جن حالات ميں اکثر لوگ دنيوي زندگي گذارنے کي تلاش ميں لگے رہتے ہيں ، اس دوران بھي بعض ايسے افراد بھي پائے جاتے ہيں جو حيات کا عظيم و بلند ، خالص اور اصلي فلسفہ سمجھنے اور پانے کے لئے ، اپني جان فدا و قربان کرنے پر بھي تيار ہوتے ہيں - اسي وجہ سے ، اپنے تربيتي مکتب اور دين کي راہ ميں شھادت کي نعمت سے سرفراز ہونے کا استقبال کرتے ہيں - اس جوش و جذبہ جو دنيوي تعلقات سے ناطہ توڑنے کے ہمراہ ہوتا ہے ، کو " شھادت طلبي اور سعادت خواہي " کہا جاتا ہے !-
عاشورا ، امام حسين(ع) کے يار و دوستوں کي شھادت طلبي کا مظھر تھا - خود بھي وہ حضرت اس ميدان ميں پيشقدم اور نمونہ ءعمل تھے - امام عالي مقام نے مکہ سے نکلتے وقت خداوند متعال کي راہ ميں مرجانے کي خوبصورتي اور کاميابي کے بارے ميں ايک خطبہ پڑھا - (57) اور شھادت کي آرزو رکھنے والوں سے چاہا کہ وہ اس کے ساتھ کاروان ميں شامل ہوجائے - " مَن كانَ فِينا باذلاً مُهجَتَهُ موطناً عَلي لِقاءِ اللهِ نفسَهُ فَلْيَرحل مَعَنا -"
اگر شب عاشورا اور كربلا تک جانے کي راہ ميں امام حسين(ع) کے يار و دوستوں کے کلمات پرغور کيا جائے ، تو ان کے کلام اور سلوک ميں شھادت طلبي اور سعادت خواہي کا جوش و ولولہ واضح طور پر ديکھا جا سکتا ہے - شب عاشورا ، انہوں نے راہ خدا ميں مرجانے ، فرزند پيغمبر کي حمايت و حفاظت کرنے اور ظالمين کے ساتھ لڑنے ميں ، بہترين انداز ميں اپنے عشق و محبت کا اظھار کيا :
" اس خداوند کا شکر ہے جس نے تمہيں مدد کرنے سے ، ہميں عزت عطا کي اور تمہارے ساتھ مرجانے سے ، ہميں شرافت بخشي !- "
يہاں تک کہ حضرت قاسم (ع) جيسا کم سن نوجوان ، راه خدا ميں موت ، شھد سے بھي زيادہ لذيذ سمجھتا ہے "- اسي رات ، حضرت عباس (ع) نے بھي بني هاشم کے درميان بات کي اور انہيں فرمايا :
" امام کے اصحاب اجنبي(غير ہاشمي) ہيں اور بارسنگين ہمارے کندھے پر ہے - ہميں سب سے پہلے شھادت کے لئے پيشقدم ہونا چاہيے تا کہ لوگ يہ نہ کہيں ، بني هاشم نے پہلے اصحاب بھيج دئے اور خود ، اصحاب مرجانے کے بعد ميدان ميں چلے گئے - "
سارے بني هاشميوں نے ، نيام سے تلوار باہر نکالي اور جناب عباس بن علي (ع) سے مخاطب ہوکر کہنے لگے :
" ہم بھي اسي ارادے اور آواز پر ہيں جس پر تم ہو - "
امام عالي مقام بھي اپنے يار و دوستوں کے بارے ميں اسي طرح کي شناخت اور اعتقاد رکھتے تھے - اسي وجہ جب انہوں نے احساس کيا کہ ان کي خواہر گرامي حضرت زينب (س) تھوڑي سي پريشان ہے اور امام کے يار و دوستوں کي ثابت قدمي ميں انہيں کچھ شک لگ رہا ہے ، تو ان سے مخاطب ہو کرفرمايا :
" خدا کي قسم ! ، ہم نے ان سب کو آزمايا اور امتحان کيا ہيں - يہ سب شھادت طلب ہيں جوموت سے مانوس ہوگئے ہيں ، اسي طرح جس طرح بچہ اپني ماں کے پستان سے مانوس ہوتا ہے - "
يہ امام عالي مقام اور اس کے حقيقي ساتھيوں کي فکري باليدگي اورانوکھي ثقافت ہے !- روزعاشورا کي عبادت ميں امام عالي مقام کي ايک دعا ميں ہم پڑھتے ہيں :
" خدايا! ، ميں چاہتا ہوں ستر ہزار مرتبہ تيري اطاعت اور محبت کي راہ ميں مارا جاğ اور دوبارہ زندہ ہوجاğ ، خاصکر اگر ميرے مارے جانے ميں ، دين کي نصرت ، تيرا فرمان زندہ ہوجانا اور تيري ناموس ِشريعت کي حفاظت ، پوشيدہ ہو !- "
امام زمان (عج) کے حقيقي يار و دوستوں کي بھي ايک اہم اور امتيازي خصوصيت " شھادت طلبي اور سعادت خواہي " ہے - اس بارے ميں حضرت امام صادق (ع) يوں فرماتے ہيں :
" وہ خداوند کے ڈر سے ، خوفزدہ ہيں اور شھادت کي آرزو کرتے ہيں - ان کي تمنا راہ خدا ميں مرجانے کي ہے اور ان کا نعرہ " يالثارات الحسين ؛ اے حسين(ع) کے خون کا انتقام لينے والو " ... !-"
پس اس طرح سے معلوم ہوتا ہے کہ يقيناً حضرت امام حسين (ع) اور حضرت مهدي (عج) کے حقيقي يار و دوستوں کي ايک روشن اور ممتاز خصوصيت " شھادت طلبي اور سعادت خواہي " ہے - جس کے نمونے بيان کئے گئے !
source : tebyan