جیسا کہ اشارہ کیا جا چکا ھے کہ قرآن کریم کے علاوہ دوسری آسمانی کتابوں میں بھی خدا شناسی سے متعلق مذکورہ روش کو انتخاب کیا گیا ھے۔ آربری A.J. ARBERRY اپنی کتاب ”اسلام میں عقل و وحی“ میں رقم طراز ھے:
یونان میں عصر افلاطون ایسی روایات کا منبع تھا کہ جن کی بنیاد پر وجود خدا کے اثبات کے لئے دلیل و برھان ضروری تھا۔ مغربی دنیا میں ایسا پھلی دفع ھوا تھا کہ بشر اپنے خالق کی جستجو کر رھا تھا۔ عھد عتیق میں ایسا کبھی نھیں ھوا تھا کہ کوئی دانشمند ھستی خدا کے بارے میں کسی ایسے پیچیدہ اور گنجلک مسئلہ سے روبرو ھوا ھو جس میں کسی تردید یا شک کی گنجائش ھو کیونکہ قوم سامی ( قوم پسر نوح) کی فطرت خود وحی میں ھی خدا کو تلاش کرلیتی تھی۔
عھد عتیق (باستان) سے متعلق مذکورہ نکات کسی قدر ترمیم کے ساتھ عھد جدید (زمانہٴ حضرت عیسیٰ) پر بھی منطبق ھوتے ھیں۔
زرتشتیوں کی مقدس کتاب ”اوستا“ کے مطالعہ سے بھی یہ بات واضح ھوجاتی ھے کہ اصل وجود خدا کا بدیھی ھونا فقط اقوام سامی یاکتب دینی سے ھی مخصوص نھیں رھا ھے بلکہ ”اوستا“ میں بھی اصل ھستی خدا کو بدیھی اور دلائل سے بے نیاز بتا یاگیا ھے۔
البتہ ھندؤں کی کتب مقدس ”اپنیشید“ میں خال ۔خال ایسی عبارتیں نظر سے گذرتی ھیں کہ جن کا آھنگ اور انداز ھستی صانع اورعلت اولیہ کے بارے میں سوالیہ ھے لیکن یہ عبارتیں بھی علت اولیہ، مبداٴ خلقت اوراس کی صفات جیسے امورسے متعلق ھیں نہ کہ اصل وجود میں تردید یا شکوک و شبھات کو بیان کرنے والی۔
source : tebyan