سورہ مائدہ کی آیت نمبر ٦۹ کی تفسی کیا ہے؟
ایک مختصر
اسلام کی تعلیمات میں ابتداء سے ہی مقدس ترین متن ﴿قرآن مجید﴾ میں اس مطلب کا اعتراف کیا گیا ہے کہ اگر غیر مسلموں کے بعض گروہ اپنی پاک فطرت پر زندگی بسر کریں، نیک کام انجام دیں اور حقیقی طور پر دین اسلام ان کے لئے واضح نہیں ھوا ھوتو، وہ نجات پاسکتے ہیں۔ یہ مطلب، قرآن مجید کی مختلف آیات میں مکمل صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ دین اسلام حق نہیں ہے، بلکہ قرآن مجید کی بنا پر، نجات کا دائرہ حقانیت سے وسیع تر ہے، یعنی جن انسانوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ادراک نہیں کیا ہے ﴿ بلکہ بہتر ہے یہ کہیں کہ اسلام اور اس کی حقیقت کو ادراک نہیں کیا ہے﴾ لیکن اس کے باوجود ان کے اعمال ان کی پاک فطرت پر مبنی ھوں، خدا پر ایمان رکھتے ھوں، فطرت کی طرف سے منع کی گئی ، جھوٹ اور زنا جیسی برائیوں کو ترک کیا ھو، عالم آخرت پر ایمان رکھتے ھوں، آخرت میں حساب و کتاب کی فکر میں ھوں اور اسی طرح نیک کام انجام دیتے ھوں، تو آیہ مذکورہ انھیں کہتی ہے کہ اس جماعت کے لئے کوئی خوف نہیں ہے۔
تفصیلی جوابات
سوال میں ذکر کی گئی آیت اور اس کے بارے میں مسائل پر بحث کرنے سے پہلے ایک مقدمہ بیان کرنا ضروری ہے۔
تمام ادیان نے اپنے لئے ایک مقصد کو معین کیا ہے، بہ الفاظ دیگر ہر دین میں ایک مقصد ھوا کرتا ہے اور عام طور پر مختلف ادیان کے اعتقادات اور اعمال اس مقصد تک پہنچنے کے لئے مرتب کئے جاتے ہیں۔ ادیان کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد، دنیا اور آخرت میں انسان کے لئے سعادت و نجات حاصل کرنا ہے اور ضمانت دیتا ہے کہ جو بھی شخص حقیقی معنوں میں اس دین کا پیرو ھو، وہ نجات پائے گا۔ یہاں تک تمام ادیان مشترک ہیں اور اپنے پیرؤں کے لئے نجات کی بشارت دیتے ہیں۔
لیکن بعد والے اقدام میں، سوال یہ پیدا ھوتا ہے کہ کیا ہردین کی نظر میں، دوسرے ادیان کے پیرؤں کے لئے بھی نجات قابل تصور ہے؟ اور کیا دوسرے پیرؤں کے انسان جو شریف، با اخلاق، انصاف پسند اور حتی کہ کسی خدا کو مانتے ھوں، صرف اس لئے نجات پانے سے محروم ھوں گے کہ دین بر حق کی حقانیت ان پر واضح اور ثابت نہیں ھوئی ہے؟
یہاں پر اس نکتہ کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ اس بحث میں حقانیت اور نجات کے درمیان فرق کرنا چاہئیے، البتہ فطری بات ہے کہ تمام ادیان خود کو بر حق جانتے ہیں اور اعتقاد رکھتے ہیں کہ صحیح راستہ پر گامزن ہیں، لیکن بعض ادیان ، نجات کے دائرہ کو بعض دوسرے ادیان کے پیرؤں تک وسعت دیتے ہیں۔
عیسائیت کے پیرؤں کے درمیان یہ اعتقاد تھا کہ صرف عیسائیت میں ہی اور حضرت عیسی ﴿ع﴾ پر اعتقاد رکھ کر ہی نجات پائی جاسکتی ہے، اس کے علاوہ نجات ممکن نہیں ہے۔ یہ لوگ صدیوں تک برسر اقتدار ھوتے ھوئے اسی اعتقاد پر تھے، یہاں تک کہ حالیہ صدی میں، خاص کر واٹیکان کی دوسری کونسل ﴿شوری﴾ کے بعد[1] ان میں تھوڑی سی لچک پیدا ھوئی اور یہ ماننے لگے کہ غیر عیسائی افراد کے لئے بھی نجات پانا ممکن ہے البتہ وہ بھی حضرت عیسی ﴿ع﴾ کا فیض ان تک پہنچنے کی وجہ سے۔[2] عیسائیت اور کلیسا نے تقریباً سولہ صدیوں کے بعد مجبوراً قبول کیا ہے کہ غیر عیسائیوں کے لئے بھی نجات پانا ممکن ہے۔ لیکن دین اسلام میں قضیہ، عیسائیت کے بالکل برعکس ہے۔ اسلام کی تعلیمات میں ابتداء سے ہی مقدس ترین متن ﴿قرآن مجید﴾ میں اس مطلب کا اعتراف کیا گیا ہے کہ اگر غیر مسلموں کے بعض گروہ اپنی پاک فطرت پر زندگی بسر کریں، نیک کام انجام دیں اور حقیقی طور پر دین اسلام ان کے لئے واضح نہیں ھوا ھو، وہ نجات پاسکتے ہیں۔ یہ مطلب قرآن مجید کی صرف ایک آیت میں ضمناً بیان نہیں کیا گیا ہے، بلکہ متعدد آیتوں میں مکمل صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ اگر چہ اسلام دین حق و حقیقت ہے، لیکن غیر مسلموں کے بعض گروہوں کے لئے نجات ممکن ہے، جن تک دین اسلام کی حقیقت نہیں پہنچی ھو۔
اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل نکات کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے:
١۔ یہ کہ اسلام غیر مسلمانوں کے لئے نجات پانا بیان کرتا ہے، اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اس سے اسلام کی حقانیت پر انگلیاں اٹھائی جائیں، بلکہ قطع و یقین کے ساتھ دین اسلام حق وحقیقت ہے۔ لیکن قرآن مجید کی آیات اور عقل کی بنا پر نجات کا دائرہ حقانیت سے وسیع تر ہے۔
۲۔ یہ اعتقاد قرآن مجید کی ان آیات سے منافات نہیں رکھتا ہے، جن میں کہا گیا ہے کہ صرف دین اسلام کو ہی قبول کیا جائے گا۔[3] کیونکہ یہ آیات ان افراد کے لئے ہے، جنھوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ادراک کیا ہے اور ان کے لئے دین اسلام کی حقانیت ثابت ھوئی ہے، اس صورت میں ان سے اسلام کے علاوہ کوئی اور دین قبول نہیں کیا جائے گا، لیکن جو افراد حقیقت میں اسلام کی حقانیت کے بارے میں آشنا نہ ھوسکے ھوں، خواہ وہ خاص حالات کی وجہ سے اسلام کی حقانیت تک نہ پہنچے ھوں یا بعض مسلمانوں کی سستی کی وجہ سے اسلام کے بارے میں آگاہ نہ ھوئے ھوں، لیکن اس کے باوجود اپنی فطرت کی بنا پر خدا اور قیامت پر اعتقاد رکھتے ھوں اور نیک کام انجام دیتے ھوں، تو فطری بات ہے کہ انھیں عذاب کا مستحق نہیں جاننا چاہئیے، کیونکہ یہ عدل الہی کے خلاف ہے۔[4]
اس مطلب پر دلالت کرنے والی آیات میں سے ایک یہ آیہ شریفہ ہے: : «إِنَّ الَّذينَ آمَنُوا وَ الَّذينَ هادُوا وَ النَّصارى وَ الصَّابِئينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَ الْيَوْمِ الْآخِرِ وَ عَمِلَ صالِحاً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَ لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لا هُمْ يَحْزَنُونَ»؛[5] “ جو لوگ بظاہر ایمان لائے یا یہودی، نصاری اور ستارہ پرست ہیں ان میں سے جو واقعی اللہ اور آخرت پر ایمان لائے گا اور نیک کام انجام دے گا اس کے لئے پروردگارکے یہاں اجر و ثواب ہے اور کوئی حزن و خوف نہیں ہے۔”[6]
آیہ شریفہ کی تفسیر
الف﴾ “ ان الذین آمنوا” سے مراد وہ لوگ ہیں، جنھوں نے زبان سے اور بظاہر ایمان لایا ہے کہ وہی منافقین ہیں۔[7] اور “ الذین ھادوا و النصاری” سے مراد یہودی اور عیسائی ہیں۔[8] صائبین کے بارے میں مختلف اقوال پائے جاتے ہیں، بعض مفسرین نے صائبین کے معنی وہی ستارہ پرست کئے ہیں۔[9] لیکن آیہ شریفہ کے سیاق کی بناء پر، کہ اہل کتاب کا ذکر کیا جارہا ہے اور ان کے لئے نجات کی بات کی گئی ہے، اس لئے یہ معنی بعید لگتے ہیں،[10] بلکہ ایک دوسرا قول بہتر لگتا ہے اور بہت سے مفسرین اس قول کے معتقد ہیں اور وہ یہ ہے کہ صائبین ایک ایسے مذہب کے معتقد ہیں، جو یہودیت اور عیسائیت کے کے درمیان ہے اور ان کی ایک کتاب ہے، جسے وہ حضرت یحیی بن زکریا﴿ع﴾ سے منسوب کرتے ہیں۔[11] اس سلسلہ میں اور بھی کچھ نظریات پائے جاتے ہیں۔[12]
اس بنا پر، اس آیہ شریفہ کی تفسیر میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ: جن انسانوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ادراک نہیں کیا ہے ﴿ بلکہ بہتر ہے یہ کہیں کہ اسلام اور اس کی حقیقت کو ادراک نہیں کیا ہے﴾ لیکن اس کے باوجود ان کے اعمال ان کی پاک فطرت پر مبنی ھوں، خدا پر ایمان رکھتے ھوں، فطرت کی طرف سے منع کی گئی جھوٹ اور زنا جیسی برائیوں کو ترک کیا ھو، عالم آخرت پر ایمان رکھتے ھوں، آخرت میں حساب و کتاب کی فکر میں ھوں اور اسی طرح نیک کام انجام دیتے ھوں، تو آیہ مذکورہ انھیں کہتی ہے کہ اس جماعت کے لئے کوئی خوف نہیں ہے۔[13]
ب﴾ اس کے لئے ایک دوسری تفسیر بھی کی جاتی ہے کہ خداوند متعال اس آیہ شریفہ میں یہ بیان کرنا چاہتا ہے کہ جو آپ لوگ، مومنین، یہودی، عیسائی، صائبین۔وغیرہ کی نام گزاری کرتے ھو، خداوند متعال کے نزدیک اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے اورنہ اس سے آپ پاداش کے مستحق بن سکتے ہیں اور نہ یہ چیزیں آپ کو اس کے عذاب سے بچا سکتی ہیں ۔ ظاہری ایمان، خاص کر نیک عمل انجام دینے کے بغیر، خواہ مسلمان سے متعلق ھو یا یہود و نصاری سے یا دوسرے ادیان کے پیرؤں سے متعلق ھو، اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے، صرف خدا اور قیامت پر حقیقی اور خالص ایمان جو نیک عمل کے ہمراہ ھو، خداوند متعال کے پاس قدر و قیمت رکھتا ہے، اور صرف یہی پروگرام پاداش اور امن و سکون کا سبب بن سکتا ہے۔[14]
دوسری تفسیر کی بناء پر، “ ان الذین آمنوا” کے معنی منافقین نہیں ہیں، بلکہ وہ عام مسلمان ہیں جو اسلام کی عام بیعت کو قبول کرچکے ھوں۔[15]
[1] ۔ کیتھو لیک کلیسا کی شوری، جو کیتھولیکوں کی تبلیغی اور عبادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے بیسویں صدی عیسوی میں تشکیل پائی ہے۔ اس شوری نے کیتھولیکوں کے اعمال میں اور ان کے میلانات اور کلامی تصورات میں اہم تبدیلیاں ایجاد کیں۔ ویور، مری جوی، درآمدی به مسیحیت، مترجم، قنبری، حسن، ص 488، دانشگاه ادیان و مذاهب، قم، 1381ش.
[2] ۔ یوسفیان، حسن، کلام جدید، ص 282، تدوین کتب علوم اسلامی دانشگاهها (سمت)، مؤسسه آموزشی امام خمینی(ره)، قم، طبع سوم، 1390ش.
[3] ۔ آل عمران، 85: «وَ مَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلامِ ديناً فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَ هُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخاسِرينَ»؛ و هركه جز اسلام، دينى طلب كند، هرگز از او پذيرفته نمیشود و او در آخرت از زيانكاران است.
[4] مزید آگاہی کے لئے ملاحظہ ھو:۔عدل الاهی و عدم آشنایی انسان ها با تشیع
[5]. بقره، 62.
[6] ۔ مائده، 69: «إِنَّ الَّذينَ آمَنُوا وَ الَّذينَ هادُوا وَ الصَّابِئُونَ وَ النَّصارى مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَ الْيَوْمِ الْآخِرِ وَ عَمِلَ صالِحاً فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لا هُمْ يَحْزَنُونَ».
[7] ۔ طبرسی، فضل بن حسن، تفسیر جوامع الجامع، ج 1، ص 50، انتشارات دانشگاه تهران، مدیریت حوزه علمیه قم، تهران، طبع اول، 1377ش؛ شبّر، سید عبد الله، تفسیر القرآن الکریم، ص 49، دار البلاغة للطباعة و النشر، بیروت، طبع اول، 1412ق؛ زمخشری، محمود، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، ج 1، ص 146، دار الکتاب العربی، بیروت، طبع سوم، 1407ق.
[8] ۔ شریف لاهیجی، محمد بن علی، تفسیر شریف لاهیجی، تحقیق: حسینی ارموی (محدث)، میر جلال الدین، ج 1، ص 60، دفتر نشر داد، تهران، طبع اول، 1373ش؛ حسینی شیرازی، سید محمد، تقریب القرآن إلی الأذهان، ج 1، ص 138، دار العلوم، بیروت، طبع اول، 1424ق.
[9] ۔ قمی، علی بن ابراهیم، تفسیر القمی، محقق، مصحح، موسوی جزائری، سید طیب، ج 1، ص 48، دار الکتاب، قم، طبع سوم، 1404ق.
[10] ۔ فضل الله، سید محمد حسین، تفسیر من وحی القرآن، ج 2، ص 71، دار الملاک للطباعة و النشر، بیروت، طبع دوم، 1419ق.
[11] ۔ طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج 14، ص 358، دفتر انتشارات اسلامی، قم، طبع پنجم، 1417ق.
[12] ۔ مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، ج 1، ص 288 - 291، دار الکتب الإسلامیة، تهران، طبع اول، 1374ش؛ فخرالدین رازی، محمد بن عمر، مفاتیح الغیب، ج 3، ص 536، دار احیاء التراث العربی، بیروت، طبع سوم، 1420ق.
[13] ۔ الميزان فی تفسير القرآن، ج 1، ص 193؛ تفسير نمونه، ج 1، ص 283.
[14] ۔ گنابادی، سلطان محمد، تفسیر بیان السعادة فی مقامات العبادة، ج 1، ص 100، مؤسسة الأعلمی للمطبوعات، بیروت، طبع دوم، 1408ق
source : islamquest