«ڈاکٹر شیخ یوسف قرضاوی» کے نام «آیةاللہ شیخ محمدمہدی آصفی» کا کھلا خط:
مجھے نہیں معلوم کہ قرضاوی کے نزدیک «بدعت» کی تعریف کیا ہے؟آپ اہل تشیع کو حسینی مجالس برپا کرنے پر کوستے ہیں؟ان لوگوں (اہل تشیع) نے خرافات، توہمات اور بدعتوں کے جدید زمانے اور مواصلات اور سائنس و ٹیکنالوجی کے اس دور میں کیونکر قیام کیا اور کیونکر استوار رہے؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
«جناب قرضاوی» مسلم علماء اور مبلغین میں سے ہیں؛ جو مختلف شعبون میں امت مسلمہ کے امور میں اہتمام اور میدان عمل میں حاضر و موجود شخصیت کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں؛ ان کا ماضی سراسر جدوجہد سے عبارت ہے اور اخوان المسلمین پر شدید سرکاری دباؤ کے دور میں قید و بند اور جلاوطنی کی صعوبتیں بھی جھیل چکے ہیں. جناب شیخ اخوان المسلمین کے اہم ترین اور نامی ترین مبلغین میں شمار ہوتے ہیں اور جس روز سے انہوں نے حسن البناء (رہ) کے ساتھ ملاقات کی ہے؛ ان سے متأثر ہوکر دعوت و تبلیغ میں شامل ہوئے ہیں.
ہم انہیں تقریب، وحدت اور اختلاف کے خلاف جہاد کرنے والی شخصیت کے عنوان سے جانتے ہیں؛ وہ اب بھی شیخ حسن البناء (رہ) کے پیروکار ہیں جبکہ شیخ البناء مصر میں تقریب مذاہب اور وحدت مسلمین کی تحریک کے ابتدائی بانیوں میں شمار ہوتے ہیں.
مگر ان دنوں ان کے کلام اور رجحانات میں تبدیلیاں محسوس ہورہی ہیں جبکہ ان کا کلام و رجحان کبھی بھی ایسا نہ تھا. ان کی نئی باتوں سے مسلمانوں کی قربت و مفاہمت کی خوشبو نہیں آرہے.
ان کا آخری کلام جو ہم نے پڑھا مصری روزنامے «المصری الیوم» کے ساتھ ان کی بات چیت تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ : میرا اعتقاد ہے کہ شیعہ ایک جعلی گروہ ہے اور نتیجتاً گمراہ فرقہ ہے! اور کہتے ہیں کہ: شیعہ اور سنی مذاہب کے درمیان «سبّ صحابہ» اور مکمل طور پر سنی آبادی والے ممالک میں تشیع کی ترویج جیسی سرخ لکیریں (Red Lines) موجود ہیں. ان کا مزید کہنا ہے کہ: شیعہ اپنے مذہب کی ترویج کے لئے کروڑوں بلکہ اربوں روپے خرچ کرتے ہیں اور ان کے پاس تجربہ کار افراد بھی موجود ہیں جبکہ اس ثقافتی یلغار کے مقابلے میں اہل سنت کو ثقافتی امن و حفاظت کے وسائل میسر نہیں ہیں و ...
مجھ پر جناب قرضاوی کے نئے رجحانات میں یہ اہم نکتہ منکشف ہؤا کہ ان کے یہ رجحانات ان کے ماضی اور ان کے فکری اصولوں کے منافی ہیں؛ وہ ماضی میں مذاہب کے درمیان قربت اور مفاہمت کے لئے کوشان تھے؛ اور ان فکری اصولوں پر کاربند تھے جن کی بنیاد شیخ حسن البنا اور شیخ محمود شلتوت (رحمہمااللہ) کے مکتب پر رکھی گئی تھی. یہ رجحانات ان کے ماضی اور ان کے فکری مکتب کے منافی ہیں.
البتہ مذاہب اسلامی کے درمیان توافق و مفاہمت کا مفہوم اصول دین اور فروع دین میں مکمل مفاہمت نہیں ہے جس طرح کہ اصول اور فروع کے اختلافات بھی جب تک کتاب و سنت کی بنیاد پر اجتہاد کے دائرے میں ہوں اس بات کا باعث نہیں بننے چاہئیں کہ ہم میں ایک دوسرے پر بدعت اور گمراہی کی تہمت لگائیں.
دین میں بدعت مجھے نہیں معلوم کہ قرضاوی کے نزدیک «بدعت» کی تعریف کیا ہے؟
مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ کیا کسی پر کتاب و سنت کے فہم و ادراک کے حوالے سے کسی اور کے معیار سے اختلاف کرنے پر بدعت گذاری کی تہمت لگائی جاسکتی ہے؟
اگر ایسا ہے تو مجتہدین اور صاحبان رائے بھی ایک دوسرے پر بدعت گذاری کی تہمت لگاسکیں گے؛ کیونکہ ان میں سے ہر ایک آیات اور روایات سے کوئی حکم حاصل کرتا ہے جو دوسرے مجتہدین سے مختلف ہوتا ہے؛ اسی طرح علم حدیث میں جرح و تعدیل کے معیار مختلف ہیں چنانچہ ایک عالم کسی حدیث پر عمل کرتا ہے اور دوسرا عالم اس کے برعکس عمل کرتا اور اس حدیث کو ترک کردیتا ہے.
چنانچہ [آپ کے معیار کے مطابق] ہر مذہب دوسرے اسلامی مذاہب پر بدعت گذاری کا الزام لگا سکتا ہے؛ حتی کہ اہل سنت کے فرقے بھی ایک دوسرے پر بدعت گذاری کا الزام لگا سکتے ہیں.
البتہ میرا نہیں خیال کہ قرضاوی صاحب بدعت کی اس تعریف سے اتفاق کریں گے.
کتاب و سنت کے فہم و ادراک کے بارے میں کہنا چاہوں گا کہ اجتہاد میں اختلاف بھی بدعت کے زمرے میں نہیں آتا.
شیعہ امامیہ کے پاس بھی "كتاب" و "سنت" کی سوا کوئی منبع نہیں ہے. اجماع بھی اہل تشیع کے نزدیک ثانوی کردار کا حامل ہے اور سنت کو کشف کرنے کا وسیلہ ہے اور کتاب و سنت کی طرح دلیل کامل نہیں ہے.
کتاب و سنت کی روشنی میں اہل بیت علیہم السلام سیاسی اور دینی مرجعیت
اہل تشیع «غدیر» کی معروف و مشہور حدیث سے سمجھتے ہیں کہ رسول خدا (ص) کے بعد سیاسی مرجعیت امام علی (ع) کو منتقل ہوئی ہے. حدیث غدیر رسول اللہ (ص) کی حدیث ہے اور احادیث متواترہ میں سے ہے یا پھر کم از کم مستفیضہ حدیث ہے جس کا صحیح سلسلہ سند اہل تسنن اور اہل تشیع کے منابع میں مسلم اور مستند ہے.
شیعیان اہل بیت (ع) حدیث ثقلین کی بنیاد پر اصول اور فروع میں اہل بیت (ع) کی دینی مرجعیت کا ادراک کرتے ہیں.
نیز آیت تطہیر کی نزول کے بعد رسول اللہ (ص) سے وارد ہونے والی روایات صحیحہ سمیت متعدد روایات میں تصریح ہوئی ہے کہ آیت شریفہ میں «اہل بیت» سے مراد فقط رسول خدا، علی، فاطمہ، حسن و حسین (علیہم السلام) ہیں. اور اللہ تعالی نے انہیں ہرقسم کی پلیدی سے پاک کردیا ہے؛ جھوٹ عظیم ترین پلیدیوں میں سے ہے؛ پس وہ اصول و فروع میں جو بھی کہتے ہیں سچ ہے اور اپنے کلام میں سچّے ہیں. عصمت کی اتنی ہی مقدار – جھوٹ سے عصمت – ہے اس حقیقت کا ادراک کرنے کے لئے کافی ہے کہ رسول خدا (ص) کے بعد دینی اور سیاسی مرجعیت اہل بیت رسول (ص) کو منتقل ہوئی ہے. [مگر وہ مجتہدین نہیں ہیں].
اہل بیت (ع) خود بیان کرتے ہیں کہ وہ مجتہدین کے زمرے میں شامل نہیں ہیں؛ اور کتاب و سنت سے شرعی احکام کے استنباط کے لئے اجتہاد کے وسائل و ذرائع سے استفادہ نہیں کرتے، بلکہ وہ پیغمبر اکرم (ص) کے کلام کو سینہ بہ سینہ منتقل کرتے ہیں؛ پس اگر اصول و فروع میں کسی موضوع کے لئے حکم جاری کریں تو یہ اجتہاد کی رو سے نہ ہوگی بلکہ ان کا حکم رسول اللہ (ص) کی سنت کی اصلی اور حقیقی میراث پر مبنی ہے وہی میراث جو انہیں بغیر کسی واسطے کے رسول اللہ (ص) سے ورثے میں ملی ہے، اور چونکہ قرآن کریم میں خداوند جلّشأنہ نے ان کو جھوٹ کی پلیدی سے مبرّا قرار دیا ہے لہذا کوئی بھی مسلمان ان کی باتوں کو جھٹلا نہیں سکتا.
ان تین نکتوں میں شیعہ نقطہ نظر کی وضاحت ہوگئی اور آیت تطہیر، حدیث غدیر اور حدیث ثقلین کی دلالت بھی روشن اور صریح ہے. ان تینوں دلائل کے صدور و نزول کا مقصد اہل بیت (ع) کی دینی اور سیاسی مرجعیت کا اثبات ہے اور اس سلسلے میں سینکڑوں کتابیں لکھی گئی ہیں اور ان کتابوں میں شیعہ عقائد و آراء کو دلائل و براہین کے ہمراہ بیان کیا گیا ہے. یه کتابیں شائع بھی ہوئی ہیں اور دستیاب بھی ہیں.
علاوه ازیں خواه جناب قرضاوی یه دلائل پڑھ کر قائل ہوں خواه قائل نہ ہوں؛ کتاب و سنت سے استفادہ کرتے ہوئے اہل بیت (ع) کی دینی اور سیاسی مرجعیت کے اثبات کے لئے شیعیان اہل بیت (ع) کا استدلال علمی اصول اور شیووں پر استوار ہی جیسا کہ دیگر مجتہدین فتوا دیتے ہوئے اسی روش سے استفادہ کرتے ہیں، چاہے دیگر مجتہدین اس فتوے کو قبول کریں چاہے قبول نہ کریں؛ کیونکہ دیگر مجتہدین کی عدم قبولیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس مجتہد کا فتوی غیر شرعی ہے اور دوسروں کی عدم قبولیت اسے کتاب و سنت کے دائرے سے خارج نہیں کرتی. کم از کم کہا جاسکتا ہے کہ اہل بیت (ع) کی دینی اور سیاسی مرجعیت کے حوالے سے شیعہ استدلال اہل بیت (ع) کے اقوال سے مستند ہے اور اس استناد کے لئے مشہور اور معروف علمی اصول بروئے کار لائے گئے ہیں اور یہ اصول محض قرضاوی صاحب کے قائل نہ ہونے سے تبدیل نہیں ہوتے.
اس وقت میں استدلال و اثبات نہیں کرنا چاہتا بلکہ یادآوری اور تذکر کے عنوان سے بعض نکات ذکر کرتا ہوں:
فرقہ ناجیہ (نجاتیافتہ فرقہ):
قرضاوی صاحب کیونکر اپنے لئے یہ کہنے کے حق کے قائل ہوئی ہیں کہ «صرف اہل سنت» فرقہ ناجیہ ہے جبکہ شیعیان اہل بیت (ع) کے لئے اس حق کے قائل نہیں ہیں؟ جبکہ شیعیان اہل بیت (ع) نے رسول اللہ (ص) کے کلام، بالفاظ دیگر سنت رسول (ص)، سے تمسک کیا ہے؛ اور تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ اس کلام سے مراد اہل بیت (ع) ہیں. اہل تشیع نے حدیث ثقلین سے استناد کیا ہے کو بخاری اور مسلم کے ہاں بھی صحیح بخاری اور سنن ترمدی میں منقول ہے اور اس حدیث میں دینی اور مرجعیت کی اہل بیت (ع) کو منتقلی پر تصریح ہوئی ہے اور شیعیان اہل بیت (ع)، اہل بیت (ع) کی تعلیمات سے تجاوز نہیں کرتے
کیا یہ صحیح ہے کہ جب کتاب و سنت کے ادراک کے سلسلے میں ہمارے درمیان اختلاف واقع ہؤا ہے تو ہم ایک دوسرے پر بدعت گذاری کی تہمت لگائیں؟
فرقہ ناجیہ سے مراد وہ فرقے کیوں نہیں ہیں جنہوں نے کتاب اور سنت سے استناد کیا ہے خواہ اجتہاد کی روش میں فرق ہی کیوں نہ ہو؟ حالانکہ بدعت اور گمراہی اور ہلاکت سے مراد کتاب و سنت کی پیروی سے خروج اور ان سے روگردانی ہے. لیکن جو روش قرضاوی نے فرقہ ناجیہ کے اثبات کے لئے اپنائی ہے جس کے مطابق وہ دوسروں کی نفی کرتی ہیں؛ یہ بہت ہی بےجا روش ہے اور اس طرح کوئی بھی چیز کسی جگہ ٹھک نہیں سکے گی.
ان کا کہنا ہے: فرقہ ناجیہ والی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل سنت والجماعت کے سوا باقی تمام فرقے گمراہ اور ہلاک ہوئی ہیں کیونکہ فرقہ حقہ ایک ہی ہے اور متعدد نہیں ہیں!
اگر اہل سنت و الجماعت فرقہ ناجیہ ہیں – جیسا کہ قرضاوی صاحب نے دعوی کیا ہے – پس دیگر تمام فرقے گمراہ، بدعت گذار اور ہلاکت پانے والے ہونگے اور ان ہی فرقوں میں ایک شیعہ فرقہ ہے کیوں کہ بقول ان کے فرقہ ناجیہ کی حدیث سے یہی ثابت ہوتا ہے. اگر ان کی یہ بات صحیح ہو تو یقیناً اس کی زد میں دیگر سنی فرقے بھی آئیں گے اور وہ بھی بدعت گذار اور گمراہ کہلائیں گے کیونکہ اہل سنت کے مختلف فرقے آپس میں بھی اصول اور فروع کے لحاظ سے مختلف اور متفاوت ہیں.
اہل سنت فقہ اور اصول مذہب کے لحاظ سے ایک نہیں ہیں بلکہ متعدد ہیں اور ایک مذہب کے پیروکار نہیں ہیں.
اول یہ کہ جناب قرضاوی نے فروع کو کیوں مستثنی قرار دیا ہے جبکہ خداوند متعال کے احکام فروع میں متعدد نہیں ہیں جیسا کہ اصول میں بھی حق ایک ہی ہے اور اہل سنت آپس میں فروع کے لحاظ سے وسیع اختلافات رکھتے ہیں؟
دوئم یہ کہ وہ اصول میں اہل سنت کے آپس کے اختلافات کو نظرانداز کرتے ہیں؟
چنانچہ بدعت اور بدعت گذاری کا مسئلہ اہل سنت کو بھی سرایت کرتا ہے اور شیعہ مکتب تک ہی محدود نہیں رہتا؟
حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ ایسا نہیں ہے اور یہ درست نہیں ہے کہ اتنا واضح مسئلہ آپ کی نظروں سے مخفی رہے.
جو بھی – نص کی بنیاد پر یا پھر اجتہاد کی بنیاد پر – کتاب و سنت کا سہارا لے وہ نجات یافتہ فرقے کا فرد شمار ہوگا اور جو شخص کتاب و سنت کے دائرے سے نکل جائے گا اور کلّی یا جزئی طور پر کتاب و سنت سے روگردانی کرے گا وہ گمراہوں اور ہلاک شدہ لوگوں میں شمار ہوگا. البتہ یہاں ہم نے اجتہاد کا جو ذکر کیا ہے یہ وہ اجتہاد ہے جو علمی بنیادوں پر استوار ہو اور علمی قواعد و ضوابط و اصول کے تحت انجام پائے نہ وہ اجتہاد جو ہوا و ہوس اور سیاسی ضرورت کے تحت انجام پاتی ہے (جبکہ نہ تو قرآن میں اس کی سند ہوتی ہے اور نہ ہی سنت میں) جیسا کہ صدر اول کے خوارج اور زمانہ معاصر کے تکفیریوں کا شیوہ ہے اور وہ نفسانی خواہشات یا پھر بعض دوسروں کے سیاسی اہداف کے تحت خون مسلم حلال کرتے ہیں اور مسلمان کا خون غیر حق بہانے کی حرمت پر دلالت کرنے والی حدیث نبوی کو تنقیض کرتے ہیں جبکہ بغیر کسی دلیل کے مسلم کا قتل بھی حرمت کے زمرے میں آتا ہے.
سنی ممالک میں مذہب تشیع کی ترویج
جناب قرضاوی نے دعوی کیا ہے کہ سنی اکثریتی علاقوں میں تشیع کی ترویج ہورہی ہے؛ کاش وہ کوئی ایک مثال بھی پبش کرتے. میں سمجھتا ہوں کہ [بالفرض اگر یہ بات درست بھی ہو] اس کا حجم بہت ہی کم ہے اور اسے قرضاوی کی فکرمندی کا سبب نہیں بننا چاہئے اور انہوں نے یہاں مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے.
کاش وہ ان سنیوں کے یادنامی پڑھ لیتے جو پہلے سنی تھیے اور بعد میں شیعہ ہوگئے ہیں. ان میں بہت سوں نے اپنے ذاتی یادناموں میں اپنے شیعہ ہوجانے کی دلیلیں بیان کی ہیں؛ اگر وہ ان یادناموں اور یادداشتوں کا مطالعہ کرتے تو انہیں معلوم ہوجاتا کہ ان لوگوں نے ایک اندرونی انقلاب اور تبدیلی کے زیر اثر تشیع کی جانب اپنے سفر کا آغاز کیا ہے یا پھر کسی اور سبب کی بنا پر وہ تشیع کی طرف آئے ہیں. اگر انہوں نے شیعہ ہونے والوں کی یادوں کا مطالعہ کیا ہوتا تو اس عظیم اسلامی مکتب پر ان ناروا بہتان تراشیوں کی حقیقت سے بخوبی آگاہ ہوجاتے اور ان کی صحت و سقم کی تشخیص کے قابل ہوجاتے کہ کیا ان کی تکفیر صحیح ہے یا نہیں؟
اور ہاں! ان لوگوں (اہل تشیع) نے خرافات، توہمات اور بدعتوں کے جدید زمانے اور مواصلات اور سائنس و ٹیکنالوجی کے اس دور میں کیونکر قیام کیا اور کیونکر استوار رہے؟ شیعہ ہونے والے سنیوں کی اکثریت کا تعلق اسلامی انقلاب کی کامیابی اور تاریخ معاصر میں اسلامی حکومت کے اولین تجربے کے بعد سے ہے.
اس انقلاب نے مسلمانوں سمیت دنیا میں بہت سے نظریں شیعی تشخص کی جانب متوجہ کرادیں اور تشیع کے بارے میں تحریف قرآن!، نماز میں امام حسین (ع) کی تربت پر نہیں بلکہ تربت کو سجدہ!، پیغمبر اعظم (ص) کے انتخاب میں جبرائیل امین (ع) پر خیانت کے الزام والی من گھڑت کہانی - جس کے مطابق وحی درحقیقت علی (ع) کے لئے آئی تھی – متعہ کے نام پر زنا کی حلالیت، قبلہ مسلمین کی بجائے اہل بیت (ع) کی قبروں کی طرف سجدہ کرنا اور اس طرح کی بہت سے دیگر کہی سنی بے بنیاد اور ناروا تاریخی تہمتوں کو – جو عالم اسلام میں اہل بیت (ع) کی تعلیمات اور تشیع کی ثقافت و ادبیات و تعلیمات، کلام، اور سیرت پر مبنی کتابوں کی وسیع اشاعت سے قبل وسیع سطح پر سینکڑوں کتابوں، مقالات اور مضامین کی صورت میں شائع ہوتی رہی تھیں - لوگوں کے ذہنوں میں دو بارہ لوٹا دیا. اور جب شیعہ تعلیمات وسیع سطح پر شائع ہوئیں تو مسلمانوں نے اہل تشیع کے بنیادی منابع کی طرف براہ راست رجوع کرنا شروع کیا؛ ان کو اہل بیت کی روایات و احادیث اور تعلیمات و احکام براہ راست پڑھنے کا موقع ملا اور انہوں نے آل محمد (ص) کی ثقافت کا مطالعہ کیا اور ان کی دعائیں دیکھیں اور پڑھیں اور مطالعہ کرنے پر انہیں اپنے تصورات کے برعکس نتیجہ ملا. جب انہوں اہل بیت کے کلام، دعاؤں، اور ان کی دینی ثقافت کا مطالعہ کیا تو انہیں خالص توحید بھی اہل تشیع کے ہاں نظر آئی، ایسی توحید جس سے زیادہ خالص توحید کہیں ہی نہیں. اب سب سے پہلے ان کا ان باتوں سے اعتماد اٹھ جاتا ہے جو وہ تشیع کے خلاف سنتے اور پڑھتے آئے تھے؛ ان کا اعتقاد متزلزل ہوجاتا ہے؛ اور اب نئے سرے سے تشیع کا مطالعہ کرتے ہیں اور تشیع کے بنیادی منابع کی طرف رجوع کرتے ہیں؛ اور انہیں اطمینان ملتا ہے اور شیعہ ہوجاتے ہیں؛ ظاہری امر ہے کہ اب یہ لوگ اپنیے مسکن میں اور اپنے ارد گرد کے ماحول میں مکتب اہل بیت (ع) کے مبلغ بنیں گے.
شاید اگر تشیع کے خلاف ان کی ذہن میں اتنی ناشایستہ اور الٹی تصویر کشی نہ کی گئی ہوتی اور منفی انداز میں ان کی ذہنیت پروان نہ چرھائی جاتی تو تشیع کی تیز رفتار ترویج کی بنا پر حتی شمالی افریقہ میں قرضاوی صاحب کے فکرمند ہونی کی نوبت نہ ہی آتی!
تاہم جہاں تک مجھے معلوم ہے تشیع کی ترویج کی رفتار اتنی کم ہے کہ قرضاوی صاحب کو فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے؛ اور کاش وہ موقف اختیار کرنے سے پہلے اپنے دفتر کو ہدایت کرتے کہ اس حوالے سے زیادہ سے زیادہ تحقیق کی جائے اور زیادہ مستحکم اور جامع رپورٹ انہیں دے دی جائے.
امر مسلم یہ ہے کہ ہمارے حوزات علمیہ کی طرف سے سنی علاقوں میں – دیگر مذہب کے بطلان کی غرض سے ان کی اصولی اور فروعی تنقیض کی بنیاد پر – تشیع کی ترویج و تبلیغ کا کوئی پروگرام یا منصوبہ نہیں ہے؛ حتی ہم میں سے بہت سے افراد اس عمل کو وحدت اور یگانگی کی ضرورت کے حوالے سے اپنے مراجع تقلید کی ہدایات کے منافی سمجھتے ہیں کیونکہ ہمارا یہ اقدام اہل سنت کی مرجعیت اور مکتب کی توہین کے زمرے میں آتا ہے.
اگر ہمارے حوزات علمیہ میں اس قسم کا کوئی پروگرام یا منصوبہ ہوتا قطعی طور پر عیان ہوجاتا اور خفیہ نہ رہ سکتا اور اگر کوئی ثبوت یا سند ہوتی تو جناب قرضاوی بھی اس ثبوت کو نظر انداز نہ کرتے اور اپنے دعوے کے اثبات کے لئے اس سے بھرپور استفادہ کرتے اور تشیع کی جانب سے اس ہدف کے لئے کروڑوں اور اربوں روپے خرچ کرنے اور عالم و ماہر افراد تیار کرنے کے خالی خولی دعوے پر ہی اکتفا نہ کرتے.
اور اگر اتنا وسیع اور عریض پروگرام یا منصوبہ ہو تو کیا آج کے اس دور میں – جبکہ دنیا شیشے کی ہوچکی ہے اور ہر قسم کا واقعہ بہت جلد آشکار ہوجاتا ہے – اسے مخفی رکھنا ممکن ہوتا؟
ہمارے دینی مدارس اور حوزات علمیہ کے دروازے سب کے لئے کھلے ہیں؛ اور جو کوئی بھی اس کے درسی اور تعلیمی پروگرام سے آگاہ ہونا چاہے وہ بآسانی آسکتا ہے؛ ہماری تعلیمی و تربیتی روشیں بھی روشن اور عیاں ہیں اور کتابوں اور جرائد کی شکل میں شائع بھی ہوئے ہیں.
اور ہاں! ہم [کسی پر حملہ کئے بغیر اپنے مکتب کا تعارف کرتے ہیں اور] فقہ آل محمد (ص) کے دائرے میں ان کی آراء، دعاؤں، علمی اور دینی ثقافت اور ان حضرات کی سیرت اور حالات زندگی کے بارے میں لکھتے ہیں اور شائع کرتے ہیں اور سیٹلائٹ چینلز، اور دیگر ذرائع ابلاغ اور اخبارات و جرائد میں ان کے بارے میں بولتے ہیں.
مگر میرا یہ خیال نہیں ہے کہ وہ ہمیں اس دور میں اس کام سے منع کریں گے جب کہ سب کچھ عیاں ہے اور سیٹلائٹ، انٹرنیٹ اور کئی ممالک میں ایک ساتھ شائع ہونے والے بین الاقوامی روزناموں اور جرائد کے ذریعے دنیا کا ہر فرد اور ہر چیز کا دیگر افراد اور اشیاء کے ساتھ ربط و تعلق ہے.
[ٹی وی چینلز اور دیگر ذرائع ابلاغ میں ہر کوئی بول سکتا ہے] اور میرا یہ بھی نہیں خیال کہ قرضاوی صاحب شیعہ علماء اور مقررین کو سیٹلائٹ چینلز پر بولنے اور ذرائع ابلاغ میں لکھنے سے منع کریں گے اور ان کو ہدایت کریں گے کہ ان ذرائع کے توسط سے اہل بیت (ع) کے مذہب، ثقافت، ادبیات، فقہ اور تاریخ کی اشاعت سے پرہیز کریں! اور دیگر لوگوں کے ساتھ علمی بحث نہ کیا کریں.
قرضاوی صاحب کی باتوں میں یہ بات البتہ معقول ہے کہ کسی کو بھی مسلمانوں کے درمیان فتنہ انگیزی اور دیگر مذاہب کے افکار اور اصولوں کی توہین و تحقیر کی غرض سے ان کی تنقیض نہیں کرنی چاہئے. ہم بھی فتنہ انگیزی اور تنقیض مذاہب اور توہین و تحقیر کی نفی کرتے ہیں اور ان سے درخواست کرتے ہیں کہ اگر اس حوالے سے ان کے پاس کوئی ثبوت ہے تو پیش کریں.
ہم اس الزام کو رد کرتے ہیں اور قرضاوی صاحب سے درخواست کرتے ہیں کہ اگر – ان کے بقول – اتنی وسیع سطح پر اہل تشیع کی جانب سے اس طرح کا کوئی اقدام ہؤا ہے اور ان کے پاس اس کے عینی شواہد اور ثبوت ہیں تو ہمیں بھی دیکھنے کی اجازت دیں.
کبھی کسی جگہ کوئی کتاب شائع ہوتی ہے یا کوئی انٹرویو نشر ہوجاتا ہے یا کوئی فرد کچھ بولتا ہے تو یہ ان لوگوں کا ذاتی اور بہت ہی محدود انفرادی عمل ہے.
فرض کریں کہ ان کی یہ بات صحیح ہو – جو البتہ بالکل صحیح نہیں ہے – تو پھر بھی یہ درست نہیں ہے کہ فتنے کا جواب فتنے سے دیا جائے؛ اور صحیح اور شایستہ عمل یہ تھا کہ قرضاوی صاحت امّت اسلامی کے علاج معالجے کے شائق طبیب کی مانند اس مسئلے کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لیتے – جبکہ ہم جانتے ہیں شیعہ علماء کے ساتھ ان کا تعلق دوستی اور تعلق سے بھی بالاتر ہے – نہ یہ کہ اہل سنت کو تشیع کے خلاف اشتعال دلائیں اور انہیں شیعوں سے دور کریں اور شیعہ اور سنی کے درمیان پرانی منافرتوں کی موجودگی میں نئی منافرت کا اضافہ کریں!. ہم ان کے بارے میں صرف اتنا جانتے تھے کہ وہ مسلمانوں کے درمیان اندرونی رکاوٹیں دور کرنے کے لئے کوشان رہتے ہیں اور ہم نے کبھی بھی نہیں سنا تھا کہ وہ ان رکاوٹوں میں اضافہ بھی کرتے ہیں.
ہماری ان سے اپیل ہے کہ ہر سال حقیقی اور جعلی ناموں سے مذہب اہل بیت (ع) کا چہرہ مخدوش کرنے کی غرض سے شائع ہونے والی دسیوں کتابوں کی طرف بھی توجہ دیں اور ان کتابوں کی اشاعت ان شیووں کے علاوہ ہے جو گذشتہ ایک صدی سے تشیع کے خلاف ناروا اور جھوٹی بہتان تراشی کی شکل میں بروئے کار لائے جارہے ہیں اور اہل تشیع کی تکفیر کی جارہی ہے. اور ایام حج میں تشیع کی تکفیر پر مبنی لاکھوں کتابیں [حجاج کے درمیان تقسیم کی جاتی ہیں اور] حرمین شریفین میں ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتی ہیں. ان کتابوں کے قلم کار توہین اور ہتک حرمت اور بدزبانی کے ماہر ہیں اور «المستقلہ» جیسے ٹی وی چینلز اس آگ کو شعلہ کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں. اور فتنے کے شعلوں کو مزید بھڑکا رہے ہیں اور بےشمار انٹرنیٹ سائٹیں تشیع اور اہل تشیع پر یلغار کرنے کے لئے بنائی گئی ہیں اور ان کی تعداد میں ہر روز اضافہ ہورہا ہے (1) میں جانتا ہوں کہ قرضاوی صاحب ان مسائل سے آگاہ ہیں؛ سیٹلائٹ ٹیلی ویژن چینلوں، انٹرنیٹ سائٹوں، طبع و نشر کے اداروں اور کتابوں و اخبارات میں تشیع پر جاری ہمہ جہت یلغار، قرضاوی صاحب سے مخفی نہیں ہے؛ البتہ یه توقع بھی بجا نہیں ہے کہ تشیع کے خلاف یلغار کا جواب ہی نہ دیا جائے. بعض اوقات اتنے بڑے حملوں اور یلغاروں پر غلبہ پانا ممکن نہیں ہوتا مگر ہم فکر مند ہیں کہ اس نزاع کا انجام کیا ہوگا جس کو مشتعل رکھنے کے لئے سیٹلائٹ ٹیلی ویژن چینل، انٹرنیٹ سائٹیں، اور طبع و نشر کے ادارے ہر دم سرگرم عمل ہیں! اور آخر کار تقریب و وحدت کا عمل کس نقطے پر جاکر رکےگا؟
سبّ صحابہ
جہاں تک صحابہ کے سبّ و شتم اور ان کے خلاف دشنام طرازی کا تعلق ہے تو شیعہ علماء اور اہل دانش نے اس متنازعہ اور حساس مسئلے کی مفصل وضاحتیں کی ہیں اور مسلسل کہتے آئے ہیں کہ: «ہماری ثقافت اور ادبیات میں سبّ اور دشنام کی گنجائش نہیں ہے؛ امیر المؤمنین علی (ع) نے بھی اس عمل سے نہی فرمائی ہے. شریف رضی (رہ) نے نہج البلاغہ میں علی (ع) کا یہ کلام ثبت کیا ہے کہ «إِنِّي أََكْرَهُ لَكُمْ أََنْ تَكُونُوا سَبّابِينَ» (2) «میں پسند نہیں کرتا کہ تم گالیاں دینے والوں میں سے ہوجاؤ» البتہ بعض حلقوں میں ایسا ضرور ہوتا ہے اگرچہ بعض سنی حلقوں میں اس سے بھی زیادہ بھونڈا عمل ہوتا ہے اور وہ اہل تشیع اور شیعہ علماء کی تکفیر کا عمل ہے؛ وہ علماء جو خدا کی وحدانیت اور قرآن کے حامل اور وحدت و یگانگت کے داعی ہیں! (3)
«معاویہ» اور بنی امیہ نے دسیوں سال تک اس سے کہیں زیادہ فعل قبیح رائج رکھا وہ یوں کہ معاویہ نے اپنے والیوں اور کارگزاروں کو باقاعدہ مکتوب ہدایات بھیج کر منبروں پر علی (ع) کا سبّ رائج کیا اور اموی خلفاء نے (عمر بن عبدالعزیز کے دور کو چھوڑ کر) اپنے پوری دور سلطنت میں اس بھونڈے عمل کو جاری رکھا... اور اس زخم کا اثر صدیاں گذرنے کے باوجود باقی ہے. (4)
جی ہاں! ہم دشمنان آل محمد (ص) سے بیزاری کا اعلان کرتے ہیں اور ان لوگوں سے بھی جو آل محمد (ص) کے خلاف لڑے؛ انہیں قتل کیا اور انہیں گھربار چھوڑنے اور بےخانمان ہونے پر مجبور کیا. کیا مسلمانوں کے کسی بھی عالم دین میں اتنی قوت ہے کہ ہمیں اس عمل سے منع کرے حالانکہ رسول اللہ (ص) نے اعلانیہ طور پر اور ایک مرتبہ سے زیادہ ایسے افراد سے بیزاری کا اعلان کیا ہے اور ان پر لعنت بھیجی ہے؟.
شعائر حسینی
آخر میں ایک مسئلے کی طرف اشارہ ضروری سمجھتا ہوں جس کے ساتھ پیروان اہل بیت (ع) انس اور الفت رکھتے ہیں اور وہ نسل در نسل انہیں ورثے میں ملتا ہے؛ اور وہ مسئلہ چودہ صدیاں گذرنے کے باوجود امام حسین (ع) کی شہادت کے دن کی تکریم اور امام (ع) کی عزاداری کی مجالس برپا کرنے سے متعلق ہے جو ہر سال برپا ہوتی ہیں.
شیخ قرضاوی نے اہل تشیع کے اس عمل کو بھی بدعت قرار دیا ہے!.
میں ان سے پوچھتا ہوں کہ: آپ اہل تشیع کو حسینی مجالس برپا کرنے پر کوستے ہیں؟ کیا شریعت میں ایسی کوئی دلیل ہے جو اس عمل یا اس عمل کی مانند کسی عمل کو رد یا منع کرتی ہو اور وہ کیا وہ دلیل آپ کو معلوم ہے اور ہم اس سے بےاطلاع ہیں؟!!
بےشک رسول اللہ (ص) ایک بار سے زیادہ امام حسین (ع) کے لئے روئے ہیں اور جبرئیل نے آپ کو تعزیت پیش کی ہے [جبکہ امام حسین (ع) زندہ اور نوعمر تھے] ... اور رسو اللہ (ص) نے ہی مسلمانوں کو امام حسین (ع) کی شہادت کی خبر دی اور آپ (ع) کے قاتلوں پر لعنت بھیجی. یہ روایت معتبر شیعہ اور سنی منابع اور حافظان حدیث نے رسول اللہ (ص) سے نقل کی ہے.
اس حدیث کے سنی منابع مندرجہ ذیل ہیں:
«حاكم نیشابوری» نے مستدرك الصحیحین میں، «امام احمد» نے مسند میں، «بیہقی» نے دلائل النبوة، میں «خطیب بغدادی» نے تاریخ بغداد میں، «ابن عساكر» نے تاریخ دمشق میں، «حافظ محب طبری» نے ذخائر العقبی میں، «حافظ ابوالمؤید خوارزمی» نے مقتل الحسین (ع) میں، «دارقطنی» نے مسند میں، «ابن صباغ مالكی» نے الفصول المہمة میں، «ابن حجر مکی» نے الصواعق المحرقہ میں، «ابن الجوزی» نے منتظم میں اور ان کی بیتی نے تذكرة الخواص میں، «ابن كثیر» اور «ابن اثیر» نے اپنی تاریخوں میں، «حافظ زرندی» نے نظم الدرر میں، «حافظ ابوالقاسم طبرانی» نے المعجم الكبیر میں، «حافظ قسطلانی» نے المواہب میں، «متقی ہندی» نے كنزالعمال میں اور دیگر بےشمار سنی حفاظ حدیث نے دیگر منابع اور کتب میں اس حدیث کو نقل کیا ہے مگر ان کا ذکر کرنے کی نہ تو فرصت ہے اور نہ ہی اس مختصر میں انہیں ذکر کرنے کا امکان ہے.
یہ حدیثیں شیعہ منابع میں سنی منابع کی نسبت کئی گنا زیادہ اسناد و ذرائع سے نقل ہوئی ہیں مگر یہاں میری کوشش ان سب کا احاطہ کرنا نہیں ہے کیونکہ نہ یہ مقام اس امر کے لئے مناسب ہے اور نہ ہی اس مکتوب میں اس کی گنجائش ہے.
میں کہتا ہوں کہ: قطعی طور پر جبرائیل (ع) نے امام حسین (ع) کی شہادت کی خبر رسول اللہ (ص) کو دی ہے اور آپ (ص) نے بھی یہ خبر امام حسین(ع) کے والد علی (ع) اور والدہ حضرت فاطمہ (س) اور ام المؤمنین ام ایمن اور [ام المؤمنین ام سلمہ] اور مسلمانوں کو پہنچائی ہے نیز آنحضور (ثص) ایک بار سے زیادہ مختلف مقامات پر امام حسین (ع) کے لئے روئے ہیں.
پس جناب شیخ قرضاوی! وہ کونسی چیز ہے جو امام حسین (ع) کی شہادت کے ایام میں شیعیان اہل بیت(ع) کو آپ (ع) کے لئے رونے اور نوحہ خوانی اور عزا داری کی مجالس برپا کرنے سے روکتی ہے؟ حالانکہ ان اعمال کا عملی نمونہ رسول اللہ (ص) کی ذات بابرکات ہے.
اہل بیت(ع) کی حدیثوں میں امام حسین (ع) کی شہادت کی برسی کے دوران مجالس عزاداری برپا کرنے اور آپ (ع) کے لئے آہ و بکاء کرنے پر بہت زیادہ تأكید ہوئی ہے اور ہم کلام اہل بیت (ع) سے تمسک کرتے ہیں اور ان احادیث کو حجت سمجھتے ہیں جیسا کہ ابتدا میں ذکر ہؤا.
شاید عزاداری کی ایک حکمت یہ ہو کہ سنہ 61 ہجری کے واقعات ظلم و ستم کے خلاف مزاحمت و استقامت کی تربیت کے حامل ہیں. بنو امیہ نے بھی اور ان کے بعد آن والے بنوعباس نے بھی اس ثقافت کو حدیث اور فقہ کی کتابوں سے مٹانے کی بہتیری کوشش کی اور شیعی فرہنگ کو ستمگر بادشاہوں کے سامنے نسلیم محض اور ان کی غیرمشروط اطاعت پر مبنی ثقافت میں تبدیل کردیں اور اس ضمن میں انہوں نے بعض حدیثیں بھی رسول اللہ (ص) سے نقل کیں اور اس میں شک نہیں ہے کہ انہوں نے ان حدیثوں کو رسول اللہ (ص) سے منسوب کیا ہے اور ان کی بنیاد پر ایک فقہ کی بنیاد رکھی ہے جس کا اسلامی فقہ کی سے کوئی جوڑ نہیں ہے. میری رائے میں ان احادیث میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور ظالموں کی اطاعت گذاری کی حرمت کے حامل محکمات قرآنی کے مقابلے کی سکت نہیں ہے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور ظالموں کے خلاف جدوجہد کی ضرورت پر مبنی رسول اللہ (ص) کی احادیث صحیحہ کے سامنے بےاعتبار ہیں.
ان سب قرآن و سنت کی ان احکام کے برعکس بنو امیہ اور بنوعباس کے ادوار میں ظالموں کی اطاعت، ان کے سامنے سرتسلیم خم کئے رکھنا، ان کی پذیرائی کرنا اور ان کے ہمراہ نماز جمعہ میں شرکت کرنا اور ان کی عدم اطاعت کی تحریم اس عصر کی رائج فقہ و تہذیب شمار ہوتی ہے اور یہ فقہ و ثقافت آج بھی جاری ہے.(6)
میرے خیال میں امام حسین کی یاد تازہ رکھنے کے رازوں میں سے ایک راز یہ ہو کہ نینوا کے واقعے میں مضمر ثقافت و تعلیم مذکورہ بالا ثقافت تسلیم سے بالکل مختلف ہے؛ یہ ثقافت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور ظالموں کی نافرمانی اور ان کے خلاف جدوجہد کی ثقافت ہے اور اہل بیت علیہم السلام مسلمانوں کے درمیان اہل ستم کی سامنے سر تسلیم خم کرنے اور ان کی ظالمانہ فرمانروائی کو تسلیم کرکے ان کے روبرو کرنش کرنے کے رجحان کی مد مقابل حسینی ثقافت کی ترویج کے لئے کوشاں ہیں.
البتہ امام حسین (ع) کی عزاداری میں مٹھی بھر افراد محدود سطح پر بعض غیرشائستہ اعمال و افعال کا ارتکاب کرتے ہیں اور علمائے شیعہ نہ صرف ان اعمال کو ناپسند کرتے ہیں بلکہ لوگوں کو ان اعمال سے منع بھی کرتے ہیں اور شعائر حسینی کو ان افعال و اعمال سے پاک رکھنے کے لئے کوشش کرتے ہیں مگر اس کے باوجود یہ جاننا ضروری ہے کہ ان رویوں کا کھاتہ شعائر حسینی کف احیاء اور امام حسین (ع) کی عزاداری کی مجالس کے انعقاد کی کھاتے سے الگ ہے اور ان دو کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہے.
فٹ نوٹس:
1. تو اب یہ بتانا قرضاوی صاحب کا کام ہے کہ کون کس کی تنقیض کررہا ہے اور کون حقیقتاً دوسروں کی توہین اور اپنے مذہب کی ترویج کے لئے کروڑوں اور اربوں خرچ کررہا ہے۔
2. خطبه 197 نهج البلاغه.
3. عالمی سامراج کے خلاف جہاد کے دعویدار تمام ممالک کے تشدد پسند عناصر گذشتہ ڈیڑھ برس سے پاکستان کے ایک علاقے میں جمع ہوکر عالمی استعمار کے حقیقی دشمنوں یعنی اہل تشیع کا خون بہا کر جنت کے ٹکٹ بانٹ رہے ہیں اور وہاں ہلاک ہوکر شہادت کا رتبہ کمانے کے چکر میں ہیں کیا یہ عمل گالی دینے سے کم ہے؟.
4. جبکہ بہت سے سنی معاویہ کے نام پر تو کیا یزید کے نام پر بھی مرتے اور مارتے ہیں اور امام حسین (ع) کے خلاف تک یاوہ سرائی کرتے ہیں کیا یہ عمل پسندیدہ ہے؟.
5. اور رسول اللہ (ص) نے اہل بیت (ع) کے دشمنوں کو بد دعا دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ ... اللہم عاد من عاداہم
کیا قرضاوی صاحب قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى («کہہ دو اے میرے رسول (ص)! میں تم سے اپنی رسالت کے اوپر کوئی اجرت طلب نہیں کرتا سوائے اس کے کہ تم میرے اقرباء (اہل بیت (ع)) سے محبت و مودت رکھو.» سوره شوری آیت 23.) پر یقین نہیں رکھتے؟ اگر وہ اس قرآنی آیت پر یقین رکھتے ہیں تو پھر کیا وہ اہل بیت کے دشمنوں اور ان کے خلاف لڑنے والوں اور انہیں قتل کرنے والوں سے بیزاری کا اعلان کریں گے اگر ایسا نہیں کریں گے تو کیا وہ قرآن پر ایمان میں قصور کا شکار نہ ہونگے؟
6۔ جناب قرضاوی خود بھی قطر کے شیخ کے ماتحت ہیں اور ان کے امام جمعہ ہیں