آپ (ص) کي بردباري اور اطمينان نفس کا يہ عالم تھا کہ جن باتوں کو سن کر دوسرے افراد بے تاب ہوجايا کرتے تھے وہ باتيں آپ ميں ذرہ برابر بھي اضطراب پيدا نہيں کر پاتي تھيں- بعض اوقات مکہ ميں حضور اکرم (ص) کے دشمن آپ (ص) کے ساتھ بدسلوکي سے پيش آتے تھے- ايک مرتبہ جب حضرت ابوطالب کو اس کي خبر ہوئي تو اس قدر ناراض ہوئے کہ اپني شمشير کھينچ لي اور اپنے غلام کے ساتھ وہاں پہنچے اور جو جسارت ان لوگوں نے پيغمبر خدا (ص) کے حق ميں کي تھي، حضرت ابوطالب نے ايک ايک سے اس کا انتقام ليا اور فرمايا کہ اگر کسي نے اعتراض کيا تو اس کي گردن اڑا دوں گا، ليکن رسول اکرم (ص) نے ان جسارتوں کو انتہائي بردباري کے ساتھ تحمل فرمايا-
ايک بار ابوجہل نے آپ (ص) کي توہين کي ليکن آپ (ص) نے وہاں بھي سکوت اختيار کيا اور بردباري کا مظاہرہ کيا- ايک شخص نے اس بات کي خبر حضرت حمزہ کو دے دي- حضرت حمزہ بے تاب ہوگئے، ابوجہل کے قريب گئے اور اپني کمان سپ اس ملعون کے سر پرايسي ضرب لگائي کہ ماتھا خون سے تر ہوگيا- اس کے بعد حضور (ص) کي خدمت ميں حاضر ہوکر اپنے اسلام کا اعلان کيا- کبھي کبھي تو بعض مسلمان بھي غفلت يا ناداني کي بنياد پر کسي بات کو ليکر حضور (ص) کے سلسلہ ميں توہين آميز جملہ کہہ ديتے تھے- يہاں تک کہ آپ کي ايک زوجہ جناب زينب بنت جحش نے ايک بار آپ (ص)سے کہہ ديا کہ آپ پيغمبر ہيں ليکن عدل و انصاف نہيں کرتے- سرور کائنات (ص) مسکرانے لگے اور کوئي جواب نہيں ديا- بعض اوقات کچھ لوگ مسجد ميں آتے تھے اور حضور (ص) کے سامنے اپنے پير پھيلاکر کہتے:''ليجئے ہمارے ناخن کاٹئے''!!کيونکہ ناخن کاٹنے کا دستور وارد ہوا تہا ليکن رسول اکرم (ص)اپني بے نظير بردباري کے ذريعہ ان تمام جسارتوں اور بے ادبيوں کو تحمل فرماتے تھے-
source : tebyan