بعض ورایات سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کا نام قرآن میں آیا ہے ۔ اور ان روایات کو صحیح ماننے سے یہ لازم نہیں آتا کہ موجودہ قرآن تحریف شدہ ہے ۔ اس لئے کہ اس سے مراد وہ اضافات ہیں جو تفسیر مزجی کی صورت بعض آیات کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا ائمہ طاہرین علیہم السلام کی طرف سے بیان ہوئے ہیں۔ یا اس سے مراد,, تنزیل غیر قرآنی“ (حدیث قدسی ) ہے۔ یعنی خدائے متعال کا وہ کلام جوجبرئیل امین علیہ السلام لے کر آئے لیکن جز و قرآن نہیں ہے۔ چونکہ ,, تنزیل “ کبھی خود قرآن ہے کبھی تفسیر قرآن ہے اور کبھی حدیث قدسی۔ قرآن کے اندر نام علی علیہ السلام نہ آنے کے بارے میں مندرجہ ذیل امور پیش کیے جاسکتے ہیں۔
۱۔ امام صادق علیہ السلام سے منقول ایک روایت میں اس بات پر دلیل دی گئی ہے کہ حضرت علیہ علیہ السلام کا نام قرآن میں کیوں نہیں آیا؟ آپ نے اس موقع پر فرمایا تھا کہ,, ان (مخالفین) سے کہو کہ نماز کا حکم قرآن میں موجود ہے لیکن نماز کی رکعتوں کی تعداد قرآن بیان نہیں کی گئی ہے۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں جو نماز کی رکعتوں کی تعداد بتاتے ہیں اور آیت صلاہ کی تفسیر کرتے ہیں․․․“ ۶ اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ امام علی علیہ السلام کے نام کا قرآن میں ذکر نہ ہونا مسلمات میں سے تھا۔
۲۔۔ امام باقر علیہ السلام نے محمد بن مسلم سے فرمایا : ,, اے محمد! اگر تم سنو کہ خدا نے قرآ ن میں اس امت کے کسی فرد کی نیکی کے ساتھ یاد کیا ہے تو مقصود ہم ہیں۔ اور اگر دیکھو کہ کسی گروہ کو برائی کے ساتھ یاد کیا ہے تو اس سے ہمارے دشمن مراد ہیں“ ۷ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ائمہ علیہم السلام اور ان کے دشمنوں کے صفات قرآن میں آئے ہیں نہ کہ ان کے نام ۔
۳۔۔ محمد بن بن فضیل ابوالحسن الماضی سے نقل کرتے ہیںکہ میں نے پوچھا کہ ,, انا لما سمعنا الہدیٰ آمنا بہ“ کس معنی میں ہے تو امام علیہ السلام نے فرمایا : الہدیٰ یعنی ولایت ,,آمنا بمولٰینا فمن آمن بولایة مولاہ فلا یخاف بخسا ولا رہقا “ میں نے پوچھا کہ کیا یہ قراٴت نص قرآن اور تنزیل ہے؟ آپ نے فرما یا نہیں، بلکہ تاویل ہے
source : http://quran.al-shia.org/urd/maqalat/02/05.html