اردو
Friday 27th of September 2024
0
نفر 0

خداوندعالم کی طرف سے ہدایت و گمراہی کے کیا معنی ہیں؟-2

ایک دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:

<وَاللهُ لاَیَہْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ > (۲)

اوراللہ ظالموں کی ہدایت نہیں کرتا “۔

اس آیت میں ظلم پرتوجہ دلائی گئی ہے اور اس کو ضلالت و گمراہی کا راستہ ہموار کرنے والا بتایا گیا ہے۔

ایک دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:

<وَاللهُ لاَیَہْدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِینَ> (۳)

اوراللہ کافروں کی ہدایت بھی نہیں کرتا “۔

                               

(1)سورہ بقرہ ، آیت  ۲۶               (۲) سورہ بقرہ ، آیت ۲۵۸

(۳) سورہ بقرہ ، آیت ۲۶۴

یہاں پر کفر کو گمراہی کاسبب قراردیا گیا ہے۔

ایک دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:

<إِنَّ اللهَ لاَیَہْدِی مَنْ ہُوَ کَاذِبٌ کَفَّارٌ> (1)

اللہ کسی بھی جھوٹے اور نا شکری کرنے والے کو ہدایت نہیں دیتا ہے “۔

اس آیت میں جھوٹ اور کفر کو ضلالت و گمراہی کا پیش خیمہ شمار کیا گیا ہے۔

نیز ارشاد ہوتا ہے:

<إِنَّ اللهَ لاَیَہْدِی مَنْ ہُوَ مُسْرِفٌ کَذَّابٌ >(۲)

بیشک اللہ کسی زیادتی کرنے والے اور جھوٹے کی رہنمائی نہیں کرتا ہے “۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ فضول خرچی اور جھوٹ گمراہی کا باعث ہے۔

(قارئین کرام!)   ہم نے یہاں تک اس سلسلہ میں بیان ہونے والی چند آیات کو بیان کیا ہے، اسی طرح دوسری آیات قرآن مجید کے مختلف سوروں میں بیان ہوئی ہیں۔

نتیجہ یہ ہوا کہ قرآن مجید نے خدا کی طرف سے ضلالت و گمراہی انھیں لوگوں کے لئے مخصوص کی ہے جن میں یہ صفات پائے جاتے ہوں: ”کفر“ ، ”ظلم“، ”فسق“، ”جھوٹ“، ”فضول خرچی“ اور ”کفران نعمت “۔

کیا جن لوگوں میں یہ صفات پائے جاتے ہیں وہ ضلالت و گمراہی کے سزاوار نہیں ہیں؟!

بالفاظ دیگر: جو لوگ ان برائیوں کے مرتکب ہوتے ہیں کیا ان کے دلوں پر ظلمت و تاریکی اثرنہیں کرتی؟!

                            

(1) سورہ زمر ، آیت ۳

(۲) سورہ غافر ، آیت ۲۸

صاف و شفاف الفاظ میں یوں کہیں کہ اس طرح کے اعمال اور صفات کچھ خاص اثررکھتے ہیں جو آخرکار انسان میں موثر ہوتے ہیں،اور اس کی عقل، آنکھ اور کان پر پردہ ڈال دیتے ہیں، اس کو ضلالت و گمراہی کی طرف کھینچتے ہیں، اور چونکہ تمام چیزوں کی خاصیت اور تمام اسباب کے اثرات خدا کے حکم سے ہیں لہٰذا ضلالت و گمراہی کو ان تمام موارد میں خدا کی طرف نسبت دی جاسکتی ہے، لیکن یہ نسبت خود انسان کے ارادہ و اختیار کی وجہ سے ہے۔

یہ سب کچھ ضلالت و گمراہی کے سلسلہ میں تھا، اُدھر ”ہدایت“ کے سلسلہ میں بھی قرآن کریم نے کچھ شرائط اور اوصاف بیان کئے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ بھی بغیر کسی علت اور حکمت الٰہی کے خلاف نہیں ہے۔

بعض وہ صفات جن کی وجہ سے انسان ہدایت اور لطف الٰہی کا مستحق ہوتا ہے ؛ درج ذیل آیات میں بیان ہوئی ہیں:

< یَہْدِي بِہِ اللهُ مَنْ اتَّبَعَ رِضْوَانَہُ سُبُلَ السَّلاَمِ وَیُخْرِجُہُمْ مِنْ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّورِ بِإِذْنِہِ وَیَہْدِیہِمْ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ >(1)

جس کے ذریعہ خدا اپنی خوشنودی کا ابتاع کرنے والوں کو سلامتی کے راستوں کی ہدایت کرتا ہے اور انھیں تاریکیوں سے نکال کر اپنے حکم سے نور کی طرف لے آتا ہے اور انھیں صراط مستقیم کی ہدایت کرتا ہے “۔

 آیہٴ مبارکہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حکم خدا کی پیروی اور اس کی رضا حاصل کرنے سے ہدایت کا راستہ ہموار ہو جاتا ہے ۔

دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:

                               

 (1)سورہ مائدہ ، آیت ۱۶

<إِنَّ اللهَ یُضِلُّ مَنْ یَشَاءُ وَیَہْدِی إِلَیْہِ مَنْ اٴَنَابَ> (1)

بیشک اللہ جس کو چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جو اس کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں انھیں ہدایت دیتا ہے “۔

یہاں ”توبہ اور استغفار کرنے والے “ کو ہدایت کامستحق قراردیا گیا ہے۔

ایک دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

<وَالَّذِینَ جَاہَدُوا فِینَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا > (۲)

اور جن لوگوں نے ہمارے حق میں جہاد کیا ہے ہم انھیں اپنے راستوں کی ہدایت کریں گے “۔

اس آیت میں ”راہ خدا میں مخلصانہ جہاد“ کو ہدایت کے لئے اصلی شرط کے عنوان سے ذکر کیا ہے۔

نیز ایک دوسری آیت میں ارشاد ہے:

< وَالَّذِینَ اہْتَدَوْا زَادَہُمْ ہُدًی>(۳)

اور جن لوگوں نے ہدایت حاصل کر لی خدا نے ان کی ہدایت میں اضافہ کردیا اور ان کو مزید تقوی عنایت فرمایا “۔

اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر انسان راہ ہدایت کی طر ف قدم بڑھائے تو خدا وندعالم اس کو مزید راستہ طے کرنے کی طاقت عطا فرمادیتا ہے ۔

نتیجہ یہ ہوا کہ جب تک بندوں کی طرف سے توبہ و استغفار نہ ہو اور خدا کے حکم کی پیروی نہ

                              

(1)سورہ رعد ، آیت  ۲۷                (۲)سورہ عنکبوت ، آیت  ۶۹

(۳) سورہ محمد ، آیت ۱۷

ہو، نیز جب تک خدا کی راہ میں جہاد اور کوشش نہ ہو ، اور جب تک خدا کی راہ میں قدم نہ بڑھائے جائیں تو لطف الٰہی ان کے شامل حال نہیں ہوگا، اور ان کی مدد نہیں ہوگی، نیز وہ منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتے۔

جن لوگوں میں یہ صفات موجود ہوں کیا ان کے لئے ہدایت یافتہ ہونا بے حساب و کتاب ہے ؟! اور کیا انھیں ہدایت کے لئے مجبور کیا گیا ہے ؟!

(قارئین کرام!)  آپ حضرات ملاحظہ فرمارہے ہیں کہ اس سلسلہ میں قرآن مجید کی آیات بہت واضح ہیں،لیکن جن لوگوں نے ہدایت و گمراہی کے سلسلہ میں بیان ہونے والی آیات کو صحیح طریقہ سے نہیں سمجھا ، یا سمجھنے کی کوشش نہیں کی تو ایسے ہی لوگ اس خطرناک غلطی کا شکار ہوئے ہیں اور بقول شاعر :”چون ندیدند حقیقت، رہ افسانہ زدند“ (اور جب انھوں نے حقیقت کو نہ پایا تو افسانہ گڑھ لیا) ان کے لئے یہی کہا جا ئے کہ ان لوگوں نے ”ضلالت و گمراہی“ کا راستہ خود ہی ہموار کیا ہے!

بہر حال ہدایت و ضلالت کامسئلہ حکمت ومشیت سے خالی نہیں ہے، بلکہ ہر موقع پر خاص شرائط ہوتے ہیں جو خدا کے حکیم ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔(1)

 (1) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۹، صفحہ ۴۶۱

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

شب قدر کے بہترین اعمال کیا ہیں؟
آیت اللہ العظمیٰ صافی گلپائگانی ایک مصلح، دنیا ...
کیا ابلیس کی داستان حقیقی هے یا تمثیل هے؟
بهت سے عام آدمیوں کی زندگی کے رنج و غم پیغمبر اکرم ...
توحید ذات، توحید صفات، توحید افعال اور توحید ...
پیغمبر اسلام (ص) کی شخصیت کے بارے میں دانشمند ...
جو لوگ تاریخ اسلام میں غور و فکر سے کام لیتے ہیں ...
اہل تشیع (دو)نمازوں کو ایک کے بعد ایک ملا کر کیوں ...
محشر کی زمین کیسی ہے؟
کیا اسلام میں گالی دینا، برا بھلا کہنا، دشنام ...

 
user comment