جسم انسان کا اہم ترين اور دقيق ترين مرکز انسان کا دماغ ہے دماغ تمام قوائے بدن کا فرمانروا اور وجود انسان کے تمام اعصابي مراکز کا اصلي مرکز ہے ،دماغ ضروري اطلاعات کي فراہمي ،اعضاء کے احتياجا ت نيز بدن تک اپنے تمام فرامين کے پہچانے کے لئے جسم کے تمام باريک اجزاء جو جسم بھر ميں پھيلے ہو ئے ہيں ان کا سہارا ليتا ہے او ران اجزاء کو ( سلسلہ اعصاب ) کہتے ہيں -
انسان کي چھو ٹي سي کھوپڑي ميں اتنا عظيم الشان مرکز کس طرح فعاليت کرتا ہے، اگر اس جا نب توجہ کريں تو ہم کو اس کا ئنات کے خالق کي عظمت و قدرت و حکمت کي جانب راہنمائي کرتا ہے -
روح انسان مخلوقات عالم کي عجيب ترين شي
وجو د انسان کے ابعاد ميں سے ايک روح ہے، روح کا ئنات کي عجيب ترين اورپر اسرار موجودات ميں شمار ہو تي ہے جبکہ تمام چيزوں سے زيادہ ہم سے نزديک ہے پھر بھي اس کي معرفت سے قاصر ہيں - ہر چند دانشمند وں نے اس کي شناخت کے لئے انتھک کو شش کر ڈالي ہے، مگر اب بھي روح کا اسرار آميز وجود جوں کاتوں ہے اور اس کے رخ سے رموز کے پردے ہٹائے نہيں جا سکے ہيں -
قال اللہ:( يَسئلُونَک عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِن امرَ رَبّي وَما اوتِيتُم مِنَ العِلمِ اِلاّ قليلاً) (8) يہ تم سے روح کے بارے ميں سوال کرتے ہيں کہہ دوکہ روح فرمان الٰہي ميں سے ہے اور تم کو تھو ڑے سے علم کے سوا کچھ نہيں ديا گيا ہے يہ سر بمہرجواب اس بات کي جانب اشارہ ہے کہ روح کا ئنات کے موجودات ميں سے نہا يت ہي سرّي وجود ہے اور اس سے لا علمي و عدم آگاہي کم تعجب کي بات نہيں ہے کہ اسرار روح سے آگاہ نہ ہو سکے -
يہ عجوبہ قادر ومتعال خدا کي عظيم نشانيوں ميں سے ايک ہے -
انساني روح کي سرگرمياں
ہم بے شمار روحي اور فکري سر گرمياں رکھتے ہيںچاہے خود آگاہ طور پر يا ناخود آگاہ طور پر ، اور ہر ايک ان ميں سے ايک مستقل موضوع بحث ہے نيز متعدد کتابوں ميں اس کے بارے ميں بحث ہو چکي ہے ان سرگرميوں ميں سے کچھ حسب ذيل ہيں -
1-تفکر : مجہولات کا حصول اور حل مشکلا ت -
2- تجدد :( نياپن ) - متعدد حاجات کو پورا کرنا ، مختلف حو ادث کا مقابلہ کرنا ايجاد ات وانکشافات -
3- حافظہ ، ان معلومات کو محفوظ رکھنے کے لئے جو حس ، تفکر کے ذريعہ انسان کو حاصل ہوئي ہے ،پھر ان کي درجہ بندي و حفاظت اور وقت ضرورت ان کي يا د آوري -
4- مسائل کا تجزيہ اور ان کي تحليل : حادثات کے علل و اسباب کو معلوم کرنے کے لئے مفاہيم ذہني کو ايک دوسرے سے جدا کرنا پھر انہيں مرتب کرنا تاکہ حادثہ کے علل و اسباب کو بخوبي معلوم کيا جا سکے -
5- تخيل: يعني ذہنوں شکلوں کا ايجاد کرنا جو بسا اوقات خارج ميں موجود نہيں ہوتيں اور وہ نئے مسائل کے سمجھنے کو مقدمہ ثابت ہوتي ہيں -
6- قصد و ارادہ : امور کي انجام دہي ، ان کو متوقف کرنا يا ان کو اتھل پتھل کرنا
7- محبت و دوستي ، دشمني و نفرت: اور ان کے مانند دسيوں احساسات جو انساني اعمال ميں مثبت و منفي اثرات رکھتے ہيں- (9)
اپني پہچان
خدا کي حکمت اور اس کي اہم ترين تدبيري نشانيوں ميں سے ايک شيء خلقت انسان ہے اس کي شنا خت ، شنا خت خدا وند کا مقدمہ ہے -
قال عليِّ ں:مَن عرفَ نفسہ فقد عرف ربّہ(10)'' جس نے اپنے آپ کو پہچان ليا اس نے گويا خدا کو پہچان ليا'' -
قال اميرُ المومنينَ عليہ السلام: عَجبتُ لِمن يجھل نفسہ
کيف يعرف ربّہ (11)'' ميں تعجب کرتا ہوں اس شخص پرجو خو د اپنے آپ سے جاہل ہے وہ خدا کو کيسے پہچانے گا ''.
قال علي عليہ السلام :مَن عرف نفسہ فقد انتھيٰ اليٰ غاية کلّ معرفة و علم (12)''جن نے خدا کو پہچان ليا گو يا اس نے ہر علم ودانش کو پاليا ''-
قال عليّ عليہ السلام : معرفة النفس انفع المعارف (13) ''نفس کي پہچان بہترين معرفت ہے
قال امير المومنين عليہ السلام : عجبت لمن ينشد ضالتہ و قد اضلَّ نفسہ فلا يطلبھا(14)
''ميں حيران اس شخص پر جو کسي گمشدہ شيء کو تلاش کر رہا ہے جبکہ وہ خود کو گم کر بيٹھا ہے اور اس کو تلاش نہيں کر رہا ہے'' -
source : tebyan