تاہم گذشتہ، حال اور مستقبل کے موجودات کے درميان کے درميان ربط و تعلق کچھ يوں ہے کہ گذشتہ (ماضي کے) موجودات نے موجودہ (ياحال کے) موجودات کے معرض وجود ميں آنے اور تخليق ہونے کے اسباب فراہم کرتے ہيں اور موجودہ (ياحال کے) موجودات آئندہ (يا مستقبل کے) موجودات کي تخليق ہونے اور وجود ميں آنے کے اسباب و موجودات فراہم کرتے ہيں- اگر عِلّي اور إعدادي (Causal) تعلقات موجوداتِ عالم سے ختم کئے جائيں تو يہ عالم باقي نہيں رہے گا اور کوئي بھي دوسرا موجود، وجود ميں نہيں آئے گا؛ جيسا کہ اگر وجودِ انسان کے درميان کا ارتباط ہوا، روشني، پاني اور اشيائے خورد و نوش سے ختم کيا جائے تو وہ اپنا وجود قائم نہيں رکھ سکے گا اور دوسرے انسانوں يا دوسرے موجودات کي تخليق کا امکان فراہم نہيں کرسکے گا-
ان دو مقدمات کو ملا کر يہ نتيجہ اخذ کيا جاسکتا ہے کہ اس دنيا کا نظام ـ جو ماضي، حال اور مستقبل کے بے شمار موجودات پر مشتمل ہے ـ ايک ہي خالق کي تخليق کردہ ہے اور اس کا انتظام و انصرام اسي کي حکيمانہ تدبير کے تحت چلتا ہے کيونکہ اگر اس کے سوا ايک يا ايک سے زيادہ خالق اور بھي ہوتے تو مخلوقات کے درميان کسي قسم کا تعلق و ارتباط وجود ميں نہ آتا اور سب پر واحد نظام حاکم نہ ہوتا بلکہ ہر مخلوق کا اپنا خالق ہوتا اور اسي خالق کے تخليق کردہ موجودات کي مدد سے پروان چڑھتا؛ نتيجے کے طور پر متعدد اور مستقل نظامات معرض وجود ميں آتے اور ان کے درميان کوئي ربط و تعلق برقرار نہ ہوتا؛ حالانکہ دنيا ميں موجودہ نظام ايک منظم اور يک جہت نظام ہے جس کے تمام اجزاء دوسروں سے جڑے ہوئے ہيں اور يہ پيوستگي مشہود اور نماياں ہے- (1)
حوالے جات:
(1) محمدتقى مصباح يزدى ، آموزش فلسفه، ج 2، ص 359 و 360 زيادہ معلومات کے لئے ديکھيں: سيدمحمدحسين طباطبايى ، اصول فلسفه و روش رئاليسم، ج 5، صص 111- 123.
منبع: خداشناسي ؛محمد رضا کاشفي ؛نهادنمايندگي مقام معظم رهبري در دانشگاه ها
source : tebyan