س ۱: تقلید کیا ھے؟ جواب: دلیل طلب کئے بغیر کسی کا قول قبول کرنا تقلید ھے۔
جس طرح بیمار اپنے طبیب کے دستور کی پیروی اور اسی کے مطابق عمل کرتا ھے۔
سوال ۲: تقلید کن موضوعات میں ھوسکتی ھے۔ مقلد کسے کھتے ھیں؟ جواب: کسی بھی موضوع میں جب انسان کوئی مطلب نہ سمجہ سکے اور دوسروں سے اتباعاً اخذ کرے اسے تقلید کھیں گے۔ البتہ تقلید کے غالب موارد ایسے امور ھیں جھاں تعلیم و تجربہ کی احتیاج ھوتی ھے۔ چونکہ کسی بھی علم سے بے بھرہ افراد عالم و ماھر اور تجربہ کار سے ھی اس علم کے مسائل کو حاصل کرتے ھیں۔ لھذا ایسے افراد کو مقلد اور عالم و ماھر فن کو اس علم و فن کا مجتھد کھتے ھیں۔ جیسے ڈاکٹر و طبیب انسانی بدن کے حالات اور صحت و مرض سے واقفیت رکھتا ھے۔ دواساز دواؤں کی خصوصیات سے مطلع ھوتا ھے۔ معمارمکان کے بنانے میں ماھر ھے۔ زرگر سونا چاندی اور دوسرے جواھرات کی تشخیص میں ماھر ھے۔ درزی لباس اور اس کی سلائی میں استاد ھے۔ گھڑی ساز گھڑی کی خوبی و بدی اور اس کے داخلی حالات سے آگاہ ھے اور حکیم و فلسفی اپنی استعداد بشری کے مطابق موجود ات کے حقایق سے با خبر ھوتا ھے۔
نتیجہ: ھر علم و فن کے عالم، دانشمند اور متخصّص کو اس علم کا مجتھد اور ناواقف حضرات جب اس مجتھد کی طرف رجوع کرتے ھیں تو انھیں مقلد کھا جاتا ھے۔
مذھبی مسائل دو قسم کے ھیں:
۱۔ اصولی مسائل جن میں توحید ، صفات پروردگارمثلاًعدل وغیرہ نبوت، امامت اورقیامت سے متعلق مسائل شامل ھیں۔
۲۔ فروعی مسائل جن میں مسائل عبادات و معاملات وغیرہ شامل ھیں۔
پھلی قسم ھماری بحث سے خارج ھے کیونکہ یہ بات مسلم ھے کہ اصولی مسائل میں تقلید نھیں ھو سکتی بلکہ ھر عاقل انسان کے لئے ضروری ھے کہ وہ ان اصولی مسائل کی معرفت حاصل کرنے کے لئے فکری و عقلی استدلال سے کام لے اور پھر انھیں اپنے عقاید میں شامل کرے۔
یھاں ھماری بحث دین کے فروعی مسائل سے متعلق ھے۔
اصولی مسائل کے لئے مختصر، روشن اور عام فھم دلیل بیان کی جاسکتی ھے لیکن احکام فرعیہ کے استنباط (سمجھنے) کے لئے کچھ شرائط کا ھونا ضروری ھے جو سب لوگوں کو میسر نھیں۔
سوال ۳: احکام شرعیہ میں مجتھد اور مرجع تقلید کون ھوتا ھے؟ جواب : مجتھد وہ شخص ھے جو لوگوں کے مذھبی، معاشرتی، اجتماعی معاملات اور زندگی کے دیگر امورو مبتلا بہ مسائل کو دلائل و براھین کے ذریعے ان کے مدارک سے اخذ کرے ۔ بالفاظ دیگر مجتھد وہ ھوتا ھے جو آفاقی قوانین و وظائف انسانی کہ جنھیں خداوند متعال نے اپنے بندوں کے لئے مقرر فرمایا ھے،کو ان کے مآخذ و مدارک سے اخذ کرے تاکہ ان پر وہ خود اور دیگرافراد عمل پیرا ھو سکیں ۔
سوال ۴: ایک مسلمان اور معتقد انسان کا اپنے مذھبی مسائل میں کیا وظیفہ ھے؟ جواب: وہ خود مجتھد ھویا جامع الشرائط مجتھد کی تقلید کرے۔
سوال ۵:اس کی کیا وجہ ھے کہ انسان کو ان دومیں سے ایک راہ اختیار کرنی ھوتی ھے؟ جواب: اس میں کوئی شک نھیں کہ ادیان آسمانی میں سے کسی دین نے اپنے پیروکاروں کو حیوانات کی طرح بلا تکلیف و وظیفہ نھیں چھوڑا ھے بلکہ کچھ احکام اور دستور وضع کئے تا کہ ان کا علم حاصل کرکے ان پر عمل کیا جائے۔ دین اسلام نے بھی جو آخری دستور آسمانی اور خاتم ادیان ھے کچھ احکام اور قوانین بیان کئے ھیں جن کا استنباط قرآنی آیات اور احادیث معصومین علیھم السلام سے کافی دقت کے ساتھ مخصوص شرائط پرنظر رکہ کر کیا جاتا ھے۔ پس جو شخص خود تحقیق کرے اور مذکورہ بالا مدارک سے اپنے مبتلا بہ مسائل کو حاصل کرے وہ مجتھد ھے۔ اورجو شخص اتنی صلاحیت یا اتنا وقت نھیں رکھتا تو اس کو چاھئے کہ مجتھد کی پیروی کرے۔ ایسے شخص کو مقلد کھتے ھیں۔
سوال ۶: تقلید کن دلائل کی روسے واجب ھے؟ جواب: جو شخص دینی احکام میں خود مجتھد نھیں ھے مندرجہ ذیل دلائل کی رو سے اس کے لئے کسی مجتھد کی تقلید کرنا ضروری ھے۔
پھلی دلیل :حکم عقل ، تقاضا ئے فطرت اور روش عقلاء پر مبنی ھے ۔ مثلاً کوئی مریض خود اپنے مرض اور اس کی دوا کی تشخیص نہ کر سکتا ھو اور اس کے لئے دوسرے کی طرف رجوع کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ ھو تو اس کی عقل یہ فیصلہ کرے گی کہ اسے ڈاکٹر کی طرف رجوع کرنا چاھئے اور ڈاکٹر کے موجود ھوتے ھوئے بھی اس کی طرف رجوع نہ کرے جس کی وجہ سے مرض بڑہ جائے یا موت آجائے تو عقلاء اس کی مذمت کریں گے اور اس کا عذر مورد قبول نہ ھوگا۔ اب جبکہ مریض یہ سمجہ کر کہ ڈاکٹر کی تشخیص، بیماری کے اصل علل و اسباب اور اس کے ازالے کا طریقہ اس کے احاطہٴ قدرت سے باھر ھے ڈاکٹر سے اپنے علاج کی دلیل طلب کرے تو مورد تنقید واقع ھوگا۔
دوسری دلیل:
آیہٴ شریفہ
" و ما کان الموٴمنون لینفروا کافّة فلو لا نفر من کلّ فرقة منھم طائفة لیتفقّھوا فی الدین و لینذروا قومھم اذا رجعو ا الیھم لعلھم یحذرون "(سورہٴ برائت/ ۱۲۲)
یعنی تمام مومنوں کے لئے اپنے وطن کو تحصیل علم دین کے لئے چھوڑنا ممکن نھیں ھے، پس حتماً ھر گروہ میں سے چند آدمیوں کا تحصیل علم دین کے لئے جانا ضروری ھے اور وہ جب اپنے اپنے وطن واپس لوٹیں تو ان کو چاھئے کہ دوسرے لوگوں کو دینی احکام تعلیم دیں اور ان کو عذاب الٰھی سے ڈرائیں ، شاید وہ ا ن کی گفتار کی پیروی کرتے ھوئے عذاب الھی سے ڈریں۔
یہ آیہٴ شریفہ تفقہ یعنی تحصیل علم و احکام دین کو بعض افراد کے لئے واجب قرار دینے کے علاوہ ان احکام کا دوسروں تک پھنچانا بھی لازمی قرار دے رھی ھے۔
التبہ احکام دین حاصل کرنے اور دوسروں تک پھنچانے کے دو طریقے قابل عمل ھیں کہ آیہٴ شریفہ دونوں کی تائید کر رھی ھے۔
پھلا طریقہ:
خودروایت کا حاصل کرنا اور دوسروں تک پھنچانا۔ غالباً سابقہ زمانے میں اصحاب معصومین علیھم السلام کا طریقہ بھی تھایھی وجہ ھے کہ ان کو راوی اور ناقلین حدیث کھا جاتا تھا اسی وجہ سے کھا گیا ھے کہ اس آیہٴ شریفہ سے خبرواحد کی حجیت بھی مراد ھوتی ھے۔
دوسرا طریقہ:
اس فن کا ماھر اور تتبع کرنے کرنے والا عالم دین، آیات و روایات میں غور فکر کرکے اصولی اور فقھی قواعد کے ذریعہ تجزیہ و تحلیل کرنے کے بعد ( جسے اجتھاد کھا جاتا ھے) جس نتیجہ پر پھنچے اس کو فتویٰ کی صورت میںدوسروں کے سپرد کرے ،جیسے کہ آئمہ علیھم السلام کے بعض شاگرد ایساھی کرتے تھے۔ حضرت ولی عصر آخر الزمان ارواحنا فداہ کے زمانہ غیبت سے لوگوں تک احکام دین پھنچانے کا یھی طریقہ علماء نے اختیار کر رکھا ھے اور آیہٴ شریفہ بھی اس طریقہ کواپنے اندر شامل کرتی ھے۔
پس اس مختصر بیان سے یہ تنیجہ حاصل ھوتا ھے کہ آیہ شریفہ نقل روایت کے حجت اور معتبر ھونے کے ساتھ ساتھ مجتھد کے فتویٰ کے حجت و معتبر ھونے کو بھی ثابت کر رھی ھے۔
تیسری دلیل:
وجوب تقلید کے دلائل میں سے تیسری دلیل وہ روایات ھیں جو اس بارے میں آئمہ علیھم السلام سے ھم تک پھنچی ھیں اور ثابت کرتی ھیں کہ جو لوگ احکام دین اور مذھبی مسائل کو نھیں جانتے انھیں چاھئے کہ اس فن میں ماھر علماء اور محققین کی تقلید کریںیعنی اپنے مبتلا بہ مسائل ان سے حاصل کریں۔
اس سلسلہ میں چند روایات مندرجہ ذیل ھیں :
پھلی روایت : نجاشی جو علمائے شیعہ میں سے ھیں اپنی علم رجال کی معروف کتاب میں امام باقر علیہ السلام سے روایت کرتے ھیں کہ آپ نے اپنے شاگردوں میں سے ایک ممتاز شاگرد ابان سے فرمایا:
”یا ابان! اجلس فی المسجد النبی و افت النّاس فانّی احبّ ان یریٰ فی اصحابی مثلک“۔
یعنی اے ابان !جب مدینہ آؤ تو مسجد پیغمبر میں بیٹھ کر لوگوں کو فتوے دو (یعنی احکام دین بتاؤ) کیونکہ میں پسند کرتا ھوں کہ لوگ میرے اصحاب میں سے تم جیسے صحابی دیکھیں۔(۱)
ابان جو مجتھد اور صاحب فتویٰ تھے، امام علیہ السلام نے ان کو فتویٰ دینے کا حکم فرمایا تا کہ لوگ سنیں اور اس پر عمل کریں اور امام(ع) کی نظر میں تمام مجتھدین اور صاحب فتویٰ ابان کی طرح ھیں یعنی حکم امام(ع) کے مطابق ھر شخص کے لئے جو خود مجتھد نھیں ھے، ضروری ھے کہ اپنے مبتلا بہ مسائل میں کسی کی تقلید اور اس کے فتووں پر عمل کرے۔
دوسری روایت:کتاب وسائل الشیعھ ( مذھب شیعہ میں حدیث کی مستند کتاب) کے باب ۱۰ ”کتاب القضاء“ میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت نقل ھوئی ھے کہ آپ نے” معاذ“ نامی شخص سے فرمایا: بلغنی انّک تقعد فی الجامع و تفتی فیه قلت نعم یحیی الرجل اعرفه بمودّتکم وحبّکم فاخبره بما جاء عنکم فقال اصنع ”قم ملخصاً“
اے معاذ میں نے سنا ھے کہ تم مسجد میں بیٹھ کر لوگوںکو فتوے دیتے ھو؟ میں نے عرض کی کہ ھاں ایسا ھی ھے، جوکچھ میں نے آپ سے حاصل کیا ھے آپ کے محبّوں و دوستوں کے لئے بیان کرتاھوں۔ آپ نے فرمایا ایسا ھی کرو۔(۲)
معاذ روایات معصومین علیھم السلام سے حکم الھی کا استنباط کر کے فتویٰ کی صورت میں لوگوں کو بتاتے تھے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے بھی معاذ کے اس عمل کی تائید فرمائی۔ امام علیہ السلام کی نظر میں معاذ اور دوسرے مجتھدین یکساں ھیں یعنی مجتھدین کا فتویٰ لوگوں کے لئے حجت ھے اور اس پہ عمل کرناضروری ھے۔
تیسری روایت: کتاب وسائل الشیعہ باب۱۰ ” کتاب القضاء‘ ‘ میں عبد العزیز نامی ایک شخص حضرت امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں عرض کرتا ھے ۔ یا حضرت: میرا گھربھت دور ھے میں اپنے مبتلا ء بہ مسائل جاننے کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر نھیں ھوسکتا ۔ آیاآپ یونس بن عبد الرحمٰن کی تائید فرماتے ھیں اورکیامیں ان سے اپنے دینی مسائل حاصل کر سکتا ھوں ؟ امام علیہ السلام بے فرمایا: ھاں۔(۳)
چوتھی روایت : کتاب وسائل الشیعہ باب ۱۰ کتاب القضاء میں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی تفسیر سے نقل ھے:
”فامّا من کان من الفقهاء صائناً لنفسه حافظاً لدینه مخالفاً لهوا ه مطیعاً لامر مولاه فللعوام ان یقلدوه“۔(۴)
مجتھدین اور فقھاء میں سے جو شخص اپنے آپ کو گناھوں سے محفوظ رکھنے والا، اپنے دین کی حفاظت کرنے والا ، خواھشات نفسانی کی مخالفت کرنے والا اور حکم خدا کی اطاعت کرنے والا ھو تو عوام پر لازم ھے کہ اسکی تقلید کریں۔
گزشتہ مطالب سے یہ نتیجہ حاصل ھوتا ھے کہ عوام میں سے ان لوگوں پر جو دینی مسائل اور احکام الٰھی سے پوری طرح مطلع نھیں ھیں لازم ھے کہ کسی مجتھد (فقیہ) یعنی اس فن کے ماھر شخص کی تقلید و پیروی کریں۔ اگر چہ وہ لوگ دوسرے علوم و فنون میں خود ماھر و متخصص کیوں نہ ھوں جیسا کہ مجتھد فقیہ کے لئے بھی دوسرے علوم و فنون کے مبتلاء بہ مسائل میں متخصّص اور ماھر فن کی طرف رجوع کرنا ضروری ھے۔ پس یہ کھنا بجا ھوگا کہ اس دنیا میں صحیح اور عقلی زندگی کی بنیاد تقلید پر ھے کیونکہ معاشرے کے تمام افراد نہ فقط تمام علوم و فنون میں ماھر و متخصّص نھیں بن سکتے بلکہ مبتلا ء بہ مقدار کی تحصیل پر بھی قادر نھیں ھیں” جس کی وجہ سے معاشرہ کا ھر فرد دوسرے کا محتاج ھے“ مثلاً ڈاکٹر کے لئے مکان بنانے میں معمار کی طرف اور معمار کے لئے بیماری میں ڈاکٹر کی طرف رجوع کرنا ضروری ھے اور ان دونوں کے لئے دینی مسائل میں مجتھد و فقیہ کی طرف رجوع کرنا اور اس کی تقلید کرنا لازم ھے۔
رجوع تقلید کا لازم و واجب ھونا عقل و خرد کے علاوہ قرآن اور احادیث کی رو سے بھی ثابت ھے۔
اس سلسلے میں مزید تفصیل کے لئے اس موضوع کی مفصل کتب کی طرف رجوع کیا جاسکتا ھے۔
سوال۷: بعض لوگ کھتے ھیں کہ تقلید باطل بلکہ بدعت اور حرام ھے۔ ان کا دعوےٰ ھے کہ بعض آیات و روایات بھی حرمت تقلید( تقلید کے حرام ھونے) پردلالت کرتی ھیں۔ مثلاً سورہٴ زخرف کی آیت ۲۳:
"انّا وجدنا آبائنا علی امّة و انّا علی آثارهم مقتدون" ھم نے اپنے آباء واجداد کو ایک طریقہ پر پایا ھے۔ ھم بھی ان کی اتباع کرنے والے ھیں۔
اور اسی طرح کتاب وسائل الشیعہ باب ۱۰ کتاب القضاء میں سفیان سے روایت ھے:
قال الصادق علیه السلام لسفیان بن خالد ایّاک و الریاسة فما طلبها احد الّا هلک فقلت قد هلکنا اذا لیس احد منّا الّا هو یحبّ یذّکر و یقصد و یوٴخذ عنه فقال (ع) لیس حیث یذهب انّما ذالک ان تنصب رجلاً دون الحجة فتصدقه فی کلّ ما قال و تدعو النّاس الیٰ وقله ۔ (۵)
امام صادق علیہ السلام نے سفیان بن خالدسے فرمایا ۔ اے سفیان! ریاست سے بچوچونکہ جو بھی ریاست کے پیچھے پڑا ھلاک ھوا۔ سفیان کھتے ھیں: میں نے عرض کی،پس ھم سب معرض ھلاکت میں ھیںکیونکہ ھم میں سے ھر ایک چاھتا ھے کہ لوگوں میں اس کا نام لیا جائے اور لوگ اس کے پاس آکر علم حاصل کریں۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: میرا مقصد یہ نھیں جو تم نے سمجھا ھے بلکہ اس مذمت سے میرا مقصد یہ ھے کہ تم کسی کو حجت یعنی تائید معصوم کے بغیر نصب کرکے ھر موضوع میں اس کی گفتار کی تصدیق اور لوگوں کو اس کی بات کی طرف دعوت دو۔ جواب :معلوم ھوتا ھے کہ جو لوگ تقلید کے منکر ھیں یا تقلید کے حرام ھونے کا فتویٰ دیتے ھیں وہ اصلاً تقلید کے معنیٰ و مفھوم سے غافل ھیں اور انھوں نے اس بارے میں علماء کی مراد نھیں سمجھی ھے کیونکہ اگر تقلید کا یہ معنی لیا جائے کہ کسی مجتھد اور اس کی گفتار کو پیغمبر اور امام کے مدّ مقابل قرار دیاجائے مثلاً مجتھد کھے کہ پیغمبر اور امام کا فرمان یہ ھے اور ان کے مقابل میں میرا فتویٰ یہ ھے یعنی اس کے فتویٰ کا استناد آیات و روایات کی طرف نہ ھوتو ایسے مجتھد کی تقلید بدعت اور حرام ھے۔ کیونکہ احکام الٰھی اور دستورات شرعی کے حصول میں کتاب خدا (قرآن مجید) اور فرامین معصومین علیھم السلام ( جو فقط ۱۴ ھستیاں ھیں) کے علاوہ کسی کی بات قابل قبول نھیں۔لیکن اگر فرض کریں کہ ایک شخص نے سالھا سال زحمت و تکلیف کے بعد آیات قرآنی و روایات معصومین علیھم السلام سے ،جو اس صورت میں جو شخص خود کلام خدا اور فرامین ائمہ علیھم السلام سے احکام خدا و دستورات دینی کو سمجھنے کی قدرت نھیں رکھتا وہ اپنے دینی مسائل میں ایسے عالم مجتھد کی تقلید کرے تو یقینا ایسی تقلید نہ فقط عقلاً صحیح ھے بلکہ (جس طرح سوال ۶ میں گزر چکا ھے) دستور ائمہ علیھم السلام کے مطابق لازم اور واجب ھے۔ اگر کبھی کوئی مجتھد کھے کہ میری رائے اور میرا فتویٰ اس طرح ھے تو اس کا مقصد یہ ھوگا کہ جو کچھ میں نے قرآن مجید اور احادیث وفرامین ائمہ علیھم السلام سے سمجھا ھے وہ یہ ھے ورنہ اس کی تقلید، رائے اور فتویٰ قابل قبول نہ ھوں گے۔ اور اگر کسی کو اس بات میں شک ھو تو خود مجتھدین و اھل فتویٰ سے سوال کر سکتا ھے۔
منکرین تقلید کے دلائل کا جواب
(گذشتہ دلائل کا جواب) وہ آیات جو تقلید کی مذمت کے لئے پیش کی جاتی ھیں ، اولاً تو کفار سے متعلق ھیں۔ ثانیاً ان سے اصول دین میں تقلید کی مذمت واضح ھوتی ھے۔ چونکہ کفار پیغمبران الٰھی کے خلاف ھونے اور اپنی بری اور فاسد عادات کی پیروی کرنے کے علاوہ انبیاء کے معجزات اور دلائل کے مقابلے میں اپنے آباء و اجداد کے غلط عقائد اور طریقوں کی اتباع کرتے تھے۔ لھذا سورہٴ زخرف کی آیت/ ۲۳ جس کو سوال/ ۷ میں دلیل کے عنوان سے ذکر کیا گیا ھے، پیش کرتے تھے اس کے دو جواب ھیں:
پھلا جواب:
آیت اصول دین میں تقلید کی مذمت کر رھی ھے اور وہ بھی انبیاء (ع) کے دلائل اور معجزات کے مقابلہ میں۔ جیساکہ پھلے والی آیت بھی اسی مطلب کی وضاحت کر رھی ھیں:
و کذالک ما ارسلنا من قبلک فی قریة من نذیر الّاقال مترفوها انّا وجدنا آبائنا علی امّة و انّا علیٰ آثارهم مقتدون۔
(ترجمہ) اور اسی طرح ھم نے تم سے پھلے جس بستی میں ( عذاب خدا سے ڈرانے والا) رسول بھیجا تو اس کے دولت مندوں نے یھی کھا کہ ھم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقہ پر پایا اور ھم تو ان ھی (آباء و اجداد) کے قدم بقدم چلیں گے۔(۶)
دوسرا جواب:
آیہٴ شریفہ میں اس لئے تقلید کی مذمت کی گئی ھے کہ وہ اپنے آباء و اجداد کی تقلید کرتے تھے اور یہ بات واضح ھے کہ ان کے آباء و اجداد بھی ان کی طرح جاھل و نادان تھے۔ پس در حقیقت آیہٴ شریفہ میں جاھلوں اور نادانوں کی تقلید سے روکا گیا ھے نہ کہ صاحبان علم و فضل کی تقلید سے۔
اسی طرح روایت کا جواب بھی جس کو دلیل کے عنوان سے ذکر کیا گیا ھے، اگر خود روایت میں غور و فکر کیا جائے تو واضح ھوجاتا ھے :
اولاً: حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں کہ لوگ خود کسی کو مقام فتویٰ اور قضاوت کے لئے مقرر نھیں کر سکتے یعنی لوگوں کو یہ حق حاصل نھیں ھے بلکہ مجتھد اور قاضی امام(ع) کی طرف سے منصوب ھوتے ھیں اور خود امام علیہ السلام نے ان کے فتویٰ کو معتبر قرار دیا ھے۔ جیسا کہ سوال نمبر /۶ میں گزر چکا ھے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
”یا ابان اجلس فی المسجد و افت النّاس “
اور فرمایا:
”فامّا من کان من الفقهاء فللعوام ان یقلدوه“۔
اور قاضی فقیہ سے متعلق فرمایا:
”فقد جعلته علیکم قاضیاً“ (۷)
پس عوام کا مجتھد و فقیہ عادل کی تقلید کرنا خود امام علیہ السلام کے حکم کی وجہ سے ھے نہ کہ عوام نے اس کو نصب ومقرر کیا ھو اور عوام کی طرف سے اس کو یہ منصب دیاگیا ھو۔
ثانیاً :امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:
ایّاک وان تنصب رجلاً دون الحجة۔(۸)
حجت سے مراد وہ ھے جس کا قول شرعاً نافذ ھو خواہ وہ امام مفترض الطاعہ ھو یا جس کو امام کی طرف سے یہ مقام عطا ھوا ھو۔
پس اس بنا پر مجتھد بھی حجت ھے لیکن امام (ع) خدا کی طرف سے اور مجتھد امام(ع) کی طرف سے حجت ھے۔
چنانچہ حضرت امام آخر الزمان علیہ السلام مکاتبہ حمیری میں ارشاد فرماتے ھیں:
امّا الحوادث الواقعة فارجعوا فیها الیٰ رواة احادیثنا فانّهم حجتی علیکم و انا حجة الله۔(۹)
یعنی بعد میں پیش آنے والے حوادث اور واقعات میں ان اشخاص کی طرف رجوع کرو جو ھمارے علوم کو حاصل کر کے دوسروں تک پھنچاتے ھیں کیونکہ وہ میری طرف سے حجت ھیں اور میں خدا کی طرف سے حجت ھوں۔
پس حضرت کے اس فرمان:
”ایّاک ان تنصب رجلاً “
سے مراد یہ ھے کہ امام اور جو امام کی طرف سے منصوب ھے اس کے علاوہ کسی کو حجت اور مجتھد کے عنوان سے معین کیا جائے ۔ اور مقلد ( تقلید کرنے والا) بھی خود حجت (مجتھد ) کو معین نھیں کرتا بلکہ امام کی طرف سے منصوب حجت کی طرف رجوع کرتا ھے۔
ثالثاً: خود تذکرہ روایت سے استفادہ ھوتا ھے کہ مجتھد اور مرجع (جس کی طرف لوگ رجوع کریں) ھونا الگ مطلب ھے اور کسی کو حجت قرار دینا الگ ھے، پھلا جائزھے اور دوسرا حرام ھے۔ کیونکہ ھمارے پاس آئیں اور علم حاصل کریں (و یقصد و یوٴخذ عنھ) آپ فرماتے ھیں میں اس کی مذمت نھیں کرتا بلکہ مذمت اس صورت میں ھے جب تم کسی کو حجت کے عنوان سے معین کرو۔ (یھاں یقینا کسی کومقرر کرنے سے مراد مسئلہ تقلید اور تحصیل علم کے علاوہ ھے) حضرت نے ان لوگوں کی مذمت فرمائی ھے جو آئمہ ھدی علیھم السلام ( جو پیغمبر (ص) کی طرف سے منصوب ھیں) کے مقابلہ میںنبی امیہ و بنی عباس کو اولی الامر اور حجت سمجھتے ھیں جن کے بارے میں کوئی دلیل نھیں ھے۔ اور یہ بات واضح ھے کہ اگر بفرض محال حدیث ثقلین (۱۰)( حدیث ثقلین وہ حدیث ھے جس کے متعلق سنی و شیعہ دونوں متفق ھیں کہ نبی اکرم (ص) نے فرمایا:
انّی تارک فیکم الثقلین کتاب الله و عترتی اھل بیتی ما ان تمسکتم بھما لن تضلّوا بعدی”میں تمھارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑ کر جا رھا ھوں ایک اللہ کی کتاب دوسرے میری عترت یعنی اھل بیت جب تک تم ان دونوں سے تمسک رکھو گے ھرگز میرے بعد کبھی گمراہ نھیں ھو گے “۔
اور یہ بات واضح ھے کہ اگر بفرض محال حدیث ثقلین سے ھمارے آئمہ ھدیٰ علیھم السلام کی امامت و خلافت ثابت نہ ھو تو کم از کم ان کے قول و فعل کی حجیت ضرور ثابت ھوتی ھے۔
رابعاً:مذکورہ روایت میں امام(ع) فرماتے ھیں:
”فتصدقہ فی کل ما قال“ یعنی جائز نھیں ھے کہ کہ کسی کو معین کردو۔ اوروہ جو کچھ کھے اس کی پیروی کرتے رھو۔
البتہ اس مطلب کا مسئلہٴ تقلید سے کوئی ربط نھیں ھے کیونکہ مقلد اپنے مجتھد کی ھربات میں تقلید و پیروی نھیں کرتا ۔ مثلاً اصول دین میں تقلید باطل ھے اور فروع دین میں بھی ضروریات اور قطعیات میں تقلید صحیح نھیں ھے۔ مثلاً خود نماز ، روزھ، زکوٰة، خمس،حج اور جھاد کے واجب ھونے یا مثلاً شراب ، جوا، مردار، غصب، ظلم اور دوسرے ان امور کے حرام ھونے میں جو دین اسلام میں سب کے لئے قطعی ویقینی ھیں، تقلید درست نھیں ھے۔ اگر کوئی مجتھد کھے کہ نماز واجب نھیں ھے یا شراب نوشی جائز ھے تو اس کی بات قابل قبول نھیں ھوگی۔
اسی طرح موضوعات میں بھی تقلید نا جائز ھے یعنی اگر مجتھد کھے کہ یہ پانی شراب نھیں ھے یا یہ کپڑا فلاں شخص کا مال ھے تو اس کی بات پر عمل کرنا واجب و لازم نھیں ھے بلکہ ایسے مسائل میں مجتھد اور دیگر افراد میں کوئی فرق نھیں ، سب یکساں ھیں۔
بنا بر ایں مجتھد کا قول بعض امور و مسائل میں حجت اور معتبر ھے۔ اور وہ فروع دین کے بعض وہ مسائل ھیں جن کا مقلد کو علم نھیں اور علماء کے نزدیک مورد اختلاف ھیں۔
اور ضمناً یہ بھی معلوم ھونا چاھئے کہ جو لوگ تقلید کے حرام ھونے کا فتویٰ دے کر لوگوں کو تقلید نہ کرنے کی دعوت دیتے ھیں آیا وہ خود فتویٰ نھیں دے رھے ھیں ؟ آیا لوگوں کے لئے ان کی گفتار کی پیروی اور تقلید کرنا غلط نھیں ھے؟ اگر غلط ھے تو لوگوںسے کیوں نھیں کھتے کہ ھماری گفتار کی تقلید و پیروی کرنا بھی حرام ھے۔ ھماری بات نہ ماننا۔
سوال۸: آیا جس مجتھد کی تقلید کرنی ھے اس میں مرتبہٴ اجتھاد و قدرت استنباط کے علاوہ اور شرائط کا ھونا ضروری ھے یا نھیں؟
جواب :مجتھد و مرجع تقلید میں مرتبہٴ اجتھاد پر فائز ھونے کے علاوہ مندرجہ ذیل شرائط کا ھونا بھی ضروری ھے:
پھلی شرط : عادل ھو یعنی اس کا ایمان اس قدر کامل اور قوی ھو کہ واجبات میں سے کسی واجب کو ترک نہ کرے اور محرمات میں سے کوئی حرام کا م کو انجام نہ دے۔ دوسرے لفظوں میں گناھان کبیرہ سے دور رھے اور گناھان صغیرہ کی تکرار نہ کرے۔ پس گنھگار مجتھد کتنا ھی بڑا عالم کیوں نہ ھو اس کی تقلید جائز نھیں۔
دوسری شرط: اعلم ھو یعنی دوسرے علماء سے زیادہ عالم اور دانا ھو چند صاحبان علم و فضل مجتھدین میں سے مقلد کو وہ مجتھد اختیار کرنا چاھئے جو بقیہ مجتھدین سے علم و فضل میں بر تر ھو۔ یہ ایک فطری امر ھے کہ جب کوئی شخص کسی مھلک مرض میں مبتلا ھو تو اسی ڈاکٹر کی طرف رجوع کریگا جو باقی تمام ڈاکٹروں سے زیادہ تجربہ کار ھو گا۔ چونکہ احکام الٰھی اور دینی عقائد و مسائل بھی اھمیت رکھتے ھیں لھذا انھیں بھی اسی مجتھد اور فقیہ سے حاصل کرنا چاھئے جو سب سے زیادہ عالم اور دانا ھو۔
تیسری شرط: وہ زندہ ھو۔ یعنی جو شخص ابتدا ھی سے علمائے گزشتہ میں سے کسی کی تقلید کرے اس کی تقلید صحیح نھیں ھے۔ کیونکہ عوام کا مجھتد کی طرف رجوع کرنا مریض کے ڈ اکٹر کی طرف رجوع کرنے کی طرح ھے اور واضح رھے کہ عقلاء کی روش و طریقہ یہ ھے کہ مریض کے بارے میں زندہ ڈاکٹر کی طرف رجوع کرتے ھیں اور اس کے دستور پر عمل کرتے ھیں اور کسی مردہ ڈاکٹر کے دئے ھوئے کسی نسخہ پر عمل نھیں کرتے ھاں اگر کسی زندہ مجتھد کی تقلید کرلی ھے، کچھ مدت اس کے مسائل پر عمل کرنے کے بعد مجتھد فوت ھوگیا ھے تو اس صورت میں ا سکی تقلید پر دوسرے زندہ مجتھد کی اجازت کے ساتھ باقی رھا جاسکتا ھے۔
پس نتیجتاً فوت شدہ مجتھد کی تقلید پر باقی رھنا صحیح ھے۔ لیکن ابتدا ھی سے فوت شدہ مجتھد کی تقلید کرنا صحیح نھیں۔
سوال ۹: کسی مجتھد کی اعلمیت کی تشخیص کرنا کہ یہ مجتھد اپنے ھم عصر مجتھدین سے علم میں زیادہ ھے ایک عام شخص کے لئے جو اس علم سے ناواقف ھے، کیسے ممکن ھے؟ جواب : اسے ایسے اشخاص کی طرف رجوع کرنا چاھئے جو فقھا کی کتب، دروس اور علمی گفتار سے ان کی علمی اھلیت کا اندازہ لگا سکتے ھیں ( جنھیں فقہ کی اصطلاح میں اھل خبرہ کھا جاتا ھے) اور اگر ایسے اشخاص کی طرف رجوع ممکن نہ ھو یا یہ معلوم ھو کہ تمام مجتھد علم میں مساوی ھیں تو جس کی تقلید کی جائے صحیح ھوگی۔
سوال۱۰: اگر کسی شخص نے اپنی زندگی کا ایک حصہ بغیر تقلید کے گزار دیا ھے اور اپنی عبادات اور دیگر اعمال کو ماں باپ اور دوسرے لوگوں کے کھنے کے مطابق انجام دیتا ھے۔ اب متوجہ ھوا ھے کہ تقلیدکرنا واجب ھے۔ اس کے سابقہ اعمال ( جو بغیر تقلید کے انجام دئے ھیں) صحیح ھیں یا غلط و باطل؟ جواب: اس کو چاھئے کہ اب کسی جامع الشرائط مجتھد کی تقلید کرے۔ اپنے سابقہ اعمال و عبادات کا اس کے فتوے سے مقابلہ کرے۔ جو اعمال اس مجتھد کے فتوے کے مطابق ھوں صحیح ھیں اور جو مطابق نہ ھوں اگر ممکن ھو تو ان اعمال کو دوبارہ اس مجتھد کے فتویٰ کے مطابق بجالائے اور اگر دوبارہ نہ بجالائے اور قیامت کے دن معلوم ھو جائے کہ یہ اعمال دستورات دینی کے مطابق نہ تھے تو یہ شخص عذاب الٰھی کا مستحق ھوگا کیونکہ ھر شخص کے لئے ضروری ھے کہ احکام خدا کو اس طرح بجالائے کہ اس کو اطمنان حاصل ھوجائے کہ میں نے اپنا وظیفہ پورا کردیا ھے وگرنہ روز قیامت شرعاً اور عقلاً جواب دہ ھے۔
سوال۱۱: وہ ماخذ و مدارک کتنے ھیں جن سے مجتھد احکام الٰھی کو سمجھتا ھے؟ جواب : حکم الٰھی کا مدرک وہ منابع و مآخذ ھیں جن میں غور و فکر کرنے سے مجتھد احکام الھٰی کو اخذ کرتا ھے اور وہ ماٴخذ و مدارک تین چیزیں ھیں:
۱․قرآن مجید ۔
۲․احادیث و روایات جو پیغمبر اکرم(ص) اور ائمہٴ ھدی علیھم السلام ( یعنی آپ کے بارہ جانشینوں) سے ھم تک پھونچی ھیں۔
۳․عقل و خرد جو باطنی رسول ھے جس طرح پیغمبر اکرم(ص) ظاھری رسول ھیں۔
سوال ۱۲: درجہٴ اجتھاد پر فائز ھونے اور احکام الٰھی کو مذکورہ بالا مدارک سے سمجھنے و حاصل کرنے کے لئے کن شرائط اور مقدمات کا ھونا ضروری ھے۔آیا سب کے لئے وہ شرائط میسر ھیں یا نھیں؟ جواب :ان امور کو مد نظر ھوناچایئے کہ اولاً قرآن مجیدجو احکام الٰھی کے لئے مھمترین مدرک ھے عربی زبان میں ھے۔
ثانیاً احادیث و روایات بھی عربی ھونے کے علاوہ ۱۲۰۰ سال کے فاصلہ میں مختلف اشخاص کے ذریعہ ھم تک پھنچی ھیں۔
بالکل واضح ھوجاتا ھے کہ موجودہ زمانہ میں اجتھاد اور استنباط اور احکام الٰھی کو دلائل اور مدارک سے سمجھنا ایک مشکل و دشوار ترین کام ھے اور اس کے لئے مندرجہ ذیل شرائط کا ھونا انتھائی لازمی ھے۔
پھلی شرط :
عربی لغت کا علم حاصل کرنا یعنی عربی الفاظ کے معانی کا جاننا تا کہ جو کلمات قرآن مجید ، احادیث اور روایات اھل بیت علیھم السلام میں وارد ھوئے ھیں ان کے معانی معلوم ھوسکیں ۔ اس موضوع پر مخلتف کتابوں کا مطالعہ بھی ضروری ھے۔
دوسری شرط:
تحصیل علم صرف و نحو کہ عربی الفاظ کے مشتقات اور صحیح جملہ بندی کی کیفیت بتاتے ھیں اور اس موضوع میں بھی چند کتابوں کا پڑھنا لازمی ھے۔
تیسری شرط:
تحصیل علم اصول یعنی ان قواعد کا علم حاصل کرنا جو احکام الٰھی کو صحیح مدارک و منابع سے سمجھنے میں مدد دیتے ھیں۔ یہ علم بھت وسیع ھے ۔ اس علم کے مطالب کی تحقیق اور ان کے حل میں بے شمار کتابیں لکھی گئی ھیں اور مرتبہٴ اجتھاد تک پھنچنے والے حضرات کا سب سے زیادہ وقت اسی علم کی تحصیل و تحقیق میں صرف ھوتا ھے۔ اگر کوئی شخص اس علم سے ناواقف ھو تو احکام الٰھی کے سمجھنے اور استنباط کرنے کی صلاحیت اپنے اندر پیدا نھیں کرسکتا ۔
چوتھی شرط:
تحصیل علم رجال یعنی ان افراد کے حالات کا جاننا جن کے ذریعے احادیث و روایات ھم تک پھنچی ھیں۔ یعنی وہ لوگ جو پیغمبر اکرم(ص)اور ائمہ ھدی علیھم السلام کے اصحاب میں شامل ھیں اور جنھوں نے بارگاہ رسول اکرم یا ائمہ ھدی علیھم السلام سے دینی احکام حاصل کئے ھیں اور اسی طرح ان کے بعد وہ طبقات جن میں سے ھر طبقہ نے اپنے سابقہ طبقہ سے احادیث کو پھنچا یا ۔ صاحبان کتب اربعہ کے زمانہ تک یہ سلسلہ جاری رھا یعنی اس زمانہ تک کہ جس وقت اکثر احادیث و روایات کو شیعوں کی چار اھم کتابوں میں جمع کردیا گیا جو ”کتب اربعھ“ کے نام سے مشھور ھیں۔
ان مذکورہ افراد کی تعداد تقریباً ۱۳ ھزار کے قریب ھے۔ اسی طرح جو احادیث و روایات ان افراد کے ذریعہ مخلتف کتب میں اور پھر کتاب ”وسائل الشیعھ“ ( جو احادیث شیعہ کی معتبر ترین کتاب ھے) میں جمع کی گئی ھیں ان کی تعداد بھی ۲۷ ھزار کے آ س پاس ھے۔
بنابرایں کوئی شخص اپنے مذھبی احکام کو اپنے اجتھاد و استنباط کے ذریعہ حاصل کرنا چاھتا ھے تو اس کے لئے کتب رجال کا مطالعہ کرنا ضروری ھے جو ان افراد ”رواة احادیث“ کے حالات ، خصوصیات اور امتیازات میں لکھی گئی ھیں تا کہ ان افراد کے حالات سے مطلع ھونے کے بعد بآسانی احادیث و روایات کی صحت و فساد کو سمجہ سکے اور احکام الٰھی کے استنباط میں اسے کوئی دقت پیش نہ آئے۔
پانچوی شرط:
تحصیل علم تفسیر یعنی تفسیر سے اتنا واقف ھو کہ احکام سے متعلقہ آیات کے معنی و مطالب سمجہ سکے۔
چھٹی شرط:
تحصیل علم حدیث یعنی احادیث و روایات میں تحقیق کرنا اور معلوم کرنا کہ آیا فلاں روایت فلاں حکم کے لئے دلیل بن سکتی ھے یا نھیں۔ آیا اس روایت میںاستدلال کے شرائط پائے جاتے ھیں یا نھیں؟ کوئی دوسری روایت تو اس کے خلاف نھیں؟ اسی طرح ھر حکم کے استنباط میں متعلقہ باب کی روایات کی تحقیق ، شرائط وموانع پر بحث کے علاوہ کسی حدتک دوسرے ابواب کی روایات پر بھی نظر کرنا کہ شرائط کے حصول کا پورا اطمنان ھوجائے۔
نتیجہ
سابقہ مطالب سے یہ نتیجہ حاصل کیا جاسکتا ھے کہ جو شخص مجتھد بننا اور علمی قواعد اور اصول کے ذریعہ اپنے مذھبی مسائل کو خود مربوط مدارک سے حاصل کرنا چاھتا ھے اس کے لئے مذکورہ چہ علوم(علم لغت عربی، صرف و نحو، رجال، اصول، تفسیر، حدیث)میں سے ھر علم کی مختلف کتابیں پڑھنے کے علاوہ ھر علم میں صاحب نظر ھونا بھی ضروری ھے۔ تاکہ صحیح طور پر اپنے مقصد ”استنباط احکام“ تک پھنچ سکے۔ اور مذکورہ بالا مراحل کو طے کرنے اور مقصد اصلی” یعنی درجہ اجتھاد‘ ‘تک پھنچنے کے لئے(اشخاص کی استعداد مختلف ھونے کو مد نظر رکھتے ھوئے)تقریباً ۲۰ سال سے پچاس سال تک عرصہ صرف ھوتا ھے۔
سوال۱۳:شریعت اسلام کے کتنے و ہ احکام ھیں جن میں انسان ”مکلف“ کے لئے ضروری ھے کہ وہ مجتھد ھو یا مقلد؟ جواب :احکام شرعیہ وہ دستورات الٰھی یا آسمانی قوانین ھیں جن کو خداوندعالم نے بشر کے انفرادی و اجتماعی ، دنیوی و اخروی فائدہ کےلئے منظم ومرتب کرکے انبیاء کے ذریعہ انسانی معاشرہ تک پھنچایا ھے۔ بطور اختصار ان احکام کو چا رقسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ھے۔
پھلی قسم: عبادات
یعنی وہ اعمال جن کے بجالانے کے لئے نیت شرط اور ضروری ھے کہ ان کو قربةً الیٰ الله انجام دیاجائے مثلاً :وضو، غسل، تیمّم، نماز، زکوٰة، خمس، روزھ، اعتکاف،حج، عمرھ، جھاد، امر بالمعروف، نھی عن المنکر۔
دوسری قسم: عقود
یعنی وہ اعمال جو دو افراد کے ذریعہ انجام پاتے ھیں اور غالباً دونوں طرف سے صیغہ کے اجراء کی ضرورت ھوتی ھے، جیسے تجارت، اجارھ، ( کرایھ)، رھن، صلح، شرکت، مضاربھ(سرمایہ کاری)، مزارعہ (کاشتکاری میں شرکت)، مساقاة( باغبانی )، ودیعھ( امانت) عاریھ( اپنا مال کسی دوسرے کو ادھار دینا کہ وہ اس سے استفادہ کرے)، ضمان ( ضمانت)، حوالہ (حوالھ، ڈرافٹ)، کفالت، وکالت، وقف، حبس ( اپنی ملکیت کو ایک خاص مدت تک وقف کرنا نہ کہ ھمیشہ کے لئے)، ھبھ، وصیت، جعالہ( ٹھیکہ، ٹنڈر)، نکاح۔
تیسری قسم:ایقاعات
یعنی وہ کام جو ایک آدمی کے ذریعہ انجام پائے جاتے ھیں اور ان میں ایک طرف سے صیغہ جاری کرنے کی ضرورت ھوتی ھے مثلا: طلاق، خلع ( عورت اپنے شوھر سے طلاق حاصل کرنے کے لئے کچھ رقم اپنے مھر سے یا کسی اور ذریعہ سے شوھر کو ادا کرتی ھے کہ اسے طلاق دینے پر آمادہ ھوجائے) مبارات، ظھار (یعنی شوھر بیوی کو کھے کہ تیری کمر میرے لئے میری ماں کی طرح ھے، اسلام سے پھلے یہ طلاق سمجھی جاتی تھی، لیکن اسلام میں اس کےلئے کفارہ ھے)، ایلاء ( اس کے لغوی معنی قسم کھا نا ھیں لیکن اصطلاح فقہ میں زوجہ سے ھمبستری نہ کرنے کی قسم کھانا ھے چاھے ھمیشہ کے لئے یا کچھ مدت کیلئے قسم کھائے)، لعان ( شوھر اپنی زوجہ پر فاحشہ ھونے کا الزام لگائے)، عتق ( غلام آزاد ھوگا) مکاتبہ ( غلام اور مالک کے درمیان یہ معاملہ ھو کہ جتنی رقم غلام مالک کو ادا کرے گا اسی نسبت سے وہ آزاد ھوتاجائے گا ، اقرار، نذر، عھد، یمین، (خدا کے نام کی قسم) حجر( ممنوع التصرف )۔
چوتھی قسم: احکام
یعنی وہ غیر عبادی امور جنھیں انجام دینے کے لئے کسی کلمہ ( یا صیغھ) کی ضرورت نھیں پڑتی۔ جیسے:
صید (شکار کرنا)، ذباحھ( ذبح کرنا)، اطعمہ (ماکولات میں جو چیزیں کھائی جاتی ھوں )،اشربہ ( مشروبات)، غصب، شفعھ، کفارات، احیائے اموات( غیر آباد زمینوں کو آباد کرنا)، لقطھ( گری ھوئی چیز کا اٹھانا)، ارث( وراثت)، قضا (قضاوت)، شھادت، حدود، قصاص، دیات( تاوان)۔
وہ تمام فرعی احکام و دستورات ( جو فروع دین سے مربوط ھوتے ھیں) ان چار قسم کے حالات سے ھی متعلق ھیں۔
حوالے
۱۔رجال نجاشی ص۱۰ ، فھرست طوسی ص۵۷ ح۶۱
۲۔اختیار معرفة الرجال ج۲ ص ۵۲۳ ح ۴۷۰
۳۔وسائل (۳۰ جلدی ) ج ۲۷ ص ۱۴۸ چاپ آل البیت ۔وسائل (۲۰جلدی ) ج ۱۸ ص ۱۰۷ ح ۳۴
۴۔احتجاج ج۲ ص ۲۶۳ ، بھار ج۲ ص ۸۸
۵۔معانی الاخبار ص ۱۸۰
۶۔سورہ زخرف /۲۳
۷۔ دعائم الاسلام ج۲ ص ۵۳۰ ح ۱۸۸۵ ، کافی ج ۷ ص ۴۱۲ ح۴
۸۔کافی ج ۲ ص۲۹۸ ح۵، معانی الاخبار ص۱۶۹ ،۱۸۰
۹۔کمال الدین ص۴۸۴ح۴
۱۰۔بصائر الدرجات ص۴۳۳ ، کمال الدین ص۲۳۴ ح۴۴ ، دعائم الاسلام ج۱ ص ۲۸ ، امالی شیخ صدوق ص ۲۱۶ ح۸۴۳)