مذكورہ مطلب كے بارے میں چند توضیحات
1۔ مرحوم علامہ شیخ آقا بزرگ تھرانی نے حضرت آیت اللہ حاج میرزا حسین نائینی كے حالات زندگی میں اس طرح بیان كیا ھے :
” جب عراق پر انگریزوں كا قبضہ هوا اس وقت ملك فیصل بادشاہ تھے،اور یہ طے پایا كہ مجلس شورائے ملی (پارلیمنٹ) تشكیل دیا جائے اور وزیروں كا انتخاب كیا جائے، تو اس وقت آیت اللہ نائینی، آیت اللہ آقا سید ابو الحسن اصفھانی، آقای شیخ مہدی خالصی اور سید محمد فیروز آبادی نے انتخابات كے طریقہٴ كار پر اعتراضات كئے، چنانچہ انھیں اعتراضات كی بدولت شیخ مہدی خالصی كو ایران جلا وطن كردیا گیا،568 یہ دیكھ كر شیعہ حضرات میں جوش وولولہ بھڑك اٹھا، نجف اور كربلا كے علماء نے انجمن سے گفتگو كی جس كے بعد یہ طے هوا كہ ھم لوگ بھی اعتراض كے طور پر عراق سے چلے جائیں،چنانچہ مرحوم نائینی او رمرحوم اصفھانی نے ایران مھاجرت كی اور قم میں سكونت اختیار كرلی، اس وقت اس شھر (قم) كے رھبر آیت اللہ آقائے شیخ عبد الكریم یزدی حائری تھے، چنانچہ موصوف نے ان لوگوں كا بھت اكرام واحترام كیااور اپنے شاگردوںسے عرض كیا كہ ان لوگوں كے درس میں شركت كریں،عراق كے حالات صحیح هوگئے تویہ دونوں عالم دین نجف واپس چلے گئے۔
2۔ پھلی عالمی جنگ كے بعد عراق پر انگریزوں كا قبضہ هوگیا اور جب انھوں نے اپنی طرف سے عراق كا حاكم معین كرنا چاھا تو اس وقت عراق كے لوگوں نے اس سلسلہ میں قیام كیا منجملہ یہ كہ ماہ ربیع الثانی 1337ھ میں حضرت آیت اللہ میرزا محمد تقی شیرازی سے ایك فتویٰ لیا جس كی تحریر اس طرح ھے:
”ما یقول شیخنا وملاذنا حضرة حجة الاسلام والمسلمین آیت اللّٰہ فی العالمین الشیخ میرزا محمد تقی الحائری الشیرازی متع اللّٰہ المسلمین بطول بقائہ، فی تكلیفنا معاشر المسلمین بعد ان منحتنا الدولة المفخّمة البرطانیة العظمیٰحق انتخاب امیر لنا نستظّل بظلّہ ونعیش تحت رایتہ ولوائہ، فھل یجوز لنا انتخاب غیرالمسلم للامارة والسلطنة علیناام یجب علینااختیار المسلم؟ بینّوا تُوجروا۔ “
فتویٰ كا ترجمہ :
”ھمارے بزرگ اور ھماری پناہ گاہ حضرت حجة الاسلام والمسلمین حضرت آیت اللہ فی العالمین شیخ میرزا محمد تقی حائری شیرازی ،خداوندعالم مسلمانوں كو آپ كی طول عمر سے مستفید كرے، درج ذیل مسئلہ میںجنابعالی كی كیا رائے ھے، برٹین كی بزرگ حكومت ھمارے لئے حاكم معین كرنا چاھتی ھے تاكہ ھم اس كے زیر سایہ زندگی كریں، كیا ھمارے لئے اس غیر مسلم كو اپنی حكومت كے لئے منتخب كرنا جائز ھے كہ وہ ھم پر حكومت كرے یا ھم پر كسی مسلمان كا انتخاب كرنا ضروری ھے؟ حضرت عالی سے درخواست ھے كہ آپ اس سلسلہ میں اپنا فتویٰ صادرفرمائیں، خداوندعالم آپ كو اس كا اجرو ثواب عنایت فرمائے۔
علامہ حائری شیرازی نے اس استفتاء كے ذیل میں یہ عبارت لكھی:
”لیس لاحد من المسلمین ان ینتخب ویختار غیر المسلم للامارة والسلطنة علی المسلمین“(محمد تقی الحائری الشیرازی)
”كسی مسلمان كا اپنے لئے كسی غیر مسلم حاكم كا انتخاب كرنا جائز نھیں ھے“۔
3۔ اسی طرح كربلا ئے معلی میں بھی مجتہدین كرام نے فتوے صادر كئے ”جو شخص بھی غیر مسلم كی حكومت سے رغبت ركھتا هو وہ دین سے خارج ھے“ یہ تمام فتوے اس بات كی علامت تھے كہ لوگوں كے اندر وطن كے سلسلہ میں جوش وولولہ پیدا هو، اور عراق پر انگریزوں كی حكومت كے بر خلاف كوئی ٹھوس قدم اٹھایا جاسكے۔
اس وقت بھی جمعیة الاخوان كے وھابی گروہ كی طرف سے عراق پر حملے هوتے رھتے تھے جس كی بناپر لوگوں میں خوف ووحشت پیدا هوا، اسی لئے نجف اشرف میں بھی اجتماعاتهوئے، جس میں یہ طے هوا كہ علامہ اكبر آقا شیخ مہدی خالصی مقیم كاظمین سے درخواست كی جائے كہ كربلا میں ایك انجمن بنائی جائے اور عراق كے مختلف قبیلوں كی اھم شخصیات كو نیسان كی پھلی تاریخ1922 كربلائے معلی میں بلایا جائے۔
مرحوم خالصی نے اس درخواست كو قبول كر لیا، ظاھری طور پراجتماع كامقصد یہ تھاكہ وھابیوں كے حملہ سے متعلق كچھ تدبیریں سوچی جائیں، لیكن یہ تمام جلسات اس انجمن كے تشكیل پانے كا مقدمہ بنے جو حضرت امام حسین ں كے روضہ میں بنائی گئی، مذكورہ جلسہ میں تقریباً دو لاكھ كا مجمع تھا جس كی تفصیل پھلے گذر چكی ھے۔
4۔ سرطان كی 13ویں تاریخ1302ھ (مطابق20 ذیقعدہ1341ھ) كو علمائے نجف اور كربلا كی طرف سے تھران ٹیلیگرام بھیجے گئے كہ انگریزوں كے اصرار كی وجہ سے نجف اور كربلا كے تقریباً تیس علمائے كرام كو جلا وطن كردیا گیاھے اور ان كو ایران بھیجا جارھا ھے، شاید ان علمائے كرام كے جلا وطن هونے كی وجہ یہ ھے كہ ان لوگوں نے انگریزوں كے خلاف انتخابات كے سلسلہ میں فتوے صادر كئے ھیں، اور عراق اور انگلینڈ كی حكومت كے خلاف اقدامات كئے ھیں۔
چنانچہ سرطان كی 15 تاریخ 1302 (22 ذی قعدہ1341ھ) كو یہ تمام علماء كرمانشاہ (ایران) میں وارد هوئے اور ان كا بھت احترام واكرام كیا گیا، اور اس وقت كی حكومت سے اجازت ملنے كے بعد (21 ذی الحجہ1341ھ) كو كرمانشاہ سے ھمدان شھر كی طرف روانہ هوگئے، اور ھمدان میں بھت كم ركنے كے بعدشھر قم میں وارد هوئے اور وھاںپر ان تمام علماء كرام نے قیام كیا۔
مرحوم خالصی جو حجاز بھیج دئے گئے تھے، ایران كی حكومت كی سفارش اور انگلینڈ كی حكومت كیسمجھوتے سے یہ بات طے پائی كہ ان كے بارے میں كوئی قطعی فیصلہ هونے پر ان كو حجاز سے ایران كی طرف روانہ كیا جائے۔
سعود بن عبد العزیز
كھا یہ جاتا ھے كہ عبد العزیز 1218ھ میں قتل هوا، اور اس كے بعد اس كا بیٹا سعود اس كا جانشین قرار پایا،سعود كو سعودی عرب كے طاقتور بادشاهوں میں شمار كیا جاتا ھے، كیونكہ اس نے اپنے زمانہ اور اپنے باپ كے زمانہ میں سعودی حكومت كی توسیع كے لئے بھت زیادہ سعی وكوشش كی تھی، سعود ھمیشہ سے اپنے قرب وجوار كے علاقوں پر حملہ كرتا رھتا تھا اس كا جزیرة العرب اور دوسرے علاقوں میں اچھاخاصا رسوخ تھا جس كی بنا پر وہ تمام علاقوں پر حملہ ور هوتا رھتا تھا، شاید اسی وجہ سے سعودی موٴلفین نے اس كو ”كبیر“ كا لقب دیا ھے۔
سعود كے زمانہ میں وھابی مذھب حجاز كے علاقہ میں بھی پھیل گیا، اور اس كی وجہ شریف غالب ھے جو ھمیشہ یہ چاھتا تھا كہ حجاز كے علاقہ پر پھلے كی طرح اپنا نفوذ باقی ركھے، اور اسی چیز كے پیش نظر شریف غالب وھابیوں كے مقابلے میں تسلیم هوگیا جس كی بنا پر حجاز میں مذھب وھابی پھیلتا چلا گیا۔
صاحب تاریخ مكہ كھتے ھیں كہ1220ھ میں شریف غالب نے یہ قبول كرلیا كہ اس كی حكومت نجدیوں (آل سعود) كے تابع رھے، اور اس نے ایسے كام انجام دئے جو وھابیوں كے لحاظ سے صحیح تھے، مثلاً تمباكو نوشی كو ممنوع قرار دیا اور یہ حكم بھی صادر كردیا كہ تمام لوگ نماز پڑھنے كے لئے مسجد میں نماز جماعت میں شریك هوں، اور موٴذن حضرات فقط اذان كھیں اور اذان كے بعد (پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر) سلام بھیجنے، اور اذان كے ضمن میں نصیحت اور طلب رحمت سے پرھیز كریں،1221 ھ میں سعود كے حكم سے یہ اعلان كرادیاگیا كہ كسی بھی حاجی كو اپنی داڑھی كے بال كٹوانے كا حق نھیں ھے۔
ابن بشر صاحب كھتے ھیں كہ جب سعود اپنے ساتویں حج(1225ھ میں) كے لئے آئے تو اس وقت میں حاضر تھا میں نے دیكھا كہ سعود حالت احرام میں ایك اونٹ پر سوار ھے، اور ایك بلیغ خطبہ ارشاد هورھا ھے، میں نے دیكھا شریف غالب ایك گھوڑے پر سوار اس كی طرف آئے اور شریف غالب كے ساتھ فقط ایك آدمی تھا، سعود خطبہ دے رھے تھے لیكن جب شریف غالب كو دیكھا تو اونٹ سے نیچے آگئے اور اس كے ساتھ معانقہ كیا اور اس كے بعد مكہ میں وارد هوئے ،اس نے كچھ لوگوں كو بازار میں معین كیا تاكہ نماز كے وقت لوگوں كو نماز كے لئے كھیں، اور ایسے بھت ھی كم لوگ دكھائی دیتے تھے جو نماز میں شركت نہ كرتے هوں، اور اس سفر كے دوران كسی كو تمباكو نوشی، یا دوسرے ممنوعہ كام كرتے هوئے نھیں دیكھا گیا۔