/ ثقافتی اوراق
توحید افعالی یعنی عالم کون و مکاں میں خداوند عالم کے علاوہ کوئی تاثیر گزار اور اثرانداز نہیں ہے۔ جوکچھ ہے اس کا فعل ہے۔ کائنات میں جو کچھ رخ پاتا ہے اس کی قدرت کا کرشمہ ہے اور دنیا میں کوئی موجود، کسی کام کو انجام دینے کی قدرت نہیں رکھتا مگر اس طاقت کے ذریعے جو خدا نے اسے دی ہے۔
اسی طرح سے خداوند عالم اپنے کاموں کی انجام دہی میں کسی دوسرے موجود کا محتاج نہیں ہے۔
قرآن کریم ان لوگوں کی مذمت کرتا ہے جو خدا کا شریک قرار دیتے ہیں اور اس کے بعد عالم ہستی میں ہر موجود کی طاقت کو خدا کی طرف منسوب کرتا ہے: "وَمِنَ النَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ اللَّـهِ أَندَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّـهِ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّـهِ ۗ وَلَوْ يَرَى الَّذِينَ ظَلَمُوا إِذْ يَرَوْنَ الْعَذَابَ أَنَّ الْقُوَّةَ لِلَّـهِ جَمِيعاً ـ
بعض لوگوں نے خدا کے علاوہ اپنے معبود انتخاب کر رکھے ہیں اور انہیں بھی خدا کی طرح دوست رکھتے ہیں لیکن جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کی محبت صرف خدا کے لیے ہے اور وہ لوگ جو ظلم و ستم کرتے ہیں جب عذاب الہی کو دیکھیں گے تب پتا چلے گا کہ طاقت صرف اللہ ہی کی ہے۔ (سورہ بقرہ، آیت ۱۶۵)
کیا ہم میں سے بہت سارے مشرک ہیں؟
جیسا کہ ایمان کے مراتب ہیں شرک کے بھی مختلف مرتبے ہیں۔ ہم مسلمان اگر چہ شرک عظیم جس میں مشرکین اور عیسائی گرفتار ہیں سے مبرا ہیں لیکن ہم میں سے بہت ساروں کے اندر شرک کے نچلے مراتب پائے جاتے ہیں!
خداوند عالم کا ارشاد ہے: "وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُم بِاللَّـهِ إِلَّا وَهُم مُّشْرِكُون ان میں سے اکثر جو ایمان کے دعویدار ہیں مشرک ہیں۔ (سورہ یوسف، آیت ۱۰۶)
امام صادق علیہ السلام نے اس حقیقت کو بیان کرتے ہوئے کہ کیسے اکثر مومنین مشرک ہیں؟ فرمایا: "هو قول الرجل: لولا فلانٌ لهلکتُ و لولا فلانٌ لما أصبتُ کذا و کذا و لولا فلانٌ لضاع عیالی؛ ألا تری أنه قد جعل لله شریکاً فی ملکه یزرقه و یدفع عنه؟"
یعنی وہ لوگ جو کہتے ہیں: اگر فلاں شخص نہ ہوتا تو ہلاک ہو جاتا، اگر فلاں نہ ہوتا تو یہ اور وہ مصیبت میرے سر پر پڑتی، اور اگر فلاں نہ ہوتا تو میرا گھرانہ اجڑ گیا ہوتا یہ سب شرک کے مصداق ہیں۔ اس لیے کہ یہ باتیں خدا کی مملکت میں شریک قرار دینے کے مترادف ہیں۔۔۔‘‘
کیا اس طرح کی باتوں کی ہمیں عادت نہیں ہو چکی ہے؟ جب کسی ادارے میں ہماری کوئی مشکل حل ہوتی ہے تو اسے ہم اس ملازم کا لطف و کرم سمجھتے ہیں۔ جب ہماری بیماری کسی ڈاکٹر کے ذریعے دور ہو جاتی ہے تو اس ڈاکٹر کو شافی سمجھ بیٹھتے ہیں، اور جب کسی مشکل سے نجات پاتے ہیں تو فلاں و فستاں کو اپنا سہارا مان لیتے ہیں۔ حالانکہ یہ تمام عوامل پروردگار عالم کے اسباب و ذرائع ہیں اور انہیں مستقل جاننا شرک خفی ہے۔
لہذا کیا کہنا چاہیے؟ اور ان اسباب و ذرائع کے کردار کو کیسے سمجھنا چاہئے؟
راوی کہتا ہے: "قلت: فنقول: لولا أن الله منَّ علیَّ بفلان لهلکت، قال: نعم لا بأس بهذا و نحوه"
میں نے امام صادق علیہ السلام سے عرض کیا: اگر اس طرح سے کہیں کہ اگر خدا نے فلاں کے ذریعے مجھ پر احسان نہ کیا ہوتا تو میں ہلاک ہو جاتا، تو کیا یہ بھی اشکال رکھتا ہے؟ امام نے فرمایا: ہاں، یہ ٹھیک ہے اور اس طرح سے گفتگو کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ (بحار الانوار، ج۵، ص۱۴۸)
لہذا یہ ڈاکٹر نہیں ہے جو ہمیں شفا دیتا ہے بلکہ شافی صرف اللہ ہے اور ڈاکٹر اور دوا بیماری کی شفا کے لیے اللہ کا وسیلہ ہیں، جیسا کہ ٹوٹا ہوا تختہ سمندر میں انسان کو نجات نہیں دے سکتا بلکہ یہ مشیت الہی ہے جو اس کو اس تختے کے ذریعے غرق ہونے سے بچاتی ہے۔
یہاں تک کہ ہم میں سے بہت سارے اپنی مشکلات کے حل کے لیے کہتے ہیں: پہلے خدا پھر آپ، یہ بھی شرک خفی ہے، اس لیے کہ خدا فرماتا ہے: "هو الأول و الاخر‘‘ وہی اول ہے وہی آخر ہے وہی پہلے بھی ہے وہی بعد میں بھی ہے۔ (سورہ حدید، آیت ۳)۔