ايک مصري دانشور کہتا ہے کہ جب ميں فرانس ميں زير تعليم تھا تو ماہ رمضان ميں ايک پروگرام ميں شرکت کي، کالج کے پرنسپل نے ميرے سامنے سگريٹ پيش کي تو ميں نے معذرت کر لي،اس نے وجہ دريافت کي تو ميں نے کہا کہ رمضان کا مہينہ ہے اور ميں روزے سے ہوں،اس نے کہا ميں نہيں سمجھتا تھا کہ تم بھي ان خرافات کے پابند ہوگے،پروگرام کے بعد ايک ہندوستاني پروفيسر نے جو اس پروگرام ميں شريک تھے مجھ سے کہا کہ کل فلاں مقام پر مجھ سے ملاقات کرلينا، اگلے روز ميں پروفيسر سے ملاقات کے لئے گيا وہ مجھے چرچ لے گئے اور دوسرے ايک شخص کو دکھا کر پوچھا، پہچانتے ہو کہ يہ کون ہے؟ ميں نے کہا ہمارے پرنسپل ہيں، پروفيسر نے پوچھا يہ کيا کر رہے ہيں؟ ميں نے کہا عبادت ميں مشغول ہيں،پروفيسر نے کہا يہ لوگ ہميں تو ديني آداب و رسوم ترک کرنے کا مشورہ ديتے ہيں اور خود پابندي کے ساتھ مذہبي امور بجا لاتے ہيں-يہ خطرناک بيماري جو اغيار اور سامراجي طاقتوں کے پروپيگنڈہ کے ذريعہ ہمارے اندر پھيلتي جا رہي ہے اوران کي صنعتي ترقي سے مرعوب ہو کر ہم اپني کمزوري کا احساس کرنے لگے ہيں اور يہ احساس ديمک کي طرح ہماري حيثيت، شخصيت اور ترقي پذير اقوام کي آزادي ء فکر کو نابود کر رہا ہے.
بعض حضرات تو مغربي تہذيب کے دھارے ميں اس طرح بہہ گئے ہيں کہ خود ان سے آگے بڑھکر ديگ سے زيادہ چمچہ گرم کے مصداق نظر آتے ہيں- ہمارے خيال ميں اس بيماري سے وسيع پيمانہ پر مقابلہ کي ضرورت ہے ،ايسا مقابلہ جس کي بنياد عقل ومنطق اور اسلامي آداب و احکام کے احترام پر استوار ہو-
حقيقت يہي ہے کہ بعض مشرقي افراد جب اپني کمزوري کا احساس کرتے ہيں تو مغربي تمدن کے سامنے سپرانداختہ ہو جاتے ہيں اور اپني قومي و مذہبي عادات، اخلاق، لباس وغيرہ سب کچھ تج کر مغربي تہذيب کو فخر کے ساتھ اپنا ليتے ہيں اور اپنے ماحول ميں بھي انہيں کا طرز معاشرت اختيار کر ليتے ہيں ليکن مغربي افراد کا چونکہ ڈنکہ بجتا ہے لہذا وہ اپنے مال و ثروت، علم و صنعت اور مادي ترقي پر اکڑتے ہيں اور اپنے عادات و اطوار کتنے ہي پست، حيواني اور خرافاتي کيوں نہ ہوں اہل مشرق کے سامنے فخر کے ساتھ انہيں بجا لاتے ہيں- (جاری ہے)
source : tebyan