اردو
Thursday 5th of December 2024
0
نفر 0

قرآن اور علي (ع)

قرآن دلوں کی بہار، مریضوں کی شفا، علم و دانش کا سر چشمہ، شناخت خدا اور معرفتِ پروردگار کے لئے سب سے محکم ، مستدل ، اور متقن دلیل منبع شناخت اسرار و رموزِ کردگار مرجعِ فہم و ادراک منشا ِ پروردگاروہ سر چشمہ ٴ آب زلال جو زنگ لگے دلوں کو اس
قرآن اور علي (ع)

  قرآن دلوں کی بہار، مریضوں کی شفا، علم و دانش کا سر چشمہ، شناخت خدا اور معرفتِ پروردگار کے لئے سب سے محکم ، مستدل ، اور متقن دلیل منبع شناخت اسرار و رموزِ کردگار مرجعِ فہم و ادراک منشا ِ پروردگاروہ سر چشمہ ٴ آب زلال جو زنگ لگے دلوں کو اس طرح صاف کرتا ہے کہ پھر انہیں ملکوت کی سیر کے سواء کچھ اچھا نہیں لگتا۔

          گذرگاہِ تاریخ بنی نوع بشری پر جلتا ہوا وہ چراغ جو انسانی زندگی کے تمام پیچ و خم کو قابلِ دید بنا کر انسان کے ادنیٰ یا اعلیٰ ہونے میں مشعل ِ راہ ہے۔علم و حکمت کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا وہ بحر ذخار کہ غواص علم و دانش جتنا اسکی گہرائی میں اتریں گے اتنا ہی انکا دامن معرفت کے بیش بہا گوہروں سے بھرتا جائے گا۔

          لیکن افسوس ! تہجر کے یخ زدہ پہاڑوں کو پگھلانے کے لئے جو کتاب نازل ہوئی تھی آج وہی کتاب تہجر کا شکار ہے اور آواز دے رہی ہے مجھے کس طرح میرے ماننے والوں نے خود اپنے ہی وجود میں منجمد کردیا میں تو منجمد شدہ پیکروں کو آوازِ حق کی گرمی سے پگھلا کر اشرف المخلوقات انسان کو کمال کی انتہا پر پہنچانے آئی تھی لیکن آج میرا وجود ہی ایک حرف بن کر رہ گےا ہے۔

          علی تاریخ  بشریت کی مظلوم ترین شخصیت اتنی بڑی کائنات میں وہ اکیلا انسان جو صدیاں گذر جانے کے بعد آج بھی اکیلا اسی جگہ کھڑا ہے جہاں صدیوں پہلے کھڑا تھا اس انتظار میں کہ شایدکچھ ایسے افراد مل جائیں جو اسے سمجھ سکیں اور پھر اسکا اکیلا پن دور ہو جائے لیکن زمانہ جیسے جیسے آگے بڑھ رہا ہے وہ اور زیادہ اکیلا ہوتا چلا جارہا ہے بالکل قرآن کی طرح ۔۔۔علی اور قرآن کتنی یکسانیت ہے دونوں میں ؟سچ کتنی اپنائیت ہے دونوں میں ؟ جیسے دونوں کا وجود ایک دوسرے کے لئے ہو دونوں ایک دوسرے کے درد کو سمجھتے ہوں۔۔۔یہ بھی کیا عجیب اتفاق ہے امت ِ محمدی کو مالک کی طرف سے دو عظیم عطیہ ملے لیکن دونوں مظلوم دونوں تنہا دونوں درد کے مارے مگر آپس میں ہماہنگ اس جہت سے کہ دونوں پر ظلم کرنے والے اور کوئی نہیں بلکہ خود اپنے ہی ماننے والے ہیں ۔

          جس طرح آج کروڑوں لوگ اپنی زندگی میں صبح و شام قرآن کا ورد کرتے ہیں لیکن نہ انہیں قرآنی معارف کا علم ہے اور نہ وہ یہ جانتے ہیں کہ قرآن ان سے کیا چاہتا ہے اسی طرح علی کی ذات بھی ہے ۔  لوگ علی کا تذکرہ کرتے نہیں تھکتے صبح و شام علی علی کرتے ہیں انکی محفلوں میں علی کا نام ہے مجلسوں میں علی کا ذکر ہے تقریبوں میں علی کا چرچاہے خلوت کدوں میں علی کے نام کا وردہے لیکن انہیں نہیں معلوم کہ یہ شخصیت کن اسرار کی حامل ہے اور خود یہ ذات اپنے چاہنے والوں سے کیا چاہتی ہے انہیں تو اس بات کا بھی علم نہیں ہے کہ جن فضیلتوں کا تذکرہ وہ دن بھر کرتے رہتے ہیں وہ تمام فضیلتیں تو فضائل ِ علی کے سمندر کا ایک قطرہ ہیں اور بس!علی کی ذات تو کچھ اور ہی ہے

          آج قرآن کے نام پر نہ جانے کتنی محفلیں ہوتی ہیں نہ جانے کتنی نشستوں کا اہتمام کیا جاتا ہے نہ جانے دنیا میں کن کن طریقوں سے قرآن کی قراٴت کے مختلف اسالیب کا مسابقہ ہوتا ہے نہ جانے کتنی جگہ قرآن فہمی کے دروس رکھے جاتے ہیں بالکل اسی طرح علی کے نام پر بھی محفلیں سجتی ہیں بے شمار تقریبیں ہوتی ہیں لا تعداد سیمینار ہوتے ہیں لیکن صبح و شام نہ قرآن کے ورد کرنے والوں کو قرآن کے مفاہیم کا اندازہ ہے اور نہ ہی اس کے آفاقی پیغامات پر کوئی غور و خوض کرنے پر اپنے آپ کو آمادہ کر پاتا ہے نہ ہی علی کے نام کو صبح سے شام تک اپنی زبان پر لینے والے افراد یہ جانتے ہیں کہ علی کی شخصیت کیا ہے اور رفتار علوی کسے کہتے ہیں ؟

 
گل سفید

          یہ امر بھی قابل حیرت ہے کہ علی کہ نام کو ورد زباں بنانے والے افراد جہاں اس مبارک نام کو اپنی ہر محفل کی زینت بنانا اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں وہیں علی پر پڑ نے والی مصیبتوں پر روتے بھی ہیں اور خوب خوب روتے ہیں کوئی نہ انکی محبت کو خدشہ دار بنا سکتا ہے اور نہ کوئی انکے عمل میں نقص ڈھونڈ سکتا ہے واقعی اور حقیقی معنی میں یہ علی سے محبت کرتے ہیں اور علی کو چاہتے ہیں اور اسی لئے علی کا نام آتے ہی خوشیوں کی ایک لہر انکے وجود میں دوڑ جاتی ہے اور علی کی مصیبتوں کا تذکرہ ہوتے ہی آنکھو ںمیں آنسو آجاتے ہیں لیکن افسوس تو یہاں ہوتا ہے کہ علی کے ان چاہنے والوں اور عاشقوں کو نہیں معلوم کہ خود علی کیوں رو رہے ہیں ؟

          آج جس ضربت نے سرِ علی کو دو پارہ کردیا اس پر رونے والے تو بہت مل جائیں گے لیکن وہ زخم زباں جنہوں نے علی کے حساس وجود کو اندر سے کرچی کرچی کردیا اس پر رونے والا کوئی نہیں ملتا وہ نشتر جو علی کے دل کے آر پار ہوگئے ان پر گریا کرنے والا کوئی نہیں ہے اور نہایت درجہ افسوس تو یہ ہے کہ رونا تو در کنار نہ کسی کو علی کے دل میں چبھے نشتر نظر آتے ہیں اور نہ کسی کو علی کے دل کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینے والے مصائب دکھتے ہیں کوئی اپنے آپ سے نہیں پوچھتا کہ علی کے اوپر پڑنے والی وہ کونسی مصیبت ہے جو رات کی تاریکی میں علی کو چاہ میں سر ڈال کر رونے پر مجبور کر رہی ہے آخر وہ کونسا راز ہے جسے علی بنی نوع بشر کی فرد فرد تک پہنچانا چاہتا ہے اور جب اسکی آواز خود اس کے ہی ہونٹوں میں دب کر ٹوٹ جاتی ہے تو نخلستانوں میں بلک بلک کر اپنے معبود کی بارگاہ میں فریاد کرتا ہے ربنا ما خلقت ہذا باطلا سبحانک فقناعذاب النار۔۔۔

ٓآئیے ! اس مبارک مہینے میں جہاں ہر طرف برکات کا نزول ہے کچھ ان اساسی اور بنیادی مسائل پر وقت نکال کر غور کرتے ہیں کہ علی کی تنہائی کا راز آخر کیا ہے ؟قرآن آج بھی آخر کیوں تنہا ہے؟ ہم علی اور قرآن کی تنہائی کو دور کرنے کے لئے کیا کر سکتے ہیں ؟ ہماری اجتماعی زندگی میں قرآن کا کتنا دخل ہے؟ ہم اپنے معاشرے کو کس قدر قرآن کا پابند بنا سکتے ہیں کہیں ہمارا زمانہ وہی زمانہ تو نہیں جس کے لئے علی نے کہا تھا و انہیاتی علیکم بعدی زمان۔۔۔و لیس عند اھل ذلک الزمان سلعة ابور من الکتاب۔۔۔فقد نبذ الکتاب حملتہ و تناساہ حفظتہ۔۔۔ یاد رکھو میرے بعد تمہارے سامنے وہ زمانہ آنے والا ہے  جب اس زمانے والوں کے نزدیک کتابِ خدا سے زیادہ بے قیمت کوئی متاع نہ ہوگی حاملان کتاب ،کتاب کوچھوڑ دیں گے اور حافظان قرآن ،  قرآن کو بھلا دینگے۔ (نہج البلاغہ ۔خطبہ ۱۴۷)

          قرآن کے متعالی مفاہیم کو سمجھنے اور نئی نسل تک منتقل کرنے اور قرآن کے ساتھ کی جانے والی علی کی خدمات کو بیان کرنے کے لئے اس مبارک مہینے میں کہ جس میں ایک طرف قرآن نازل ہوا تو دوسری طرف محافظ قرآن کے خون سے محرا ب مسجد رنگین ہوگئی ، اس ماہ کا خصوصی شمارہ میزانہماری ایک کمترین کوشش ہے اور اس راہ میں ایک ادنیٰ قدم ہے ہمیں یہ اعتراف کرنے میں کوئی جھجک نہیں ہے کہ نہ ہمیں اپنی قلمی کاوشوں پر بھروسہ ہے اور نہ ہی اس سلسلے میں اٹھائے جانے والے کسی تحریری قدم پر اعتبار ہے          اس لئے کہ دن رات کی انتھک کوششوں کے بعد بھی اگر کوئی تحریر مالک کی بارگاہ میں مقبول نہیں تو تمام محنت رایگاںماہ و سال کی خدمت لائق مذمت ہے اگر اس پر رضایت مالک کی مہر ثبت نہ ہو۔ تحریر کردینا ہمارا کام ہے اس کے اندر اثر پیدا کردینا مالک کا کام ہے اسی لئے اس مبارک مہینے میں ہم مالک کے حضور دست بدعا ہیں

          معبود !  خدمت اسلام کے جذبہ سے سر شار تیرے چند ناچار اور بے بس بندوں نے ایک ادنی ٰ سی کوشش کی ہے  تےرے محبوب ترین کلا م اور تیرے پسندیدہ لہجہ کو دنیا کے سامنے آشنا کرانے کی اسے قبول کرلے

          مالک!  ہمیں اپنی کمیوں اور خامیوں کا اعتراف ہے لیکن تیری بے پناہ رحمت کا سہاراہے اگر ہم سے کوئی خطا ہوئی ہو تو اسے بخش دے ۔رب کریم !  تو بخشنے والا رحمان و رحیم پروردگار ہے اس مبارک مہینے میں ہمیں توفیق عطا فرما کہ ہم زیادہ سے زیاد ہ تیری عبادت میں وقت  صرف کرسکیں


source : tebyan
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

رسول اکرم کا طریقہ حکومت – دوسرا حصه
فاطمہ (س) کی معرفت لیلۃ القدر کی معرفت ہے
شیعیان علی جنتی مخلوق
خدیجہ(ع) کی دولت اور علی (ع) کی تلوار
نبی (ص) کی ذات محور اتحاد
امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کا فلسفہ اور حکمت
امام زمانہ عج کی نیابت عام، مرجعیت تقلید سے ولایت ...
فضائل فاطمہ (س) قرآن کی زبانی
میراث فاطمہ علیہا السلام اور حدیث لا نورث کے بارے ...
حضرت علی (ع) سے شادی

 
user comment