ترجمہ و توضیحات: ف۔ح۔ مہدوی
مقدّمہ
امام مہدی (عج) کے انتظار اور ظہور پر مختلف پہلؤوں سے بحث ہوتی رہی ہے اور ہوتی رہتی ہے مثلاً:
1. ہمہ گیر عدل کا نفاذ قیام مہدی (عج) کا اہم ترین فلسفہ گردانا گیا ہے جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ معاد کی ضرورت کا ایک اہم سبب بھی یہی ہے کہ وہاں عدل کا پورا نفاذ ہو اور دوسری طرف سے دنیا صرف ایک گذرگاہ ہے اور اصل مقصد اور منتہائے ہدف، آخرت ہے تو پھر دنیا میں عدل کے مکمل نفاذ کی کیا ضرورت ہے اور ہمیں دنیا میں عدل کے قیام کا انتظار کیوں کرنا چاہئے؟
2. اسلام آیات اور احادیث میں بعض اعمال کے لئے خاص مقامات کا قائل ہے مثلاً نماز کو دین کا ستوں قراردیا گیا ہے؛ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو دیگر احکام کی پائیداری کا سبب قرار دیا گیا ہے وغیرہ وغیرہ؛ اسی اثناء میں انتظارِ فَرَج یا فراخی کا انتظار افضلُ الاعمال شمار کیا گیا ہے؛ انتظار کے لئے یہ مقام کیوں قرار دیا گیا ہے؟ خاص طور پر اگر ہم اس حقیقت کی طرف توجہ دیں کہ دیگر اعمال میں فعل ایجابی ہوتا ہے اور مکلفین کو کوئی عمل انجام دینا پڑتا ہے؛ لیکن انتظار بظاہر فعل سلبی ہے اور اس میں کوئی اقدام [بظاہر] انجام نہیں دینا پڑتا بلکہ منتظر رہنا پڑتا ہے اور سوال یہ اٹھتا ہے کہ "کوئی کام نہ کرنا" کیونکر بہترین اور برترین عمل قرار دیا گیا ہے؟
3. آج کے زمانے میں ایک نہایت اہم بحث عالمگیریت [Globalization] سے متعلق ہے اور ہم جانتے ہیں کہ امام مہدی (عج) بھی عالمی حکومت ہے،؛ آپ کے قیام کا فلسفہ عالمی ہے اور عالمگیریت کی اسلامی مثال بھی مہدی (عج) کی عالمی حکومت ہی ہے. اگر اس زاویئے سے دیکھا جائے تو کیا عالمگیریت ایک نئی شکل اختیار نہیں کرے گی؟ اور اس صورت میں آج کے دور کی گلوبلائزیشن کے سلسلے میں ہماری ذمہ داری کیا ہوگی؟
مہدویت اور انتظار کے بارے میں اٹھنے والے سوالات کے علاوہ انتظار کا مفہوم بھی اپنے اندر مختلف قسم کے سنجیدہ سوالات کا باعث بنتا ہے اور ان میں اہم ترین سوال شاید یہ ہو کہ "احادیث میں تاکید ہوئی ہے کہ ظہور تب ہی واقع ہوگا جب دنیا ظلم و جور سے پر ہوجائے تو ایسی صورت میں کوئی بھی اصلاحی عمل ظہور میں تاخیر کا باعث نہیں بنے گی؟ اگر ظہور کا انتظار کرنا ہے تو ہمیں اصلاحی اقدامات سے ہاتھ اٹھانا پڑے گا اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں معاشرتی ذمہ داریاں ترک کرنا پڑیں گی (مثلاً امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کرنا پڑے گا) جبکہ یہ ذمہ داریاں دین نے انسانوں پر عائد کی ہیں اور اگر ان ذمہ داریوں پر عمل کرنا چاہیں تو منتظر کیونکر کہلائیں گے؟ بالفاظ دیگر اگر طے یہ ہو کہ ان فرائض کی ادائیگی اور ان اصلاحات کے ہوتے ہوئے انسانوں کی حرکت ارتقاء کی جانب ہو تو یقیناً جب ہم یہ اصلاحی حرکت جاری رکھیں گے اور اپنے فرائض پر عمل کرتے رہیں گے تو ارتقائی سفر خود بخود اپنی انتہا پر منتج ہوگا تو ایسی صورت میں ظہور مہدی کی کیا ضرورت ہے؟
ان سوالات کے علاوہ بھی متعدد سوالات موجود ہیں جن کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلام میں مہدویت کے مسئلے پر نئی اور گہری نگاہ ڈالنے کی اشد ضرورت ہے اور اس سلسلے میں ہم اس پورے مسئلے کا خلاصہ ایک جملے میں یوں بیان کرسکتے ہیں کہ : "ہم سے تقاضا ہوا ہے کہ مہدی (عج) کے ظہور اور قیام کا انتظار کریں. اور ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم کیوں اور کیسے انتظار کریں؟".
اس مقالے میں ہم استاد شہید مرتضی مطہری کے افکار و آراء کی روشنی میں ان سوالات کا جواب دینے کی کوشش کریں گے:
"کیوں؟" کا جواب دو طریقوں سے دیا جاسکتا ہے: ایک دفعہ "کیوں" کے ذریعے شیئے کے اسباب کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے اور اس سوال کے جواب میں ہمیں «فلسفۂ مہدویت» کے بارے میں بحث کرنی پڑے گی؛ یعنی سوال یہ ہے کہ ہمیں کیوں منتظر رہنا چاہئے [اور انتظار کی ضرورت کیوں ہے] اور اس سوال کا لازمہ یہ سوال ہے کہ مہدی (عج) کا قیام کیوں ضروری ہے جس کا انتظار بھی ضروری ہو؟ اس کیوں کا دوسرا جواب شیئے کے نتائج [اور معلولات] کے ذریعے دیا جاسکتا ہے یعنی یہ کہ "منتظر رہنا چاہئے کیونکہ منتظر رہنے سے یہ اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اس کے ہمیں یہ نتائج ملتے ہیں". اچھا تو ہم انتظار کریں تو کیسے؟ یہاں کیفیتِ انتظار کا سوال ہے؟ "کیفیت" درحقیقت کیوں کے ذریعے ہونے والے سوال کی دو صورتوں کے بیچ قرار پاتی ہے. ایک طرف سے یہ بحث فلسفۂ مہدویت کی ایک شاخ ہے؛ کیونکہ انتظار کی کیفیت کے بارے میں اٹھنے والے سوال کا جواب دینے کے لئے ابتداء میں یہ معلوم کرنا پڑے گا کہ اس انتظار کا تعلق کس چیز سے ہے اور انتظار کس چیز کا ہو رہا ہے؟
ظاہر ہے کہ دشمن کے حملے کا انتظار مہمان کے وارد ہونے کے لئے انتظار سے بالکل مختلف ہے؛ [دشمن کے حملے کے انتظار کے تقاضے اور ہیں اور مہمان کا انتظار کرنے کے تقاضے اور؛ اور دونوں کے استقبال کی کیفیت بھی الگ الگ ہے] یہاں عالمی موعود کے قیام کی ضرورت کے فلسفے کی شناخت کے بعد ہی اس مسئلے کی طرف توجہ دینا ممکن ہوگا کہ یہ قیام انسانی حیات میں کس قسم کی تبدیلیاں ساتھ لائے گا؟ اور اس کے انتظار کی کیفیت کیسی ہونے چاہئے. دوسری طرف سے صرف اس وقت انتظار کے آثار و نتائج کے بارے میں بات کی جاسکے گی کہ انتظار کی کیفیت معلوم ہوچکی ہو تا کہ ہم یہ کہہ سکیں اِس طرح کا انتظار اُس طرح کے ثمرات و نتائج کا باعث ہوگا؟.
چنانچہ ہم اس بحث کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:
حصہ اول: فلسفۂ مہدویت اور انتظار کی ضرورت
حصہ دوئم: انتظار کی کیفیت اور ہماری ذمہ داری؛ اور
حصہ سوئم: انتظار کے ثمرات و نتائج
source : http://abna.ir/data.asp?lang=6&Id=164159