خود سازی
قرآن کریم میں ارشاد ھوتا ھے:
<وَقُلْ اعْمَلُوا فَسَیَرَی اللهُ عَمَلَکُمْ وَرَسُولُہُ وَالْمُؤْمِنُون۔۔۔>([1])
” اور [اے] پیغمبر کہہ دیجئے کہ تم لوگ عمل کرتے رھو کہ تمھارے عمل کو اللہ ،رسول اور صاحبان ایمان سب دیکھ رھے ھیں۔۔۔“۔
روایات میں منقول ھے کہ آیہٴ شریفہ میں ”مومنین“ سے مراد ائمہ معصومین علیھم السلام ھیں([2])اس بنا پر مومنین کے اعمال امام زمانہ علیہ السلام کی نظروں کے سامنے ھوتے ھیں۔ اور پردہٴ غیبت میں بھی ھمارے اعمال پر ناظر ھیں۔ اور یہ چیز تربیتی لحاظ سے بھت زیادہ موثر ھے ، اور شیعوں کو اپنی اصلاح کی ترغیب دلاتی ھے، اور یھی وجہ حجت خدا اور نیکیوں کے امام کے سامنے برائیوں اور گناھوں سے آلودہ نہ ھونے سے روکتی ھے۔ البتہ یہ بات مسلّم ھے کہ انسان اس پاکیزگی اور صفا کے مرکز پر جتنی توجہ کرے گا تو اس کے دل کا آئینہ بھی اتنی ھی پاکیزگی اور صفا اس کی روح میں بھر دے گا، اور یہ نور اس کی رفتار و گفتار میں نمایاں ھوتا جائے گا۔
علمی اور فکری پناھگاہ
ائمہ معصومین علیھم السلام معاشرہ کے حقیقی معلم اور اصلی تربیت کرنے والے ھیں، اور مومنین ھمیشہ انھی حضرات کے صاف و شفاف سرچشمہ سے فیضیاب ھوتے ھیں۔ غیبت کے زمانہ میں بھی اگرچہ براہ راست امام علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ھونے کی سعادت اور کما حقہ امام سے فیض حاصل نھیں کرسکتے، لیکن وہ الٰھی علوم کے معدن و مرکز شیعوں کی علمی اور فکری مشکلات کو دور فرماتے ھیں۔ غیبت صغریٰ کے زمانہ میں مومنین اور علماء کرام نے بھت سے سوالوں کے جوابات امام علیہ السلام کے ذریعہ حل کئے ھیں۔([3])
امام زمانہ علیہ السلام اسحاق بن یعقوب کے سوال کے جواب میں یوں تحریر فرماتے ھیں:
”خداوندعالم تمھاری ھدایت کرے اور تمھیں ثابت قدم رکھے؛ لیکن چونکہ آپ نے ھمارے خاندان اور چچا زاد بھائیوں میں سے منکرین کے بارے میں سوال کیا، تو تمھیں معلوم ھونا چاہئے کہ خدا کے ساتھ کسی کی کوئی رشتہ داری نھیں ھے، لہٰذا جو شخص بھی میرا انکار کرے وہ ھم میں سے نھیں ھے اور اس کا سر انجام جناب نوح (علیہ السلام) کے بیٹے کی طرح ھے۔۔۔ اور جب تک تم اپنے مال کو پاکیزہ نہ کرلو ھم اس کو قبول نھیں کرسکتے۔۔۔
لیکن جو رقم آپ نے ھمارے لئے بھیجی ھے اس کو اس وجہ سے قبول کرتے ھیں کہ پاک و پاکیزہ ھے۔۔۔
اور جو شخص ھمارے مال کو (اپنے لئے) حلال سمجھتا ھے اور اس کو ہضم کرلیتا ھے گویا وہ آتشِ جہنم کھا رھا ھے۔۔۔ اب رھا مجھ سے فیض حاصل کرنے کا مسئلہ تو جس طرح بادلوں میں چھپے سورج سے فائدہ اٹھایا جاتا ھے (اسی طرح مجھ سے بھی فائدہ حاصل کیا جاسکتا ھے) اور میں اھل زمین کے لئے امان ھوں، جس طرح ستارے اھل آسمان کے لئے امان ھیں۔ اور جن چیزوں کا تمھیں کوئی فائدہ نھیں ھے ان کے بارے میں سوال نہ کرو ،اور اس چیز کو سیکھنے سے پرھیز کرو جس چیز کو تم سے طلب نھیں کیا گیا ، اور ھماری ظھور کے لئے بھت دعائیں کیا کرو کہ جس میں تمھارے لئے بھی فرج (اور آسانیاں) ھوں گی، اے اسحاق بن یعقوب تم پر ھمارا سلام ھو اور ان مومنین پر جو راہ ھدایت پر گامزن ھیں“۔([4])
اس کے علاوہ غیبت صغریٰ کے بعد بھی شیعہ علماء نے متعدد بار اپنی علمی اور فکری مشکلات کو امام علیہ السلام سے بیان کرکے اس کا راہ حل حاصل کیا ھے۔
میر علّام ، مقدس اردبیلی کے شاگرد رقمطراز ھیں:
”آدھی رات ھو رھی تھی اور میں نجف اشرف میں حضرت امام علی علیہ السلام کے روضہ مقدس میں تھا، اچانک میں نے کسی شخص کو دیکھا جو روضہ کی طرف آرھا ھے، میں اس کی طرف گیا جیسے ھی نزدیک پہنچا تو دیکھا کہ ھمارے استاد ملا احمد مقدس اردبیلی علیہ الرحمہ ھیں۔ میں نے جلد ھی اپنے کو چھپالیا۔
موصوف روضہٴ مطھر کے نزدیک ھوئے جبکہ دروازہ بند ھوچکا تھا، اچانک میں نے دیکھا کہ دروازہ کھل گیا، اور وہ روضہ مقدس کے اندر داخل ھوگئے! اور کچھ ھی مدت بعد روضہ سے باھر نکلے، اور کوفہ کی طرف روانہ ھونے لگے۔
میں چھپ کر اس طرح ان کے پیچھے چلنے لگا تاکہ وہ مجھے نہ دیکھ پائیں، یھاں تک وہ مسجد کوفہ میں داخل ھوئے، اور اس محراب کے پاس گئے جھاں پر حضرت علی علیہ السلام کو ضربت لگی تھی، کچھ دیر وھاں رھے اور پھر مسجد سے باھر نکلے اور پھر نجف کی طرف روانہ ھوئے، میں پھر ان کے پیچھے پیچھے چل دیا یھاں تک کہ وہ مسجد حنّانہ میں پہنچے، اچانک مجھے بے اختیار کھانسی آگئی، جیسے ھی انھوں نے میری آواز سنی میری طرف ایک نگاہ کی اور مجھے پہچان لیا۔ اور فرمایا: آپ میر علّام ھی تو ھیں؟ میں نے کھا: جی ھاں، انھوں نے کھا: یھاں کیا کر رھے ھو؟ میں نے کھا: جب سے آپ حضرت علی علیہ السلام کے روضہ میں داخل ھوئے تھے میں اسی وقت سے آپ کے ساتھ ھوں۔ آپ کو اس صاحب قبر کے حق کا واسطہ آج جو واقعہ میں نے دیکھا ھے اس کا راز مجھے بتائیں!
موصوف نے فرمایا: ٹھیک ھے، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ جب تک میں زندہ ھوں کسی کے سامنے بیان نہ کرنا! اور جب میں نے ان کو اطمینان دلادیاتو انھوں نے فرمایا: جب کبھی کوئی مشکل پیش آتی ھے تو اس کے حل کے لئے حضرت علی علیہ السلام سے توسل کرتا ھوں۔ آج کی رات بھی ایک مسئلہ میرے لئے مشکل ھوگیا اور اس کے بارے میں غور و فکر کر رھا تھا کہ اچانک میرے دل میں یہ بات آئی کہ حضرت علی علیہ ا لسلام کی بارگاہ میں جاؤں اور آپ ھی سے اس مسئلہ کا حل دریافت کروں۔
جب میں روضہ مقدس کے پاس پہنچا تو جیسا کہ آپ نے بھی دیکھا کہ بند دروازہ کھل گیا۔ میں روضہ میں داخل ھوا ، خدا کی بارگاہ میں گریہ و زاری کی تاکہ امام علی علیہ السلام کی بارگاہ سے اس مسئلہ کا حل مل جائے اچانک قبر منور سے آواز آئی کہ مسجد کوفہ میں جاؤ اور حضرت قائم علیہ السلام سے اس مسئلہ کا حل معلوم کرو کیونکہ وھی تمھارے امام زمانہ ھیں۔ چنانچہ اس کے بعد (مسجد کوفہ کی) محراب کے پاس گیا ، اور امام مھدی علیہ السلام سے اس سوال کا جواب حاصل کیا اور اب اس وقت اپنی گھر کی طرف جارھا ھوں“۔([5])
باطنی طور پر ھدایت اور روحانی نفوذ
امام لوگوں کی ھدایت اور رھبری کا عھدہ دار ھوتا ھے، لہٰذا اس کی کوشش ھوتی ھے کہ اس کے نور ھدایت کو حاصل کرنے کی صلاحیت رکھنے والوں کی ھدایت کرے۔ لہٰذا خداوندعالم کی طرف سے اس ذمہ داری پر عمل کرنے کے لئے کبھی ظاھر بظاھر انسانوں سے براہ راست رابطہ برقرار کرتا ھے، اور زندگی ساز اپنی رفتار و گفتار سے اس کو سعادت اور کامیابی کا راستہ دکھاتا ھے اور کبھی کبھی خداوندعالم کی عطا کردہ قدرت ولایت سے فائدہ اٹھاتے ھوئے لوگوں کے دلوں کو مسخر کرلیتا ھے اور خاص توجہ اور مخصوص عنایت کے ذریعہ دلوں کو نیکیوں اور اچھائیوں کی طرف مائل کردیتا ھے اور ان کے لئے رشد و کمال کا راستہ ھموار کردیتا ھے۔ اس صورت میں امام علیہ السلام کا ظاھری طور پر حاضر ھونا اور براہ راست رابطہ کی ضرورت نھیں ھوتی بلکہ اندرونی اور دلی رابطہ کے ذریعہ ھدایت کردی جاتی ھے۔ حضرت امام علی علیہ السلام اس سلسلہ میں امام کی کارکردگی کو بیان کرتے ھوئے فرماتے ھیں:
”خداوندا! زمین پر تیری طرف سے ایک حجت ھوتی ھے جو مخلوق کو تیرے دین کی طرف ھدایت کرتی ھے۔۔۔ اور اگر اس کا ظاھری وجود لوگوں کے درمیان نہ ھو لیکن بے شک اس کی تعلیم اور اس کے (بتائے ھوئے) آداب مومنین کے دلوں میں موجود ھیں، اور وہ اسی کے لحاظ سے عمل کرتے ھیں“۔([6])
اسی طرح سے امام پردہ غیبت میں رہ کر عالمی انقلاب اور قیام کے لئے کار آمد لوگوں کی ھدایت کی کوشش فرماتا ھے۔ اور جو لوگ لازمی حد تک صلاحیت رکھتے ھیں وہ امام علیہ السلام کی خصوصی تربیت کے تحت آپ کے ظھور کے لئے تیار ھوجاتے ھیں۔ اور یہ پردہ غیب میں رہنے والے امام کے منصوبوں میں سے ایک منصوبہ ھے جو آپ کے وجود کی برکت سے انجام پاتا ھے۔
بلاؤں سے امان
اس بات میں کوئی شک نھیں ھے کہ امن و امان انسانی زندگی کا اصلی سرمایہ ھے۔ جو کائنات میں مختلف حوادث کی وجہ سے تمام موجودات کی عام زندگی کو خطرناک موڑ پر پہنچا دیتا ھے، اگرچہ بلاؤں اور مصیبتوں کا سدّ باب مادّی چیزوں کے ذریعہ ممکن ھے، لیکن معنوی اسباب و عوامل بھی ان میں موثر واقع ھوتے ھیں۔ ھمارے ائمہ معصومین علیھم السلام کی روایات میں نظام خلقت کے تمام مجموعہ کے لئے امام اور حجت خدا کا وجود زمین اور اس پر رہنے والوں کے لئے امن و امان کا سبب شمار کیا گیا ھے۔
حضرت امام زمانہ علیہ السلام خود فرماتے ھیں:
”وَ إنِّی لَاَمَانٌ لِاٴہْلِ الاٴرْضِ“۔([7])
”اور میں اھل زمین کے لئے (بلاؤں سے) امان ھوں“۔
امام علیہ السلام کا وجود اس چیز میں مانع ھوتا ھے کہ لوگ اپنے گناھوں اور برائیوں کی وجہ سے سخت عذاب الٰھی میں مبتلا ھوجائیں اور زمین اور اھل زمین کی زندگی کا خاتمہ ھوجائے۔
اس سلسلہ میں قرآن کریم میں پیغمبر اسلام (ص) سے خطاب کرتے ھوئے ارشاد ھوتا ھے:
<وَمَا کَانَ اللهُ لِیُعَذِّبَہُمْ وَاٴَنْتَ فِیہِمْ ۔۔۔>([8])
”حالانکہ اللہ ان پر اس وقت تک عذاب نہ کرے گا جب تک آپ ان کے درمیان میں ھیں۔۔۔“۔
حضرت ولی عصر علیہ السلام جو رحمت اور محبت پروردگار کے مظھر ھیں،بھی اپنی خاص توجہ کے ذریعہ بڑی بڑی بلاؤں کو خصوصاً ھر شیعہ سے دور کرتے ھیں؛ اگرچہ ھم بھت سے مقامات پر آپ کے لطف و کرم کی طرف متوجہ نھیں ھوتے، اور مدد کرنے والے کو نھیں پہچانتے!
آپ خود اپنی شناخت کے بارے میں فرماتے ھیں:
”اَنَا خَاتِمُ الاٴوْصِیَاءِ، وَ بِی یَدْفَعُ اللهُ عَزَّ وَ جَلَّ الْبَلَاءُ مِنْ اٴَہْلِی وَ شِیْعَتِی“([9])
”میں پیغمبر خدا (ص) ) کا آخری جانشین ھوں، اور خداوندعالم میرے (وجود کے سبب) میرے خاندان اور میرے شیعوں سے بلاؤں کو دور کرتا ھے“۔
انقلاب اسلامی ایران کے ابتدائی زمانہ میں اور دفاع مقدس (یعنی عراق سے جنگ کے دوران) امام زمانہ علیہ السلام کے لطف و کرم اور آپ کی محبت کو بار ھا اس قوم اور حکومت پر سایہ فگن دیکھا گیا ھے، اور اسلامی حکومت اور امام کے چاہنے والے شیعوں کو دشمن کی خطرناک سازشوں سے محفوظ رکھا ھے! ۲۱ بھمن میں امام خمینی علیہ الرحمہ کے ذریعہ حکومت شہنشاھی کا خاتمہ ھونا، ”طبس“ کے بیابان میں امریکی فوجی ھیلی کوپٹر کا ۱۳۵۹ھ۔ق ۔میں سرنگون ھونا،اور ۲۱/تیر ۱۳۶۱ھ۔ق۔ میں ”نوژہ“ نامی بغاوت کی ناکامی، اور (عراق سے) آٹھ سال کی جنگ میں دشمن کی ناکامی اور بھت سے دوسرے نمونہ اس بات کے زندہ گواہ ھیں۔
باران رحمت
کائنات کا عظیم مھدی موعود ، مسلمانوں کی آرزؤں کا قبلہ اور شیعوں کا دلی محبوب (حضرت امام زمانہ علیہ السلام) ھمیشہ لوگوں کے حالات زندگی پر نظر رکھے ھوئے ھے اور اس مھربان خورشید کی غیبت اس چیز میں مانع نھیں ھے کہ مشتاق دلوں پر اپنے زندگی بخش اور نشاط آفرین سایہ سے دریغ کرے، اور ان کو اپنے لطف و کرم کے دسترخوان پر نہ بٹھائے۔ وہ ماہِ منیر ھمیشہ اپنے غمخوار شیعوں اور آپ سے مدد طلب کرنے والوں سے دوستی اور محبت کرتا ھے۔ وہ کبھی تو بیمار لوگوں کے سرھانے حاضر ھوتے ھیں اور اپنے شفا بخش ھاتھوں کوان کے زخموں کا مرھم قرار دیتے ھیں۔ اور کبھی جنگلوں میں بھٹکے ھوئے مسافر پر عنایت کرتے ھیں اور تنھائی کی وادی میں ناچار و بے کس لوگوں کی راہنمائی کرتے ھیں، اور ناامیدی کی سرد ھواؤں میں منتظر دلوں کو امید کی گرمی عطا کرتے ھیں۔ وہ باران رحمتِ الٰھی ھیں جو دلوں کے خشک بیابانوں پر برس کر اپنی دعاؤں کے ذریعہ شیعوں کے لئے ھریالی اور شادابی ھدیہ کرتے ھیں۔ وہ خداوندمحبوب کی بارگاہ کا سجّادہ نشین اپنے ھاتھوں کو پھیلائے ھمارے لئے یہ دعا کرتا ھے:
”یَا نُورَ النُّورِ، یَا مُدَبِّرَ الاٴُمُورِ یَا بَاعِثَ مَنْ فِی القُبُورِ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ اجْعَلْ لِی وَ لِشِیْعَتِی مِنَ الضِّیقِ فَرَجاً، وَ مِنَ الْہَمِّ مَخْرِجاً، وَ اٴوْسَعْ لَنَا الْمَنْہِجَ وَ اطلُقْ لَنَا مِنْ عِنْدِکَ مَا یُفَرِّجُ وَافْعَلْ بِنَا مَا اٴنْتَ اٴہْلُہُ یَا کَرِیمْ“۔([10])
”اے نوروں کے نور! اے تمام امور کے تدبیر کرنے والے!اے مُردوں کے زندہ کرنے والے! محمد و آلِ محمد پر صلوات بھیج، اور مجھے اور میرے شیعوں کو مشکلات سے نجات عطا فرما، اور غم و اندوہ کو دور فرما، اور ھم پر (ھدایت کے ) راستہ کو وسیع فرما، اور جس راہ میں ھمارے لئے آسانیاں ھو اس کو ھمارے اوپر کھول دے اور تو ھمارے ساتھ ایسا سلوک کر جس کا تو اھل ھے، ایا کریم!“۔
قارئین کرام! ھماری بیان کی ھوئی گزشتہ باتیں اس بات کی عکاسی کرتی ھیں کہ امام علیہ السلام (اگرچہ وہ پردہٴ غیبت میں ھیں) سے رابطہ رکھنا ممکن ھے اور ان سے متصل ھونا کوئی مشکل بات نھیں ھے، اور یہ امام علیہ السلام کے وجود کا اثر ھے، اور جو حضرات اس بات کی لیاقت اور صلاحیت رکھتے تھے وہ اپنے محبوب امام کی ملاقات اور قرب کی لذت سے محظوظ ھوئے ھیں۔
[1] سورہ توبہ،آیت ۱۰۵۔
[2] اصول کافی، باب عرض الاعمال، ص ۱۷۱۔
[3] دیکھئے: کمال الدین، ج۲، باب ۴۵، ص ۲۳۵ تا ۲۸۶۔
[4] دیکھئے: کمال الدین، ج۲، باب ۴۵، ص ۲۳۷ ۔
[5] بحار الانوار، ج۵۲، ص ۱۷۴۔
[6] اثبات الھداة، ج۳، ح۱۱۲، ص ۴۶۳۔
[7] کمال الدین، ج۲،باب ۴۵، ح۴ ، ص ۲۳۹۔
[8] سورہ انفال، آیت ۳۳۔
[9] کمال الدین، ج۲، باب ۴۳، ح۱۲، ص ۱۷۱۔
[10] منتخب الاثر، فصل ۱۰، باب ۷، ش۶، ص ۶۵۸۔
source : http://islamshia-w.com/Portal/Cultcure/Urdu/CaseID/50815/71243.aspx