سانحہ کربلا کو واقعات سقیفہ سے وہی نسبت ہے جو لڑکی کو اپنی حقیقی والدہ سے ہوتی ہے۔ اور رات کو سورج کے غروب ہونے سے ہوتی ہے۔ اور اگر کوئی اس سے انکار کرتا ہے تو دو میں سے ایک بات ہے۔ یا تو وہ واقعات سقیفہ کا حامی ہے اور ان پر پردہ ڈالنا چاہتا ہے یا اسے تاریخ کے مطالعہ کا شعور ہی نہیں ہے۔
سانحہ تو ایسا عظیم تھا تاریخ عالم میں نہ اس سے پہلے کبھی ہوا اور نہ آئندہ کبھی ہوگا۔ اس سے پہلے بھی بہت سے نبیوں کی تحقیر کی گئی تو ہیں کی گئی تکذیب کی گئی انہیں قتل کیا گیا اذیتیں پہنچائی گئیں لیکن جو کچھ کیا کافروں نے کیا مخالف مذہب والوں نے کیا ایسا کبھی نہیں ہوا خود اس رسول کے ماننے والوں نے اس کے پیروؤں نے اس کی توہین و تحقیر کی ہو اس کی اولاد کو اس کی آنکھ بند ہوتے ہی اتنا ستایا ہو اور آخر کار اس کی نسل قطع کرنے کی کوشش کی ہو ۔
یہ معمولی بات نہیں ہے بہت غور طلب ہے وہ لوگ اپنے تئیں مسلمان کہتے تھے کہتے ہی نہیں تھے بلکہ دل سے سمجھتے بھی تھے۔ قاری قرآن ایسے تھے کہ حمائلیں گردن سے لٹک رہی تھیں اور ہاتھ سے اپنے رسول کی اولاد کی طرف تیر چلا رہے تھے کہہ رہے تھے جلدی سے حسین کی گردن اتار دو تاکہ نماز ظہر صحیح وقت پر پڑھی جائے۔ پانچوں وقت کی نمازوں میں اقرار کیا کرتے تھے محمد رسول اللہ ہے۔
وہ فقط رسول ہی نہیں تھا اپنی قوم کا محسن بھی تھا عرب کیا تھے ایک وحشی بلاؤں کی جماعت جن کا گزارا قتل و غارت تھا جو لڑکیاں زندہ دفن کر دیا کرتے تھے۔ ان کو ایک منظم قوم بنا دیا۔بلکہ یہیں نہیں اسی رسول کا نواسہ جوان کے سامنے زخمی کھڑا ہوا اپنے بیٹے کے لیے پانی طلب کر رہا تھا اور وہ نہیں دے رہے تھے ان کا محسن تھا بلکہ وہ حکومت جس پرآج ان کو ناز تھا اور جس کی طاقت حسین کوکچلنا چاہتی تھی اس ہی بے کس حسین کے نانا کی پیدا کردہ تھی۔ ایسی احسان فراموشی ۔ ناشکر گزاری محسن کشی کی نظیر تاریخ عالم نہیں دکھا سکتی۔ یہ یا تو قصور تھا اس قرآن شریف کا جو ان کے گلے میں لٹک رہا تھا۔ یا اس سبق کا جو یہ پڑھتے آئے تھے۔
آلِ رسول پر ظلم و ستم کرنے کا یہ پہلا دن نہیں تھا اور حسین پہلے شہید نہ تھے اس خاندان کی پہلی مظلومہ‘ پہلی مقتولہ‘ پہلی شہید فریاد کرتی ہوئی دنیا سے اٹھی کہ تم نے مجھ پربہت ظلم و ستم کئے جب میں اپنے باپ سے ملوں گی تمہاری شکایت کروں گی۔ وہ حسین کی والدہ معظمہ تھی اس ہی حسین کے باپ نے قبر رسول پر فریاد کرتے ہو کہا تھا۔
اے میرے بھائی اے کائنات کے رسول قوم نے میری بہت تحقیر کی قریب تھے مجھے قتل کر ڈالتے۔
خاموش واقعات اپنے میں بہت بلیغ شہادت مضمر رکھتے ہیں کہا یہ امر واقعہ کہ مرنے کے بعد ان سب کی قبریں بھی امت نے ایک جگہ نہ بننے دیں کچھ کم بلیغ ہے سوچنے والا دماغ اور بصیرت والا دل چاہے۔ جس پیاری دختر کے لیے رسول کہیں فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے۔ جس نے اسے تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی وہ رات کو عام مسلمانوں کے قبرستان میں دفن ہو۔ اور اپنے باپ کے پاس جگہ نہ پائے۔ وہ جانشین بھائی اور داماد جس کے بارے میں رسول ”کہیں لحمک لمحی دمک دمی“ وہ نجف میں ایسی جگہ دفن ہو قبر کا پتہ بھی بہت عرصہ بعد ملے‘ پیارا نواسہ حسن مجتبیٰ باوجود اپنی وصیت کے اپنے نانا کے پہلو میں جگہ نہ پائے اس کے جنازے پر تیر چلائے جائیں ۔
دوسرا نواسہ جس کو رسول یہ کہیں الحسین منی و انا من الحسین ‘ حسین مجھ سے ہے میں حسین سے ہوں اس کی لاش پر گھوڑے دوڑائے جائیں وہ بے گورو کفن کربلا کی گرم ریت پڑا رہے۔
کیا اس قیامت پر روح رسول خوش ہوگی کہ میری اولاد بکھر گئی کیا یہ واقعات ایک دوسرے سے وابستہ نہیں؟
ان عظیم الشان اور عجیب واقعات کے اسباب و علل تلاش کرنا ہر ایک مورخ کا فرض ہے اس صورت حال کے اسباب و علل کی جڑ سقیفہ بنی ساعدہ میں ملتی ہے۔
وہ لوگ جو حامی سقیفہ ہیں اور وہ لوگ کہ جن پر فرنگستانی تخیل اور لامذہبیت مستولی ہوگئی ہے۔ واقعہ کربلا کو مندرجہ ذیل اسباب کا نتیجہ بناتے ہیں۔
بنو ہاشم اور بنو امیہ میں پرانی دشمنی چلی آرہی تھی۔ یزید نے اپنے باپ دادہ کی شکستوں کا بدلہ لینا چاہا اور لیا۔
امام حسین نے یزید کے خلاف خروج کیا اور اس کے حسن انتظام کی وجہ سے شکست کھائی۔
وہ لوگ کہتے ہیں بات تو فقط اتنی ہی ہے اس کو مذہبیت کا رنگ دے کر خواہ مخواہ تیرہ سو صدیوں سے مسلمانوں کو غم و غصہ میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ہم ان دونوں واقعات پر غور کرتے ہیں۔ اگریہ صحیح ہے تو ہم بھی کہیں گے چودہ صدیوں کے بعد حق کومعلوم کر لینے کا سہرا فرنگی مورخوں کے سر پر آیا جو ہر ایک نئی چیز اور نئی تھیوری کے عاشق ہوتے ہیں۔
ان دونوں وجوہات پر ہم ابھی بحث کرتے ہیں لیکن ان کو اسباب قرار دینے سے کئی سوال بغیر حل کئے رہ جاتے ہیں۔ اگر یہ دو ہی وجوہات تھیں تو اگرچہ یزید کا امام حسین کے خلاف ہونا تو معقول ہوگیا اور اس کی وجوہات مل گئیں۔ لیکن یہ ذاتی وجوہات تھیں۔ یزید کا ساتھ اس وقت کی تقریباً تمام امت اسلامیہ نے کیوں دیا؟ اگر اجماع کوئی شے ہے توہم کہیں گے قتل حسین پر یہ اجماع کیوں؟ حسین کوئی غیر معروف شخصیت نہ تھے اس امت کے حقیقی رسول کے حقیقی نواسے تھے۔ رسول کو جو عشق حسین سے تھا۔ وہ بھی ان کو معلوم تھا۔ حسین نے کوئی بات خلاف اسلام نہ کی تھی۔ ہزار ہا مسلمان کیوں نواسہ رسول کے خلاف ہوں اور یزید کے حامی ہوں۔ وہ یزید جس کا دشمن دین ہونا ظاہر تھا۔ وہ یزید جو دشمن رسول کے خاندان سے تھا وہ یزید جس کو کسی صورت حکومت کرنے کا حق نہیں پہنچتا تھا یہ تو حضرات شیخین فیصلہ کرگئے تھے کے حکومت کسی کا ورثہ نہیں ہے۔ باپ سے بیٹے کو نہیں ملتی۔ اور علاوہ اس کے معاویہ نے جو عہد نامہ امام حسن کے ساتھ کیا تھا اور جس شرط کی بناء پر امام نے حکومت اس کو سپرد کی تھی کہ معاویہ کے بعد خلافت امام حسن کو ملے گی اور اگر امام حسن نہ ہوئے تو وارث امام حسین ہوں گے۔
حسین حق پر تھے نواسہ رسول بھی تھے۔ قتل حضرت عثمان میں حضرت عثمان کے مددگار بھی تھے خلاف اسلام کبھی کوئی کام نہیں کیا۔ پانی کی مشکیں خود لے جاکر پہنچائی تھی۔ پھر اتنے مسلمانوں میں جن میں صحابہ رسول بھی تھے قتل حسین پر کیوں اجماع کرلیں۔ اس کا یہ جواب کافی نہ ہوگا کہ وہ یزید کے تنخواہ دار تھے۔ لہذا اس لیے اس کا ساتھ دیا اس کے تنخواہ دار تو جب ہی بنے کہ جب انہوں نے قتل حسین پر آمادگی کا اظہار کیا ہر ایک صحابی ستارہ ہدایت ہے۔قاری قرآن تھے۔ سب مسلمان تھے جانتے تھے کہ
ومن قتل مومنا متعمدا فجزاه ۔ جهنم
جناب امام حسین نے اس عالم بے کسی میں اپنے پہیم استغاثوں سے بتا دیا تھا کہ وہ کون ہیں یہاں کیوں نہ قرآن کو حکم بنایا تاریخ عالم میں ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں اگر لشکر کی کوئی اپنی مرضی ہو تو بادشاہ کیسا ہی جبار ہو اس کے خلاف نہیں کر سکتا لشکر کو اپنی طاقت کا علم ہوتا ہے جس کو چاہا انہوں نے تخت سے اتار دیا۔ جس کو چاہا تخت پر بٹھا دیا۔ صفین میں دیکھ لشکر خلاف ہوگئے حضرت علی کچھ نہ کر سکے اور یقینی فتح شکست میں بدل گئی اس طرح بچے بچے کو قتل کرنا۔ بہتر آدمیوں کا تین ہزار سے مقابلہ ہی کیا اس پر بھی پانی بند کر دینا۔ خیام اہلبیت کو تاراج کرنا بچوں اور عورتوں کو اسیر کرکے اس بے رحمی سے تشہیر کرنا یہ محض حفاظت سلطنت کی غرض سے نہ تھا اس زمانہ میں لشکر جمع کرنے کا طریقہ یہی تھا ایک منادی شہروں میں ندا کرتا تھا فلاں مہم پر جانا ہے جو چاہتا ہے حاضر ہو جائے۔ چنانچہ ابن زیاد نے حر ابن یزید ریاحی کے خط سے خبر و رود امام حسین بکربلا معلوم کرکے کوفہ و بصرہ میں منادی کروا دی کے حسین کے قتل کا جو ارادہ کرتا ہے وہ جمع ہو جائے۔
اگر یزید مسلمان تھا تو پھر رسول خدا کی مذہبی جنگوں کا بدلہ کیسا؟ بلکہ ان کی فتح کا غم کیوں؟ دراصل جنگ تو ان کے خلاف یزید کے دادا نے ہی شروع کی تھی۔ اور بنو ہاشم اور بنو امیہ کی دشمنی کیسی؟ اصلی مومنین کے لیے تو اسلام کے بعد قبیلوں کی سابقہ دوستیاں و دشمنیاں اخوت اسلامی میں مبدل ہوگئیں تھیں ا ور اگر وہ دل سے کافر تھا تو ایسا ہوا کہ اسلام کی حکومت ایک کافر کے ہاتھ میں چلی گئی۔ اور اگر اس کا کفر پوشیدہ تھا۔ تو اس خاندان کی عداوت رسول تو عیاں تھی۔ دشمن اسلام و مسلمین کے خاندان میں کیوں حکومت دی گئی غرض یہ کہ ان دونوں اسباب کو صحیح سمجھ کر اتنے سوالات حل طلب رہ جاتے ہیں۔ اور وہ تھیوری کبھی قابل قبول نہیں ہوتی جس میں ایک بھی امر ایسا ہو جو اس کو صحیح سمجھنے سے حل نہ ہو اور جس کا جواب اس تھیوری سے نہ نکل سکے۔
بنوامیہ اور بنو ہاشم کی عداوت
بنوہاشم اور بنوامیہ کی عداوت کو ایک سبب واقعہ کربلا بتانا عملاً اصلی صورت حال پر ایسا پردہ ڈالنا ہے۔ جس کے آرپارسب کچھ نظر آتا ہے۔ یہ پردہ ایسا ہے یہ کسی شے کو نہیں چھپا سکتا۔ بلکہ پردہ ڈالنے والے کی دلی حبُ خاندان امیہ کو عیاں کر دیتی ہے۔ یہ عداوت اگرچہ پرانی تھی۔ لیکن قطعی اور آخری فتح اسلام نے خاندان امیہ کو بالکل مغلوب کر دیا تھا۔ یہ خاندان آخر تک آنحضرت سے لڑا اور ہتھیار نہ رکھے جب تک بالکل مغلوب نہ ہوگیا اور جب مغلوب ہوا اور اس میں بالکل طاقت نہ تھی اورعداوت پررسول کا کلنک کاٹیکہ ایسا ماتھے پر لگا تھا کہ آئندہ کے لیے بھی کچھ امید نہ تھی۔ جناب رسول خدا کی رحلت کے وقت اس خاندان کی کس مپرسی کی یہ حالت تھی کہ خلافت و حکومت گمنام قبیلوں میں چلی گئی اور کسی نے ان کو پوچھا بھی نہیں اور ابو سفیان کو جب یہ معلوم ہوا تو آکر حضرت علی کو بھڑکانا چاہا خود پھر بھی اتنی جرات نہ ہوئی کے اپنے نام پر خلافت کا حق دار بن کر کھڑا ہو جاتا اگر حکام سقیفہ کی سیاست اس خاندان کو آگے نہ بڑھاتی اور اس مردہ میں جان نہ ڈالتی تو خلافت رسول تک پہنچنا تو بڑی بات ہے۔ اسلام میں ا س کا کچھ اثر ہی نہ رہتا۔ بنوامیہ کی عداوت تو تھی لیکن اس عداوت کو طاقت کس نے دی؟ اس عداوت کو ضرر پہنچانے کے ہتھیار کس نے دیئے؟ دراصل یہ ایک سبب نہ تھا یہ تو معلول تھا کسی اور علت کا یہ تو ہم ماننے کے لیے تیار ہیں جو کام یزید نے کیا وہ دشمن ہی کر سکتا تھا اور پشتی دشمن اس خوبی سے کر سکتا تھا جس خوبی سے یزید نے کیا لیکن یہ تو سوچو اس کو اپنا کینہ نکالنے کے اسباب کس نے مہیاکئے؟ یہ وہی حکام سقیفہ تھے گویا پھر تو ایک مہلت ہوگیا اس کا سبب وہی حکام سقیفہ کا عمل رہا۔
امام حسین کا خروج
”خروج“ دو قسم کا ہوتا ایک حق کے خلاف اوردوسرا نا حق کے خلاف جو حق کے خلاف ہوتا ہے اسلام میں ا سے ”بغاوت“ کہتے ہیں اور جو ناحق کے خلاف ہوتا ہے وہ حق کی مدد ہے رسول کی نصرت ہے۔ حکومت یونانیہ کے فلسفہ کے مطابق بغاوت اس کو کہتے ہیں جو حاکم وقت کے خلاف ہو خواہ اس کی حکومت کا آغاز جو روستم و ناحق سے ہوا اور وہ مبنی پر ظلم و غصب ہو۔ اہل یورپ جب اس مضمون پر کچھ لکھتے ہیں تو وہ بغاوت کے یہ ہی یونانی ورومانوی معنی لیتے ہیں۔ تحریک سقیفہ کے حامی بھی یہی معنی لینے پر مجبور ہیں۔ امام حسین کی تحریک ہر صورت مستحسن تھی اور بالکل ہدایات کے مطابق تھی۔ اگر یونانی اور سقیفہ والے معنی لئے جائیں وہ نہیں تو بھی اس ضمن میں چند امور پر غور کرنا ہوگا اور وہ یہ ہیں؟
۱۔ پہل کس نے کی؟ حسین نے یا یزید نے؟ کیونکہ اگر حسین نے پہل کی تو حسین کا طرز عمل خروج کہلائے گا۔ اگر یزید نے پہل کی تو امام حسین کا طرز عمل دفاعی صورت کہلائے گی۔
امام نے مدینہ کس سازو سامان کے ساتھ چھوڑا کیا امام جنگ کی تیاری میں جا رہے تھے امام نے کیوں بیعت یزید نہ کی؟
یہ تھے وہ واقعات جن کا علم تاریخ کے طالب علم تک نہیں پہنچایا جاتا مگر کب تک یہ کام ہوتا رہے گا کب تک نوجوان نسل کو اہلبیت اطہار پر ہونے والے مظالم سے بے خبر رکھا جائے گا۔ اگر ساری دنیا کی کتابیں دریا برد ہو جائیں اگر تمام کتب اخبار و روایات کو جھوٹا سمجھا جائے تب بھی جو باقی رہے گا اس سے اہلبیت کی مظلومیت اور حکام وقت کے ظلم و جور کی داستانیں مرتب ہوسکتی ہیں کچھ نہیں تو خاموش عمارتیں‘ ویران قبرستان جو اپنی زبان میں اس قصہ کو دہرائیں گے اہل بصیرت کے لیے یہ کتنا عبرت آموز سبق ہے قبر رسول کے پاس اس کے کسی خاندان والے کی قبر نہیں اور ایک خاموش تنہا جنازہ رات کو علی کے گھر سے نکلتا ہے دن کو جنازہ ظلم کے ڈر سے نہ اٹھا اس کی اتمام حجت ایک اور شہید نے کردی جس کا جنازہ دن نو بازار میں آئے بجائے کندھا دینے والوں کے تیروں نے استقبال کیا فاتح جبرو خندق کے دروازے سے آگ کے شعلے کس چیز کا ثبوت ہیں کربلا میں خاموش قبریں اپنی مظلومیت کی داستان ہیں شاید یہی وہ ظلم تھا جس کی ابتداء سقیفہ میں ہوئی جو تلوار سقیفہ میں بنی تھی جمل اور صفین میں تیز ہوئی نسل در نسل چلتی یزید کے ہاتھوں میں آئی اور کربلا میں اس تلوار کی پیاس حسین کے خون سے بجھ گی اور وہ ظلم ختم نہ ہوا۔ آج بھی اس حسین کے ماننے والوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کبھی میلسی‘ شورکوٹ‘ کبیر والہ‘ ملتان‘ لاہور‘ فیصل آباد ان خاموش جنازوں سے پوچھو ان کا قصو ر کیا تھا جو اب ملے گا فقط مودت آل محمد خدایا امام زمانہ کا جلد ظہور فرما دے اور انشاء اللہ پھر ہر گھر میں علی علی اور ہر زبان پر حسین اور ہر چھت پر علم عباس ہوگا۔