امیرالمومنین فرماتے ہیں :
الولد احد العددین [49]۔
”بیٹا دوعددوں میں سے ایک ہے“۔
اورضرورت کے وقت اس سے مددلی جاتی ہے امام زین العابدین فرماتے ہیں :
من سعادة الرجل ان یکون لہ ولد یستعین بھم
”مردکی سعادت یہ ہےکہ اس کی اولاد ہوجوضرورت کے وقت اس کے کام آئے“ [50]۔
بیٹاوالدین کے طبیعی سلسلے کانام ہے اسی کے ذریعہ سے وہ اپنی ان عادات، افکاراوراخلاق کومنتقل کرتے ہیں جوان کے معنوی وجود کاباقی رکھتی ہیں اوراولاد کا ایک اوربڑافائدہ یہ ہے کہ اس کی دعاؤں اورصدقات وعبادات کاثواب والدین کوبھی ملتاہے۔
بہرحال اولاد والدین کی دنیوی اوراخروی سعادت کاباعث ہے۔
امام باقر فرماتے ہیں :
من سعادة الرجل ان یکون لہ الولد، یعرف فیہ شبھہ : خلقہ، وخلقہ وشمائلہ
”مرد کی سعادت ہے کہ اس کابیٹاہوجواس کی جسمانی وضع قطع، اخلاق اور عادات وشمائل کاحامل ہو“ [51]۔
علاوہ ازاین بیٹا والدین کانام زندہ رکھتاہے اوریوں والدین کانام صفحہ ہستی پرباقی رہتاہے حضرت علی فرماتے ہیں :
الولد الصالح اجمل الذکرین
”ولد صالح دوباقیماندہ چیزوں میں سے بہتر ہے“۔
اورمکتب اہل بیت نے الک تھلگ رہنے اوررہبانیت اختیارکرکے معاشرے سے دور بھاگنے والے کے خلاف ہمیشہ جنگ کی ہے اورخاندان کی تشکیل اورجائز ذریعے سے بات سننے پرزوردیاہے بحارالانوار میں ہے کہ ایک عورت نے امام باقر سے عرض کیااللہ تعالی آپ کے معاملات کی اصلاح کرے میں تبتل کاشکارہوں امام نے پوچھا :
وماالتبتل عندک
”تبتل سے تیری مراد کیاہے ؟ اس نے جواب دیامجھ مسں کبھی بھی شادی کی خواہش نہیں ہوئی امام نے پوچھا ایساکیوں ہے؟ تواس عورت نے کہامیں اسے فضیلت سمجھتی ہوں اس پرآپ نے فرمایا:
انصرفی فلوکان فی ذلک فضل لکانت فاطمة احق بہ منک، انہ لیس احد یسبقھا الی الفضل۔
”اس ارادہ سے منصرف ہوجا اگریہ کوئی فضیلت کی بات ہوتی توحضرت فاطمة تجھ سے پہلے حاصل کرلیتیں اوریقینا فضیلت میں ان پرکوئی سبقت نہیں کرسکتا“ [52]۔
نتیجہ یہ کہ اسلام جوقرآن وسنت یعنی معصوم کے قول،فعل اورتقریرکانام ہے کبھی واضح طورپراورکبھی اشارے کے ساتھ طلب اولاد پربہت زوردیتاہے اوراسی ضمن میں اولاد کوحق وجود سے نوازتاہے اورعدم کے اندھیرے سے نکل کروجود کی روشنی میں آنے کواس کاحق قراردیتاہے تاکہ زندگی نسل درنسل مستمررہے۔
اول : بچے کے لئے والدہ کے انتخاب کا حق
بیٹے کے وجود میں آنے سے پہلے اس کاباپ پریہ حق ہے کہ وہ اس کے لئے ایسی صالح ماں کاانتخاب کرے جواس کے نطفے کوامانت کے طور پررکھ سکے کیونکہ جسمانی اورروحانی صفات کاوراثت میں منتقل ہونااب پایہ ثبوت کوپہنچ چکاہے اورسائنس سے پہلے وحی نے اس ابہام سے پردہ اٹھایاہے اوراس کے منفی اثرات کے تدارک پرزوردیاہے۔
چنانچہ ناطق وحی پیغمبر فرماتے ہیں :
تزوجوا فی الحجر الصالح فان العرق دساس [53]۔
”پاک دامن خاندام میں شادی کرو کیونکہ باپ داداکی عادتیں بچے میں منتقل ہوتی ہیں “۔
نیز فرماتے ہیں :
تخیروا لنطفکم فان النساء یلدن اشباہ اخوانھن واخواتھن
”اپنے بچوں کے لئے اچھی عورت کاانتخاب کروکیونکہ عورتیں اپنے بہن بھائیوں جیسی اولاد پیداکرتی ہیں “ [54]۔
لہذا خاندانی عورت کاانتخاب بہت اہمیت کاحامل ہے تاکہ بچے میں ایسی جسمانی اورروحی صفات منتقل ہوسکیں جواسے انحراف اورگمراہی سے بچنے کے لئے زرہ کاکام دیں۔
نیز اسلام دیندار وایماندار بیوی کے انتخاب کاحکم دیتاہے تاکہ بچے حق وحقیقت کے راستے سے بھٹکنے نہ پائیں۔
اللہ تعالی نے ہمارے لئے حضرت نوح کی بیوی کی مثال بیان کی ہے کہ جس نے کفرکوایمان پرترجیح دی اوررسالت میں آپنے شوہرسے خیانت کی اورآپ نے ملاحظہ فرمایاکہ رسالت پرایمان لانے کے بارے میں اس نے بیٹے پرکیسا برااثرڈالا کہ جس نے اسے ہلاکت کے گڑھے میں جاگرایااوراس کانتیجہ یہ ہوا کہ دینامیں بربادی اورآخرت میں عذاب اس کامقدر بنا۔ محبت پدری نے حضرت نوح کومجبورکیاکہ وہ اپنے بیٹے کوبھی دیگراہل خانہ کے ساتھ کشتی نجات میں سوار ہونے کی دعوت دیں لیکن وہ توماں کی غلط تربیت کے سامنے خاضع اوراس کی کافرانہ روش کاشیدائی تھا لذا کفرکی حالت پرڈٹارہا اورشفیق باپ کی دعوت کوٹھکرا کر معمولی مادی وسائل کاسہارالیناکافی سمجھا اسے یقین تھا کہ پہاڑی کی چوٹی اسے ہونے سے بچالے گی لیکن نہ توپہاڑ نے بچایااورنہ ہی باپ کی سفارش کام آئی اورآخرکار غرق ہوگیا۔
ان آیات کریمہ کاغورسے مطالعہ کیجئے :
ونادی نوح ربہ فقال رب ان ابنی من اھلی وان وعدک الحق وانت احکم الحاکمین۔
قال یانوح انہ لیس من اھلک انہ عمل غیرصالح فلاتسالن مالیس لک بہ علم انی اعظک ان تکون من الجاھلین۔
”اس وقت کویاد کرو جب نوح نے اپنے رب کوندا دی پس کہااے میرے پروردگار بیشک میرا بیٹا میرے اہل میں سے ہے اوربیشک تیرا وعدہ سچاہے اورتوسب سے بڑاحاکم ہے خد نے فرمایااے نوح ہرگز یہ تیرے اہل سے نہیں ہے وہ بیشک بد چلن ہے پس مجھ سے اس چیزکی درخواست نہ کرجس بارے میں تمہیں علم نہیں ہے میںتمہین سمجھائے دیتاہوں کہ نادانوں کی سی باتیں نہ کرو [55]۔
توآپ نے ملاحظہ فرمایاکہ حضرت نوح کی کافرہ بیوی نے اپنے بیتے کے ایمان کے سامنے کیسے بند باندھ دیا اوراسے باپ کی بات سننے اوراس کی اطاعت کرنے سے باز رکھا اورنوح کے اس نافرمان اورسرکشی کے پیکربیٹے کے مقابلے میں حضرت ابراہیم کے فرزند حضرت اسماعیل کودیکھیں جواپنے باپ کے حکم کی پیروی میں بے مثال نمونہ ہیں جب حضرت ابراہیم کوخواب کی حالت میں حضرت اسماعیل کوذبح کرنے کاحکم ملاتوقرآن نے کہا اسماعیل نے وئی پس وپیش نہیں کیا۔
فلمابلغ معہ السعی قال یابنی انی اری فی المنام انی اذبحک فانظر ماذا تری قال یاابت افعل ماتؤمر ستجدنی ان شاء اللہ من الصابرین۔
”جب اسماعیل اپنے باپ کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کے لائق ہوگئے توابراہیم نے کہا اے میرے پیارے بیٹے میں نے خواب دیکھاہے کہ تجھے ذبح کررہا ہوں بتاتیری کیارای ہے جناب اسماعیل نے جواب دیا اے بابا جوآپ کاحکم ہواہے اس پرعمل کیجئے انشاء اللہ آپ مجھے صبرکرنے والوں میں سے پائیں گے [56]۔
حضرت اسماعیل کایہ اعلی موقف بغیروجہ کے نہیں تھا بلکہ یہ نتیجہ تھا حضرت ابراہیم کی اس پاکیزہ تربیت کاکہ جس نے آپ کے اکلوتے فرزند کوانحراف سے بچائے رکھا اورشاید اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ حضرت اسماعیل کی والدہ ایک نیک اورمؤمنہ خاتون تھیں، انہوں نے آپ کے والد کے ہمراہ ہجرت کی اوربھوک، پیاس اورغربت جیسی تکلیفیں برداشت کیں اوربے آب وگیاہ صحرا میں رہ کرصبراورقناعت کامظاہرہ کیا انہوں نے اپنے بیٹے کے دل میں باپ اور اس کی رسالت سے محبت والفت کی شجر کاری کی۔
قرآن کی ہدایت کی روشنی میں مکتب اہل بیت بھی تربیتی اوراجتماعی حوالے سے بیوی کے بارے میں تحقیق اورجستجو کرنے کولازم قراردیتاہے تاکہ باپ اپنی دور اندیشی اورگہری سوچ وفکر کے ذریعے سے اولاد کے صالحہ ماں کی طرف منسوب ہونے کاحق محفوظ کرے اورایک لمحے کے لئے بھی اپنی توجہ کامرکز اس کے مال وجمال یاخاندان کوقرار نہ دے خلاصہ یہ کہ مرد کے لئے اپنے نطفے کے لئے ایک دیانتدار خاتون کاانتخاب بہت ضروری ہے اورامام صادق اس پرزور دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
تجب للولد علی والدہ، ثلاث خصال : اختیار والدتہ، وتحسین اسمہ، والمبالغة فی تادیبہ [57]۔
”باپ پربچے کے تین حق ہیں اس کی والدہ کاانتخاب، اچھے نام کاانتخاب اوراس کی تربیت میں انتہائی کوشش کرنا“۔
اورسنت شریفہ نے بھی ظاہری حسن سے دھوکہ کھانے کے بجائے باطنی حسن اورطہارت وایمان پرنظررکھنے کی تاکید کی ہے جب پیغمبر نے فرمایا:
ایاکم وخضراء الدمن
”گھورے کی سبزی سے بچو توآپ سے پوچھاگیایہ گھورے کی سبزی کیاہے توفرمایا:
المراة الحسناء فی منبت السوئ
توفرمایا : ”برائی میں ملوث خوبصورت عورت“ [58]۔
اسی طرح سنت مطہرہ نے اس بیوقوف عورت سے بھی بچنے کی تلقین کی ہے جوکم عقلی کی وجہ سے معاملات کوخوش اسلوبی سے نہیں نمٹاسکتی اور احمق عورت کی صحبت کی وجہ سے اولاد پرپڑنے والے اثرات کوبھی بیان کیاہے۔
پیغمبر فرماتے ہیں :
ایاکم وتزوج الحمقاء فان صحبتھا بلاء، وولدھا ضیاع ۔
”بیوقوف عورت سے شادی مت کرو کیونکہ اس کے ہاتھ زندگی گزارناایک مصیبت اوراس کی اولاد بے فائدہ ہے“ [59]۔
اوراس نکتے کابیان کرنابھی ضروری ہے کہ اسلام نے کئی وجوہات کی بناپرزناکو حرام قراردیاہے، ایک اولادکاحق یہ ہے کہ وہ اپنے جائز باپ کی طرف منسوب ہو دوسرے ایسے پاکیزہ خاندانی ماحول کاتشکیل دیناہے جوصحیح تربیت میںبچے کاحق اداکرسکے۔
اسلام نے وہ حقوق بھی بیان کردئیے ہیں جوبنیادی طور پرماں کے ذمے ہیں پس اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ پنے بیٹے کی آنکھ کی ٹھنڈک کی خاطر اپنے آپ کواوراپنی اولاد کوہرقسم کے عیب سے محفوظ رکھے تاکہ اس کادل اپنی پاکیزہ طہارت پرمطمئن رہے اورا س پرولدالزناہونے کا دھبہ نہ لگنے پائے آج بھی مغربی ثقافت کی مثال ہماری نگاہوں کے سامنے ہے کہ جہاں دوسروں کے لئے بناؤسنگارکرنے پرعورتوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے شہوت کے سرکش گھوڑے کی لگام چھوڑ دی گئی ہے اورناجائز جنسی تعلقات کاایک ماحول بنادیاگیاہے اس کاایک نتیجہ یہ ہے کہ ناجائز بچوں کی تعدادبڑھتی جارہی ہے بچے سڑکوں پرپڑے ملتے ہیں اورجرائم اورآبروریزی کی واردتوں میں روزانہ اضافہ ہورہاہے۔
اس صورتحال نے معاشرے کے تارپود الگ الگ کردئیے ہیں آورغربی معاشرے کوآج اس کے خطرناک نتائج کاسامناہے اورمکتب اہل بیت نے زمانہ قدیم سے ان نتائج سے خبردارکیاہے امیرالمومنین فرماتے ہی :
ضالااخبرکم باکبرالزنا؟ …ھی امراة توطی ء فراش زوجھا، فتاتی بولدمن غیرہ فتلزمہ زوجھا فتلک التی لایکلمھا اللہ ولاینظرالیھا یوم القیامة، ولایزکیھا، ولھا عذاب عظیم [60]۔
”کیامیں تمہیں سب سے بڑے زناکی خبردوں؟ شادی شدہ عورت زناکے ذریعہ بچہ پیداکرے اورپھراپنے شوہرکے سرتھوپ دے، یہ ایسی عورت ہے کہ جس کے ساتھ خدا تعالی بات نہیں کرے گا، قیامت کے دن اس کی طرف نگاہ نہیں کرے گانیز اسے پاک نہیں کرے گا اورقیامت کے روزاس کے لئے دردناک عذاب ہے“۔
اس حدیث میں انساب کے اختلاط اوران کے خراب ہونے کی طرف اشارہ کیاگیاہے کہ زنا اولاد سے اپنے باپ کی طرف منسوب ہونے کے حق کو چھین لیتا ہے اورآٹھویں امام رضا حرمت زناکی علت یوں بیان فرماتے ہیں :
حرم الزنا لمافیہ من الفساد من قتل النفس، وذھاب الانساب، وترک التربیة للاطفال، وفساد المواریث، ومااشبہ ذلک من وجوہ الفساد ۔
”زناکواس لئے حرام کیاگیاہے کہ اس میں قتل، انساب کاضیاع، اوربچوں کی وراثت تربیت کے فقدان جیسے مفاسد ہیں“ [61]۔
اوربلاشک وشبہ یہ بچے ک ےنسب، اورتربیت جیسے حقوق پرکاری ضرب ہے۔ ایک زندیق نے امام صادق سے پوچھاکہ اللہ تعالی نے زناکوکیوں حرام کیاہے؟ توآپ نے اسے نہایت خندہ پیشانی سے جواب دیتے ہوئے فرمایا:
لمافیہ من الفساد، وذھاب المواریث، وانقطاع الانساب، لاتعلم المراة فی الزنامن احبلھا، ولاالمولود یعلم من ابوہ [62]۔
”اس لئے کہ اس میں فتنہ وفساد، وراثت کاضیاع اورنسب کاانقطاع ہے اورزنامیں معلوم نہیں کہ عورت کوحاملہ کس نے کیاہے اوربچے کاباپ کون ہے۔
توامام نے اس حقیقت کوآشکارکریاکہ زنابچے سے اپنے باپ کی طرف منسوب ہونے کاحق چھین لیتاہے۔
اورامام صادق ناجائز بچے کی علامات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
ان لولد الزنا علامات : احدھا بغضنا اھل البیت، وثانیھا انہ یحن الی الحرام الذی خلق منہ، وثالثھا الاستخفاف بالدین، ورابعھا سوء المحضر للناس، ولایسیء محضر اخوانہ الامن ولد علی غیرفراش ابیہ، اوحملت بہ امہ فی حیضھا [63]-
”ولدالزنا کی کئی علامتیں ہیں اول یہ کہ اہل بیت سے بغض رکھتاہوگا دوم اسی حرام کی طرف مائل ہوناجس سے وہ خود پیدا ہواہے سوم دین کواہمیت نہ دینا چہارم لوگوں کے ساتھ ترش روئی سے پیش آنااورلوگوں کے ساتھ ترش روئی سے وہ شخص پیش آتاہے جس کانطفہ حیض کی حالت میں یازناکے ذریعہ ٹھراہوا“۔
گذشتہ بحث سے یہ بات کھل کرسامنے آتی ہے کے نیک عورت کے انتخاب پرزوردیتاہے اوراسے بیٹے کاباپ پرایک حق شمارکرتاہے اسی طرح پیدائش سے پہلے بچے کاماں پرایک عظیم حق بنتاہے کہ وہ اپنے آپ کوپاکدامن رکھے اورزناکی طرف مائل نہ ہوکہ جس کی وجہ سے بچہ اپنے باپ کی طرف منسوب ہونے اور وراثت اوراچھی شہرت جیسے حقوق سے محروم ہوجاتاہے۔