اردو
Thursday 18th of July 2024
0
نفر 0

حضرت فاطمہ زہرا(س) کا تاریخ ساز خطبہ

خطبة الزھرا (س) فی مسجد النبی (ص)رویٰ خطبة الزھرا سلام اللّٰہ علیھا فی المسجد النبی جمع من اعلام الشیعة والعامة بطرق متعددة تنتھی بالاسناد عن زید بن علی ، عن ابیہ، عن جدہ علیہ السلام۔ وعن الامام جعفر بن محمد الصادق علیہ السلام عن ابیہ الباقر علیہ السلام۔ وعن جابر الجعفی عن ابی جعفر الباقر علیہ السلام۔ وعن عبد اللّٰہ بن الحسن، عن ابیہ ۔ وعن زید بن علی، عن زینب بنت علی
حضرت فاطمہ زہرا(س) کا تاریخ ساز خطبہ

خطبة الزھرا  (س) فی مسجد النبی (ص)رویٰ خطبة الزھرا سلام اللّٰہ علیھا فی المسجد النبی جمع من اعلام الشیعة والعامة بطرق متعددة تنتھی بالاسناد عن زید بن علی ، عن ابیہ، عن جدہ علیہ السلام۔ وعن الامام جعفر بن محمد الصادق علیہ السلام عن ابیہ الباقر علیہ السلام۔ وعن جابر الجعفی عن ابی جعفر الباقر علیہ السلام۔ وعن عبد اللّٰہ بن الحسن، عن ابیہ ۔ وعن زید بن علی، عن زینب بنت علی علیہ السلام۔ وعن رجال من بنی ھاشم، عن زینب بنت علی علیہ السلام۔ وعن عروة بن الزبیر، عن عائشة، قالوا لما بلغ فاطمة علیھا السلام اجماع ابی بکر علی منعھا فدک، وانصرف عاملھا منھا۔ لاثت خمارھا علی راسھا واشتملت بجلبابھا، واقبلت فی لُمةٍ من حفدتھا، ونساء قومھا ، تطاٴذیولھا، ما تخرم مشیتھا مشیة رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم۔ مسجد نبوی میں فاطمہ زھرا (ع) کا تاریخ ساز خطبہحضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کا مسجد نبوی میں تاریخ ساز خطبہ شیعہ و سنی دونوں فریقوں نے متعدد طریقوں سے نقل کیا ھے کہ جس کی سند کا سلسلہ زید بن علی تک پہونچتا ہے ، اس طرح کہ انھوں نے اپنے پدر بزرگوار اورجد اعلیٰ سے نقل کیا ھے ، اسی طرح امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے والد امام باقر علیہ السلام سے، نیز جابر جعفی نے حضرت امام باقر علیہ السلام سے نقل کیا، اسی طرح جناب عبد اللہ بن حسن نے اپنے والد امام حسن علیہ السلام سے ،نیز زید بن علی نے زینب بنت علی علیہما السلام سے ،اسی طرح خاندان بنی ھاشم کے بعض افراد نے زینب بنت علی علیہما السلام سے، نیز عروة بن زبیر نے حضرت عائشہ سے نقل کیا ھے ، یہ سب کھتے ھیں :حتیٰ دخلت علی ابي بکر وهو فی حشدٍ من المھاجرین والانصار وغیرھم، فنیطت دونھا ملاء ة، فجلست ثم انّت انّةً اجہش القوم لھا بالبکاء، فارتجّ المجلس، ثم امھلت ہنیہة، حتی اذا سکن نشیج القوم، وھدات فورتھم، افتتحت الکلام بحمدالله فقالت:” الحمدُ للّٰہ علیٰ ما انعم ولہ الشکر علی ما الھم، والثناء بماقدّم من عموم نِعَمٍ ابتداٴھا،وسبوغ آلاء اٴسداھا وتمام منَن اٴولاھا،جمّ عن الاحصاء عددھا، وناٴیٰ عن الجزاء اٴمدُھا،وتفاوت عن الادراک اْبدھا وندبھم لاِسْتِزادتھا باالشکرلاتّصالھا واستحمد الی الخلائق باجزالھا،وثنّی بالندب الی امثالھا۔ واشھدان لا الہ الّا اللّٰہ وحد ہ لاشریک لہ،کلمةٌجعل الاخلاص تاٴ ویلھا وضمن القلوب موصولھا ،وانار فیجس وقت جناب ابوبکر نے خلافت کی باغ ڈور سنبھالی اورباغ فدک غصب کرلیا، جناب فاطمہ(س) کوخبر ملی کہ اس نے سرزمین فدک سے آپ کے نوکروں کو ہٹاکراپنے کارندے معین کردئیے ھیں تو آپ نے چادر اٹھائی اور باپردہ ھاشمی خواتین کے جھرمٹ میں مسجد النبی(ص)کی طرف اس طرح چلی کہ نبی(ص) جیسی چال تھی اور چادر زمین پر خط دیتی جارھی تھی۔جب آپ مسجد میں وارد ہوئیں تواس وقت جناب ابوبکر،مھا جرین و انصار اور دیگر مسلمانوں کے درمیان بیٹھے هوئے تھے،آپ پردے کے پیچھے جلوہ افروز هوئیں اور رونے لگیں،دختر رسول کو روتا دیکھ کرتمام لوگوں پر گریہ طاری هوگیا،تسلی و تشفی دینے کے بعد مجمع کو خاموش کیا گیا، اور پھر جناب فاطمہ زھرا  (س) نے مجمع کو مخاطب کرتے هوئے فرمایا:” تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ھیں جس نے مجھے اپنی بے شمار اور بے انتھا نعمتوں سے نوازا،میں شکر بجالاتی هوں اس کی ان توفیقات پرجو اس نے مجھے عطا کیں، اورخدا کی حمدو ثنا ء کرتی هوں ان بے شمارنعمتوں پرجن کی کوئی انتھا نھیں، اورنہ ھی ان کاکوئی بدلا هوسکتا ھے، ایسی نعمتیں جن کا تصور کرنا امکان سے باھر ھے، خدا چاھتا ھے کہ ھم اسکی نعمتوں کی قدر کریں تاکہ وہ ھم پر اپنی نعمتوں کا اضافہ فرمائے، ھمیں شکر کی دعوت دی ھے تاکہ آخرت میں بھی وہ ایسے ھی اپنی نعمتوں کا نزول فرمائے ۔میں خدا کی وحدانیت کی گواھی دیتی هوں،وہ وحدہ لا شریک ھے، ایسی وحدانیت جس کی حقیقت اخلاص پر مبنی ھے اور جس کا مشاھدہ دل کی گھرائی سے هوتا ھے اوراس کے حقیقی معنی پر غور و فکر کرنے سے دل ودماغ روشن هوتے ھیں۔  التّفکّر معقولھا،الممتنع من الا بصار روٴیتہ، ومن الاٴلسن صفتہ، ومن الا وھا م کیفیّتہ ،ابتدع الا شیاء لامن شیء کان قبلھا ،وانشاھا بلااحْتِذاء امثلةٍامْتثلھا،کوّ نھا بقدرتہ، وذراٴھابمشیتہ من غیرحا جةمنہ الی تکو ینھا ،ولا  فا ئدة لہ فی تصویر ھا، الا تثبیتا لحکمتہ ،وتنبیھاً علی طاعتہ، واظھاراً  لقدرتہ،تعبّداً لبر یتہ و اعزازالدعوتہ۔ ثم جعل الثواب علی طاعتہ ووضع العقاب علی معصیتہ ،زیادةلعبادہ من نقمتہ وحیاشة لھم الی جنتہ۔واشھد ان ابی محمدا عبدہ و رسولہ، اختارہ قبل ان ارسلہ، (وسمّاہ قبل ان اجتباہ) واصطفاہ قبل ان ابتعثہ، اذ الخلائق بالغیب مکنونة وبسَتْرِ الاھاویل مصونة،وبنھایة العدم مقرونة ،علما من اللّٰہ تعالی بمایل الامُور واحاطة بحوادث الدّهور ومعرفة بمواقع الامور، ابتعثہ اللّٰہ اتما ماً لامرہ وعزیمةعلی امضاء حکمہ وانفاذ اً لمقادیررحمتہ فراٴی الاُ مم فر قاً فی ادیانھا،عُکفَّاًعلی نیرانھا وعابدةً لاٴوثانھا، منکرةللّٰہ مع عر فا نھا ۔ وہ خدا جس کو آنکھ کے ذریعہ دیکھانھیں جاسکتا،زبان کے ذریعہ اس کی تعریف و توصیف نھیں کی جاسکتی ، جو وھم وگمان میں بھی نھیں آسکتا۔وہ خدا جس نے ایسی ایسی موجودات خلق کی جن کی اس سے پھلے نہ کوئی نظیر ملتی ھے اور نہ کوئی مثال، اس نے اپنی مرضی و مشیّت سے اس کائنات کو وجود بخشا بغیر اس کے کہ اسے اس کے وجود کی ضرورت هو، یا اسے اس کا کوئی فائدہ پهونچتا هو۔بلکہ کائنات کو اس نے اس لئے پیدا کیا تاکہ اپنے علم وحکمت کو ثابت کرسکے ،اپنی اطاعت کے لئے تیار کرسکے، اپنی طاقت و قدرت کا اظھار کرسکے، بندوں کو اپنی عبادت کی تر غیب دلاسکے اور اپنی دعوت کی اھمیت جتاسکے؟ اس نے اپنی اطاعت پر جزاء اورنافرمانی پر سزا معین کی ھے، تاکہ اپنے بندوں کو عذاب سے نجات دے ، اور جنت کی طرف لے جائے۔میں گواھی دیتی هوں کہ میرے پدربزرگوارحضرت محمد(ص)،اللہ کے بندے اور  رسول ھیں، ان کو پیغمبری پر مبعوث کرنے سے پھلے اللہ نے ان کو چنا،(اوران کے انتخاب سے پھلے ان کا نام محمد رکھا)اوربعثت سے پھلے ان کا انتخاب کیا، جس وقت مخلوقات عالم غیب میں پنھاں تھیں، نیست و نابودی کے پردوں میں چھپی تھیں اور عدم کی وادیوں میں تھیں ،چونکہ خداوندعالم ھر شیٴ کے مستقبل سے آگاہ ، زمانے کے حوادثات سے با خبر اورقضا و قدر سے مطلع ھے۔ فاناراللّٰہ باٴبی محمد( صلی الله علیہ وآلہ وسلم)ظلمھا، وکشف عن القلوب بُہَمھا وجلی عن الابصار غُمَمھا وقام فی الناس بالھدایة،وفا نقذ ھم من الغوایة وبصّرھم من العمایة۔ وھداھم الی الدّ ین القویم، ودعا ھم الی الطریق المستقیم ۔ثم قبضہ اللّٰہ الیہ قبض رافةواختیارور غبةوایثار، فمحمد(صلی الله علیہ وآلہ وسلم)من تعب ھذہ الدارفی راحة۔قد حُفّ با لملائکة الابرار،ورضوان الرَّبِّ الغفار،ومجاورة الملک الجبار۔صلی اللّٰہ علی اٴبی نبیّہ وامینہ، وخیرتہ من الخلق وصفیہ والسلام علیہ ورحمةاللّٰہ وبرکاتہ۔خدا نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مبعوث کیا تاکہ اپنے مقصد کو آگے بڑھائے، اپنے حتمی فیصلوں کو پایہٴ تکمیل تک پهونچائے اور لوگوں پر اپنی رحمت کو نازل کرے۔(جب آپ مبعوث هوئے )تو لوگ مختلف ادیان میں بٹے هوئے تھے، کفر  و الحاد کی آگ میں جل رھے تھے، بتوں اور آگ کی پرستش کررھے تھے اورخدا کی شناخت کے بعد بھی اس کا انکار کیا کرتے تھے۔حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وجود مقدس سے تاریکیاں چھٹ گئیں جھالت ونادانیاں دلوں سے نکل گئیں، حیرتیں و سر گردانیاں آنکھوں سے اوجھل هوگئیں، میرے باپ نے لوگوں کی ھدایت کی اور ان کو گمراھی اور ضلالت سے نجات دی ، تاریکی سے نکال کر روشنی کی طرف لے کر آئے اور دین اسلام کی راہ دکھائی اور صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کی۔اس کے بعدخدانے اپنے پیغمبر کے اختیار،رغبت اورمھربانی سے ان کی روح قبض کی ،اس وقت میرا باپ اس دنیا کی سختیوں سے آرام میں ھے اوراس وقت فرشتوں اور رضایت غفّاراور ملک جبّارکے قرب میں زندگی گزاررھا ھے ،خدا کی طرف سے میرے باپ،نبی اور امین خدا،خیر خلق اورصفی خداپر درود و سلام اور اس کی رحمت هو۔ثم ّ التفتت الیٰ اھل المجلس وقالت :انتم عباداللّٰہ نصب امرہ ونھیہ، وحملة دینہ ووحیہ، وامناء اللّٰہ علی انفسکم ،وبلغاء ٴہ الی الاُمم زعیم حقّ لہ فیکم ،وعھد قدّمہ الیکم،ونحن بقیةاستخلفھا علیکم کتاب اللّٰہ الناطق ،والقرآن الصاد ق ، والنور الساطع،والضیاء اللامع ،بیّنة بصائرہ ،منکشفة  سرائرہ ، منجلیة ظواھرہ ،مغتبطة  بہ اشیاعہ،قائداً  الی الرضوان اتباعہ، مودٍّالیٰ النجاةاستماعہ،بہ تنال حجج اللّٰہ المنوّ رة،و عزائمہ المفسرة،  و محارمہ المحذّرة و بیّناتہ  الجالیة  وبراھینہ  الکافیة، و فضائلہ المندوبة ورخصہ الموهوبہ و شرائعہ المکتوبة ۔فجعل اللّٰہ الایمان تطھیراًلکم من الشرک، والصلاة تنزیھاً لکم من الکبر،والزکاةتزکیةللنفس،ونماءً فی الرزق،والصیام تثبیتا للاخلاص، والحج تشییدا  للدین، والعدل تنسیقا للقلوب، وطاعتنا نظاماً للملّة،واِمَامتنا اٴماناًمن الفرقة،والجھاد عزًاللاسلام۔وذلاً لاھل الکفر والنفاق۔ اس کے بعدآپ نے مجمع کو مخاطب کرکے فرمایا: تم خدا کے بندے ،امرونھی کے پرچم دار اور دین اسلام کے عھدہ دار هو، اور تم اپنے نفسوں پر اللہ کے امین هو ، تم ھی لوگوں کے ذریعہ دوسری قوم تک دین اسلام پهونچ رھا ھے،تم نے گویا یہ سمجھ لیا ھے کہ تم ان صفات کے حقدارهو،اور کیا اس سلسلہ میں خدا سے تمھارا کوئی عھد و پیمان ھے؟  حالانکہ ھم بقیة الله اور قرآن ناطق ھیں وہ کتاب خدا جو صادق اور چمکتا هوا نور ھے جس کی بصیرت روشن و منور اور اس کے اسرار ظاھر ھیں، اس کے پیرو کارسعادت مند ھیں،اس کی پیروی کرنا ،انسان کوجنت کی طرف ھدایت کرتاھے ،اس کی باتوں کوسننا وسیلہٴ نجات ھے اوراس کے بابرکت وجودسے خدا کی نورانی حجتوں تک رسائی کی جا سکتی ھیں اس کے وسیلہ سے واجبات ومحرمات، مستحبات ومباھات اورقوانین شریعت حاصل هو سکتے ھیں۔خدا وندعالم نے تمھارے لئے ایمان کو شرک سے پاک هونے کا وسیلہ قرار دیا، نمازکو تکبر سے بچنے کے لئے،زکوة کو وسعت رزق اورتزکیہ ٴنفس کے لئے، روزہ کو اخلاص کے لئے،حج کودین کی بنیادیں استوار کرنے کے لئے، عدالت کونظم زندگی اور دلوں کے آپس میں ملانے کے لئے سبب قرار دیا ھے۔ اورھماری اطاعت کو نظم ملت اور ھماری امامت کو تفرقہ اندازی سے دوری، جھاد کو عزتِ اسلام اور کفار کی ذلت کاسبب قرر دیا،والصبر معونة  علی استیجاب الاجر ،والامر بالمعروف والنھی  عن المنکر مصلحة للع


source : abna
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

جلال و جبروت حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام
امیر المومنین علی علیہ السلام کی نگاہ میں ...
حسینیت اور یزیدیت کی شناخت
امام ہادی علیہ السلام اور اعتقادی انحرافات کے ...
حضرت ولی عصرؑ کی ولادت باسعادت
امام محمد باقر عليہ السلام کا عہد
قاتلین حسین (ع) کی حقیقت
کیا یہ حدیث صحیح ہے کہ پیغمبر خدا (ص) نے دایہ نہ ...
عصمت حضرت فاطمہ زہرا سلام الله عليہا
امام جعفرصادق (ع): ہمارے شیعہ نماز کے اوقات کے ...

 
user comment