے-، بحارالأنوار ج 99، ص 150(زیارت جامعه کبیره).

[3] طریحی، فخرالدین، مجمع البحرين، ج 5، ص 235، ناشر: كتابفروشى مرتضوى، تهران، طبع سوم 1375 ش .

[4] طبرسی، احمد بن علی، احتجاج، غفارى مازندرانى، نظام الدين احمد، ج 1، ص 229 و 230، ناشر: مرتضوى، تهران، طبع اول .

[5] طبرسی، اعلام الوری بأعلام الهدى، ص 33، (زندگانى چهارده معصوم (ع)) ، عطاردى ، عزيز الله، ص 46 و 47، ناشر: اسلاميه ، تهران ، طبع اول ، 1390 ھ.

[6] طبرسی، اعلام الوری بأعلام الهدى، ص 33.

[7]مفید، ارشاد، رسولى محلاتى، ج 1، ص 317، ناشر: اسلاميه ، تهران، طبع دوم .

[8]اس تحقیق میں اہل سنت کی روایات سے استناد اس استدلال کی وجہ سے ہے جو ان روایتوں میں مضمر ہے-

[9] حلی، الفين، وجدانى، ص 7، ناشر: سعدى و محمودى ، تهران، طبع اول .

[10] طبرسی، احمد بن علی،احتجاج، غفارى مازندرانى، ج 2، ص 254.

[11] طبرسی، احمد بن علی،احتجاج، جعفرى، ج 1، ص 403 و 404، ناشر: اسلاميه، تهران، طبع اول، 1381 ھ ش.

[12] یوسف، 67.

[13] نساء، 59.

[14] طبرسی، احمد بن علی،احتجاج، جعفرى، بهراد، ج 1، ص 404 و 405.

[15] نهج البلاغة(مؤسسةنهج البلاغة)، صفحۀ 610، کلام 40، ناشر بنياد نهج البلاغه،طبع اول، 1372.ھ ش

[16] ترجمه شرح نهج البلاغه (ابن ميثم)، ج 2، صفحۀ 220، ناشر دفتر نشر الكتاب طبع، دوم، 1362.ھ ش

[17] نساء، 35.

[18] طبرسی، احمد بن علی،احتجاج، جعفرى، ج 2، ص 162 و 163.

[19] نهج البلاغة-ترجمه دشتى، ص 241، ناشر مؤسسۀ انتشارات مشهور، طبع اول، قم، 1379.ھ ش

[20] جلوۀ تاريخ در شرح نهج البلاغه ابن ابى الحديد، ج 7، ص 220، ناشر نشر نى، تهران، طبع دوم،1375 ھ ش

[21] ترجمۀ نهج البلاغه (زمانى)، ص 819 و 820، نامه 64، ناشر مؤسسه انتشارات نبوى، طبع دوازدهم، تهران، 1378.ھ ش

[22] سبأ، 24.

[23] طبرسی، احمد بن علی،احتجاج، غفارى مازندرانى، ج 2، ص 255.

[24] قوی، قاینی، خراسانی، محمد تقی، مفتاح السعادة في شرح نهج البلاغة، ج 5، ص 248، ناشر مکتبة المصطفوی، تهران؛ محدث نورى، مستدرك الوسائل، ج 11، ص 66، 12441 و 12442، مؤسسه آل البيت عليهم السلام قم، 1408 هجرى قمرى: 15،وَ عَنْهُ (ع) أَنَّهُ قَالَ يَوْمَ صِفِّينَ اقْتُلُوا بَقِيَّةَ الْأَحْزَابِ وَ أَوْلِيَاءَ الشَّيْطَانِ اقْتُلُوا مَنْ يَقُولُ كَذَبَ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ ؛ 16، وَ عَنْهُ (ع) أَنَّهُ حَرَّضَ النَّاسَ عَلَى مِنْبَرِ الْكُوفَةِ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ أَهْلِ الْكُوفَةِ لَتَصْبِرُنَّ عَلَى قِتَالِ عَدُوِّكُمْ أَوْ لَيُسَلِّطَنَّ اللَّهُ عَلَيْكُمْ قَوْماً أَنْتُمْ أَوْلَى بِالْحَقِّ مِنْهُمْ .

[25] مفید، ارشاد، رسولى محلاتى، ج 1، ص 18.

 


source : www.islamquest.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

جنت البقیع اور ا س میں د فن اسلامی شخصیات
واقعہ قرطاس
عام الحزن
حضرت ام کلثوم بنت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ...
حضرت مسلم(ع) کون تھے؟
حکم بن ابی العاص قرآن کی نظر میں
میثاقِ مدینہ
حضرت آدم علیه السلام وحوا کے کتنے فرزند تھے؟
حق کیا هے اور کس طرح حق کی پیروی کی جا سکتی هے؟
امام حسن(ع) کی صلح اور امام حسین (ع)کے قیام کا فلسفہ

 
user comment