جیسا کہ ھم نے عرض کیا کہ ”انتظار“ انسانی فطرت میں شامل ھے اور ھر قوم و ملت اور ھر دین و مذھب میں انتظار کا تصور پایا جاتا ھے، لیکن انسان کی ذاتی اور اجتماعی زندگی میں پایا جانے والا عام انتظار اگرچہ عظیم اور با اھمیت ھو لیکن امام مھدی علیہ السلام کے انتظار کے مقابلہ میں چھوٹا اور نا چیز ھے کیونکہ آپ کے ظھور کا انتظار درج ذیل خاص امتیازات رکھتا ھے:
امام زمانہ علیہ السلام کے ظھور کا انتظار ایک ایسا انتظار ھے جو کائنات کی ابتداء سے موجود تھا یعنی بھت قدیم زمانہ میں انبیاء علیھم السلام اور اولیائے کرام آپ کے ظھور کی بشارت دیتے تھے اور ھمارے تمام ائمہ (علیھم السلام) قریبی زمانہ میں آپ کی حکومت کے زمانہ کی آرزو رکھتے تھے۔
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:
”اگر میں ان (امام مھدی علیہ السلام) کے زمانہ میں ھوتا تو تمام عمر ان کی خدمت کرتا“۔([1])
امام مھدی علیہ السلام کا انتظار ایک عالمی اصلاح کرنے والے کا ا نتظار ھے، عالمی عادل حکومت کا انتظار ھے اور تمام ھی اچھائیوں کے ظاھر ھونے کا انتظار ھے، چنانچہ اسی انتظار میں عالم بشریت آنکھیں بچھائے ھوئے ھے اور پاک و پاکیزہ قدرتی فطرت کی بنیاد پر اس کی تمنا کرتا ھے اور کسی بھی زمانہ میں مکمل طور پر اس تک نھیں پہنچ سکا ھے، و حضرت امام مھدی علیہ السلام اسی شخصیت کا نام ھے جو عدالت اور معنویت، برادری اور برابری، زمین کی آبادی ، صلح و صفا ، عقل کی شکوفائی اور انسانی علوم کی ترقی کو تحفہ میں لائیں گے، اور استعمار و غلامی ، ظلم و ستم اور تمام برائیوں کا خاتمہ کرنا آپ کی حکومت کا ثمرہ ھوگا۔
امام مھدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کا انتظار ایسا انتظار ھے جس کے شکوفائی کا راستہ فراھم ھونے سے خود انتظار بھی شگوفہ ھوجائے گا، اور وہ ایسا زمانہ ھوگا کہ جب تمام انسان آخر الزمان میں اصلاح کرنے والے اور نجات بخشنے والے کی تلاش میں ھوں گے، وہ آئیں گے تاکہ اپنے ناصر و مددگاروں کے ساتھ برائیوں کے خلاف قیام کریں گے نہ یہ کہ صرف اپنے معجزہ سے پوری کائنات کے نظام کو بدل دیں گے۔
امام مھدی علیہ السلام کا انتظار ان کے منتظرین میں ان کی نصرت و مدد کا شوق پیدا کرتا ھے اور انسان کو حیثیت اور حیات عطا کرتا ھے، نیز اس کو بے مقصد سرگرمی اور گمراھی سے نجات دیتا ھے۔
قارئین کرام! یہ تھیں اس انتظار کی بعض خصوصیات جو تمام تاریخ کی وسعت کے برابر ھیں اور ھر انسان کی روح میں اس کی جڑیں موجود ھیں، اور کوئی دوسرا انتظار اس عظیم انتظار کی خاک پا بھی نھیں ھوسکتا، لہٰذا مناسب ھے کہ امام مھدی علیہ السلام کے انتظار کے مختلف پھلوؤں اور اس کے آثار و فوائد کو پہچانیں اور آپ کے ظھور کے منتظرین کی ذمہ داریاں اور اس کے بے نظیر ثواب کے بارے میں گفتگو کریں۔
انتظار کے پھلو
خود انسان میں مختلف پھلو پائے جاتے ھیں: ایک طرف تو نظری (تھیوری) اور عملی (پریکٹیکل) پھلو اس میں موجود ھے اور دوسری طرف اس میں ذاتی اور اجتماعی پھلو بھی پایا جاتا ھے، اور ایک دوسرے رخ سے جسمانی پھلو کے ساتھ روحی اور نفسیاتی پھلو بھی اس میں موجود ھے، جبکہ اس بات میں کوئی شک نھیں ھے کہ مذکورہ پھلوؤں کے لئے مخصوص قوانین کی ضرورت ھے، تاکہ ان کے تحت انسان کے لئے زندگی کا صحیح راستہ کھل جائے، اور منحرف اور گمراہ کن راستہ بند ھوجائے۔
امام مھدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کے ظھور کا انتظار، منتظر کے تمام پھلوؤں پر موثر ھے، انسان کے فکری اور نظری پھلو جو انسان کے اعمال و کردار کا بنیادی پھلو ھے ، انسانی زندگی کے بنیادی عقائد پر اپنے حصار کے ذریعہ حفاظت کرتا ھے۔ دوسرے الفاظ میں یوں عرض کیا جائے کہ صحیح انتظار اس بات کا تقاضا کرتا ھے کہ منتظر اپنی اعتقادی اور فکری بنیادوں کو مضبوط کرے تاکہ گمراہ کرنے والے مذاھب کے جال میں نہ پھنس جائے یا امام مھدی علیہ السلام کی طولانی غیبت کی وجہ سے یاس و ناامیدی کے دلدل میں نہ پھنس جائے۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ھیں:
”لوگوں پر ایک زمانہ وہ آئے گا کہ جب ان کا امام غائب ھوگا، خوش نصیب ھے وہ شخص جو اس زمانہ میں ھمارے امر (یعنی ولایت) پر ثابت قدم رھے“۔([2])
یعنی غیبت کے زمانہ میں دشمن نے مختلف شبھات کے ذریعہ یہ کوشش کی ھے کہ شیعوں کے صحیح عقائد کو ختم کردیا جائے، لیکن ھمیں انتظار کے زمانہ میں اپنے عقائد کی حفاظت کرنا چاہئے۔
انتظار ، عملی پھلو میں انسان کے اعمال اور کردار کو راستہ دیتا ھے، ایک حقیقی منتظر کو عملی میدان میں کوشش کرنا چاہئے کہ امام مھدی علیہ السلام کی حکومت حق کا راستہ فراھم ھوجائے، لہٰذا منتظر کو اس سلسلہ میں اپنی اور معاشرہ کی اصلاح کے لئے کمرِ ھمت باندھنا چاہئے، نیز اپنی ذاتی زندگی میں اپنی روحی اور نفسیاتی حیات اور اخلاقی فضائل کو کسب کرنے کی طرف مائل ھو اور اپنے جسم و بدن کو مضبوط کرے تاکہ ایک کار آمد طاقت کے لحاظ سے نورانی مورچہ کے لئے تیار رھے۔
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:
”جو شخص امام قائم علیہ السلام کے ناصر و مددگار میں شامل ھونا چاھتا ھے اسے انتظار کرنا چاہئے اور انتظار کی حالت میں تقویٰ و پرھیزگاری کا راستہ اپنانا چاہئے اور نیک اخلاق سے مزین ھونا چاہئے“۔([3])
اس ”انتظار“ کی خصوصیت یہ ھے کہ یہ انسان کو اپنی ذات سے بلند کرتا ھے اور اس کو معاشرہ کے ھر شخص سے جوڑ دیتا ھے، یعنی انتظار نہ صرف انسان کی ذاتی زندگی میں موٴثر ھوتا ھے بلکھ معاشرہ میں انسان کے لئے مخصوص منصوبہ بھی پیش کرتا ھے اور معاشرہ میں مثبت قدم اٹھانے کی رغبت بھی دلاتا ھے، اور چونکہ حضرت امام مھدی علیہ السلام کی حکومت اجتماعی حیثیت رکھتی ھے، لہٰذا ھر انسان اپنے لحاظ سے معاشرہ کی اصلاح کے لئے کوشش کرے اور معاشرہ میں پھیلی برائیوں کے سامنے خاموش اور بے توجہ نہ رھے، کیونکہ عالمی اصلاح کرنے والے کے منتظر کو فکر و عمل کے لحاظ سے اصلاح اور خیر کے راستہ کو اپنانا چاہئے۔
مختصر یہ ھے کہ ”انتظار“ ایک ایسا مبارک چشمہ ھے جس کا آب حیات انسان اور معاشرہ کی رگوں میں جاری ھے، اور زندگی کے تمام پھلوؤں میں انسان کو الٰھی رنگ اور حیات عطا کرتا ھے، اور خدائی رنگ سے بھتر اور ھمیشگی رنگ اور کونسا ھوسکتا ھے؟!
قرآن کریم میں ارشاد ھوتا ھے:([4])
”رنگ تو صرف اللہ کا رنگ ھے اور اس سے بھتر کس کا رنگ ھوسکتا ھے اور ھم سب اسی کے عبادت گزار ھیں “۔
مذکورہ مطالب کے پیش نظر "مصلح کل" حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے منتظرین کی ذمّہ داری ”الٰھی رنگ اپنانے“ کے علاوہ کچھ نھیں ھے جو انتظار کی برکت سے انسان کی ذاتی اور اجتماعی زندگی کے مختلف پھلوؤں میں جلوہ گر ھوتا ھے، جس کے پیش نظر ھماری وہ ذمّہ داریاں ھمارے لئے مشکل نھیں ھوں گی، بلکہ ایک خوشگوار واقعہ کے عنوان سے ھماری زندگی کے ھر پھلو میں ایک بھترین معنی و مفھوم عطا کرے گی۔ واقعاً اگر ملک کا مھربان حاکم اور محبوب امیر قافلہ ھمیں ایک شائستہ سپاھی کے لحاظ سے ایمان کے خیمہ میں بلائے اور حق و حقیقت کے مورچہ پر ھمارے آنے کا انتظار کرے تو پھر ھمیں کیسا لگے گا؟ کیا پھر ھمیں اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے میں کوئی پریشانی ھوگی کہ یہ کام کرو اور ایسا بنو، یا ھم خود چونکہ انتظار کے راستہ کو پہچان کر اپنے منتخب مقصد کی طرف قدم بڑھاتے ھوئے نظر آئیں گے؟!
منتظرین کی ذمّہ داریاں
دینی رھبروں کے ذریعہ احادیث اور روایات میں ظھور کا انتظار کرنے والوں کی بھت سی ذمّہ داریاں بیان ھوئی ھیں، ھم یھاں پر ان میں سے چند اھم ذمّہ داریاں کو بیان کرتے ھیں۔
امام کی پہچان
امام علیہ السلام کی شناخت اور پہچان کے بغیر راہ انتظار کو طے کرنا ممکن نھیں ھے، انتظار کی وادی میں صبر و استقامت کرنا امام علیہ السلام کی صحیح شناخت سے وابستہ ھے، لہٰذا امام مھدی علیہ السلام کے اسم گرامی اور نسب کی شناخت کے علاوہ ان کی عظمت اور ان کے رتبہ و مقام کی کافی مقدار میں شناخت بھی ضروری ھے۔
”ابو نصر“ امام حسن عسکری علیہ السلام کےخادم،امام مھدی علیہ السلام کی غیبت سے پھلے امام عسکری علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ھوئے، امام مھدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) نے ان سے سوال کیا: کیا مجھے پہچانتے ھو؟ انھوں نے جواب دیا: جی ھاں، آپ میرے مولا و آقا اور میرے مولا و آقا کے فرزند ھیں! امام علیہ السلام نے فرمایا: میرا مقصد ایسی پہچان نھیں ھے!؟ ابو نصر نے عرض کی: آپ ھی فرمائیں کہ آپ کا مقصد کیا تھا۔
امام علیہ السلام نے فرمایا:
”میں پیغمبر اسلام (ص) کا آخری جانشین ھوں، اور خداوندعالم میری (برکت کی) وجہ سے ھمارے خاندان اور ھمارے شیعوں سے بلاؤں کو دور فرماتا ھے“۔([5])
اگر منتظر کو امام علیہ السلام کی معرفت حاصل ھوجائے تو پھر وہ اسی وقت سے اپنے کو امام علیہ السلام کے مورچہ پر دیکھے گا اور احساس کرے گا کہ امام علیہ السلام اور ان کے خیمہ کے نزدیک ھے، لہٰذا اپنے امام کے مورچہ کو مضبوط بنانے میں پَل بھر کے لئے کوتاھی نھیں کرے گا۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ھیں:
” مَنْ مَاتَ وَ هوَ عَارِفٌ لِاِمَامِه لَمْ َیضُرُّه، تَقَدَّمَ هذَا الاٴمْرِ اٴوْ تَاٴخَّرَ، وَ مَنْ مَاتَ وَ هوَ عَارِفٌ لِاِمَامِه کَانَ کَمَنْ هوَ مَعَ القَائِمِ فِی فُسْطَاطِه“([6])
”جو شخص اس حال میں مرے کہ اپنے امام زمانہ کو پہچانتا ھو تو ظھور کا جلد یا تاخیر سے ھونا کوئی نقصان نھیں پھونچاتا، اور جو شخص اس حال میں مرے کہ اپنے امام زمانہ کو پہچانتا ھو تو وہ اس شخص کی طرح ھے جو امام کے خیمہ اور اور امام کے ساتھ ھو“۔
قابل ذکر ھے کہ یہ معرفت اور شناخت اتنی اھم ھے کہ معصومین علیھم السلام کے کلام میں بیان ھوئی ھے اور جس کو حاصل کرنے کے لئے خداوندعالم سے مدد طلب کرنا چاہئے۔
حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
”حضرت امام مھدی علیہ السلام کی طولانی غیبت کے زمانہ میں باطل خیال کے لوگ (اپنے دین اور عقائد میں) شک و شبہ میں مبتلا ھوجائیں گے، امام علیہ السلام کے خاص شاگرد جناب زرارہ نے کھا: آقا اگر میں وہ زمانہ پائوں تو کونسا عمل انجام دوں؟
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: اس دعا کو پڑھو:
”اَللّٰهمَّ عَرِّفْنِی نَفْسَکَ فَإنَّکَ إنْ لَمْ تُعَرِّفْنِی نَفْسَکَ لَمْ اٴعْرِفْ نَبِیَّکَ، اَللّٰهمَّ عَرِّفْنِی رَسُولَکَ فَإنَّکَ إنْ لَمْ تُعَرِّفْنِی رَسُولَکَ لَمْ اٴعْرِفْ حُجَّتَکَ، اَللّٰهمَّ عَرِّفْنِی حُجَّتَکَ فَإنَّکَ إنْ لَمْ تُعَرِّفْنِی حُجَّتَکَ ضَلَلْتُ عَنْ دِیْنِی“([7])
”پرودگارا! مجھے تو اپنی ذات کی معرفت کرادے اور اگر تو نے مجھے اپنی ذات کی معرفت نہ کرائی تو میں تیرے نبی کو نھیں پہچان سکتا، پرودگارا! تو مجھے اپنے رسول کی معرفت کرادے اور اگر تو نے اپنے رسول کی پہچان نہ کرائی تو میں تیری حجت کو نھیں پہچان سکوں گا، پروردگارا! تو مجھے اپنی حجت کی معرفت کرادے اور اگر تو نے مجھے اپنی حجت کی پہچان نہ کرائی تو میں اپنے دین سے گمراہ ھوجاؤں گا“۔
قارئین کرام! مذکورہ دعا میں نظام کائنات کے مجموعہ میں امام علیہ السلام کی عظمت کی معرفت بیان ھوئی ھے([8]) اور وہ خداوندعالم کی طرف سے حجت اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا حقیقی جانشین اور تمام لوگوں کا ھادی و رھبر ھے جس کی اطاعت سب پر واجب ھے، کیونکہ اس کی اطاعت خداوندعالم کی اطاعت ھے۔
معرفت امام کا دوسرا پھلو امام علیہ السلام کے صفات اور ان کی سیرت کی پہچان ھے([9]) معرفت کا یہ پھلو انتظار کرنے والے کی رفتار و گفتار پر بھت زیادہ موثر ھوتا ھے، اور ظاھر سی بات ھے کہ انسان کو امام علیہ السلام کی جتنی معرفت ھوگی اس کی زندگی میں اتنے ھی آثار پیدا ھوں گے۔
نمونہ عمل
جس وقت امام علیہ السلام کی معرفت اور ان کے خوشنماجلوے ھماری نظروں کے سامنے ھوں گے تو اس مظھر کمالات کو نمونہ قرار دینے کی بات آئے گی۔
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ھیں:
”خوش نصیب ھیں وہ لوگ جو میری نسل کے قائم کو اس حال میں دیکھیں کہ اس کے قیام سے پھلے خود اس کی اور اس سے پھلے ائمہ کی اقتداء کرتے ھوں اور ان کے دشمنوں سے بیزاری کا اعلان کرتے ھوں، ایسے افراد میرے دوست اور میرے ساتھی ھیں، اور یھی لوگ میرے نزدیک میری امت کے سب سے عظیم افراد ھیں“۔([10])
واقعاً جو شخص تقویٰ، عبادت، سادگی، سخاوت، صبر اور تمام اخلاقی فضائل میں اپنے امام کی پیروی کرے تو ایسے شخص کا رتبہ اس الٰھی رھبر کے نزدیک کس قدر زیادہ ھوگا اور ان کے حضور میں شرفیابی سے کس قدر سرفراز اور سربلند ھوگا؟!
کیا اس کے علاوہ ھے کہ جو شخص دنیا کے سب سے خوبصورت منظر کا منتظر ھے وہ اپنے کو خوبیوں سے آراستہ کرے اور خود کو برائیوں سے دور رکھے نیز انتظار کے لمحات میں اپنے افکار و اعمال کی حفاظت کرتا رھے؟! ورنہ آہستہ آہستہ برائیوں کے جال میں پھنس جائے گا اور پھر اس کے اور امام کے درمیان فاصلہ زیادہ ھوتا جائے گا، یہ ایک ایسی حقیقت ھے جو خود خطرات سے آگاہ کرنے والے امام علیہ السلام کے کلام میں بیان ھوئی ھے:
”فَمَا یَحْبِسُنَا عَنْهمْ إلاَّ مَا یَتَّصِلُ بِنَا مِمَّا نُکْرِهه وَ لاٰ نُوٴثِرُہُ مِنْهم“([11])
”کوئی بھی چیز ھمیں اپنے شیعوں سے جدا نھیں کرتی، مگر خود ان کے وہ (برے) اعمال جو ھمارے پاس پہنچتے ھیں جن اعمال کو ھم پسند نھیں کرتے اور شیعوں سے ان کی امید بھی نھیں ھے!“۔
منتظرین کی آخری آرزو یہ ھے کہ امام مھدی علیہ السلام کی عالمی عدل کی حکومت میں کچھ حصہ ان کا بھی ھو، اور اس آخری حجت خدا کی نصرت و مدد کا افتخار ان کو بھی حاصل ھو، لیکن اس عظیم سعادت کو حاصل کرنا خود سازی اور اخلاقی صفات سے آراستہ ھوئے بغیر ممکن نھیں ھے۔
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:
”مَنْ سَرَّه اٴنْ یَکُوْنَ مِنْ اٴصْحَابِ الْقَائِمِ فَلْیَنْتَظِرْ وَ لِیَعْمَلْ بِالْوَرَعِ وَ مَحَاسِنِ الاٴخْلاَقِ وَ هوَ مُنْتَظِر“([12])
”جو شخص یہ چاھتا ھو کہ حضرت قائم علیہ السلام کے ناصروں میں شامل ھو تو اسے اس حال میں منتظر رہنا چاہئے کہ تقویٰ اور پرھیزگاری اور اخلاق حسنہ سے آراستہ رھے“۔
یہ بات روشن ھے کہ ایسی آرزو تک پہنچنے کے لئے خود امام مھدی علیہ السلام سے بھتر کوئی نمونہ نھیں مل سکتا جو تمام ھی نیکی اور خوبیوں کا آئینہ ھے۔
________________________________________
[1] غیبت نعمانی، باب ۱۳، ح۴۶، ص ۲۵۲۔
[2] کمال الدین، ج۱، ح ۱۵، ص ۶۰۲۔
[3] غیبت نعمانی، باب ۱، ح۱۶، ص ۲۰۰۔
[4] سورہ بقرہ، آیت ۱۳۸۔
[5] کمال الدین، ج۲، باب ۴۳، ح۱۲، ص ۱۷۱۔
[6] اصول کافی، ج۱، باب ۸۴، ح ۵، ص ۴۳۳۔
[7] غیبت نعمانی، باب ۱۰، فصل ۳، ح۶، ص ۱۷۰۔
[8] اس سلسلہ میں کتاب کی پھلی فصل میں بعض مطالب بیان ھوئے ھیں، دوبارہ مطالعہ فرمائیں۔
[9] ھم امام مھدی علیہ السلام کی سیرت اور صفات کے بارے میں آنے والی فصل میں گفتگو ھوگی۔
[10] کمال الدین، ج۱، باب ۲۵، ح۳، ص ۵۳۵۔
[11] بحار الانور، جلد ۵۳، ص ۱۷۷۔
[12] غیبت نعمانی، باب ۱۱، ح۱۶، ص ۲۰۷۔
source : alhassanain