قرآن کریم کی اس آیت کو ملاحظہ فرمائیں :
”وما کان اللہ لیعذبھم و انت فیھم وما کان اللّٰہ لیعذبھم و ھم یستغفرون“(انفال /۳۳)
”حالانکہ اللہ ان پر اس وقت تک عذاب نہیں کرے گا جب تک اے پیغمبر آپ ان کے درمیان ہیں اور اسی طرح خدا ان پر عذاب کرنے والا نہیں ہے اگر یہ توبہ اور استغفار کرنے والے ہو جائیں “
سورہ احزاب میں خدا وند کریم ارشاد فرما تا ہے:
”ان الذین یودون اللّٰہ و رسولہ لعنھم اللّٰہ فی الدنیا و الآخرة و اعدلھم عذابا مھینا“(احزاب /۵۷)
”یقینا وہ لوگ جو خدا او ر اس کے رسول کو اذیت دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں خدا کی لعنت ہے اور خدا نے ان کے لئے رسوا کن عذاب مہیا کر رکھا ہے“
خدا کو براہ راست اذیت پہنچنے کا کوئی سوال ہی نہیںلیکن جب کوئی کوئی رسول کو اذیت دے تو گویا اس نے خدا کو اذیت دی ،اس بنیاد پر جس کسی نے بھی مرسل اعظم کو اذیت دی ہو چاہے وہ صحابی ہو یا غیر صحابی گویا اس نے خدا کو اذیت دی ہے ۔
گزشتہ آیت کا مضمون تقریبا اس آیت جیسا ہے :
” من یطع الرسول فقد اطاع اللہ“ ( نساء/۸۰) ” جو شخص رسول کی اطاعت کرے اس نے اللہ کی اطاعت کی“
جناب رسول خدا کو اپنے صحابہ اور صحابیات ہی سے بہت زیادہ اذیت پہنچی ہے اگر کسی کو اس بارے میں شک ہو تو اسے چاہئے اپنی ذات پر تحقیق کا دروازہ کھولے تو اسے عجیب و غریب مشاہدات دیکھنے میں آئیں گے خدا ئے حکیم سورہ آل عمران میں ارشاد فرماتا ہے:
”و اذغدوت من اہلک تبویٴ الموٴمنین مقاعد للقتال والله سمیع علیم ۔اذ ھمت طائفتان منکم ان تفشلا و الله ولیھما و علی الله فلیتوکل الموٴمنون“ (آل عمران/۱۲۱،۱۲۲)
”اس وقت کو یاد کرو جب تم صبح سویرے گھر سے نکل پڑے اور مومنین کو جنگ کی حالت بتارہے تھے اور خدا سب کچھ سننے والا ہے اس وقت جب تم میں سے دو گروہوں نے سستی کا مظاہرہ کرنا چاہا لیکن بچ گئے کہ اللہ ان کا سرپرست تھا اور اسی پر ایمان والوں کوبھروسہ کرنا چاہئے “
فخر الدین الرازی نے اس آیت کے ذیل میں جوتفسیر بیان کی ہے وہ کچھ اس طرح ہے کہ:
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
۱۔ تفسیر فخر رازی ،ج/۲۵،ص/۱۸۰۔ تفسیر منشور ،ج/۶ص/۶۴۳۔ اور تفسیر الالوسی کہ جس میں ابن عباس سے روایت وارد ہوئی ہے لیکن جیسا کہ برادران کا دستور ہے کہ اسم ذکر نہیں کرتے ہیں بلکہ لفظ ”رجل“ آیا ہے لیکن دوسری روایت میں نام وارد ہے لیکن اس کو بلا دلیل ضعیف قرار دینے کی کوشش کی ہے دیکھئے تفسیر الالوسی البغدادی ج/۱۱ص/۲۴۹و۲۵۰ سورہ احزاب ۔
”یہ آیت انصار کے دوقبیلوں کے بارے میںنازل ہوئی ہے جب وہ لوگ احد میں جنگ کو چھوڑ کر مدینہ کی جانب واپس آگئے تھے اور ان کا سرغنہ وسردار عبداللہ بن ابی ابن ابی سلول تھا“۱#
معرکہ احد کے سلسلے میں ذرا سورہ آل عمران کی آیت بھی ملاحظہ ہو:
”ولقد صدقکم الله وعدہ اذ تحسونھم باذنہ حتیٰ اذا فشلتم وتنازعتم فی الامر وعصیتم من بعد ما اراکم ما تحبون منکم من یرید الدنیا ومنکم من یرید الاخرة ․․․“ (آل عمران /۱۵۲)
”خدا نے اپنا وعدہ اس وقت پورا کردیا جب تم اس کے حکم سے کفار کو قتل کررہے تھے یہاں تک کہ تم نے کمزوری کا مظاہرہ کیا اور آپس میں جھگڑا کرنے لگے نیز اسی وقت خدا کی نافرمانی کی جب اس نے تمھاری محبوب شیٴ کو دکھلایا تو تم میں سے کچھ دنیا کے طلب گار تھے اور کچھ آخرت کے خواہان “
اور اس آیت کو دیکھیں جس میں اس وقت کی کیا منظر کشی کی گئی ہے :
”اذ تصعدون ولا تلوون علیٰ اٴحد والرسول یدعوکم فی اخراکم فاٴثابکم غماً بغم لکیلا تحزنوا علیٰ ما فاتکم ولا ما اصابکم والله خبیر بما تعملون “(آل عمران/۱۵۳)
”اس وقت کو یاد کرو جب تم بلندی پرجارہے تھے اور مڑ کر کسی کو دیکھنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کررہے تھے جب کہ اللہ کارسول پیچھے کھڑا تمھیں آواز دے رہا تھا جس کے نتیجہ میں خدا نے تمھیں غم پر غم دیئے تاکہ تم ان چیزوں پر جوہاتھ سے نکل گئی رنجیدہ ملول خاطر نہ ہو،اور نہ ہی ان مصیبتوں پر جو کہ تم تک پہونچی اوراللہ تمھارے اعمال سے خوب باخبر ہے“
اور دوسری آیت:
”ان الذین تولوا منکم یوم التقی الجمعان انما استزلھم الشیطان ببعض ماکسبوا ولقد عفاالله عنھم ان الله غفور حلیم“(آل عمران ۱۵۵)
” جن لوگوں نے دونوں کے لشکروں کے ٹکراو کے دن پیٹھ پھیر لی یہ وہی ہیں جنھیں شیطان نے ان کے کئے دھرے کی بنا پر بہکایا ہے ۔اور خدا نے ان کو معاف کر دیا کہ غفور و حلیم ہے“
حیف ان اصحاب رسول پر جنھوں نے عین معرکہ سے فرار اختیار کی ،اور رسول اکرم ﷺکو اپنے پیجھے چھوڑ دیا جب کہ رسول گرامی ان کو اس سخت موقع پر آواز دیتے رہے۔
فخر الدین رازی اپنی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں :
”میدان سے بھاگنے والوں میں عمر ابن خطاب تھے اگرچہ آپ پہلے بھاگنے والوں میں سے نہ تھے !! اور جن لوگوں نے احد کے روز فرار اختیار کیا ان ہی حضرات میں سے عثمان ابن عفان اور دو آدمی انصار میں سے سعد اور عقبہ بھی تھے یہ حضرات اتنی دور بھاگ کر چلے گئے تھے کہ تین دن بعد پلٹ کر آئے جب پیغمبر اکرم ﷺنے ان کو دیکھا تو کہا کیا تم لوگ پہاڑ کی چوٹی پر فرار کرکے چلے گئے تھے ؟!!“ ۲#
اب سورہ جمعہ کی اس آیت کو ملاحظہ فرمائیں:
” واذا راٴوا تجارة او لھوا انفضوا الیھا و ترکوک قائما قل ما عند اللہ خیر من اللھو ومن التجارة و اللہ خیر الرازقین “ (جمعہ /۱۱)
”اور اے میرے رسول جب یہ لوگ تجارت یا لہو لعب کو دیکھتے ہیں تو اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں اور آپ کو تنہا چھوڑ دیتے ہیں آپ ان سے کہہ دیجئے کہ خدا کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ اس کھیل اور تجارت سے بہر حال بہتر ہے اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے“
یہ آیت بھی صحابہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے،صحابہ مرسل اعظم ﷺکے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھ رہے تھے کہ وحید الکبی جو مشرک تھا شام سے تجارت کی خاطر مدینہ میں وارد ہوا ،صحابہ نے اس کی آواز سنی پیغمبر اکرم ﷺکو نماز میں چھوڑ کر چلے گئے صرف بارہ افراد بچے تھے ایک روایت کی بنا پر یہاں تک پیغمبر کو کہنا پڑا کہ:
”اگر آخر والے اول والوں کی پیروی کرتے تو پوری وادی میں آگ بھڑ اٹھتی“ ۳#
اب ذرا سورہ تحریم کی تلاوت فرمائیں عجیب کردار نظر آئیں گے جب کہ اس سورہ میں نبی کی ازواج میں سے دو کی مذمت کی گئی ہے وہ عائشہ اور حفصہ ہیں ،اس سورہ کی شان نزول کچھ اس طرح ہے ،آنحضرت زینب بنت جحش کے یہاں شہد نوش فرما رہے تھے جس سے ان دونوں بیویوں کو بڑی خار تھی چنانچہ دونوں نے یہ سازش رچی کہ جب پیغمبر گھر میں آئیں تو ان سے کہا جائے کہ آپ کے منہہ سے مغافیر کی بو آرہی ہے چنانچہ اس واقعات کے بعد پہلی ملاقات حفصہ سے ہوئی اور انھوں نے منصوبہ پر عمل کر دیا آپ نے فرمایاٹھیک ہے اب میں شہد نہیں کھاؤںگا لیکن دیکھو کسی سے اس بات کا ذکر نہ کرنا لیکن انھوں نے اپنی شریک کار کو فورا مطلع کر دیا جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ”ان تتوبا الیٰ اللّٰہ فقد صغت قلوبکما و ان تظاہرا علیہ فان اللہ ھو مولاہ و جبریل و صالح المومنین و الملائکة بعد ذالک ظھیر“ ۴#
”اب تم دونوں توبہ کرو کہ تمھارے دلوں میں کجی پیدا ہو گئی ہے ورنہ اگر اس کے خلاف اتفاق کروگی تو یاد رکھو کہ اللہ اس کا سر پرست ہے اور جبرئیل و نیک مومنین اور ملائکہ سب اس کے مدد گار ہیں “
یہاں پر نیک مومنین سے مراد حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ذات ہے جیسا کہ بعض روایت میں آیا ہے ۵# آیت میں لفظ” صغت “ استعمال ہوا ہے فخر الدین رازی نے اپنی تفسیر میں اس کے معنی یوں بیان کئے ہیں۔
مالت عن الحق ۔یعنی حق سے منحرف ہو ۔اور اسی سورہ کی یہ آیت بھی قابل توجہ ہے :
”عسٰی ربہ ان طلقکن ان یبدلہ ازواجا خیرا منکن مسلمات مومنات قانتات عابدات سائحات ثیبات و ابکارا“ ( تحریم /۵)
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
۱۔ التفسیر الکبیر سورہ آل عمران/۱۲۱،۱۲۲ اور تفسیر الطبری ج/۴،ص/۴۸، الدرالمنثورج/۲،ص/۳۰۵۔ ۲۔تفسیر کبیر سورہ آل عمران کی ۱۵۵ کے ذیل میں اور الطبری ،ج/۴ص/۹۶۔اور تفسیر لادر المنثور ،ج/۲ص/۳۵۵۔۳۵۶۔
۳۔تفسیر کبیر سورجمعہ کے ذیل میں اور تفسیرا لدر المنثور ،ج/۸ص/۱۶۵۔ اور الطبری ،ج/۲۸ص/۶۷۔۷۸ ۴۔سورہ تحریم /۴،دیکھیں قصہ مغافیر کو صحیح بخاری ج/۶ص/۱۹۴
۵۔تفسیر روح المعنی الوسی البغدادی ، ج/۱۴،ص/۱۴۸سورہ تحریم کے ذیل میں۔
”وہ اگر تمھیں طلاق بھی دے دے گا تو خدا تمھارے بدلے تم سے بہتر بیویاں اسے عطا کر دے گا جو مسلمہ ،مومنہ ،فرمانبردار ،توبہ کرنے والی ،عبادت گزار ،روزہ رکھنے والی ،باکرہ غیر باکرہ ہوں گی“
خدا وند عالم عائشہ و حفصہ سے کہہ رہا ہے تم یہ گمان نہ کرنا کہ تم دونوں اس بنا پر کہ تم نبی کی زوجیت میں ہو تمام عورتوں سے بہتر ہو ،خدا تمھارے بدلے نبیکو تم سے بہتر بیویاں عطا کر سکتا ہے پھر خدا وند عالم عائشہ اور حفصہ کا مقابلہ حضرت نوح و لوط کی بیویوں سے کرتا ہے اور تہدید و خوف دلاتا ہے کہ تم دونوں میرے بندے محمد کی زوجیت میں ہو تو یہ زوجیت تم کو جہنم میں جانے سے نہیں روک پائے گی۔
”ضرب اللّٰہ مثلا للّذین کفروا امراة نوح و امراة لوط کانتا تحت عبدین من عبادنا صالحین فخانتاھما فلم یغنیا عنھما من اللّٰہ شیئا و قیل ادخلا النّار مع الداخلین“ (تحریم /۱۰)
”خدا نے کفر اختیار کرنے والوں کے لئے زوجہ نوح اور زوجہ لوط کی مثال بیان کی ہے کہ یہ دونوں ہمارے نیک بندوں کی زوجیت میں تھیں لیکن ان کی زوجیت نے خیانت کرنے کی وجہ سے خدا کی بارگاہ میں کوئی فائدہ ان کو نہیں پہنچا یا اور ان سے کہہ دیا گیا کہ تم بھی جہنم میں داخل ہونے والوں کے ساتھ داخل ہو جاؤ“
ایسی واضح و روشن دلیلوں کے بعد بھی علماء جمہور دعویٰ کرتے ہیں کہ عائشہ کو پیغمبر اکرم ﷺتمام لوگوں کی نسبت زیادہ محبوب رکھتے تھے جو کوئی ان کے بارے میں کچھ کہے گاوہ جہنم کا ایندھن قرار دیا جائے گا۔۴#
سورہ نور کی اس آیت کو بھی ملاحظہ فرمائیں:
”ان الّذین جاء وا بالافک عصبة منکم لا تحسبوہ شرا لکم بل ھو خیر لکم لکل امری ما الکتسب من الاثم و الّذی تولی کبرہ منھم لہ عذاب عظیم “ (نور /۱۱)
”بیشک جن لوگوں نے زنا کی (عائشہ پر ) تہمت لگائی وہ تم میں سے ایک گروہ تھا تم اپنے حق میں شر نہ سمجھو یہ تمھارے حق میں خیر ہے اور ہر شخص کے لئے اتنا ہی گناہ ہے جتنا کہ اس نے ارتکاب کیا ہے اور ان میں سے جس نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اس کے لئے بڑا عذا ب ہے“
آیہ کریمہ کے اس ٹکڑے پر غور کریں ”عصبة منکم“
کیا وہ افراد جنھوں نے تہمت لگائی تھی وہ دائرہ صحابیت میں داخل نہیں تھے ؟ تفاسیر میں وارد ہوا ہے کہ جن لوگوں نے تہمت لگائی تھی (عائشہ پر)ان اہل نفاق کا سردار عبداللہ بن ابی سلول اور شاعر رسول خدا حسان ابن ثابت ، زید بن رفاعہ ، مسطح ابن اثاثہ اور حمنہ بنت جحش ۲# جیسی شخصتیں تھیں ۔بہت سے سطحی فکررکھنے والوں کا دعویٰ ہے کہ یہ آیت عائشہ کی فضیلت میں نازل ہوئی ہے اس لئے کہ خدانے آپ کو زنا کی تہمت سے بری قرار دینے کے لئے آسمان سے قرآن میں آیت نازل کی حالانکہ جو کوئی بھی تھوڑا سا غور و فکر سے کام لے گا وہ اس بات کوسمجھ جائے گا کہ یہ آیت در اصل مرسل اعظم ﷺ کی شخصیت و حرمت کو بچانے کے لئے نازل ہوئی ہے کیوں کہ اس معاملہ کا تعلق براہ راست رسول اکرم ﷺکی غیرت سے تھا اس لئے قدرت نے ان کی صفائی دی اور بار بار عذاب الیم کی خبر سنائی کہ امت کو ہوش آجائے اور آئندہ حرمت رسول اکرم ﷺکے بارے میں اس طرح کی باتیں نہ کریں اگر عائشہ نبی کے علاوہ کسی دوسرے کی زوجہ ہوتیں تو ایک حرف بھی قرآن میں نازل نہ ہوتا اس لئے خدا نے جیسے بہت سے احکام اپنی کتاب میں بیان فرمائے ہیں مثلا سرقت ،شراب کے متعلق احکام اسی طرح سے آنحضرت کی ذات و سیرت کے پاک و پاکیزہ ہونے کے بارے میں قرآن میں کھلا ہوا حکم نازل کیا ہے ۔