قارئین كرام! ”جبر“ كا عقیدہ ركھنے والے اس سلسلہ میں دو جواب پیش كرتے ھیں:
عذاب كسی فعل كی بنا پر نھیں ھے بلكہ ”كسب “كی بنا پر ھے۔
لیكن ھم ان كے جواب میں كہتے ھیں كہ:
جو بات ”كسب“ كے لغوی معنی اور قرآن كریم میں استعمالات سے سمجھی جاتی ھے وہ یہ ھے كہ كسب اختیار كے ذریعہ انجام شدہ فعل كو كہتے ھیں، جیسا كہ ارشاد هوتا ھے:
<وَمَنْ یَكْسِبْ اِثْماً فَاِنَّمَا یَكْسِبُہُ عَلیٰ نَفْسِہِ>
”اور جو شخص كوئی گناہ كرتا ھے تو اس سے كچھ اپنا ھی نقصان كرتا ھے“
<لَہَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَیْہَا مَااكْتَسَبَتْ>
”اس (انسان) نے اچھا كام كیا تو اپنے نفع كے لئے اور برا كام كیا تو اس كا (وبال) اسی پر پڑے گا“
<وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْا اٴَیْدِیَہُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا>
”اور چور خواہ مرد هو یا عورت تم ان كے كرتوت كی سزا میں ان كا (داہنا) ھاتھ كاٹ ڈالو“
<وَالَّذِیْنَ كَسَبُوا السَّیِّئَاٰتِ جَزَاءُ سَیِّئَةٍ بِمِثْلِہَا>
”اور جن لوگوں نے برے كام كئے ھیں تو گناہ كی سزا ان كے برابر ھے “
<اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْسِبُوْنَ الاِثْمَ سَیُجْزَوْنَ بِمَا كَانُوْا یَقْتَرِفُوْنَ>
”جو لوگ گناہ كرتے ھیں انھیں اپنے اعمال كا عنقریب ھی بدلا دیا جائے گا“
اسی طرح قرآن كریم میں دیگر آیات بھی موجود ھیں جو تما م اس بات پر دلالت كرتی ھیں كہ ارادہ واختیار كے ذریعہ جو فعل انجام پائے اس كو ”كسب“ كہتے ھیں لیكن اختیار كی ایك شرط قدرتِ انسان ھے۔
لہٰذا ان كو جب خود اپنا دعویٰ ناقص دكھائی دیا تو انھوں نے یہ كھا كہ وہ كسب جو عذاب كا سبب بنتا ھے وہ ایسا فعل ھے جو خدا سے صادر هوتا ھے لیكن انسان كے ارادہ كے ساتھ یعنی اس فعل كے وجود كے لئے انسان كا ارادہ اور خدا كا اس كام كوكردینا ضروری ھے۔
لیكن ھم اس كا جواب یوں دیتے ھیں:
1۔اگر یہ مقارن هونا (ارادہ انسان اور فعل خدا كا ایك ساتھ ملنا) اختیار سے خارج هو تو انسان پر عذاب كرنا صحیح نھیں ھے كیونكہ ان كے گمان كے مطابق انسان تو صرف اس فعل سے رغبت ركھتا تھا، لیكن اس فعل كو خداوندعالم نے ایجاد كیا (ان كے گمان كے مطابق)
پس در حقیقت رغبتِ انسان اور ایجاد خدا میں مقارنت پائی گئی، اور یہ مقارنت بھی خدا كے ارادہ اور اس كی قدرت كے ذریعہ پیدا هوئی كیونكہ ان كے گمان كے مطابق وھی فاعل حقیقی ھے، تو پھر یہ كس طرح صحیح هوگا كہ خداوندعالم اس بندہ پر عذاب كرے جس نے فعل ھی انجام نہ دیا هو، یا اس مقارنت كی بنا پر جس پر اُسے ذرا بھی اختیار نھیں۔
2۔ خداوند عالم كا اپنے بندوں پر ظلم كرنا قبیح نھیں ھے كیونكہ یہ تو مالك كے تصرف كا ایك حصہ ھے اور وہ جو چاھے كر سكتا ھے، (ھم نے اس سلسلہ میں وضاحت كردی ھے) كیونكہ خود ذات افعال میں ایسی كوئی چیز نھیں ھے جس كی وجہ سے ان كو حسن یا قبیح كا نام دیا جائے، اور انسان كے كاموں كو حسن وقبیح كہنا شریعت كی بناپر هوتے ھیں كیونكہ جس كام كا شریعت نے حكم دیدیا ھے وہ حسن ھے اور جن كاموں سے روك دیا ھے وہ قبیح ھیں، كیونكہ اگر شارع كی نظر بدل جائے اور جس كام كا امر كیا تھا اس كے بارے میں نھی كردے اور جس چیز كے بارے میں منع فرمایا تھا اس كا حكم دیدے تو پھر قبیح، حسن سے اور حسن، قبیح سے بدل جائے گا، یعنی جو چیز حسن تھی وہ قبیح هوجائے گی اور جو قبیح تھی وہ حسن هوجائے گی۔
اور چونكہ (ان كے گمان كے مطابق) فعل كا حُسن وقبح شریعت مقدس كی وجہ سے ھے نہ كہ حكمِ عقل كی بنا پر، تو پھر خداوندعالم كے فعل كو حسن وقبح كا نام نھیں دیا جاسكتا كیونكہ وہ تو شریعت سے بھی بالاتر ھے، پس نتیجہ یہ هوا كہ ھر وہ كام جو خدا انجام دے (چاھے ظلم پر ھی كیوں نہ منطبق هو) وہ حس
source : tebyan