امام زین العابدین (ع) اوربنیادکعبہ محترمہ ونصب حجراسود 71 ھ میں عبدالملک بن مروان نے عراق پرلشکرکشی کرکے مصعب بن زبیرکوقتل کیا بھر 72 ھ میں حجاج بن یوسف کوایک عظیم لشکرکے ساتھ عبداللہ بن زبیرکو قتل کرنے کے لیے مکہ معظمہ روانہ کیا۔(ابوالفداء)۔ وہاں پہنچ کرحجاج نے ابن زبیرسے جنگ کی ابن زبیرنے زبردست مقابلہ کیا اوربہت سی لڑائیاں ہوئیں ،آخرمیں ابن زبیرمحصورہوگئے اورحجاج نے ابن زبیرکوکعبہ سے نکالنے کے لیے کعبہ پرسنگ باری شروع کردی، یہی نہیں بلکہ اسے کھدواڈالا، ابن زبیرجمادی الآخر 73 ھ میں قتل ہوا(تاریخ ابن الوردی)۔ اورحجاج جوخانہ کعبہ کی بنیادتک خراب کرچکاتھا اس کی تعمیرکی طرف متوجہ ہوا۔ علامہ صدوق کتاب علل الشرائع میں لکھتے ہیں کہ حجاج کے ہدم کعبہ کے موقع پرلوگ اس کی مٹی تک اٹھاکرلے گئے اورکعبہ کواس طرح لوٹ لیاکہ اس کی کوئی پرانی چیزباقی نہ رہی، پھرحجاج کوخیال پیداہواکہ اس کی تعمیرکرانی چاہئے چنانچہ اس نے تعمیرکاپروگرام مرتب کرلیااورکام شروع کرادیا،کام کی ابھی بالکل ابتدائی منزل تھی کہ ایک اژدھابرآمدہوکرایسی جگہ بیٹھ گیاجس کے ہٹے بغیرکام آگے نہیں بڑھ سکتاتھا لوگوں نے اس واقعہ کی اطلاع حجاج کودی، حجاج گھبرااٹھا اورلوگوں کوجمع کرکے ان سے مشورہ کیاکہ اب کیاکرناچاہئے جب لوگ اس کاحل نکالنے سے قاصررہے توایک شخص نے کھڑے ہوکرکہاکہ آج کل فرزندرسول حضرت امام زین العابدین علیہ السلام یہاں آئے ہوئے ہیں، بہترہوگا کہ ان سے دریافت کرایاجائے یہ مسئلہ ان کے علاوہ کوئی حل نہیں کرسکتا، چنانچہ حجاج نے آپ کوزحمت تشریف آوری دی، آپ نے فرمایاکہ اے حجاج تونے خانہ کعبہ کواپنی میراث سمجھ لیاہے تونے توبنائے ابراہیم علیہ السلام کواکھڑوا کر راستہ میں ڈلوادیاہے ”سن“ تجھے خدااس وقت تک کعبہ کی تعمیرمیں کامیاب نہ ہونے دے گا جب تک توکعبہ کالٹاہواسامان واپس نہ منگائے گا، یہ سن کراس نے اعلان کیاکہ کعبہ سے متعلق جوشے بھی کسی کے پاس ہووہ جلدسے جلد واپس کرے، چنانچہ لوگوں نے پتھرمٹی وغیرہ جمع کردی جب آپ اس کی بنیاداستوارکی اورحجاج سے فرمایاکہ اس کے اوپرتعمیرکراؤ ”فلذالک صار البیت مرتفعا“ پھراسی بنیادپرخانہ کعبہ کی تعمیرہوئی (کتاب الخرائج والجرائح میں علامہ قطب راوندی لکھتے ہیں کہ جب تعمیرکعبہ اس مقام تک پہنچی جس جگہ حجراسودنصب کرناتھا تویہ دشواری پیش ہوئی کہ جب کوئی عالم،زاہد، قاضی اسے نصب کرتاتھا تو”یتزلزل ویضطرب ولایستقر“ حجراسودمتزلزل اورمضطرب رہتا اوراپنے مقام پرٹہرتانہ تھا بالآخرامام زین العابدین علیہ السلام بلائے گئے اورآپ نے بسم اللہ کہہ کراسے نصب کردیا، یہ دیکھ کر لوگوں نے اللہ اکبرکانعرہ لگایا(دمعہ ساکبہ جلد 2 ص 437) ۔ علماء ومورخین کابیان ہے کہ حجاج بن یوسف نے یزیدبن معاویہ ہی کی طرح خانہ کعبہ پرمنجنیق سے پتھروغیرہ پھنکوائے تھے
امام زین العابدین (ع) اورعبدالملک بن مروان کاحج بادشاہ دنیاعبدالملک بن مروان اپنے عہدحکومت میں اپنے پایہ تخت سے حج کے لیے روانہ ہوکرمکہ معظمہ پہنچااوربادشاہ دین حضرت امام زین العابدین بھی مدینہ سے روانہ ہوکرپہنچ گئے مناسک حج کے سلسلہ میں دونوں کاساتھ ہوگیا، حضرت امام زین العابدین آگے آگے چل رہے تھے اوربادشاہ پیچھے چل رہاتھا عبدالملک بن مروان کویہ بات ناگوارہوئی اوراس نے آپ سے کہاکیامیں نے آپ کے باپ کوقتل کیاہے جوآپ میری طرف متوجہ نہیں ہوتے، آپ نے فرمایاکہ جس نے میرے باپ کوقتل کیاہے اس نے اپنی دیناوآخرت خراب کرلی ہے کیاتوبھی یہی حوصلہ رکھتاہے اس نے کہانہیں میرامطلب یہ ہے کہ آپ میرے پاس آئیں تاکہ میں آپ سے کچھ مالی سلوک کروں، آ پ نے ارشادفرمایا مجھے تیرے مال دنیاکی ضرورت نہیں ہے مجھے دینے والاخداہے یہ کہہ کر آپ نے اسی جگہ زمین پرردائے مبارک ڈال دی اورکعبہ کی طرف اشارہ کرکے کہا،میرے مالک اسے بھردے، امام کی زبان سے الفاظ کانکلنا تھاکہ ردائے مبارک موتیوں سے بھرگئی ،آپ نے اسے راہ خدامیں دیدیا(دمعہ ساکبہ،جنات الخلود ص 23) ۔
source : tebyan