اشکانی عہد حکومت میں ایران کی مھستان پارلیمنٹ نے 173 ق م کے نوروز میں شاہ وقت مھرداد اوّل کی موجودگی میں اپنا پہلا اجلاس منعقد کیا ۔ اس پارلیمنٹ نے جو پہلا بل پاس کیا وہ شاہ کا انتخاب تھا ۔
اس کے بعد عزل شاہ کل مجلس کا صاحب اختیار بن گیا ۔ اس زمانے میں ایران کی دو مجالس ہوا کرتی تھیں ۔ ایک کا نام " مجلس شاھزادگان " اور دوسری کا نام " مجلس بزرگان " تھا ۔ ان دونوں کے اکٹھے جلسے کو " مھستان " کا نام دیا جاتا تھا ۔
52 عیسوی میں مھستان نے 13 فروردین کی نحوست کے خوف کی وجہ سے ایران کو چـند دن کے لیۓ شاہ سے محروم رکھا اور 15 فروردین کے دن شاہزادوں میں سے " بلاش " کو جو سب سے چھوٹے تھے ، شاہ کے طور پر انتخاب کیا ۔ اس سے پہلا شاہ ایام نوروز میں وفات پا گیا تھا ۔ 13 کے ہندسے کی نحوست کا تعلق یونانیوں سے ہے جسے اسکندر بادشاہ ایران لے کر آیا ۔
مارچ 44 ق م میں ایران " سزار " کے حملے کے پیش نظر خود کو دفاع کے لیۓ آمادہ کر رہا تھا ۔ اس وقت یہ خبر پہنچی کہ سزار 15 مارچ یعنی نوروز شروع ہونے سے سات دن پہلے ہی روم میں مارا گیا ہے ۔ شاہ ایران کو یہ خبر ملک کے رجال نے اس وقت پہنچائی جب شاہ دلواپسی میں عید نوروز کے دن بسر کر رہے تھے ۔ ایران کی مسلح افواج کے سربراہ سپھبد سورنا 9 سال پہلے تقریبا 53 ق م کو " حران " میں رومی فوج کو شکست دے چکے تھے ۔ اس جنگ کی ایک خاص بات یہ تھی کہ جنگ میں مخالف فوج کے سربراہ کو قتل کر دیا گیا تھا اس لیۓ مخالفین انتقام لینے کے لیۓ کوششیں کر رہے تھے ۔
اردشیر پاپکان جس نے سن 226 عیسوی میں ( جس نے ساسانی سلسلہ کی بنیاد رکھی تھی )یعنی حکومت روم کو شکست دینے کے چار سال بعد یہ کوشش کی کہ حکومت روم ایران کے تہوار " نوروز " کو رسمی طور پر قبول کر لیں ۔ رومی سلطنت کے سربراہ نے یہ بات مان لی اور اس طرح نوروز روم میں بھی معروف ہو گیا ۔
اشکانی دور حکومت میں عید نوروز 5 دنوں پر مشتمل ہوا کرتا تھا ۔ بعد میں اردشیر نے اس میں چھٹے دن کا بھی اضافہ کر دیا اور بعد میں اس میں ساتویں دن کا بھی اضافہ کر دیا گیا ۔ اس سات دنوں میں ایرانی اپنے سارے کام کاج چھوڑ دیا کرتے تھے ۔
source : tebyan