اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

حضرت ابو طالب

حضرت ابو طالب

عام الفیل سنہ ٥٧٠ ء حبشیوں نے ابرہہ کی قیادت میں خانہ کعبہ کو مسمار کی غرض سے شہر مکہ پر حملہ کیا۔
اس زمانہ میں ہمارے نبی حضرت محمد ۖ کے جد عبد المطلب مکہ کے رئیس وسردار تھے ،انہوں نے کعبہ کا طواف کیا اور خدا سے دعا کی اے پالنے والے اس گھر کو جسے ابراہیم خلیل اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل نے ایک خدا کی عبادت کے لئے بنایا تھا ابرہہ کے لشکر کے حملوں سے بچالے۔
اللہ تعالی کی بارگاہ میں حضرت عبد المطلب کی دعا مستجاب ہوئی ،اور جب ہاتھی اور لشکر خانی کعبہ کو منہدم کرنے کی غرض سے چلا تو آسمان پر ابابیل پرندے ظاہر ہوئے جو اپنی منقاروں میں کنکریوں لئیے ہوئے تھے ،پرندوں نے لشکر پر کنکریاں گرانا شروع کردیں اور کعبہ کے پاس سے لشکر کو متفرق کردیا، جس سے اللہ تعالی کی قدرت اور حضرت عبد المطلب کی عظمت ظاہر ہوئی ۔
اس سال کو عام الفیل؛ کہاجاتاہے ،اسی سال ہمارے پیغمبر حضرت محمد ۖ نے ولادت پائی اس وقت حضرت ابوطالب کی عمر تیس سال تھی ،خانہ کعبہ پر ابرہہ کے حملے کا حادثہ قرآن مجید کے سورہ فیل میں بیان ہوا ہے :
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے رب نے ہاتھی والوں کا حال کیاہے؟
کیا ان کی تدبیر کو بیکار نہیں بنایا ؟ ان کے (سروں) پر ابابیل پرندے بھیجے جو ان پر کنکریاں گرارہے تھے پھر انہیں چبائے ہوئے بھوسے کی مانند بنادیا ۔
چاہ زمزم کو کھودنے والے حضرت عبد الطلب کے دس بیٹے تھے ،انہی میں سے ایک ہمارے نبی ۖ کے والد گرامی حضرت عبد اللہ بھی تھے ان کے دوسرے بھائی حضرت ابوطالب تھے جو نبی ۖ نے چچا تھے ۔
ہمارے نبی ۖ یتیم تھے ،ابھی آپ بطن مادر ہی میں تھے کہ آپ ۖ کے والد حضرت عبد اللہ کا انتقال ہوگیا ،پانچ سال کے تھے کہ والدہ کی شفقت سے بھی محروم ہوگئے۔
پھر آپ ۖ کے دادا حضرت عبد المطلب نے کفالت کی،حضرت عبد المطلب آپ ۖسے بہت محبت کرتے تھے اور آپ ۖمیں نبوت کے آثار دیکھتے تھے ۔
حضرت عبد المطلب حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کے دین پر قائم تھے،اپنے بیٹوں کو مکارم اخلاق کی وصیت کرتے تھے۔مرتے وقت انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا:میرے صلب سے ضرور ایک نبی ہوگا تم میں سے جو بھی اس وقت موجود ہو اسے اس نبی پر ایمان لانا چاہیئے۔
اس کے بعد اپنے بیٹے حضرت ابوطالب کی طرف متوجہ ہوئے اورآہستہ سے ان کے کان میں کہا: اے ابوطالب محمد ۖ شان وشوکت والے ہیں لھذا تم اپنی زبان اور ہاتھ ان کی مدد کرتے رہنا۔
ہمارے نبی ۖآٹھ سال کے تھے کہ جب آپ ۖکے جد عبد المطلب کا انتقال ہوا اورآپ ۖکی کفالت حضرت ابو طالب کی طرف منتقل ہوئی۔
حضرت ابو طالب کا عبد مناف ہے ،جو شیخ بطحا کے نام سے مشہور ہیں اور ان کی والدہ قبیلہ بنی مخزوم،کے عمرو کی بیٹی ،حضرت فاطمہ ہیں۔ہمارے نبی ۖ اپنے چچا کے زیر سایہ زندگی گزارتے رہے آپ ۖ نے چچا کی آغوش تربیت میں بہت ہی محبت وشفقت پائی ،آپ کی چچی زوجہ ابوطالب فاطمہ بنت اسد بھی اپنی محبت سے سرشار رکھتی تھیںہر چیز میں اپنے بیٹوں پر مقدم رکھتی تھیں ۔
ایسے کریم گھرانے میں حضرت محمد ۖ پروان چڑھے ،حضرت ابوطالب کے دل میں بھتیجے کی محبت بڑھتی ہی جاتی تھی خصوصا اس وقت محبت میں اضافہ ہوجاتا تھا جب آپ کے بلند اخلاق اور بہترین آداب کو دیکھتے تھے۔
کھانا کھاتے وقت یتیم بچہ ادب سے ہاتھ بڑھاتا ،بسم اللہ پڑھتا اور فارغ ہونے کے بعد الحمد للہ کہتاتھا ۔
ایک دن حضرت ابوطالب نے اپنے بھتیجے کو دسترخوان پر موجود نا پایا تو خود نے بھی کھانا نہ کھایا اور کہا: جب تک میرا بیٹا نہیں آئے گا مین کھانا نہیں کھائونگا جب وہ (محمد ۖ) آگئے تو پینے کے لئے انہیں دودھ کا پیالہ دیا پھر اسی سے یکے بعد دیگرے بچوں نے پیا ،سب سیراب ہوگئے اس سے ابوطالب کو بہت تعجب ہوا اور کہا: اے محمد ۖ بے شک تم بابرکت ہو۔
بشارت ابوطالب اہل کتاب سے بہت سی بشارتیں سنتے تھے،جن سے یہ معلوم ہوتاتھا کہ نبی ۖکے ظہور کا زمانہ قریب ہے ۔اس وجہ سے ابوطالب اپنے بھتییجے کا زیادہ خیال رکھتے تھے پھر ان میںنبوت کے آثار بھی ملاحظہ کرتے تھے ۔انہیں تنہا نہیں چھوڑتے تھے۔
جب ابوطالب نے ایک تجارتی قافلہ کے ساتھ شام جانے کا قصد کیا تو ہمارے نبی محمد ۖ بھی آپ کے ہمراہ روانہ ہوئے اس وقت آنحضرت ۖکی عمر نو سال تھی ۔تجارتی قافلے شہر بصرہ سے گزرتے تھے بصری میں ایک کلیسا تھا کہ جس میں بحیرانامی نصرانی راہب رہتاتھا ۔
یہ راہب بھی نئے نبی کی آمد کا منتظر تھا،جب اس کی نگاہ محمد ۖ پرپڑی توآپ ۖمیں وہ صفات پائے جوآنے والے نبی کی بشارت سے واضح تھے ۔
راہب بچہ کے چہرے پر اپنی نظریں جمادیتاہے اور اپنے دل کی گہرائیوں میں حضرت عیسی کی دی ہوئی بشارتوں کے بارے میں غور کرنے لگتاہے۔راہب نے بچہ کانام پوچھا :ابوطالب نے فرمایا: محمد ۖاس مبارک نام کوسن کر راہب کی فروتنی میں اضافہ ہوجاتاہے اور وہ ابوطالب سے کہتاہے:
مکہ لوٹ جائو اور اپنے بچے کو یہودیوں سے بچائو کیونکہ یہ بچہ بڑی شان وشوکت والا ہے ابو طالب مکہ لوٹ آتے ہیں اوراب محمد ۖسے اورزیادہ محبت ہوجاتی ہے اور ان کی حفاظت میں زیادہ کوشاں ہوجاتے ہیں۔
محمد ۖکے وجود کی برکت برسوں گزرجاتے ہیں ،مکہ اوراس کے مضافات میں قحط پڑتاہے لوگ شیخ البطحا کے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدا تعالی سے بارش کی دعا کریں۔ابوطالب ! وادی مکہ قحط میں مبتلاہوگئی ہے اور بچے بیاسے ہیں چلئے ہمارے لئے بارش کی دعا کیجئے ،گھر سے نکلتے وقت اگرچہ ابوطالب کو خدا سے بڑی امید ہے لیکن اس کے باوجود اپنے بھتیجے محمد ۖ کوساتھ لے جاتے ہیں۔
ابوطالب ،محمد ۖ کوساتھ لے کر کعبہ کے پاس کھڑے ہوئے ،بچہ کادل لوگوں کے لئے بارش مانگ رہاتھا اور حضرت ابوطالب نے ابراہیم اور اسماعیل کے خدا سے دعا مانگی کہ موسلادھار بارش کو حکم دے۔محمد ۖ نے آسمان کی طرف دیکھا اوردیکھتے ہی آسمان پر بادل چھاگئے ،بجلی چمکنے لگی اور کڑک ہونے لگی اور پھر ٹوٹ کر اتنا پانی برسا کہ جس سے ندی نالے بہہ نکلے۔ لوگ خوش خوش اپنے گھر لوٹ رہے تھے بارش کی نعمت اور زمین کے سرسبز ہوجانے پر خدا کا شکر ادا کررہے تھے ،ابوطالب بھی لوٹ آئے اب ان کے دل میںبھتیجے کی محبت پہلے سے زیادہ ہوگئی تھی۔
سالہا سال گزر جاتے ہیں ،محمد ۖجوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں ،اخلاق انسانی کاعظیم نمونہ ہیں یہاں تک کہ لوگ صادق وامین کہتے ہیں۔
ابوطالب کوکسی چیز سے نفرت نہیں تھی جتنی ظلم سے تھی ۔سب سے زیادہ مطلوموں کے ہمدرد تھے۔ لھذا ہمارے نبی ۖ ابوطالب سے محبت رکھتے تھے۔
ایک مرتبہ قبیلہ کنانہ اور قبیلہ قیس کے درمیان جنگ چھڑ گئی اس جنگ میں قبیلہ قیس کی غلطی تھی۔ کنانہ کے افراد ابوطالب کی خدمت میں پہونچے اورعرض کی :اے پرندوں کو دینے والے اور حاجیوں کو سیراب کرنے والے کے فرزند ! ہم سے چشم پوشی نہ کیجئے ہم جانتے ہیں کہ فتح وظفر آپ کے ساتھ ،ابوطالب نے جواب دیا:
جب ظلم وتعدی ،ترفقی اندازی اور بہتان سے دست بردار ہوجائوگے تو میں تم سے چشم پوشی نہیں کرونگا ،ان لوگون نے اس بات پوابوطالب سے معاہدہ کرلیا کہ ہم انہیں انجام نہیں دیں گے ۔
اس وقت محمد ۖ نے بھی اپنے چچا کے ساتھ دیا تو وہ فتحیاب ہوئے۔ مکہ کے بعض لوگ حاجیوں پر ظلم کرتے تھے ایک مرتبہ قبیلہ خثعمی کا ایک آدمی اپنی بیٹی کے ہمراہ حج بیت اللہ کے لئے آیا۔
مکہ کا ایک جوان اٹھا اور اس نے اس شخص کی بیٹی کو پکڑ لیا ،خثعمی نے چلا کر کہا: کون ہے جو میری مدد کرے۔ بعض نے کہا: تمہارے لئے ضروری ہے کہ حلف الفضول سے رجوع کرو ۔
وہ شخص ابوطالب کے پاس گیا۔حلف الفضول کے بانی ابوطالب ہی تھے ،حلف الفضول مکہ والوں کے درمیان ایک عہد تھا اور وہ یہ کہ مظلوم کی مدد کریں گے اور ظالم سے انتقام لیں گے۔
جب خثعمی ان کے پاس مدد حاصل کرنے کے لئے گیا تو مسلح افراد اس جوان کے گھر پہونچے اور اسے دھمکی دی اور لڑکی اس کے باپ کے سپرد کردی ۔محمد ۖ بھی اس انجمن کے رکن تھے۔
بابرکت شادی ابوطالب کثیر العیال تھے اور محتاجوں کی مدد کرنے سے بھی کبھی چشم پوشی نہیں کرتے تھے نتیجہ میں تنگ دست ہوگئے تھے۔ محمد ۖ نے یہ محسوس کیاکہ مجھے کچھ کرنا چاہئیے ۔مالدار عورت خدیجہ نے درخواست کی کہ میرا مال تجارت کے لئے شام لے جائیے۔
تجارتی قافلہ تیار تھا ۔محمد ۖ نے امانتوں کو اہل تک پہونچادیا ۔خدیجہ اپنے بارے مین فکر مند تھیں انہوں نے محمد و سے شادی کا پیغام دیا۔ اس رشتہ سے ابوطالب بہت خوش ہوئے اور بنفس نفیس خدیجہ کا پیغام لے کر گئے ابوطالب کے ساتھ بنی ہاشم میںسے محمد ۖ کے چچا حمزہ بن عبد المطلب بھی تھے۔ ابوطالب نے فرمایا: حمد اس خدا کی جس نے ہمیں ابراہیم کی نسل اور اسماعیل کی ذریت میں قراردیا اور ہمارے لئے پردہ کا گھر اور امن کا حرم بنایا اور ہمارے شہر میں ہم پر برکت نازل کی۔
بے شک میرے بھتیجے محمد بن عبد اللہ کا قریشکے جس شخس سے بھی موازنہ جکیا جائے گا اسی پر فوقیت لے جائیگا۔ جس سے بھی مقابلہ کیا جائیگا اسی سے اعظم قرار پائیگا ۔اگرچہ مال ان کے پاس کم ہے ،پھر مال تو آنے جانے والی چیز ہے وہ خدیجہ سے رغبت رکھتے ہیں اور خدیجہ بھی انہیں چاہتی ہے ۔
تم ان سے جو کچھ مہر مانگو گے وہ میں اپنے مال سے دونگا ،قسم خدا کی میرا بھتیجہ نبائے عظیم کا مالک ہے ۔
شادی ہوگئی ۔ برسوں گرز جانے کے بعد خدا نے ابوطالب کو ایک اور بیٹا عطاکیا جس کا نام علی رکھا ۔ہمارے نبی ۖ نے اپنے چچا کے بار کو ہلکا کرنے کا ارادہ کیا ایک دن چچا کے گھر تشریف لے گئے اور علی کو اپنے گھر لے آئے۔
حضرت جبرائیل کا نزول اب ابوطالب ستر سال کے ہوچکے ہیں اور ہمارے نبی محمد ۖ کی عمر چالیس سال ہے وہ اپنی عادت کے مطابق ہر سال غارحراء میں تشریف لے جاتے ہیں اسی سال آسمان سے وحی نازل ہوتی ہے اور محمد ۖ ہاتف کی آواز سنتے ہیں ہاتف کہتاہے:
پڑھو !پڑھو! اپنے رب کے نام سے ،جس نے پیدا کیا، جس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا ،پڑھواور تمہارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ تعلیم دی ہے ،جس نے انسان کو وہ سب کچھ سکھادیاہے ،جووہ نہیں جانتا تھا۔پھر کہتا ہے:
اے محمد ۖ آپ اللہ کے رسول ہیں اور میں جبرائیل ہوں۔
محمد ۖ غار حراء سے باررسالت اٹھائے ہوئے گھر کی طرف لوٹتے ہیں۔ ایک دن ہمارے نبی ۖ اور آپ کے پیچھے علی نماز پڑھ رہے تھے کہ ابوطالب تشریف لائے اور فرط محبت سے فرمایا: بھتیجے کیاکررہے ہو؟
نبی ۖ نے فرمایا: ہم دین اسلام کے مطابق اللہ کی عبادت کررہے ہیں۔
ابوطالب کی آنکھیں چمک اٹھیں اور فرمایا: میں اس سے راضی ہوں ، جو کچھ تمانجام دے رہے ہو اس میں کوئی حرج نہیں ہے پھر اپنے بیٹے علی سے فرمایا: اے علی ! اپنے ابن عم کی پیروی کیا کرو کیونکہ وہ تمہیں خیر ہی کی دعوت دیں گے۔
دعوت ذوی العشیرہ ایک مدت کے بعد حضرت جبرائیل خدا کا یہ حکم لے کر نازل ہوئے:
وانذر عشیرتک الاقربین واخفض جناحک لمن اتبعک من المئومنین۔
رسول ۖنے حضرت علی کو جن کی عمر دس سال تھی حکم دیا کہ بنی ہاشم کی دعوت کرو دعوت میں ابوطالب ،ابولہب اور دوسرے لوگوں نے شرکت کی۔جب سب لوگ کھانا کھا چکے تو ہمارے نبی ۖ نے فرمایا:
میں کسی عرب جوان کو نہیں پہچانتا ہوں کہ جو مجھ سے بہتر اپنی قوم کے لئے کوئی چیز لایا ہو یقینا میں تمہارے لئے دنیا وآخرت کی نیکیاں لے کر آیاہوں....
اس کے بعد ان کے سامنے دین اسلام پیش کیا ۔
ابولہب !اٹھا اور غصہ میں کہنے لگا ۔ یقینا محمد ۖ نے تم پر جادو کیا ہے ۔ ابو طالب نے غضبناک ہوکر کہاخاموش !اور پھر محمد ۖ کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا:
اٹھئیے اور جو آپ کا دل چاہے کہئیے اور اپنے رب کا پیغام پہونچائیے کہ آپ صادق وامین ہیں۔اس کے بعد نبی ۖ اٹھے اور فرمایا:
مجھے میرے رب نے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں اسی کی طرف بلائوں پس تم میں سے کون ہے جو اس سلسلہ میں میری مدد کرے گا وہ میرے بعد تم میں میرا نھائی وصی اور خلیفہ ہوگا۔ سب خاموش رہے ۔اسخاموشی کے سناٹے کو علی نے اپنے شباب کے ہمہمہ سے توڑ دیا اور فرمایا:
اے اللہ کے رسول میں آپ کی مدد کرونگا ،یہ سن کر رسول نے اپنے ابن عم کو گلے سے لگایا ۔
بنی ہاشم اٹھ کھڑے ہوئے ابولہب نے قہقہہ لگاکر تمسخر کیا اور ابوطالب سے کہا: محمد ۖنے آپ کو حکم دیا ہے کہ اپنے بیٹے کی باتیں سنو اور اطاعت کرو۔
لیکن ابوطالب اس بات سے شرمندہ نہ ہوئے بلکہ اس کی طرف قہر آلود آنکھوں سے دیکھا ۔اور اپنے بھتجے سے شفقت کے ساتھ فرمایا:
جس چیز کا آپ کو حکم ہواہے اس کو انجام دیتے رہئیے ۔خدا کی قسم میں آپ کی ہمیشہ حفاظت کرونگا۔
ہمارے نبی محمد ۖقدرشناس آنکھوں سے ابوطالب کی طرف دیکھ رہے تھے اور محسوس کررہے تھے جب تک سردار مکہ میرے ساتھ ہین میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتاہے۔
ناصر ومددگار بڑھاپے کی کمزوری کے باوجود ابوطالب پوری طاقت سے پیغام محمد ۖسے دفاع کرتے تھے اور مشرکین مکہ سے جاری رہنے والی جنگ میں آپ پہلی صف میں رہتے تھے۔
مکہ والوں کی کثیر تعداد بت پرست تھی اور قریش کے جابروں کی دھمکیوں کو ٹھوکر مار کر دین خدا میں داخل ہورہی تھی۔
ایک دن مشرکین کے سرغنہ ابوطالب کے پاس آئے ابوطالب بستر پر ؛لیٹے ہوئے تھے ۔مشرکین نے غصہ میں کہا: اے ابوطالب اپنے بھتیجے کو روک لیجئے اس نے ہماری نیند حرام کردی ہے یہ ہمارے خدائوں کو براکہتاہے۔
ابوطالب اپنی قوم والوں کی طرف سے محزون ہوئے کیونکہ وہ صدائے حق نہیں سننا چاہتے تھے لھذا ابوطالب نے کہا:
مجھے ان سے گفتگو کرنے کی مہلت دو!
ابوطالب نے محمد ۖ سے وہ باتیں بتائیں جوسردار قریش نے کہی تھیں ،رسول ۖ نے بہت ہی ادب کے ساتھ فرمایا:
چچا جان میں اپنے رب کی نافرمانی نہیں کرسکتا۔
ابوجہل نے، جو کہ سب سے زیادہ کینہ تو نہ تھا ۔کہا:
آپ کو جس قدر مال چاہئے ہم دیں گے بلکہ اگر آپ ہم پر بادشاہی کرنا چاہیں گے تو ہم بادشاہ بنادیں گے۔
رسول ۖ نے فرمایا: مجھے سوائے کلمہ کے کسی بھی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔
ابوجہل نے کہا: وہ کیاہے ؟ تاکہ وہ اور ایسی ہی دسیوں چیزیں آپ کو دیدیں۔
رسول اکرم ۖ نے فرمایا:
قولوالاالہ الا اللہ کہو اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔
ابوجہل غصہ میں آپے سے باہر ہوگیا اور کہنے لگا : اس کے علاوہ کسی اور چیز کا سوال کیجئے۔
رسول خدا ۖ نے فرمایا:
اگر تم میرے ہاتھ پر سورج بھی رکھ دوگے تو بھی می اس کے علاوہ تم سے کچھ نہیں طلب کروں مشرکین اٹھ کھڑے ہوئے اور محمد ۖ کو ڈرانے دھمکانے لگے ۔ابوطالب نے محمد ۖ سے کہا: اپنی جان کا خیال رکھو! اور مجھ پر اتنا بار نہ ڈالو ! جس کی مجھ میں طاقت نہیں ہے ۔رسول خدا ۖ نے روتے ہوئے جواب دیا :
چچا جان خدا کی قسم اگر میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھدیں اور پھر کہیں کہ اس امر سے دست کش ہوجائوں تو بھی میں ایسا کرونگا ۔یہاں تک کہ خدا اسے غالب کردے اور اس کے غیر کو فنا کردے۔
رسول خدا ۖ آنسو صاف کرتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے ،ابوطالب نے رقت آمیز لہجہ میں آواز دی اور کہا:
بیٹے میرے قریب آئو۔
رسول خدا ۖ ان کے قریب گئے چچا نے بھتیجے کوبوسہ دیا اور کہا:
جائو بیٹے جو تمہارادل چاہے کہو خدا کی قسم میں تمہیں کسی کے سپرد نہیں کرونگا۔
پھر ابوطالب نے قریش کے جابروں کو چیلنج کرتے ہوئے کہا:
خدا کی قسم اے محمد ۖوہ قریش اپنی کثرت کے باوجود تمہیں کچھ نہیں کہہ سکتے ۔
یہاں تک کہ میں زمین کے نیچے دفن کردیا جائوں۔
نور اسلام کی کرنیں محمد ۖ نئے دین کی بشارت دیتے تھے تاکہ لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئیں
ایک مرتبہ پھر قریش ابوطالب کے پاس آئے اور ابو طالب کو نئے انداز سے مخاطب کیا کہنے لگے :اے ابوطالب یہ عمار بن ولید (خالد بن ولید کا بھائی) ہے قریش میں اس جیسا جوان نہیں ہے نہایت ہی حسین اسے آپ لے لیجئے اور محمد ۖکو ہمارے حوالے کردیجئے تاکہ ہم اسے قتل کردیں۔
ابوطالب کو اپنی قوم پر بہت افسوس ہوا کہ کہ ان کے سوچنے کا اندازہی نرالا ہے ۔ابوطالب نے انکار کرتے ہوئے جواب دیا:
کیا تم اپنا بیٹا اس لئے میرے سپرد کرناچاہتے ہو کہ میں اس کی پرورش کروں اور اپنا بیٹا تمہیں اس لئے دیدوں تم اسے قتل کردو!خدا کی قسم یہ کبھی نہیں ہوگا ۔کیا تم نے اونٹنی کو غیر کے بچہ کو دودھ پلاتے دیکھاہے؟!
اب مشرکین کی ایذارسانی کا سلسلہ بڑھ گیا ۔انہوں نے مسلمانوں کو اور زیادہ ستانا شروع کردیا۔
ابو طالب کو یہ خوف ہواکہ کہیں اس ایذا رسانی کا سلسلہ محمد ۖ تک نہ پہونچ جائے ۔لھذا انہوں نے بنی ہاشم کو طلب کیا اور انہیں محمد ۖ کی حفاظت کی دعوت دی ابوطالب کے علاوہ سب نے آپ ۖ کی آواز پر لبیک کہا:
ایک مرتبہ ابوطالب کو یہ خبر ملی کہ ابو جہل اور بعض مشرکین محمد ۖ کو قتل کرنے کے درپے ہیں لھذا وہ جعفر کو ساتھ لے کر محمد ۖ کی تلاش میں نکلے مکہ کے ٹیلوں میں محمد ۖ کو تلاش کیا اِدھر ادھر ڈھونڈا تودیکھا کہ محمد ۖ اور علی نماز پڑھ رہے ہیں ،محمد ۖ تنہا نظر آئے ،علی کے سواء ان کے ساتھ کوئی نہ تھا لھذا ابوطالب کو قلق ہوا ،انہوں نے بھتجے کا بازو مضبوط کرنا چاہا اور اپنے بیٹے جعفر سے کہا: اپنے عم کی دوسری طرف تم کھڑے ہوجائو ۔
یعنی بائیں طرف تم کھڑے ہوجائو تاکہ محمد ۖ کوزیادہ قوت وعزم محسوس ہوسکے۔
جعفر نے رسول خدا ۖ اور اپنے بھائی علی کے ساتھ زمین وآسمان کے خالق اور رب العالمین کے لئے نماز ادا کی ۔
ایک بار اور ابوطالب نے محمد ۖ کو نہ پایا ۔حسب عادت ان کا انتظار کیا لیکن وہ نہ لوٹے ابوطالب نے تلاش کرنا شروع کیا ،ان تمام جگہوں پر گئے جہاں محمد ۖآتے جاتے تھے لیکن کہیں نہ پایا واپس لوٹ آئے اور بنی ہاشم کے جوانوں کو جمع کیا اور کہا:
تم سب تلوار اٹھالو اور میرے ساتھ چلو جب میں مسجد میں داخل ہوجائوں توتم ان قریش کے سرداروں کے پاس بیٹھ جانا ۔جب یہ معلوم ہوجائے کہ محمد ۖ قتل کردئیے ہیں توتم ان کو قتل کردینا ۔
بنی ہاشم کے جوانوں نے حکم کی تعمیل کی اور ان میں سے ہرایک مشرکین کے سردار کے پاس بیٹھ گئے۔
ابوطالب بھی بیٹھ کر انتظار کرنے لگے ۔اسی اثنا میں زید بن حارثہ آئے اور انہوں نے بتایا رسول خدا ۖ صحیح وسالم ہیں۔
اس وقت ابوطالب نے اعلان کیا :اگر کوئی رسول خدا ۖ کی زندگی سے کھیلے گا تو اس کاانجام برا ہوگا۔ اب مشرکین کو اپنی ذلت کا احساس ہوا ،ابوجہل نے گردن جھکائی اور خوف سے اس کا چہرہ زرد ہوگیا ۔
بعض مشرکین اپنے لڑکوں اور غلاموں کو ترغیب دیتے تھے کہ رسول خدا ۖ کوستائیں۔
ایک دن رسول خدا ۖ نماز پڑھ رہے تھے جب آپ ۖ سجدہ میں گئے تو ایک غلام نے آپ ۖ کے اوپر گندی چیز ڈال دی اور مشرکین نے قہقہہ لگانا شروع کردیا۔
محمد ۖ کو بہت قلق ہوا، دل پکڑ کر رہ گئے ،جاکے اپنے چچا سے شکایت کی،ابوطالب کو غیظ آگیا تلوار کھینچ لی او ر مشرکین کے پاس پہنچے اور اپنے غلام کو حکم دیا کہ گندگی اٹھا کر یکے بعد دیگرے ان سب کے منہ پر مل دو۔
مشرکین نے کہا: اے ابوطالب اتنا کہدینا ہی آپ کے لئے کافی ہے۔
بایکاٹ جب مشرکین کو یہ یقین ہوگیا کہ ابوطالب محمد ۖ کی حمایت سے دست بردار نہیں ہونگے اور ان کی حمایت وحفاظت میں جان بھی دینے کو تیار ہیں تو انہوں نے بنی ہاشم کا سماجی واقتصادی بایکاٹ اور ان سے ہر قسم کی قطع تعلقی کا اعلان کردیا۔
مکہ کے چالیس سرداروں نے قطع تعلقی کے سلسلہ میں ایک دستاویز لکھی اور اسے خانہ کعبہ کے اندرلٹکادیا یہ واقعہ ماہ محرم میں بعثت کے ساتویں سال پیش آیا۔
قریش کویہ توقع تھی کہ ابوطالب ہتھیار ڈالدیں گے لیکن شیخ البطحاء کا دوسرا ہی موقف تھا۔ ابوطالب اپنے قبیلہ کو دوپہاڑوں کے درمیان کی وادی میں لے گئے ۔یہ اس لئے کیاتاکہ محمد ۖ کو قتل سے بچاسکیں۔
ابوطالب غار میں چلے گئے اور اس کے سوراخوں کو بند کردیا تاکہ ان سے داخل ہوکر محمد ۖ کو قتل نہ کردیں۔
اپنے بڑھاپے کے باوجود اپنے بھائی حمزہ اور بنی ہاشم کے دوسرے لوگوں کے ساتھ ابوطالب بھی نبی ۖ کو بچانے کے لئے پہرہ دیتے تھے اور ان کو ایک بستر سے دوسرے بستر پر منتقل کرتے رہتے تھے۔تاکہ اگر کسی طرح دشمن دن میں رسول اللہ ۖ کی جگہ دیکھ بھی لے اور پھر ان کے قتل کے لئے رات کے وقت غار میں درآئے تو محمد ۖ قتل نہ ہوں۔
اسی طرح بہت سے دن گزر گئے ۔اس گوشہ نشینی کی زندگی میں شعب میں رہنے والے رنج ومحرومی ا ور بھوک کی تکلیف برداشت کرتے رہے۔
جب حج کازمانہ آیا تو وہ لوگ کھانے پینے اور پہننے کی چیزیں خریدنے کے لئے باہر نکلے کہ بازار میں کوئی چیز باقی نہیں بچتی تھی کہ جس محاصرہ میں پھنسے ہوئے بنی ہازم خرید لیتے۔
اس متزلزل کردینے والے زمانہ میں ابوطالب چٹان کی طرح ثابت رہے نہ نرمی اختیار کی نہ اپنے اس موقف سے ہٹے جو محمد ۖ کے بارے میں تھا ۔اس مومن کی مثال چٹان کی سی ہے ،جو ثابت رہتی ہے ۔اکثر لوگوں نے ابوطالب کی زبان سے یہ اشعار بھی سنے ہیں:

نصرت الرسول رسول الملیان ۔بیض تلائلاء کلمع البرق۔
اذب واحمی رسول الله۔حمایة حام علیه شفیق ۔

ایک مرتبہ قریش کے موقف کو ٹھکراتے ہوئے فرمایا:

الم تعلموا انا وجدنا مهمدا۔رسولا کموسی خط فی اول الکتب۔
وان علیه فی العباد محبة ۔ولا حیف فیمن خصه الله فی الحب۔

لوگوں کے دل میں ان کی محبت ہے اور یہ کوئی افسوس ناک بات نہیں ہے کہ اللہ نے محبت کو ان سے مختص کیاہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حضرت ابوطالب محمد ۖ کو اپنے بیٹوں سے زیادہ چاہتے تھے کبھی آپ کی طرف دیکھ کر رونے لگتے اور فرماتے تھے : جب میں انہیں دیکھتا ہوں تو مجھے میرے بھائی عبد اللہ یاد آجاتے ہیں ۔
ایک مرتبہ رات کو ابوطالب آئے محمد ۖکو بیدار کیا اور علی سے فرمایا:
بیٹے تم ان کے بستر پر سوجائو۔
جب علی نے اپنے والد کو یہ بات سمجھانے کے لئے کہ میں اپنے نفس کوقربان کرنے کے لئے تیار ہوں، فرمایا:
اس طرح عنقریب قتل ہوجائونگا ۔
اطو طالب نے کہا:
حبیب اور فرزند حبیب کی طرف سے فدیہ بننے پر صبر کرو۔
حضرت علی دلیری سے کہتے ہیں:
میں موت سے نہیں ڈرتا ہوں میں تو صرف آپ پر اپنی فداکاری واضح کرنا چاہتا تھا۔
ابوطالب نے محبت سے اپنے بیٹے کا بازو تھپتھپایا اور محمد ۖ کو دوسری جگہ لے گئے تاکہ وہاں آرام کریں اور جب رسول ۖ بستر پر آرام فرماتے تھے تو ابو طالب آرام نہیں فرماتے تھے تاکہ نیند غالب نہ آجائے اور ان کا قلب ایمان سے سرشار رہتاتھا۔
مہینوں گزرتے جارہے تھے اور غار میں محبوس لوگوں کی بھوک اور صبر میں اضافہ ہوتا جارہاتھا ۔یہاں تک درختوں کے پتے کھاکر بسر کرتے تھے ،بھوکے بچوں کو دیکھ کررسول ۖ کو بہت قلق ہوتاتھا۔
خوشخبری ایک دن محمد ۖ اپنے چچا کے پاس آئے جبکہ فرحت ان کے درخشاں چہرہ سے عیاں تھی۔ اور فرمایا:
چچاخدا نے قریش کے عہد نامہ پر دیمک کو مسلط کردیا ہے اور اس نے اللہ کے نام کے علاوہ سارا عہد نامہ چاٹ لیاہے۔
ابوطالب نے خوشی سے کہا:
کیا تمہارے رب نے تمہیں اس کی خبر دی ہے؟!
ہاں۔
ابوطالب فورا اٹھے ،ان کا قلب ایمان سے معمور تھا ۔خانہ کعبہ کے پاس گئے ،وہاں دار الندوہ میں قریش کے سردار جمع تھے۔
ابوطالب نے ان لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا:
اے گروہ قریش !
وہ سب بارعب شیخ کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوگئے اور منتظر رہے کہ دیکھئے کیا کہتے ہیں شاید یہ اعلان کریں گے کہ میں محاصرہ سے عاجز آگیاہوں اور اپنا موقف بدل دیاہے لہین شیخ البطحاء نے کہا:
اے گروہ قریش ! میرے بھتیجے محمد ۖ نے مجھے خبر دی ہے کہ تمہارے عہد نامہ پر خدا نے دیمک کو مسلط کردیاہے اور اس نے خدا کے نام کے سوا ساری عبارت کو چاٹ لیاہے ۔
اگر محمد ۖ سچے ہیں تو ہمارے بائیکاٹ اور محاصرہ سے دست بردار ہوجائو۔
ابوجہل نے کہا:
اگر وہ جھوٹے ہیں؟ (معاذ اللہ)
ابوطالب نے وثوق وایمان کے ساتھ کہا:
میں اپنے بھتیجے کو تمہارے حوالے کردونگا۔
قریش کے سرداوں نے کہا:
اس بات پر ہم راضی ہیں ،ہمارا تم سے عہد ومیثاق ہے۔
دیمک کو دیکھنے کے لئے خانہ کعبہ کا دروازہ کھولا گیا ۔دیکھا کہ اس نے خدا کے نام کے سوا سارا عہد نامہ کھالیا ہے۔
سارے محاصرین شعب ابوطالب سے نکل آئے ۔محمد ۖ اور ان کے ساتھ ان لوگوں نے جو کہ ایمان لے آئے تھے۔ حج بیت اللہ کی زیارت کے لئے آنے والے وفود کو نور اسلام کو دعوت دینا شروع کردی۔
کوچ ابوطالب اپنی عمر کے اسی سال پورے کرچکے ہیں۔ شدید ضعف کا احساس ہوتاہے ،بیمار پڑتے ہیں ،صاحب فراش ہوجاتے ہیں ۔انہیں کسی چیز کی فکر نہیں ہے ۔ صرف محمد ۖ کے بارے میں سوچتے ہیں۔ یہ محسوس کرتے ہیں کہ میرے بعد قریش کو کسی کا خوف نہیں رہے گا اور وہ میرے بھتیجے کو قتل کردیں گے۔
قریش کے سردار شیخ البطحاء ۔ابوطالب کی عیادت کے لئے آتے ہیں اور کہتے ہیں:
اے ابو طالب آپ ہمارے سردار ہیں ،مرنے کے قریب ہیں ہمارے اور اپنے بھتیجے کے درمیان سے دشمنی کی جڑ کو ختم کردیجئے ۔ان سے کئیے کہ وہ ہمیں کچھ نہ کہیں اور ہم بھی انہیں کچھ نہیں کہیں گے۔
ابوطالب نے ابو جہل وابوسفیان اور قریش کے دیگر سرداروں کی طرف دیکھا اور نحیف آواز میں کہا:
اگر تم محمد ۖ کی باتوں پر کان دھروگے اور ان کے حکم کا اتباع کروگے تو کبھی نقصان نہ اٹھائوگے اس کی اطاعت کرو کہ تمہاری دنیا وآخرت سنور جائے گی۔
یہ بات سن کر مشرکین اٹھ گئے اور ابوجہل نے کہا:
کیا آپ یہ چاتے ہیں کہ ہم ایک خدا کو تسلیم کرلیں؟
قریش کے اس موقف پر ابوطالب کو بہت افسوس ہوا ۔محمد ۖ کی طرف فکر مند تھے بنی ہاشم کو بلایا اور انہیں محمد ۖ کی نصرت کرنے کی تاکید کی اور کہا اگر وہ جان دینے کا حکم بھی دیں تو بھی دریغ نہ کرنا پھر ابوطالب نے آنکھیں بند کرلیں اور اطمینان سے جان کو جاں آفریں کے سپرد کردیا۔
سردار مکہ خاموش ہوگیا ۔بدن کی حرکت بند ہوگئی ۔ان کے بیٹے علی نے دل خراش نالوں سے رونا شروع کیا ۔مکہ کی فضا میں آہ وبکاہ کی آواز گونجنے لگی ۔مشرکین کے چراغ روشن ہوگئے ۔ابوجہل نے کہا:
اب محمد ۖ سے انتقام لینے کا وقت آگیاہے ۔
اپنے چچا کو آخری باروداع کرنے کے لئے محمد ۖ تشریف لائے ۔ان کی درخشاں پیشانی کو بوسہ دیا اور کہنے لگے:
چچا خدا آپ پر رحم کرے جب میں چھوٹا تھا اس وقت میری تربیت کی ۔میں یتیم تھا تو میری کفالت کی،بڑا ہوا تو میری مدد کی، خدا وند عالم میری اور اسلام کی طرف سے آپ کو جزا ئے خیر عطاکرے یہ کہہ کر۔
اتنا روئے کہ آنسو بہہ نکلے اور اس زمانہ کو یاد کرنے لگے جو کہ اپنے چچا کے سایہ میں گزرا تھا ،وہ دن بھی یاد آگیا جب بچے تھے اور چچا تجارت کے لئے شام جارہے رہے تھے اور آپ ۖنے اونٹ کی مہار پکڑ کر روتے ہوئے کہاتھا:
مجھے کس کے سہارے چھوڑ کر جارہے ہیں ،ماں ہے نہ باپ ،میں کس سے دل بہلائوں؟
وہ وقت بھی یاد آگیا جب چچا نے روتے ہوئے کہاتھا:
خدا کی قسم میں تمہیں کسی غیر کے سہارے پر نہیں چھوڑونگا۔
پھر ہاتھ بڑھا کر اٹھالیا تھا اور بوسے دینے لگے تھے اور دونوں ناقہ پر سوار ہوکر صحراء طے کرنے لگے تھے۔
رسول خدا ۖ کو ہر روز اپنی شیرینی اور تلخی کے ساتھ یاد آرہاتھا اس کے بعد پھر آپ ۖ نے اپنے چچا کی منور پیشانی کو بوسہ دیا اور اپنے ابن عم علی کو گلے لگاکر رونے لگے۔
عام الحزن چند ہفتے گزرے تھے کہ رسول ۖ کی زوجہ حضرت خدیجہ ۖ نے بھی وفات پائی ،رسول خدا ۖ نے اس سال کانام عام الحزن (غم کاسال) رکھا پھر کیاتھا قریش نے آپ ۖ اور مسلمانوں کو ایذائیں پہونچاناشروع کردیں۔
ایک دن محمد ۖ اپنے گھر آرہے تھے کہ بے وقوف بے ہودوں نے آپ و کے سر پر خاک ڈال دی ۔فاطمہ ۖ باپ کا سر صاف کرتی جاتی تھیں اور روتی جاتی تھیں ۔رسول اکرم ۖ نے بیٹی کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے فرمایا:
بیٹی رئوو نہیں ،خدا تعالی تمہارے باپ کو محفوظ رکھے گا اور اسے اپنے دین وپیغام کے دشمنوں پر فتح یاب کریگا ۔جبرائیل نازل ہوئے اور یہ کہتے ہوئے آسمانی پیغام پہو نچایا:
،ح،د ۖ!مکہ سے ہجرت کرجائیے آپ کے مددگار مرچکے ہیں۔اورجب قریش نے محمد ۖ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تواس دفعہ بھی محمد ۖ پر جان قربان کرنے کے لئے ابوطالب کے شیر علی ہی بستر پر لیٹنے کے لئے تیار ہوئے۔
علی ! شیخ البطحاء ابوطالب ہی کے بیٹے ہیں۔
محمد ۖ یثرب ،مدینہ کی طرف ہجرت کرگئے تاکہ وہاں سے نور اسلام پھیلائیں اور دنیا کوروشن کریں۔
آج بھی جب مسلمان ہرسال خانہ خدا کی زیارت کے لئے جاتے ہیں تو انہیں شیخ البطحاء کا موقف اور دین خدا اور اس کے پیغام سے ان کادفاع کرنایاد آجاتاہے۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت بلال اور ولايت کي حمايت
حضرت ابو طالب
حجاج بن یوسف
وحدت و اتحاد کے بارے میں امام علی﴿ع﴾ کا نظریہ ...
اسلام اور مغربی زندگی میں فرق
الکافی
حضرت آدم علیه السلام وحوا کے کتنے فرزند تھے؟
لالچي بوڑھا اور ہارون الرّشيد
بعثت پیغمبراسلام(ص)
اندازِ خطبہ فدک

 
user comment